شہری بنیادی سہولتوں سے محروم
بلدیاتی عملہ خودکشی پر مجبور
تین صوبوں کے سنگم پر واقع تاریخی اور سیاسی اہمیت کے حامل شہر کے مکین عرصہء دراز سے بنیادی سہولیات کی فراہمی کے بلند بانگ دعوے حکم رانوں، منتخب نمائندوں اورافسر شاہی سے سن رہے ہیں۔
اس خوب صورت شہر کے لاکھوں باسی پینے کے صاف پانی کی فراہمی، صحت مند ماحول، صفائی ستھرائی کا نظام بہتر بنانے، سڑکوں، اوور ہیڈ برج کا جال بچھانے، تفریحی مقامات، صحت اور تعلیم کی سہولیات مہیا کرنے کے لیے ماسٹر پلان کی تیاری کی نوید سن رہے ہیں۔ گزشتہ 30 سال کے دوران اقتدار میں رہنے والی حکومتیں اور ان کے کارندے شہر کے اہم علاقوں، کھلے میدانوں، معززین کی اوطاقوں میں منعقدہ تقریبات کے دوران لوگوں کو اربوں روپے کے نت نئے منصوبے شروع کرنے کی خوش خبری سناکر یہ باور کرانے کی کوشش کرتے آئے ہیں کہ اس مرتبہ سکھر شہر میں منصوبے کے تحت کام کا آغاز کیا جائے گا اور چند سال میں تمام منصوبے مکمل ہونے سے لوگوں کو بنیادی سہولیات مہیا ہوسکیں گی اور شہر ایک ماڈل کے طور پر سامنے آئے گا۔
ماضی کے معمار اور کمسن آج صاحب اولاد ہونے کے بعد ضعیف ہونے لگے ہیں، لیکن شہر ہے کہ وہی پرانی کہانی ہے، وہی وعدے ہیں وہی راگ ہیں، جن پر پہلے عمل ہوا نہ اب ہونے کی امید ہے ۔ منتخب نمائندوں کے تشکیل کردہ منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اعلیٰ افسران سرتوڑ کوششیں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، مگر حالات ہیں کہ بہتر ہونے کا نام نہیں لیتے۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران کمشنر سکھر ڈاکٹر نیاز علی عباسی نے شہریوںکو بنیادی سہولیات کی فراہمی اور شہر کو خوب صورت بنانے کا بیڑہ اٹھایا، کئی اجلاس منعقدہ کیے اور شہر کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ماسٹر پلان کی تیاری میں شامل کیا، تاکہ ایک نئی منصوبہ بندی کے تحت کام کا آغاز کیا جائے۔ ڈویژنل انتظامیہ نے سکھر شہر کے مسائل کو حل کرنے، گھمبیر صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے جامع منصوبہ بندی کا آغاز کردیا ہے۔
سندھ سٹیزن امپرومنٹ پروگرام کے تحت ماسٹر پلان کی تیاری کے لیے سروے، تاجروں، صنعت کاروں اور شہریوں سے حاصل کردہ تجاویز پر نقشوں کی تیاری اگلے ماہ شروع ہوگی۔ سکھر شہر میں طویل عرصے سے عوام کو درپیش مشکلات کے خاتمے، ٹریفک، فراہمی و نکاسی آب کا نظام بہتر بنانے، تجاوزات کے خاتمے، شاہراہوں کو کشادہ کرنے اور نئی منصوبہ بندی کے لیے ڈویژنل انتظامیہ کے احکامات پر سندھ سٹیزن امپرومنٹ پروگرام کے افسران نے اک نام ورکمپنی کے اشتراک سے سروے کا آغاز کردیا۔ اس سلسلے میں ایوان صنعت و تجارت، سکھر اسمال ٹریڈرز، آل سکھر اسمال ٹریڈ اینڈ کاٹیج انڈسٹریزاوردیگر اسٹیک ہولڈرز سے تفصیلی ملاقاتیں کیں اور ان سے مشکلات کے حوالے سے تبادلہ خیال کرنے کے علاوہ 2 صفحات پر مشتمل فارم پرکرایا۔
فارم میں موجود کالم میں درپیش مشکلات، اس کا حل، مستقبل کی منصوبہ بندی کے حوالے سے رائے لی گئی۔ کمشنر سکھر ڈاکٹر نیاز علی عباسی کی خصوصی کاوشوں کی بدولت شروع ہونے والے ماسٹر پلان سروے کا آغاز، معززین اور تاجروں سے حاصل کردہ تجاویز پر شہریوں میں امیدکی کرن روشن ہوئی ہے۔ محکمہ ترقیات و منصوبہ بندی کی ہدایت پر ماسٹر پلان کی تیاری کا کام 70 فی صد مکمل کر لیا گیا ہے اور آئندہ ماہ کام کو حتمی شکل دے کر اس پر عمل درآمد کے لیے ایشیائی ترقیاتی بینک کی مالی معاونت سے منصوبوں کا آغاز کیا جائے گا۔ مستقبل کی منصوبہ بندی میں شہریوں کو بنیادی سہولیات کے حوالے سے تمام امورکو مد نظر رکھا گیا ہے ۔ لیکن انتظامیہ کی جانب سے شہر کے ماسٹر پلان کی تیاری اور اس پر عمل درآمد کے لیے شروع کردہ پروگرام پر تاجروں کے تحفظات بھی سامنے آرہے ہیں۔
تاجروں کا کہنا ہے کہ ایک عرصے سے حکومت، منتخب نمائندوں اور انتظامیہ کی جانب سے سروے کرائے جاچکے ہیں مگر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ منصوبے شروع ہونے کے فوری بعد اس میں خامیاں نظر آنا، غیر معیاری میٹریل کا استعمال اورکرپشن کی وجہ سے یہ اپنی اہمیت کھودیتے ہیں۔ موجودہ کمشنر کی شہریوں کے ساتھ مخلصانہ کوششیں قابل قدر ہیں تاہم بڑھتی ہوئی کرپشن کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔ اگر اس حوالے سے اہم فیصلے کیے جائیں تو وفاق اور صوبائی حکومت کی جانب سے شروع کردہ منصوبے مقررہ وقت میں مکمل ہونے کے ساتھ اس کے ثمرات عوام تک منتقل ہوسکتے ہیں۔ بڑھتی ہوئی کرپشن ، سیاسی مداخلت، قوانین سے ہٹ کر بھرتیاں اداروں کو تیزی سے تباہ کر رہی ہیں۔
سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہونے والے ملازمین کے علاوہ مستقل بنیادوں پر کام کرنے والے محنت کش تن خواہوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے شدید پریشانی سے دوچار نظر آتے ہیں۔ جس کی مثال سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر میں لوگوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی میں اہم کردار ادا کرنے والے ادارے میونسپل کارپوریشن میں جاری مالی بحران، ملازمین کی جانب سے کی جانے والی خودکشیاں، شہریوں کے دکھ میں اضافہ کر رہی ہیں۔ پریشان حال محنت کشوں نے گزشتہ دنوں تن خواہوں کی عدم ادائیگی کے خلاف 20 روز سے جاری تالا بندی اور ہڑتال کے بعد میونسپل کارپوریشن سے میانی ڈرینج اسٹیشن تک احتجاجی جلوس نکالا۔ شرکاء نے مختلف شاہراہوں سے ہوتے ہوئے گھنٹہ گھر چوک پر دھرنا دینے کے علاوہ کلاک ٹاور پر دروازے کے تالے توڑ کر کنٹرول سنبھال لیا اور تیسری منزل پر محنت کشوں کی بڑی تعداد نے اپنی گردن میں مفرل باندھ کر علامتی طور پر خود کو پھانسی بھی دی۔
مشتعل مظاہرین کی جانب سے اعلان کردہ شیڈول پر عمل درآمد کرنے، فراہم و نکاسی آب کا نظام معطل ہونے کی خبریں ذرائع ابلاغ کی زینت بننے کے بعد انتظامیہ متحرک ہوئی اور تن خواہوں سے محروم مشتعل مظاہرین سے پولیس افسران نے سسٹم کو فعال کرنے کی درخواست کی، تاہم مذاکرات ناکام ہوگئے۔
بعد ازاں اسسٹنٹ کمشنر سٹی ڈاکٹر وحید اصغر بھٹی، نیا سکھر کے رانا عدیل تصور، اے ایس پی سٹی امجد حیات، پولیس، رینجرز اور محکمہ ریوینیو کی بھاری نفری کے ہم راہ موقع پر پہنچے اور مظاہرین سے سسٹم کو فعال کرنے اور کمشنر اور ڈپٹی کمشنرسے بات چیت کرنے کی درخواست کی تاہم یونین راہ نما محمد آصف، منیرکھوسو اور دیگر مشعل مظاہرین نے افسران پر واضح کیا کہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے حکام کی یقین دہانیوں پرہم احتجاج ختم کرتے رہے ہیںلیکن ہماری کوئی شنوائی نہیں ہوئی، سینیٹر اسلام الدین شیخ، سید خورشید احمد، نعمان اسلام شیخ کی سفارش پر تعینات ہونے والے افسران اور تعلقہ ناظمین نے ادارے میں سیاسی بھرتی کی، جس کی وجہ سے آج ادارہ مکمل طور پر تباہ ہو گیا، آج مجبوری کے عالم میں ہم احتجاج کر رہے ہیں، کئی ملازمین پینشن اور تن خواہ کی راہ تکتے تکتے زندگی کی بازی ہار چکے ہیں، جب کہ بعض کے بچے ان سے جدا ہو چکے ہیں، مگر کوئی حکم ران، منتخب نمائندہ اور اعلیٰ افسران ہم غریبوں کی طرف توجہ نہیں دیتے۔
ان کا کہنا تھا کہ دو بڑی سیاسی شخصیات کی آپس کی سرد جنگ کی وجہ سے سیکڑوں ملازمین فاقہ کشی اور اپنے بچے فروخت کرنے پر مجبور ہیں، آج ہم کسی صورت احتجاج ختم نہیں کریں گے اور سسٹم غیر فعال رکھیں گے۔ افسران اور یونین رہنماؤں کے درمیان تند تیز جملوں کا تبادلہ بھی ہوا، بگڑتے ہوئے حالات کو دیکھ کر انتظامیہ نے پولیس کی بھاری نفری طلب کی جس نے موقع پر پہنچ کر پوزیشن سنبھالی اور میانی ڈرینج اسٹیشن کے آس پاس کے دکانوں کو بند کراکر تمام ریڑھی بانوں کو علاقے سے نکال دیا۔ پولیس کی جانب سے پوزیشن سنبھالنے کے باعث چھوٹے ملازمین، ضعیف افراد دور ہٹ گئے اور علاقہ مکین ایک دوسرے سے موبائل فون پر حالات کی سنگین صورت حال پر تبادل خیال کرتے رہے۔
یونین رہنماؤں کی جانب سے اپنے کارکنوں کو دوبارہ ڈرینج اسٹیشن پر پہنچنے کی کال پر مذاکراتی ٹیم میں شامل افسران نے اپنے اعلیٰ افسران کو صورت حال سے آگاہ کیا، جس پر ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر شہزاد طاہر تھہیم، ایس ایس پی سید فدا حسین شاہ، ایم ڈی نساسک نیاز شر سمیت دیگر افراد بھاری نفری کے ہمراہ موقع پر پہنچے اور احتجاجی ملازمین کے درمیان طویل مذاکرات کے بعد موقف اختیار کیا کہ تن خواہوں کی ادائیگی کا مسئلہ صوبائی حکومت کا ہے اگر ہمارے بس میں تن خواہ جاری کرنے کا اختیار ہوتا تو ہم صبح ہی جاری کردیتے۔ سسٹم کو مفلوج کیے جانے سے لاکھوں افراد کو شدید پریشان کا سامنا کرنا پڑے گا اور یہ کوئی اچھا عمل نہیں ہے، اس میں شہریوںکا قصور نہیں ہے لہٰذا آپ سے درخواست ہے کہ آپ سسٹم کو فعال کریں اور احتجاج ختم کریں۔
میونسپل کارپوریشن سکھر کے 11 ماہ تن خواہ سے محروم ملازمین کی جانب سے دیے جانے والے دھرنے اور افسران کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے وقت رقت انگیز مناظر بھی نظر آئے، ملازمین جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور منیر کھوسو نے روتے ہوئے بتایا کہ تن خواہوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے میری پوتی کا بہتر علاج نہ ہو سکا اور وہ انتقال کر گئی، ان کا کہنا تھا کہ حکم ران شہر سے منتخب ہونے والے نمائندے اور اعلا افسران ہمیں انسانیت کا درس دیتے ہیں، مگر ہمیں انسان ہی نہیں سمجھتے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ میونسپل ملازمین نے تن خواہوں کی عدم ادائیگی پر احتجاج کیا ہو۔ گزشتہ ڈیڑھ سال سے تن خواہ اور پینشن کی عدم ادائیگی کے خلاف ہونے والے احتجاج کے باوجود آج تک کسی بھی حکومتی شخصیات نے ملازمین کو تن خواہیں دلانے کے لیے اپنا کردار ادا نہیں کیا۔ شہر اور ضلع سے منتخب ہونے والے اراکین کی بڑی تعداد اخبارات میں خبریں اور فوٹو چھپوانے کی خاطر انہیں جھوٹی تسلیاں دلاکر لوٹ جاتے ہیں اور صورت حال دن بدن گھمبیر ہوتی جا رہی ہے، خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں بہت سے ملازمین دل برداشتہ ہوکر اپنی زندگی کا چراغ گل نہ کر لیں۔ اس تمام صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے صوبائی حکومت، منتخب نمائندوں کو سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔
اس خوب صورت شہر کے لاکھوں باسی پینے کے صاف پانی کی فراہمی، صحت مند ماحول، صفائی ستھرائی کا نظام بہتر بنانے، سڑکوں، اوور ہیڈ برج کا جال بچھانے، تفریحی مقامات، صحت اور تعلیم کی سہولیات مہیا کرنے کے لیے ماسٹر پلان کی تیاری کی نوید سن رہے ہیں۔ گزشتہ 30 سال کے دوران اقتدار میں رہنے والی حکومتیں اور ان کے کارندے شہر کے اہم علاقوں، کھلے میدانوں، معززین کی اوطاقوں میں منعقدہ تقریبات کے دوران لوگوں کو اربوں روپے کے نت نئے منصوبے شروع کرنے کی خوش خبری سناکر یہ باور کرانے کی کوشش کرتے آئے ہیں کہ اس مرتبہ سکھر شہر میں منصوبے کے تحت کام کا آغاز کیا جائے گا اور چند سال میں تمام منصوبے مکمل ہونے سے لوگوں کو بنیادی سہولیات مہیا ہوسکیں گی اور شہر ایک ماڈل کے طور پر سامنے آئے گا۔
ماضی کے معمار اور کمسن آج صاحب اولاد ہونے کے بعد ضعیف ہونے لگے ہیں، لیکن شہر ہے کہ وہی پرانی کہانی ہے، وہی وعدے ہیں وہی راگ ہیں، جن پر پہلے عمل ہوا نہ اب ہونے کی امید ہے ۔ منتخب نمائندوں کے تشکیل کردہ منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اعلیٰ افسران سرتوڑ کوششیں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، مگر حالات ہیں کہ بہتر ہونے کا نام نہیں لیتے۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران کمشنر سکھر ڈاکٹر نیاز علی عباسی نے شہریوںکو بنیادی سہولیات کی فراہمی اور شہر کو خوب صورت بنانے کا بیڑہ اٹھایا، کئی اجلاس منعقدہ کیے اور شہر کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ماسٹر پلان کی تیاری میں شامل کیا، تاکہ ایک نئی منصوبہ بندی کے تحت کام کا آغاز کیا جائے۔ ڈویژنل انتظامیہ نے سکھر شہر کے مسائل کو حل کرنے، گھمبیر صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے جامع منصوبہ بندی کا آغاز کردیا ہے۔
سندھ سٹیزن امپرومنٹ پروگرام کے تحت ماسٹر پلان کی تیاری کے لیے سروے، تاجروں، صنعت کاروں اور شہریوں سے حاصل کردہ تجاویز پر نقشوں کی تیاری اگلے ماہ شروع ہوگی۔ سکھر شہر میں طویل عرصے سے عوام کو درپیش مشکلات کے خاتمے، ٹریفک، فراہمی و نکاسی آب کا نظام بہتر بنانے، تجاوزات کے خاتمے، شاہراہوں کو کشادہ کرنے اور نئی منصوبہ بندی کے لیے ڈویژنل انتظامیہ کے احکامات پر سندھ سٹیزن امپرومنٹ پروگرام کے افسران نے اک نام ورکمپنی کے اشتراک سے سروے کا آغاز کردیا۔ اس سلسلے میں ایوان صنعت و تجارت، سکھر اسمال ٹریڈرز، آل سکھر اسمال ٹریڈ اینڈ کاٹیج انڈسٹریزاوردیگر اسٹیک ہولڈرز سے تفصیلی ملاقاتیں کیں اور ان سے مشکلات کے حوالے سے تبادلہ خیال کرنے کے علاوہ 2 صفحات پر مشتمل فارم پرکرایا۔
فارم میں موجود کالم میں درپیش مشکلات، اس کا حل، مستقبل کی منصوبہ بندی کے حوالے سے رائے لی گئی۔ کمشنر سکھر ڈاکٹر نیاز علی عباسی کی خصوصی کاوشوں کی بدولت شروع ہونے والے ماسٹر پلان سروے کا آغاز، معززین اور تاجروں سے حاصل کردہ تجاویز پر شہریوں میں امیدکی کرن روشن ہوئی ہے۔ محکمہ ترقیات و منصوبہ بندی کی ہدایت پر ماسٹر پلان کی تیاری کا کام 70 فی صد مکمل کر لیا گیا ہے اور آئندہ ماہ کام کو حتمی شکل دے کر اس پر عمل درآمد کے لیے ایشیائی ترقیاتی بینک کی مالی معاونت سے منصوبوں کا آغاز کیا جائے گا۔ مستقبل کی منصوبہ بندی میں شہریوں کو بنیادی سہولیات کے حوالے سے تمام امورکو مد نظر رکھا گیا ہے ۔ لیکن انتظامیہ کی جانب سے شہر کے ماسٹر پلان کی تیاری اور اس پر عمل درآمد کے لیے شروع کردہ پروگرام پر تاجروں کے تحفظات بھی سامنے آرہے ہیں۔
تاجروں کا کہنا ہے کہ ایک عرصے سے حکومت، منتخب نمائندوں اور انتظامیہ کی جانب سے سروے کرائے جاچکے ہیں مگر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ منصوبے شروع ہونے کے فوری بعد اس میں خامیاں نظر آنا، غیر معیاری میٹریل کا استعمال اورکرپشن کی وجہ سے یہ اپنی اہمیت کھودیتے ہیں۔ موجودہ کمشنر کی شہریوں کے ساتھ مخلصانہ کوششیں قابل قدر ہیں تاہم بڑھتی ہوئی کرپشن کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔ اگر اس حوالے سے اہم فیصلے کیے جائیں تو وفاق اور صوبائی حکومت کی جانب سے شروع کردہ منصوبے مقررہ وقت میں مکمل ہونے کے ساتھ اس کے ثمرات عوام تک منتقل ہوسکتے ہیں۔ بڑھتی ہوئی کرپشن ، سیاسی مداخلت، قوانین سے ہٹ کر بھرتیاں اداروں کو تیزی سے تباہ کر رہی ہیں۔
سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہونے والے ملازمین کے علاوہ مستقل بنیادوں پر کام کرنے والے محنت کش تن خواہوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے شدید پریشانی سے دوچار نظر آتے ہیں۔ جس کی مثال سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر میں لوگوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی میں اہم کردار ادا کرنے والے ادارے میونسپل کارپوریشن میں جاری مالی بحران، ملازمین کی جانب سے کی جانے والی خودکشیاں، شہریوں کے دکھ میں اضافہ کر رہی ہیں۔ پریشان حال محنت کشوں نے گزشتہ دنوں تن خواہوں کی عدم ادائیگی کے خلاف 20 روز سے جاری تالا بندی اور ہڑتال کے بعد میونسپل کارپوریشن سے میانی ڈرینج اسٹیشن تک احتجاجی جلوس نکالا۔ شرکاء نے مختلف شاہراہوں سے ہوتے ہوئے گھنٹہ گھر چوک پر دھرنا دینے کے علاوہ کلاک ٹاور پر دروازے کے تالے توڑ کر کنٹرول سنبھال لیا اور تیسری منزل پر محنت کشوں کی بڑی تعداد نے اپنی گردن میں مفرل باندھ کر علامتی طور پر خود کو پھانسی بھی دی۔
مشتعل مظاہرین کی جانب سے اعلان کردہ شیڈول پر عمل درآمد کرنے، فراہم و نکاسی آب کا نظام معطل ہونے کی خبریں ذرائع ابلاغ کی زینت بننے کے بعد انتظامیہ متحرک ہوئی اور تن خواہوں سے محروم مشتعل مظاہرین سے پولیس افسران نے سسٹم کو فعال کرنے کی درخواست کی، تاہم مذاکرات ناکام ہوگئے۔
بعد ازاں اسسٹنٹ کمشنر سٹی ڈاکٹر وحید اصغر بھٹی، نیا سکھر کے رانا عدیل تصور، اے ایس پی سٹی امجد حیات، پولیس، رینجرز اور محکمہ ریوینیو کی بھاری نفری کے ہم راہ موقع پر پہنچے اور مظاہرین سے سسٹم کو فعال کرنے اور کمشنر اور ڈپٹی کمشنرسے بات چیت کرنے کی درخواست کی تاہم یونین راہ نما محمد آصف، منیرکھوسو اور دیگر مشعل مظاہرین نے افسران پر واضح کیا کہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے حکام کی یقین دہانیوں پرہم احتجاج ختم کرتے رہے ہیںلیکن ہماری کوئی شنوائی نہیں ہوئی، سینیٹر اسلام الدین شیخ، سید خورشید احمد، نعمان اسلام شیخ کی سفارش پر تعینات ہونے والے افسران اور تعلقہ ناظمین نے ادارے میں سیاسی بھرتی کی، جس کی وجہ سے آج ادارہ مکمل طور پر تباہ ہو گیا، آج مجبوری کے عالم میں ہم احتجاج کر رہے ہیں، کئی ملازمین پینشن اور تن خواہ کی راہ تکتے تکتے زندگی کی بازی ہار چکے ہیں، جب کہ بعض کے بچے ان سے جدا ہو چکے ہیں، مگر کوئی حکم ران، منتخب نمائندہ اور اعلیٰ افسران ہم غریبوں کی طرف توجہ نہیں دیتے۔
ان کا کہنا تھا کہ دو بڑی سیاسی شخصیات کی آپس کی سرد جنگ کی وجہ سے سیکڑوں ملازمین فاقہ کشی اور اپنے بچے فروخت کرنے پر مجبور ہیں، آج ہم کسی صورت احتجاج ختم نہیں کریں گے اور سسٹم غیر فعال رکھیں گے۔ افسران اور یونین رہنماؤں کے درمیان تند تیز جملوں کا تبادلہ بھی ہوا، بگڑتے ہوئے حالات کو دیکھ کر انتظامیہ نے پولیس کی بھاری نفری طلب کی جس نے موقع پر پہنچ کر پوزیشن سنبھالی اور میانی ڈرینج اسٹیشن کے آس پاس کے دکانوں کو بند کراکر تمام ریڑھی بانوں کو علاقے سے نکال دیا۔ پولیس کی جانب سے پوزیشن سنبھالنے کے باعث چھوٹے ملازمین، ضعیف افراد دور ہٹ گئے اور علاقہ مکین ایک دوسرے سے موبائل فون پر حالات کی سنگین صورت حال پر تبادل خیال کرتے رہے۔
یونین رہنماؤں کی جانب سے اپنے کارکنوں کو دوبارہ ڈرینج اسٹیشن پر پہنچنے کی کال پر مذاکراتی ٹیم میں شامل افسران نے اپنے اعلیٰ افسران کو صورت حال سے آگاہ کیا، جس پر ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر شہزاد طاہر تھہیم، ایس ایس پی سید فدا حسین شاہ، ایم ڈی نساسک نیاز شر سمیت دیگر افراد بھاری نفری کے ہمراہ موقع پر پہنچے اور احتجاجی ملازمین کے درمیان طویل مذاکرات کے بعد موقف اختیار کیا کہ تن خواہوں کی ادائیگی کا مسئلہ صوبائی حکومت کا ہے اگر ہمارے بس میں تن خواہ جاری کرنے کا اختیار ہوتا تو ہم صبح ہی جاری کردیتے۔ سسٹم کو مفلوج کیے جانے سے لاکھوں افراد کو شدید پریشان کا سامنا کرنا پڑے گا اور یہ کوئی اچھا عمل نہیں ہے، اس میں شہریوںکا قصور نہیں ہے لہٰذا آپ سے درخواست ہے کہ آپ سسٹم کو فعال کریں اور احتجاج ختم کریں۔
میونسپل کارپوریشن سکھر کے 11 ماہ تن خواہ سے محروم ملازمین کی جانب سے دیے جانے والے دھرنے اور افسران کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے وقت رقت انگیز مناظر بھی نظر آئے، ملازمین جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور منیر کھوسو نے روتے ہوئے بتایا کہ تن خواہوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے میری پوتی کا بہتر علاج نہ ہو سکا اور وہ انتقال کر گئی، ان کا کہنا تھا کہ حکم ران شہر سے منتخب ہونے والے نمائندے اور اعلا افسران ہمیں انسانیت کا درس دیتے ہیں، مگر ہمیں انسان ہی نہیں سمجھتے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ میونسپل ملازمین نے تن خواہوں کی عدم ادائیگی پر احتجاج کیا ہو۔ گزشتہ ڈیڑھ سال سے تن خواہ اور پینشن کی عدم ادائیگی کے خلاف ہونے والے احتجاج کے باوجود آج تک کسی بھی حکومتی شخصیات نے ملازمین کو تن خواہیں دلانے کے لیے اپنا کردار ادا نہیں کیا۔ شہر اور ضلع سے منتخب ہونے والے اراکین کی بڑی تعداد اخبارات میں خبریں اور فوٹو چھپوانے کی خاطر انہیں جھوٹی تسلیاں دلاکر لوٹ جاتے ہیں اور صورت حال دن بدن گھمبیر ہوتی جا رہی ہے، خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں بہت سے ملازمین دل برداشتہ ہوکر اپنی زندگی کا چراغ گل نہ کر لیں۔ اس تمام صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے صوبائی حکومت، منتخب نمائندوں کو سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔