مشرف ٹرائل کی سیاست

بالآخر ہم ارتقائی منازل طے کرتے اس مقام تک پہنچ ہی گئے جہاں اب کسی آمرپر کھلی عدالت میں غداری کا مقدمہ چلایا جائے گا۔

Jvqazi@gmail.com

بالآخر ہم ارتقائی منازل طے کرتے اس مقام تک پہنچ ہی گئے جہاں اب کسی آمر پر اک کھلی عدالت میں غداری کا مقدمہ چلایا جائے گا۔ لیکن یہ کہنا اتنا ہی آسان ہے جتنا دکھائی دیتا ہے، کیا اس ملک میں قانون کی حکمرانی قائم ہوگئی ہے؟ یہ کہنا اتنا آسان نہیں ہے۔ جنرل مشرف کے عدالتی ٹرائل کو دو زاویوں سے دیکھنا ہوگا۔ ایک تو ہے ''مشرف ٹرائل کی سیاست'' جس کو انگریزی میں "Politics of Mushrraf Trial" کہا جائے گا اور دوسرا ہے ''مشرف ٹرائل کے قانونی تقاضے''۔ اس موضوع میں ہم پہلے حصے کو زیر بحث لائیں گے اور دوسرے حصے کو اگلی بار۔

غداری کے مقدمے سے مارشل لا آنا نہیں رکا کرتے، وہ تو سماجی شعور کے آنے سے اور بین الاقوامی ضمیر کے ہونے سے رکا کرتے ہیں۔ بدنصیبی سے جن زمانوں میں مارشل لا دستور بنا ان زمانے میں دنیا سرد جنگ کی لپیٹ میں رہی اور ہم آج جسے پاکستان کہتے ہیں، اس پاکستان بنانے کی تحریک میں ایسا کوئی خاص کردار بھی نہیں جس طرح بنگال اور یوپی کے مسلمانوں کا تھا۔ اور جو بھی مارشل لا کے خلاف ایک بھرپور جدوجہد بس چلی بھی تو وہ مشرقی پاکستان میں چلی اور ان کے جانے کے بعد جمہوری جدوجہد دہائیاں پیچھے چلی گئی۔ بین الاقوامی ضمیر جو آج دکھائی دیتا ہے وہ سرد جنگ کے زمانوں میں کہاں تھا۔ کچھ سوویت یونین کی کٹھ پتلیاں تھیں تو کچھ امریکا کی۔

کٹھ پتلی حکومتوں کی عوام میں جڑیں نہیں تھیں تو وہ اور بھی سپر طاقتوں کی دی ہوئی ڈکٹیشن پر چلنے کو مجبور تھیں۔ فرض کر لیجیے مشرف ٹرائل چلا اور مشرف کو اور ان کے ساتھیوں کو سزا بھی سنائی گئی تو کیا اس فیصلے پر عملدرآمد بھی ہوسکے گا؟ یا پھر یہ کہ وہ بھی جوں کا توں پڑا رہے گا؟ ہمارا آئین اگر ان سوالات کا جواب دے پاتا تو یہ کبھی نہ ٹوٹتا اور پھر اس عمل کو نظریہ ضرورت کے تحت عدالتیں صحیح بھی قرار نہ دیتیں۔ لیکن ایسے سوالات کا جواب آئین و قانون کا فلسفہ یعنی Jurisprudence دے سکتا ہے کہ کس طرح جسٹس منیر والی عدالتی بینچ کا نظریہ ضرورت میں Rejudge لینا تھا تو غیر آئینی و غیر اخلاقی مگر غیر فطری نہ تھا۔ اور اگر ملک کا دارالخلافہ کراچی ہوتا یا مغربی پاکستان میں نہیں بلکہ مشرقی پاکستان میں ہوتا تو بھی وہاں کے لوگوں کا شعور یہاں کے لوگوں سے بدرجہا آگے تھا۔

انگریز جب برصغیر کے ساحل پر اترا تو وہ بنگال تھا۔ وہاں کے مسلمان تعلیم میں سب سے آگے تھے۔ مسلم لیگ پہلے بنگال میں بنی تھی اور 1920 کی خلافت کی تحریک کے پہلے ستون علی برادران نے کلکتہ میں ڈالے تھے۔ اس کے برعکس مغربی پاکستان نے ہمیشہ فاتحین و غاصبوں کو درہ خیبر سے اترتے، جہلم سے منگلا پار کرکے پانی پت کے میدانوں پر جنگ لڑ کے دہلی پر قبضہ کرتے ہوئے دیکھا اور ان غاصبوں کو ہم نے بدنصیبی سے اپنی تاریخ میں مسلمان ہیرو بنا کر رقم کیا۔


ہم اس بات سے انکاری رہے کہ اسلام تلوار کی نوک پر نہیں بلکہ صوفیوں اور ولیوں نے پھیلایا اور ان محکوموں کی روح انسانی کو آزاد کرایا جو ذات پات کے چکروں کی وجہ سے اچھوتوں کی طرح رہنے پر مجبور تھے۔ برصغیر کی تاریخ کے تین ابوابversion ہیں۔ ایک ہندوستان کا ہے، ایک ہمارا ہے اور تیسرا 1971 کے بعد ایسٹ پاکستان کا ہے، اور تینوں مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں۔ ہم کچھ زیادہ ۔ ہم نے کبھی بھی بلھے شاہ ، باہو اور بھٹائی کو نیشنل ہیرو نہیں مانا، جب کہ عام لوگ مانتے ہیں۔ ہم نے ان پر اپنے بنائے خودساختہ ہیروؤں کو تھوپا، جیساکہ غزنوی، غوری وغیرہ جسے لوگ اب بھی اپنا ہیرو نہیں مانتے اور یوں ہم نے ہماری تحریک نے بہت بڑے ہیرو جناح کی اہمیت بھی کم کرنے کی ناکام سعی کی ۔

ہماری مارشل لاؤں کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی ان حملہ آوروں کی کہ جن کو ہم اپنا ہیرو مانتے ہیں۔ بنگلہ دیش کے مسلمانوں نے بھی پاکستان بنایا تھا۔ ان کی تاریخ میں غوری و غزنوی ہیرو کے طور پر نہیں پڑھائے جاتے، وہ تو اپنے صوفیوں کے نام سے ڈھاکا کے ایئرپورٹ کو جانتے ہیں۔ کون سا ایسا ایئرپورٹ ہے جس پر بھٹائی، باہو، بلھے کا نام رکھا گیا ہے، سارے کے سارے ہمارے ہیرو Imported ہیں، کوئی بھی دھرتی کا indigenous ہیرو نہیں۔ کوئی غزنوی ہے تو کوئی غازی۔ ورنہ محمود غزنوی اور نادر شاہ درانی میں کیا فرق تھا، دونوں کا فتح و غارت مقصود تھا اور کون سی ان کی حیات مثال بنا کے پیش کی جاسکتی ہے۔

میں نے ایک چینل کے لیے جنرل حمید گل کا انٹرویو کیا تھا اور پوچھا کیسے آئے گا ان کا انقلاب، تو کہنے لگے کہ آرٹیکل 2A کے ذریعے، یعنی Objective Resolution کے ذریعے۔ جو 1949 میں پاس ہوا تھا جب ایسٹ پاکستان میں مرکز کے خلاف شدید ردعمل پایا جاتا تھا اور اس کے ذریعے آئین دینے میں اس وقت کی پارلیمنٹ کترا رہی تھی۔ بعد میں لاہور ہائی کورٹ بینچ نے فیصلہ دے ہی دیا تھا کہ آرٹیکل 2A سپرا Constitutional ہے یعنی اگر کوئی آرٹیکل اس سے متصادم ہے تو وہ آرٹیکل اپنا اثر کھو بیٹھے گا اور Article 2A کو فوقیت حاصل ہوگی۔ یہ ترمیم سپریم کورٹ کے اس بینچ کے سامنے تھی جس کے سربراہ اس وقت کے چیف جسٹس نسیم حسن شاہ تھے، جنھوں نے کہا تھا اگر لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ مان لیا جائے تو ایک ہی جھٹکے سے آئین ختم۔ آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار کورٹ کو نہیں بلکہ پارلیمنٹ کو ہے۔ لہٰذا آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو پارلیمنٹ سے یا دوسرے لفظوں میں عوام سے قانون دینے کا، آئین میں ترمیم کرنے کا حق چھیننا چاہتے ہیں۔ یا تو بندوق سے یا کسی مولوی جج کے ذریعے، جیساکہ لاہور ہائی کورٹ کے بینچ میں بیٹھے ہوئے ججوں نے تشریح کی تھی ۔ وہ اس امید پر بیٹھے تھے کہ اس سے انقلاب برپا ہو گا ، ظاہر ہے پھر ایسا فیصلہ جگر پاش نہیں ہوگا تو اورکیا ہوگا۔ اپنی ماہیت میں وہ مارشل لاء نہیں ہوگا تو کیا ہوگا؟

یہی وجہ ہے کچھ لوگوں نے دوسری انتہائی پوزیشن لی ہوئی ہے کہ جنرل مشرف کا ٹرائل اور کچھ نہیں بلکہ انتہا پرست و دائیں بازو کی سیاست کرنے والی پارٹیوں کا خاتمہ کرنے کی ایک کوشش ہے، بہت سارے ماضی کے جج ہیں، ان کے لیے ضیاء الحق غداری کے ٹرائل سے فارغ اور جنرل مشرف فارغ نہیں۔حالانکہ انصاف تو تب ہوگا جب جنرل ضیاء الحق پر بھی مقدمہ چلایا جائے اور جنرل Cromwellکرامویل کی طرح ان کا بھی بعد از مرگ احتساب کیا جائے۔ بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ دائیں بازو کی سیاست ایک بہت بڑے بحران سے گزر رہی ہے اور جنرل مشرف کا ٹرائل اس کو بحران سے نکالنے کے لیے قربانی کا بکرا Scape goat جیسی کوئی کارروائی ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہے۔ جنرل مشرف ایک غاصب آمر تھا جنرل ضیا جیسا۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو پھر اس سے انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوں گے۔ اس سے تمام جمہوریت پرست قوتیں مطمئن نہیں ہوں گی۔ ہاں البتہ دائیں بازو کی مذہبی پارٹیاں مطمئن ہوسکتی ہیں۔

چنانچہ مشرف ٹرائل سوائے قانونی میرٹ کے اور کچھ بھی نہیں وہ آدھا سچ ہے اور آدھے سچ پر آگے بڑھنا خود گمراہ کن ہے۔ اس سے تاریخ اور مسخ ہوگی۔ اس سے مذہب کے نام پر آرٹیکل 2A کی تشریح supra constitutional دینے کو تقویت ملے گی، اس سے کوئی بھی غاصب مذہب کو استعمال کرکے اگر اقتدار پر قبضہ کرے گا تو اس کو آئینی حیثیت ملے گی اور اگر کوئی مشرف جیسا لبرل غاصب آئے تو اسے سزائے موت ملے گی۔ اس طرح اس ٹرائل سے ملک کی 80 فیصد آبادی لاتعلق رہے گی۔ انصاف تو تب ہوگا جب دونوں غاصبوں کو جنہوں نے 73کا آئین توڑا، یعنی جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کو آئین و قانون کی ایک ہی آنکھ سے دیکھا جائے۔
Load Next Story