ہمارے لفظ غیر مؤثر کیوں…

الفاظ خالی برتن کی مانند ہوتے ہیں، ان میں مفہوم ہم ڈالتے ہیں

ممتاز مفتی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ''الفاظ خالی برتن کی مانند ہوتے ہیں، ان میں مفہوم ہم ڈالتے ہیں۔'' آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری تحریروں میں موجود الفاظ کا مفہوم مرچکا ہے۔ روز بم دھماکے ہوتے ہیں، دس پندرہ لوگ نشانہ وار قتل (ٹارگٹ کلنگ)کی نذر ہو جاتے ہیں، سرحدوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے آئے دن ہونے والے ڈرون حملے ہماری نام نہاد قومی سلامتی و خودمختاری کی دھجیاں بکھیر دیتے ہیں، انسان مر رہا ہے، انسانیت بیٹھی بین کر رہی ہے۔ لیکن لوگ...! وہ انسانیت کا رونا سنتے کیوں نہیں؟ انھیں انسان کے مرنے پر کوئی اثر کیوں نہیں ہوتا؟ کیا وہ بے حس ہوچکے ہیں؟ ہاں لوگ واقعی بے حس ہوچکے ہیں۔ الفاظ تو کیا اب ان پر جذبات بھی اثر نہیں کرتے، ہر بم دھماکے میں کئی کئی جانوں کے نقصان کے بعد جب قلم کار موضوع پر قلم اٹھاتا ہے تو اس کا دل جذبات سے عاری ہوتا ہے، تو پھر الفاظ کیوں کر موثر ہونے لگے؟

یہی فیچر جب قارئین کے ہاتھوں میں آتا ہے تو وہ بھی جذبات سے عاری دل سے محض تصاویر پر ہی اکتفا کر لیتے ہیں، یا پھر اگر کوئی پورا فیچر پڑھ بھی لیتا ہے تو بس وقت گزاری کے لیے۔ شاید کچھ لمحے بعد ہی وہ اس کے اثر سے نکل جائے۔ اگر قاری زیادہ گھاگ ہے تو وہ جان لیتا ہے کہ یہ سارا لفظوں کا کھیل ہے اور کچھ نہیں۔ زندگی کا نام آگے بڑھنا ہے اور وہ یوں ہی اپنی ڈگر پر چلتی ہی چلی جاتی ہے۔ روزانہ کئی ہزاروں کی تعداد میں مختلف زبانوں کے اخبارات شایع ہوتے ہیں۔ مختلف زبانوں کے ٹی وی چینلز پر مختلف پروگرامز نشر کیے جاتے ہیں، جن میں صحافی اپنے لگے بندھے الفاظ کا استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ انھیں نہیں پتا کہ بہت سے الفاظ محض کہہ دینے سے ابلاغ نہیں کرتے۔۔۔دراصل دل سے یہ الفاظ ہی ادا نہیں کرتے تو ظاہر ہے نہ چہرے کے تاثرات ساتھ دیتے ہیں اور نہ ہی حرکات وسکنات ہم راہ ہوتی ہیں۔

ہر صحافی اپنے اپنے اسلوب اور طرزِنگارش سے اپنے قاری اور ناظر کا دل موہ لینے کی کوشش کرتا ہے اور اپنی تحریر اور گفتگو میں الفاظ کی ہیرا پھیری کر کے اس میں جان ڈالنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن اپنے جن قارئین اور ناظرین کے لیے وہ یہ سب کچھ کرتا ہے، چاہے وہ ارباب اختیار ہوں یا عوام، ان پر اس کے لفظیات کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ بے حسی ہی بے حسی ہے۔ عوام ہر طرح کے مظالم سہہ سہہ کر اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ اب اس کے نزدیک یہ الفاظ کوئی معنی ہی نہیں رکھتے۔ اگر کہیں بم دھماکا ہو اور اس میں دس لوگ جاں بحق ہوں تو لوگ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ شکر ہے زیادہ جانی نقصان نہیں ہوا، یعنی دس لوگوں کی جانوں کی کوئی وقعت ہی نہیں، یہ تو روز مرہ کا معمول ہے۔ اس کی مثال ہم کچھ مہینوں پہلے اخبار میں شایع ہونے والے ایک پولیس افسر کے بیان سے لے سکتے ہیں جس میں انھوں نے فرمایا کہ کراچی ڈیڑھ کروڑ آبادی کا شہر ہے اور اتنی بڑی آبادی میں روزانہ دس پندرہ لوگوں کا مرنا کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے۔


لفظوں کا جب غریب عوام پر ہی کوئی اثر نہیں ہوتا، تو وہ آزاد منش طبقہ جوکہ مسند اقتدار پر براجمان ہے وہ کیوں اثر لینے لگا۔ وہ اپنی موج مستیوں میں مصروف ہے کہ ہم ان کیڑے مکوڑوں اور بے وقوفوں کی فکریں کیوں پالیں جو خود اپنے حق کے لیے آواز بلند نہیں کرتے۔ اسی شہر قائد میں 2002 میں جب امریکی قونصل خانے پر بم دھماکے میں 10 جانیں گئیں تو اس وقت کے ایک پولیس افسر شان بے نیازی سے یہ کہتے نظر آئے تھے کہ ''اﷲ کا شکر ہے کوئی غیر ملکی نہیں مرا''۔ اس سے اندازہ لگائیے ہمارے اوپر والوں کے خیالات کیا ہیں۔ اسی طرح سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا امریکا کے ایک چینل کو دیا گیا انٹرویو سامنے آیا تھا جس میں وہ کہتے ہوئے پائے گئے اگر کسی کو ملک میں مسئلہ ہے تو وہ ملک چھوڑ دے۔ ایک تجزیہ کار کہتے ہیں ''ایوانوں میں بیٹھے ہوئے یہ لوگ عوام کو کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہمیت دینے کو تیار نہیں۔'' تو پھر سوچنے والی بات ہے کہ صحافی اپنے کالموں اور پروگراموں میں اپنے قیمتی الفاظ کا ضیاع کیوں کررہے ہیں۔ کیسے وہ لوگوں کے مسائل کو اپنے مسائل سمجھیں گے، جب انھیں کوئی احساس ہی نہ ہوگا تو پھر لفظ کیسے اثر کریں گے کیوں کہ جذبات، احساسات ختم ہوجاتے ہیں تو لفظ بھی بے معنی ہوجاتے ہیں۔

دوسری طرف مہنگائی اتنی ہے کہ غریب شخص روزی روٹی سے آگے کچھ سوچتا ہی نہیں۔ حکمرانوں نے اسے اسی چکر میں پھنسا کر رکھ دیا ہے۔ اب اگر شہر میں کوئی سانحہ ہوجائے تو لوگوں کو سب سے پہلے یہی فکر کھائے جاتی ہے کہ کاروبار بند تو نہیں ہوگا، ٹرانسپورٹ تو رواں رہے گی۔۔۔ کیوں کہ اس سے ان کی روزی وابستہ ہوتی ہے، ہر شخص خود ہی کے بارے میں سوچتا نظر آتا ہے۔ پہلے ایک محلے میں میت ہوتی تھی تو پورے محلے میں لوگ جنازہ جانے تک کھانا نہیں کھاتے تھے کہ پہلے جنازہ ہوجائے اس کے بعد۔ اس کے ساتھ لوگ کئی کئی دن سوگ کی کیفیت میں رہتے تھے۔ اب گلی گلی اور ہر چوراہے سے میتیں اٹھتی ہیں، لیکن سوگ نظر نہیں آتا، کیوں کہ اب لوگوں کے جذبات مر چکے ہیں تو پھر الفاظ کیوں کر زندہ ہوں گے۔

جذبات، احساسات اور لفظیات کی اثر پذیری کا آپس میں براہِ راست تعلق ہے۔ معاشرے میں پروان چڑھتی اس بے حسی کو فروغ دینے میں ایک بڑا اور اہم کردار کچھ ہمارے ذرایع ابلاغ کا بھی ہے۔ یہاں اس بات کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے کہ سماجی ذمے داری کے نظریے کے تحت ابلاغی اداروں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ سماج کا حصہ ہونے کے ناتے سماج کی فلاح و بہبود اور ان کی بہتری کے لیے کام کریں اور سنسنی خیزی سے اجتناب کرے اور یہ سب صحافت برائے امن کے ذریعے ہی ممکن ہوسکتا ہے۔

سانحے یا واقعے کے بعد بریکنگ نیوز کے نام پر تازہ ترین احوال بڑھا چڑھا کر پیش کرکے سنسنی خیزی پھیلانے کی کوشش کی جاتی ہے اور دل دہلا دینے والے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ اس کی فوٹیجز بھی بار بار دکھائی جاتی ہیں اور خبری میزبان ایک ہی بات کو بار بار دہرا رہا ہوتا ہے، وہ الفاظ وہ فوٹیج لوگوں کے ذہنوں میں بیٹھ جاتی ہے۔ یہاں تک کہ آتش زدگی کے ایک واقعے کے دوران جب ایک نوجوان جان بچانے کو کھڑکی سے لٹک گیا تو ہمارے چینل اس کی منظر کشی پر مرکوز رہے۔ بے حسی کی انتہا کہ کسی نے اسے بچانے کی چارہ جوئی بھی نہ کی۔۔۔ اور وہ نوجوان گرا اور جاں بر نہ ہوسکا! جب خبر پہنچانے والے اداروں کا کردار اس حد تک ہوجائے گا، لوگوں کی حسیات مرجائیں گی تو پھر کوئی بات اور کوئی لفظ ہم پر کس طرح اثر کرے گا۔
Load Next Story