آرمی چیف کے انتخاب میں پسند ناپسند نہیں ہونی چاہیے راشد قریشی
تینوں جرنیل ترقی کے قابل تھے، ہارون اسلم کو نہ چننا نوازشریف کی مخصوص سوچ ہے, راشد قریشی
ISLAMABAD:
آل پاکستان مسلم لیگ کے سینئر نائب صدر اور سابق ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل (ر ) راشد قریشی نے کہا ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی بلاشبہ وزیراعظم کا استحقاق ہوتا ہے۔
لیکن اس طرح کے قومی وقار کے حامل عہدے کیلیے ذاتی ترجیحات نہیں ہونی چاہئیں، پاک آرمی کے پہلے تینوں جرنیل پروفیشنلی سائونڈ تھے، لیفٹیننٹ جنرل ہارون اسلم کو اگر نواز شریف نے سنیارٹی کے باوجود آرمی چیف نہیں بنایا تو یہ ان کی مخصوص سوچ ہو سکتی ہے۔ پرویز مشرف کے اقتدار میں آتے وقت ہارون اسلم بریگیڈئیرملٹری آپریشن تھے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو جنرل اشفاق کیانی اس وقت پرویز مشرف کے چیف ایڈوئرزاور پھر ڈی جی آئی ایس آئی بھی تھے لہٰذا ہارون اسلم کے بارے میں مشرف کے قریبی ساتھی ہونے کی جو باتیں جا رہی ہیں وہ نہیں ہونی چاہئیں۔ وہ بھی شاندار فوجی کیرئیر رکھتے ہیں۔ ''ایکسپریس'' سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے راشد قریشی نے بتایا کہ نئے آرمی چیف جنرل راحیل شریف ایک کمپیٹنٹ جرنیل ہیں تاہم پاک آرمی کے پہلے تینوں جرنیل پروموشن کے قابل تھے۔
انھوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ آرمی چیف کی تعیناتی کے سلسلے میں ذاتی پسند و نا پسند نہیں ہونی چاہیے، گو وزیراعظم کو آرمی چیف کے چنائو کیلیے 3 ناموں کی سمری بھجوائی جاتی ہے اور وہ اپنی مرضی کے تحت ایک جنرل کا انتخاب کرتے ہیں تاہم اگر اس چنائو میں ذاتیات کا عنصر شامل ہو تو یہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ پروفیشنلی دیکھا جانا چاہیے۔ انھوں نے کہا پرویزمشرف کا دور پاکستان میں اقتصادی حوالے سے ایک روشن ترین دور تھا، مشرف نے ایک روپے کی بھی کرپشن نہیں کی، اگر انھیں کوئی سزا دینی ہے تو میں ان کی جگہ سزا بھگتنے کیلیے تیار ہوں۔ مشرف کے دور کو آج بھی لوگ یاد کرتے ہیں ، وہ ایک شاندار فوجی اور اعلیٰ معشیت دان تھے، آج ملک کو جو معاشی مسائل درپیش ہیں یہ ان کے دور میں نہیں تھے۔
آل پاکستان مسلم لیگ کے سینئر نائب صدر اور سابق ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل (ر ) راشد قریشی نے کہا ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی بلاشبہ وزیراعظم کا استحقاق ہوتا ہے۔
لیکن اس طرح کے قومی وقار کے حامل عہدے کیلیے ذاتی ترجیحات نہیں ہونی چاہئیں، پاک آرمی کے پہلے تینوں جرنیل پروفیشنلی سائونڈ تھے، لیفٹیننٹ جنرل ہارون اسلم کو اگر نواز شریف نے سنیارٹی کے باوجود آرمی چیف نہیں بنایا تو یہ ان کی مخصوص سوچ ہو سکتی ہے۔ پرویز مشرف کے اقتدار میں آتے وقت ہارون اسلم بریگیڈئیرملٹری آپریشن تھے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو جنرل اشفاق کیانی اس وقت پرویز مشرف کے چیف ایڈوئرزاور پھر ڈی جی آئی ایس آئی بھی تھے لہٰذا ہارون اسلم کے بارے میں مشرف کے قریبی ساتھی ہونے کی جو باتیں جا رہی ہیں وہ نہیں ہونی چاہئیں۔ وہ بھی شاندار فوجی کیرئیر رکھتے ہیں۔ ''ایکسپریس'' سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے راشد قریشی نے بتایا کہ نئے آرمی چیف جنرل راحیل شریف ایک کمپیٹنٹ جرنیل ہیں تاہم پاک آرمی کے پہلے تینوں جرنیل پروموشن کے قابل تھے۔
انھوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ آرمی چیف کی تعیناتی کے سلسلے میں ذاتی پسند و نا پسند نہیں ہونی چاہیے، گو وزیراعظم کو آرمی چیف کے چنائو کیلیے 3 ناموں کی سمری بھجوائی جاتی ہے اور وہ اپنی مرضی کے تحت ایک جنرل کا انتخاب کرتے ہیں تاہم اگر اس چنائو میں ذاتیات کا عنصر شامل ہو تو یہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ پروفیشنلی دیکھا جانا چاہیے۔ انھوں نے کہا پرویزمشرف کا دور پاکستان میں اقتصادی حوالے سے ایک روشن ترین دور تھا، مشرف نے ایک روپے کی بھی کرپشن نہیں کی، اگر انھیں کوئی سزا دینی ہے تو میں ان کی جگہ سزا بھگتنے کیلیے تیار ہوں۔ مشرف کے دور کو آج بھی لوگ یاد کرتے ہیں ، وہ ایک شاندار فوجی اور اعلیٰ معشیت دان تھے، آج ملک کو جو معاشی مسائل درپیش ہیں یہ ان کے دور میں نہیں تھے۔