چوری ہونے کے بعد حافظ شیرازی کا نایاب نسخہ بازیاب
کاغذ پر سونے کے اوراق سے سجایا گیا نسخہ 1462 میں اس وقت کے مشہور خطاط نے تحریر کیا تھا
جرمنی میں حافظ شیرازی کے عہد کے تحریر کردہ دیوان کا ایک نایاب نسخہ بازیاب کرالیا گیا ہے، تاہم اس کے مالکین اب اسے دوبارہ نیلام کریں گے۔
جرمنی میں مقیم اسلامی عہد کی کتابیں اور نوادرات جمع کرنے والے جعفر غازی کا انتقال 2007 میں ہوا تھا لیکن جلد ہی ان کے لواحقین کہ ان کے علمی خزانے سے سینکڑوں نوادرات اور کتابیں غائب ہیں۔ اگرچہ پولیس نے 175 اشیا برآمد کرلیں لیکن نایاب ترین دیوان کا کوئی سراغ نہ مل سکا۔ عام کاغذ پر سونے کے اوراق سے سجا یہ نسخہ خود 1462 میں تخلیق کیا گیا تھا۔
دیوانِ حافظ کے اس نسخے کو وقت کے ممتاز خطاط، شیخ محمود پیر بوداقی نے لکھا تھا جو اسے مزید نایاب بناتا ہے۔ لیکن جرمن پولیس نے بہت محنت کے بعد یہ نسخہ ڈنمارک میں نوادرات کے ایک تاجر سے برآمد کرلیا ہے حالانکہ اس کی اطلاع دینے والے لئے 50 ہزار یورو کے انعام کا اعلان کیا جاچکا تھا۔
اس نادر نمونے کی اہمیت کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ خود ایرانی سفارت خانے اور سرکاری افسران نے بھی اسے برآمد کرنے کی درخواست کی اور پورے معاملے میں غیرمعمولی دلچسپی دکھائی۔ آخرکار یہ نادرونایاب دیوان بازیاب کرالیا گیا۔
جعفر غازی کے لواحقین دیگر اشیا کے ساتھ یکم اپریل کو اسے نیلام کرنے کا ارادہ رکھتےہیں۔ دیوانِ حافظ کی ابتدائی قیمت 80 ہزار سے ایک لاکھ بیس ہزار برطانوی پاؤنڈ تجویز کی جارہی ہے۔ اس موقع پرنوادرات نیلام کرنے والی مشہور کمپنی سودبے کے ایک ماہر نے کہا کہ حافظ کا دیوان نہ صرف ایران بلکہ پوری دنیا کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اسے سونے سےسجایا گیا ہے اور اس وقت کے عالمی شہرت یافتہ کاتب نے لکھا ہے۔
واضح رہے کہ دیوانِ حافظ ، خواجہ شمس الدین محمد بن بہاء الدین المعروف حافظ شیرازی کی اعلیٰ تخلیق ہے۔ اس میں پانچ سو غزلیں اور رباعیات شامل ہیں۔
جرمنی میں مقیم اسلامی عہد کی کتابیں اور نوادرات جمع کرنے والے جعفر غازی کا انتقال 2007 میں ہوا تھا لیکن جلد ہی ان کے لواحقین کہ ان کے علمی خزانے سے سینکڑوں نوادرات اور کتابیں غائب ہیں۔ اگرچہ پولیس نے 175 اشیا برآمد کرلیں لیکن نایاب ترین دیوان کا کوئی سراغ نہ مل سکا۔ عام کاغذ پر سونے کے اوراق سے سجا یہ نسخہ خود 1462 میں تخلیق کیا گیا تھا۔
دیوانِ حافظ کے اس نسخے کو وقت کے ممتاز خطاط، شیخ محمود پیر بوداقی نے لکھا تھا جو اسے مزید نایاب بناتا ہے۔ لیکن جرمن پولیس نے بہت محنت کے بعد یہ نسخہ ڈنمارک میں نوادرات کے ایک تاجر سے برآمد کرلیا ہے حالانکہ اس کی اطلاع دینے والے لئے 50 ہزار یورو کے انعام کا اعلان کیا جاچکا تھا۔
اس نادر نمونے کی اہمیت کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ خود ایرانی سفارت خانے اور سرکاری افسران نے بھی اسے برآمد کرنے کی درخواست کی اور پورے معاملے میں غیرمعمولی دلچسپی دکھائی۔ آخرکار یہ نادرونایاب دیوان بازیاب کرالیا گیا۔
جعفر غازی کے لواحقین دیگر اشیا کے ساتھ یکم اپریل کو اسے نیلام کرنے کا ارادہ رکھتےہیں۔ دیوانِ حافظ کی ابتدائی قیمت 80 ہزار سے ایک لاکھ بیس ہزار برطانوی پاؤنڈ تجویز کی جارہی ہے۔ اس موقع پرنوادرات نیلام کرنے والی مشہور کمپنی سودبے کے ایک ماہر نے کہا کہ حافظ کا دیوان نہ صرف ایران بلکہ پوری دنیا کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اسے سونے سےسجایا گیا ہے اور اس وقت کے عالمی شہرت یافتہ کاتب نے لکھا ہے۔
واضح رہے کہ دیوانِ حافظ ، خواجہ شمس الدین محمد بن بہاء الدین المعروف حافظ شیرازی کی اعلیٰ تخلیق ہے۔ اس میں پانچ سو غزلیں اور رباعیات شامل ہیں۔