لاپتہ افراد کی بازیابی ایک کڑا امتحان

لاپتہ افراد کیس میں پیش رفت کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ اس انسانی مسئلے کے حل کا امکان نظر آنے لگا ہے.

کوئٹہ: لاپتہ افراد کے لواحقین اپنے پیاروں کی تصاویر اٹھائے لانگ مارچ کا آغاز کررہے ہیں۔ فوٹو: آئی این پی

لاپتہ افراد کیس میں پیش رفت کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ اس انسانی مسئلے کے حل کا امکان نظر آنے لگا ہے، گزشتہ روز سپریم کورٹ آف پاکستان کراچی رجسٹری نے لاپتہ افراد کیس کی سماعت کرتے ہوئے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کی یقین دہانی کے بعد35 لاپتہ افراد کو 2 دسمبر تک اسلام آباد میں پیش کرنے کی مہلت دے دی۔ وزیر دفاع نے یقین دہانی کرائی کہ 2 دسمبر تک معاملہ حل کرنے کی کوشش کرینگے۔ بعد ازاں وفاقی وزیر نے بلوچستان کے لاپتہ افراد کے لواحقین سے ان کے کیمپ میں جا کر ملاقات کی، وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے سربراہ ماما قدیر سے بات چیت کی اور کہا کہ 10 دسمبر سے قبل لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کر لیں گے، اس سلسلے میں وہ وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبد المالک سے بات کریں گے۔ عدالت نے قرار دیا کہ اگر سرکاری ادارے خود پر آئین کا اطلاق نہیں کرینگے تو قبائلی و غیر قبائلی شہریوں سے اس کی توقع کیسے کر سکتے ہیں۔


دوران سماعت جسٹس جواد ایس خواجہ نے آئین کی سبز کتاب لہراتے ہوئے کہا کہ اگر عدالتی حکم پر بھی لاپتہ افراد کو پیش نہیں کیا جا رہا تو اس آئین کی کتاب کی کیا حیثیت رہ گئی۔ چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے خواجہ آصف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم چاہتے تھے کہ حکومت صورتحال سمجھ سکے، یہ ادارے آپ کو بھی جوابدہ ہیں، آخر یہ بندے کہاں گئے کیا زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔ چیف جسٹس کے مطابق نئی حکومت کے آنے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑا، اب بھی لوگ لاپتہ ہو رہے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کی طرف سے یہ اہم نکتہ ہے جو بنیادی انسانی حقوق کے حوالہ سے فرد اور ریاست کے باہمی تعلق کی ناگزیریت کی نشاندہی کرتا ہے۔

لاپتہ افراد کا مسئلہ چاروں صوبوں سے جڑا ہوا ہے اور ایک جمہوری حکومت کے لیے سخت امتحان ہے، آمریت میں بالجبر آدمی غائب کرنا معمول کی بات ہے جمہوری نظام میں اس کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ اقوام متحدہ کے معاہدوں، دستاویزات اور میثاقوں میں disappeared persons کے سنگین معاملہ کو بہیمانہ عمل کہا گیا ہے۔ اس لیے جتنی جلد لاپتہ افراد عدالت کے روبرو پیش کیے جائیں گے جمہوری حکومت سرخرو ہو گی اور ایک آزاد عدلیہ کے سامنے متعلقہ لوگ اپنا دفاع بھی کر سکیں گے، کسی نے جرم کیا ہو تو ثابت کیا جائے تا کہ قانون اپنا راستہ بنائے، بہر صورت اس اعصاب شکن اور درد انگیز صورتحال کا کوئی آبرو مندانہ حل اب نکلنا چاہیے۔
Load Next Story