معروض بدلا جاسکتا ہے

ہمارے ایک بزرگ کہتے ہیں ’’بلوچستان کو وسائل کی بہتات نے مارا ہے‘‘ اب لگتا ہے کہ اس کے حسن کو بدخواہوں کی نظرلگ گئی ہے۔

khanabadosh81@gmail.com

ہمارے ایک بزرگ کہتے ہیں ''بلوچستان کو وسائل کی بہتات نے مارا ہے'' اب لگتا ہے کہ اس کے حسن کو بدخواہوں کی نظر لگ گئی ہے۔ لانگ بوٹوں تلے گہنایا ہوا اس کا حسن پہلے سامراجی قوتوں کے ہاتھوں گہنایا،پھرخود کش حملوں نے گرہن زدہ کرکے رکھ دیا ، اب قدرتی آفات نے مرے کو مارے شاہ مدار والا کام کیا۔اب یہاں کے باسیوں کی بصارت گویا دھماکوں کی گونج کی عادی ہوتی چلی جا رہی ہے۔

عید ہو چودہ اگست کہ محرم ،عرصہ ہوا کہ یہاں کے باسیوں کے لیے سبھی تہوار سوگ کی علامت بن چکے ۔ دنیا بھر میں لوگ تہواروں کے جلد آنے کا انتظار کرتے ہیں، ہم تہوار کے جلد جانے کا انتظار کرتے ہیں۔ یہاں ہر تہوار کا مطلب ہے؛ مزید اموات، مزید دھماکے، مزید لاشیں۔ نظر کو رونے اور جگر کو پیٹنے کے لیے مقدور ہو بھی تو کوئی نوحہ گر ہمارے ساتھ نہ آئے، اسے بھی یہ خدشہ لاحق رہے کہ کہیں خود کسی نوحے کا عنوان نہ بن جائے!

نوحے سے یاد آیا،محرم میں غمِ حسین کے نوحے پڑھنے والوں کو یہاںخودکش بمباروں والے لشکر نے خون میں نہلا دیا ہے ۔

بلوچ سماج جو مذہبی انتہاپسندی سے تہی دامن ہوا کرتا تھا، اب اس کے دامن کو مذہبی شدت پسندوں نے داغ دار کر کے رکھ دیا ہے۔حکومتی پالیسیوں کے نتیجے میں بھڑکنے والی مذہبی انتہاپسندی کی آگ کے شعلے بلوچستان سماج کے وجود کو بھی جھلسا رہے ہیں۔مذہبی دکان دار ہر چوک اور چوراہے پہ کفر کے سرٹیفکیٹ بانٹتے پھر رہے ہیں۔ان کی اول و آخر دلیل گولی ہے۔ یہ کسی قسم کے مکالمے ، مباحثے پہ یقین نہیں رکھتے۔بلوچ سماج کی لبرل شناخت کا تفاخر اب انتہاپسندی کی ندامت میں بدلتا جا رہا ہے۔

دوسری طرف وسائل کے تصرف پہ شروع ہونے والی لڑائی نسلی عصبیت کے دہانے آ پہنچی ہے۔کہتے ہیں یہ جنگی اخلاقیات کی بھی خلاف ورزی ہے۔جنگ جیسی بد تہذیب سرگرمی سے اخلاقیات کی توقع کرنے والے کیسے سادہ لوح ہیں۔ جنگ میں پہلا قتل سچائی کا نہیں، اخلاقیات کا ہوتا ہے۔ جنگ کسی کی غیر اخلاقی حرکت کے نتیجے میں شروع ہونے والی سرگرمی ہے، اس لیے اس میں اخلاقیات کا عمل دخل ہی بے معنی ہے۔ لیکن اسے کسی مسئلے کا حل ماننے والے بھی اس بنیادی حقیقت کو جھٹلا رہے ہوتے ہیں کہ ،'جنگ تو خود ایک مسئلہ ہے، جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی!'

اور وہ جن کا خیال ہے کہ طاقت کے ذریعے فریقِ مخالف پہ فتح پائی جا سکتی ہے ،احمقوں کی اس جنت کے دوسرے کنارے پر ہیں۔ انسان پیارسے سدھایا جانے والا جانور ہے۔ جس نے اس پر طاقت سے حکمرانی کا خواب دیکھا، اس نے اس کی بغاوت کو گویا دعوت دی، اور جب انسان باغی ہو جائیں تو یہ توپ کے دہانے سے بندھ کر فنا ہوجانا پسند کرتے ہیں، طاقت کی اطاعت نہیں۔ بلوچ سرداروں کے لاٹ صاحب کی بگھی کھینچنے کے واقعے سے واقفیت رکھنے والے جنگِ نفسک کے ان مریوں کو بھی یاد کریں جنہوں نے اسی انگریز کے خلاف لڑتے ہوئے تجدید وفا کے بطور اپنی قمیضوں کے دامن ایک دوسرے سے باندھ لیے تھے کہ مرے تو ساتھ شہید ہوں گے، فاتح رہے تو ایک ساتھ ہی غازی بن کر لوٹیں گے۔


یہ جان لیجیے کہ آج ڈیرہ بگٹی اور کوہلو سے لے کر مشکے اور مکران کے پہاڑنشیں اپنی قمیضوں کے دامن (فکری طور پر) ایک دوسرے سے باندھ چکے !

بیس ہزار افراد کے لاپتہ ہونے کے دعوے دار پہ طنز کیا جاتا ہے کہ یہ دو ہزار افراد کے نام بھی نہیں بتا سکتے۔چلیے یہ تو مان لیجیے کہ ایک ہزار لاپتہ افراد کی فہرست معہ تمام تر کوائف وتفصیلات کی موجودگی کا اعتراف تو حکومت خود کر چکی ...ان میں سے کوئی سو لاپتہ ہی بازیاب کروا دیجیے تو آپ کی 'ایمانداری' پہ بھروسے کا کوئی جواز پیدا ہو۔باقی مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی کے خاتمے کی نوید سنانے والے ، امریکا کی جانب سے ڈرون حملوں کے خاتمے کی یقین دہانی والے وزیر کے دعوے کا انجام ذہن میں رکھ کر بات کریں تو ایسے کسی 'بڑے بول' سے بچ جائیں گے جو ان کے لیے مزید کسی پریشانی کا باعث بنے۔

یوں بھی حکمرانوں کی پریشانی کے اسباب بلوچستان میں کچھ کم نہیں۔ان کی پریشانی اور شرمندگی کا باعث بننے والا لاپتہ افراد کے لواحقین کا لانگ مارچ کوئٹہ سے کراچی پہنچ چکا۔جہاں پریس کلب کے سامنے ان کا احتجاج اب عالمی اداروں تک ان کی پریشانی کا سامان کرے گا۔ کہ یہ کوئٹہ کا پریس کلب نہیں کہ جس کے سامنے لاپتہ افراد کے احتجاجی کیمپ کو 'دکان' کا نام دیا جائے۔ یہاں اب دنیا بھر کے نشریاتی اداروں کے نمایندے جمع ہوں گے۔اور 'لاپتہ افراد کا مسئلہ جلد حل کر لیں گے' کا بیان دینے والوں کو ہر روز ان کا بیان یاد دلواتے رہیں گے۔اور انھیں اس کیمپ کی تصویریں دکھاتے رہیں گے جوکہتے ہیں کہ بلوچستان سے کوئی شخص لاپتہ ہوا ہی نہیں...اور یوں انھیں ان کی حقیقی تصویر دکھاتے رہیں گے۔

نظریہ پاکستان کے نام پر پاکستانی نصاب میں حقائق پر پردہ ڈالا گیا،اس کے مکافات میں بلوچستان میں اب کوئی اس کی سرحدیں بدلنا چاہتا ہے۔ لیکن کوئی بتائے گا کہ محض نصاب بدلنے سے، جغرافیائی سرحدیں بدلنے سے کیا زمین پہ بسنے والے انسانوں کی تقدیر بھی بدل جایا کرتی ہے؟...یا ،'وہ کوئی اور ہی رمز کہ جس سے ساجن مَن (مان)جائے!'(شاہ لطیف)...وہ رمز آشنا ناپید ہوئے۔ عشاق سبھی مسخ شدہ بنا دیے گئے، یا پھر ان کا پتہ ہی لاپتہ کر دیا گیا!

پہلے حکمرانوں کے بخشے فاقوں، پھر ناکوں اور اب خود کش دھماکوں والے بلوچستان کو بم، باردو اور بندوق کا روگ لگ گیا ہے، سو اب اس کے نصیب میں بس سوگ ہی رہ گیا ہے۔ یہی ہمارا معروض ہے،اورہم اس اَن چاہے تھوپے ہوئے معروض کے دائرے میں زندگیاں بِتانے پر مجبور ہیں...ہم، وہ لاکھوں لوگ جو اِس علم سے ،کہ 'معروض بدلا جا سکتا ہے'،اس لیے بے علم رہ گئے ہیں کہ جس عالم نے یہ علم پھیلانا تھا ، وہ خود معروض کے منحوس چکر میں آکر بے عمل ہو چکا ۔ فی الوقت تو اس طبقے کو بیدار کرنے کے لیے ایک زبردست 'علمی دھماکے' کی ضرورت ہے۔

اسے بیدار کرنا ہوگا، اسے بیدار ہونا ہوگا، اس سے پہلے کہ یہ کسی 'عملی خود کش' کی زد میں آ جائے!!
Load Next Story