ملاوٹ و ناپ تول میں کمی
منافع خوری، ناپ تول میں کمی، ملاوٹ و مصنوعی مہنگائی ہمارا وطیرہ بن چکا ہے۔
ہم مسلمانوں کو اچھے اعمال و افعال میں آگے ہونا چاہیے، مگر اس کے برعکس ہمارے معاشرے کا ایک خاص طبقہ بددیانتی اور لوٹ مار میں آگے نظر آتا ہے۔
منافع خوری، ناپ تول میں کمی، ملاوٹ و مصنوعی مہنگائی ہمارا وطیرہ بن چکا ہے۔ چنے کے چھلکوں سے چائے کی پتی اور پھر اس میں مضر صحت رنگ۔ بیکریوں میں گندے انڈوں کا استعمال، آٹے میں ملاوٹ، سرخ مرچ میں اینٹوں و لکڑی کا برادہ، کالی مرچ میں پپیتے کے بیج کی ملاوٹ، معروف برانڈ کی کمپنیوں کے ڈبوں میں غیر معیاری اشیاء کی پیکنگ جیسی دھوکا دہی ہمارے معاشرے میں عام ہے۔
ملاوٹ مافیا کہیں خطرناک کیمیکل، سوڈیم کلورائیڈ، فارمالین، ڈٹرجنٹ اور پانی کی آمیزش سے دودھ تیار کرکے فروخت کررہے ہیں تو کہیں دودھ کی مقدار بڑھانے کے لیے اس میں آئل، یوریا اور دیگر مضر صحت کیمیکلز کو شامل کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح ٹافیوں، پرفیوم، شیمپو اور دیگر سامان میں مختلف بیماریوں کا باعث بننے والی اشیاء کی ملاوٹ کی جارہی ہے۔ کہیں گوشت کا وزن بڑھانے کے لیے ذبیحہ کی شہ رگ میں پانی کا پریشر استعمال کیا جارہا ہے تو کہیں گدھے، گھوڑے، کتّے اور مردار کا گوشت مدغم کرکے فروخت کیا جا رہا ہے۔
مرغیوں کی چربی سے بنے ناقص گھی اور تیل میں بچوں کے کھانے کی چیزیں تلی جارہی ہیں ۔ جب کہ ہماری نہروں میں شہر بھر کے گٹروں کا پانی ڈالا جارہا ہے جو نہروں سے کھیتوں میں جاتا ہے اور پھر اسی گندے اور زہریلے پانی سے سبزیاں کاشت کی جارہی ہیں۔
اس گھمبیر صورت حال کے نتیجے میں بچوں کی نشوونماء متاثر ہو رہی ہے اور شہریوں بالخصوص بچوں میں بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ اور ہر چوتھا پاکستانی منہ، جگر کے کینسر، ہیپاٹائٹس، گردوں کے امراض، شوگر، بلڈپریشر، جلدی امراض اور معدے کے عوارض میں مبتلا ہے۔ ملک بھر میں سرکاری و نجی اسپتالوں پر مریضوں کا رش دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ملک میں کوئی خطرناک وبا پھوٹ پڑی ہے ، شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جس میں کوئی مریض نہ ہو۔ اس پر ستم ظریفی یہ کہ مضر صحت اشیاء کے ہاتھوں بیمار ہونے کے بعد اصل دوائیں تک دست یاب نہیں ہوتیں، کیوں کہ ادویات میں بھی ملاوٹ کی بھرمار ہے۔
بہت سے تاجر اور دکان دار گاہک کو بہ ظاہر پوری چیز دیتے ہیں لیکن حقیقت میں مقدار سے خاصی کم ہوتی ہے۔ غرض یہ کہ آج بہت سے شقی انسان ناجائز دولت سمیٹنے کے لیے ہر وہ قدم اٹھا رہے ہیں جو حصول زر اور آخرت میں جہنم کے ایندھن کے علاوہ کچھ نہیں۔ انسان کی خودغرضی نے اسے اس قدر حریص بنا دیا ہے کہ وہ انسانیت کی تمام حدود پار کرنے اور دوسروں کی جان لینے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ ہر صوبے میں کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ موجود ہے۔
تعزیرات پاکستان کے باب 14 میں بھی اس حوالے سے قانون موجود ہے اور پیور فوڈ آرڈیننس 1960ء میں بھی سزائیں تجویز کی گئی ہیں مگر طبیعت میں خباثت ہو تو قانون کی حیثیت ہی کیا رہ جاتی ہے۔ مردہ ضمیر لوگ چند پیسوں کے لالچ میں انسانی زندگی سے کھیلتے ہی چلے جا رہے ہیں، ان کو خوف خدا ہے نہ فکر آخرت۔ ایسے غیر انسانی فعل پر ملاوٹ مافیا کو محض تھوڑا بہت جرمانہ یا عارضی طور پر ان کا کاروبار بند کیا جانا کافی نہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ انہیں عبرت ناک سزائیں دی جائیں اور اس سلسلے مزید سخت قانون بنایا جائے تاکہ انسانی زندگی سے کھیلنے والے ان بے ضمیروں کا قلع قمع ہوسکے۔
بلاشبہ انسانی جانوں سے کھیلنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت شعیبؑ کی قوم کا قصہ ذکر فرمایا ہے کہ ملاوٹ، دھوکا دہی اور ناپ تول میں کمی جیسی برائیاں اور قباحتیں ان میں پائی جاتی تھیں، انہی بُری عادتوں کے باعث ان پر اﷲ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا اور پوری قوم تباہ ہوگئی۔
اس واقعے میں امت محمدیؐ کے لیے ملاوٹ مافیا اور ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے عبرت ناک انجام کا عندیہ ہے۔ ایک بار حضور نبی کریمؐ نے گندم کے ایک ڈھیر میں ہاتھ ڈالا تو وہ نیچے سے بھیگا ہوا نکلا، تو آپؐ نے فرمایا: ''جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں۔'' دوسری حدیث میں حضور نبی کریم ﷺ نے بہت سخت وعید ارشاد فرمائی ہے، مفہوم: ''جو شخص عیب دار چیز فروخت کرے اور اس کے عیب کے بارے میں وہ خریدار کو نہ بتائے کہ اس کے اندر یہ خرابی اور عیب ہے تو ایسا شخص مسلسل اﷲ تعالیٰ کے غضب میں رہے گا اور ملائکہ ایسے شخص پر مسلسل لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔'' (ابن ماجہ)
اسلام نے تو مسلمانوں کو عدل سے بھی اگلے درجے یعنی احسان اور ایثار کی ہدایت فرمائی ہے۔ آج شریعت میں ممانعت اور سخت عذاب کی وعید اور ملک میں قانون موجود ہونے کے باوجود جا بہ جا ملاوٹ مافیا اور کم تولنے والوں کی بھرمار ہے۔ وہ کیسے مسلمان ہیں جن کے ہول ناک کرتوتوں سے انسانیت بھی شرما رہی ہے؟ لوگوں کی اصلاح کے لیے ذرائع ابلاغ اور علماء کو کردار ادا کرنا چاہیے۔
شریعت نے ہمیں دیانت داری، پورا تولنے، ملاوٹ سے بچنے اور جھوٹ سے پرہیز کی تلقین کی ہے، اور بلاشبہ یہ سنہری اصول اپنا کر ہی ہماری پوری قوم ہر طرح کی مصیبتوں اور آفات سے نجات پاسکتی ہے، اس عمل سے جہاں ہمارے مسائل حل ہوں گے، وہاں کاروبار میں برکت اور لوگوں کا اعتماد بھی حاصل ہوگا۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں اس حقیقت کا ادراک نصیب فرمائے اور ملاوٹ و ناپ تول میں کمی اور اس کے عذاب سے بچنے کی حقیقی فکر نصیب فرمائے۔ آمین
منافع خوری، ناپ تول میں کمی، ملاوٹ و مصنوعی مہنگائی ہمارا وطیرہ بن چکا ہے۔ چنے کے چھلکوں سے چائے کی پتی اور پھر اس میں مضر صحت رنگ۔ بیکریوں میں گندے انڈوں کا استعمال، آٹے میں ملاوٹ، سرخ مرچ میں اینٹوں و لکڑی کا برادہ، کالی مرچ میں پپیتے کے بیج کی ملاوٹ، معروف برانڈ کی کمپنیوں کے ڈبوں میں غیر معیاری اشیاء کی پیکنگ جیسی دھوکا دہی ہمارے معاشرے میں عام ہے۔
ملاوٹ مافیا کہیں خطرناک کیمیکل، سوڈیم کلورائیڈ، فارمالین، ڈٹرجنٹ اور پانی کی آمیزش سے دودھ تیار کرکے فروخت کررہے ہیں تو کہیں دودھ کی مقدار بڑھانے کے لیے اس میں آئل، یوریا اور دیگر مضر صحت کیمیکلز کو شامل کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح ٹافیوں، پرفیوم، شیمپو اور دیگر سامان میں مختلف بیماریوں کا باعث بننے والی اشیاء کی ملاوٹ کی جارہی ہے۔ کہیں گوشت کا وزن بڑھانے کے لیے ذبیحہ کی شہ رگ میں پانی کا پریشر استعمال کیا جارہا ہے تو کہیں گدھے، گھوڑے، کتّے اور مردار کا گوشت مدغم کرکے فروخت کیا جا رہا ہے۔
مرغیوں کی چربی سے بنے ناقص گھی اور تیل میں بچوں کے کھانے کی چیزیں تلی جارہی ہیں ۔ جب کہ ہماری نہروں میں شہر بھر کے گٹروں کا پانی ڈالا جارہا ہے جو نہروں سے کھیتوں میں جاتا ہے اور پھر اسی گندے اور زہریلے پانی سے سبزیاں کاشت کی جارہی ہیں۔
اس گھمبیر صورت حال کے نتیجے میں بچوں کی نشوونماء متاثر ہو رہی ہے اور شہریوں بالخصوص بچوں میں بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ اور ہر چوتھا پاکستانی منہ، جگر کے کینسر، ہیپاٹائٹس، گردوں کے امراض، شوگر، بلڈپریشر، جلدی امراض اور معدے کے عوارض میں مبتلا ہے۔ ملک بھر میں سرکاری و نجی اسپتالوں پر مریضوں کا رش دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ملک میں کوئی خطرناک وبا پھوٹ پڑی ہے ، شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جس میں کوئی مریض نہ ہو۔ اس پر ستم ظریفی یہ کہ مضر صحت اشیاء کے ہاتھوں بیمار ہونے کے بعد اصل دوائیں تک دست یاب نہیں ہوتیں، کیوں کہ ادویات میں بھی ملاوٹ کی بھرمار ہے۔
بہت سے تاجر اور دکان دار گاہک کو بہ ظاہر پوری چیز دیتے ہیں لیکن حقیقت میں مقدار سے خاصی کم ہوتی ہے۔ غرض یہ کہ آج بہت سے شقی انسان ناجائز دولت سمیٹنے کے لیے ہر وہ قدم اٹھا رہے ہیں جو حصول زر اور آخرت میں جہنم کے ایندھن کے علاوہ کچھ نہیں۔ انسان کی خودغرضی نے اسے اس قدر حریص بنا دیا ہے کہ وہ انسانیت کی تمام حدود پار کرنے اور دوسروں کی جان لینے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ ہر صوبے میں کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ موجود ہے۔
تعزیرات پاکستان کے باب 14 میں بھی اس حوالے سے قانون موجود ہے اور پیور فوڈ آرڈیننس 1960ء میں بھی سزائیں تجویز کی گئی ہیں مگر طبیعت میں خباثت ہو تو قانون کی حیثیت ہی کیا رہ جاتی ہے۔ مردہ ضمیر لوگ چند پیسوں کے لالچ میں انسانی زندگی سے کھیلتے ہی چلے جا رہے ہیں، ان کو خوف خدا ہے نہ فکر آخرت۔ ایسے غیر انسانی فعل پر ملاوٹ مافیا کو محض تھوڑا بہت جرمانہ یا عارضی طور پر ان کا کاروبار بند کیا جانا کافی نہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ انہیں عبرت ناک سزائیں دی جائیں اور اس سلسلے مزید سخت قانون بنایا جائے تاکہ انسانی زندگی سے کھیلنے والے ان بے ضمیروں کا قلع قمع ہوسکے۔
بلاشبہ انسانی جانوں سے کھیلنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت شعیبؑ کی قوم کا قصہ ذکر فرمایا ہے کہ ملاوٹ، دھوکا دہی اور ناپ تول میں کمی جیسی برائیاں اور قباحتیں ان میں پائی جاتی تھیں، انہی بُری عادتوں کے باعث ان پر اﷲ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا اور پوری قوم تباہ ہوگئی۔
اس واقعے میں امت محمدیؐ کے لیے ملاوٹ مافیا اور ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے عبرت ناک انجام کا عندیہ ہے۔ ایک بار حضور نبی کریمؐ نے گندم کے ایک ڈھیر میں ہاتھ ڈالا تو وہ نیچے سے بھیگا ہوا نکلا، تو آپؐ نے فرمایا: ''جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں۔'' دوسری حدیث میں حضور نبی کریم ﷺ نے بہت سخت وعید ارشاد فرمائی ہے، مفہوم: ''جو شخص عیب دار چیز فروخت کرے اور اس کے عیب کے بارے میں وہ خریدار کو نہ بتائے کہ اس کے اندر یہ خرابی اور عیب ہے تو ایسا شخص مسلسل اﷲ تعالیٰ کے غضب میں رہے گا اور ملائکہ ایسے شخص پر مسلسل لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔'' (ابن ماجہ)
اسلام نے تو مسلمانوں کو عدل سے بھی اگلے درجے یعنی احسان اور ایثار کی ہدایت فرمائی ہے۔ آج شریعت میں ممانعت اور سخت عذاب کی وعید اور ملک میں قانون موجود ہونے کے باوجود جا بہ جا ملاوٹ مافیا اور کم تولنے والوں کی بھرمار ہے۔ وہ کیسے مسلمان ہیں جن کے ہول ناک کرتوتوں سے انسانیت بھی شرما رہی ہے؟ لوگوں کی اصلاح کے لیے ذرائع ابلاغ اور علماء کو کردار ادا کرنا چاہیے۔
شریعت نے ہمیں دیانت داری، پورا تولنے، ملاوٹ سے بچنے اور جھوٹ سے پرہیز کی تلقین کی ہے، اور بلاشبہ یہ سنہری اصول اپنا کر ہی ہماری پوری قوم ہر طرح کی مصیبتوں اور آفات سے نجات پاسکتی ہے، اس عمل سے جہاں ہمارے مسائل حل ہوں گے، وہاں کاروبار میں برکت اور لوگوں کا اعتماد بھی حاصل ہوگا۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں اس حقیقت کا ادراک نصیب فرمائے اور ملاوٹ و ناپ تول میں کمی اور اس کے عذاب سے بچنے کی حقیقی فکر نصیب فرمائے۔ آمین