امان اللہ چلا گیا بہت اچھا ہوا

کسی سماج کاظرف ناپنا ہوتو اس کے اہل تخلیق وفن کار کا احوال اوران سے ہونے والا انفرادی و اجتماعی سلوک و خیالات دیکھ لو۔

گزشتہ دنوں پاکستانی فنونِ لطیفہ کا ایک بڑا نام امان اللہ خان چلا گیا۔سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا کہ ایک ہاؤسنگ سوسائٹی نے اپنے قبرستان میں امان اللہ خان کی تدفین کی اجازت دینے سے انکار کر دیا اور پنجاب کے وزیرِ اطلاعات فیاض الحسن چوہان نے موقع پر پہنچ کر حالات کو سنبھالا تب کہیں جا کے تدفین ہوئی۔

مگر چند روز بعد جب صورتِ حال واضح ہوئی تو معلوم ہوا کہ امان اللہ صاحب کے خاندان نے ایک کے بجائے قبرستان میں تین قبروں کے برابر جگہ کا مطالبہ کیا تاکہ قبر پر یادگار بنائی جا سکے۔سوسائٹی نے اصرار کیا کہ بائی لاز کے مطابق صرف ایک قبر کی جگہ دی جا سکتی ہے۔یہ بات سوشل میڈیا پر کہیں سے کہیں پہنچ گئی۔اور ایک وڈیو میں دکھایا گیا کہ صوبائی وزیرِ اطلاعات موقع پر پہنچ گئے۔قبر کی کھدائی ہو رہی ہے اور وہ سوسائٹی کے اہلکاروں کو اکھڑ انداز میں ہدایات دے رہے ہیں اور سوسائٹی کے اہل کار ان سے کہہ رہے ہیں کہ آپ سکون سے بات کریں ہمیں ڈکٹیشن نہ دیں وغیرہ وغیرہ۔

پھر چند دن بعد امان اللہ صاحب کا تعزیتی ریفرنس ہوا جس میں سرکاری اہل کاروں اور فن کاروں نے شرکت کی۔اس موقع پر بھی فیاض الحسن چوہان نے امان اللہ پر گفتگو کرنے کے بجائے اپنی تقریر میں ایک ایک فن کار کا نام لے لے کر جتایا کہ میرے آستانے سے کوئی خالی ہاتھ نہیں گیاکیونکہ میرا تو نام بھی فیاض ہے وغیرہ وغیرہ۔موصوف اپنی تقریر پلانے کے بعد دوسروں کے خیالات سنے بغیر رخصت ہوئے۔مگر وزیِرِ موصوف کی اس بے موقع گفتگو کا خالد بٹ اور سہیل احمد جیسے مقررین نے نوٹس لیا اور چوہان صاحب کے اندازاوراحسان جتانے والی گفتگو کی مذمت کی۔ میرے علم میں نہیں کہ تعزیتی ریفرنس میں کسی ذمے دار سرکاری عہدیدار کے رویے کے سبب کبھی ایسی شرمندانہ بدمزگی ہوئی ہو۔چلیے یہ بھی ہوتے دیکھ لیا۔

کسی سماج کا ظرف ناپنا ہو تو اس کے اہلِ تخلیق و فن کار کا احوال اور ان سے ہونے والا انفرادی و اجتماعی سلوک و خیالات دیکھ لو۔جھٹ پتا چل جائے گا کہ سماج کی رگوں میں کتنی زندگی باقی ہے یا کتنی مردنی گرفت کررہی ہے۔جیتا جاگتا کلیلیں بھرتا سماج اہلِ تخلیق و فن کو بھی قابلِ فخر و احترام قومی اثاثوں کی فہرست میں گردانتا ہے اور اس قومی اثاثے کو بڑھاتا چلا جاتا ہے۔ مگر عالمِ سکرات کی کگار پے جھولتا سماج ؟ اس کے بارے میں کیا کہنا۔وہ تو خود قابلِ ترس و تیمار داری ہے۔

اگر پاکستانی سماج کا جغرافیائی پوسٹ مارٹم کیا جائے تو ایسے کئی خانوادے ہیں جن کی آمدنی کا درست اندازہ صرف ان کے منشیوں کو ہے۔ان میں سے کچھ نہ صرف اپنی نسل در نسل روحانی ، علمی و تہذیبی میراث پر فخر کرتے ہیں بلکہ نثر اور شعر کی ان کی سمجھ حیرت انگیز ہے۔سیاست گھر کی باندی اور مقامی افسر شاہی ہمہ وقت داشتہ۔ان زمینی خداؤں کے لیے کسی کے کام آجانا چٹکی بجانے سے بھی آسان ہے۔ دائیں چھنگلیا کے اشارے پر ان کا کوئی بھی چاہنے والا یا تعلق دار کسی گدھے کو بھی سونے میں تول کے یہ سونا خیرات کرسکتا ہے۔

لیکن اسی سماج میں جب چند برس پہلے راجن پور میں نذیر فیض مگی جیسے شاعر کو دیکھا تو اس کی ٹوٹی کمانی والی عینک اور گھسی ہوئی چپل اس کے کلام پر واہ واہ برسانے والے کلف دار طاقت پرستوں کے کھوکھلے پن کو کچھ اور نمایاں کر رہی تھی۔بقول نذیر فیض '' خیال کرن نہ کرن ، عزت بہوں کریندن '' (خیال کریں نہ کریں، عزت بہت کرتے ہیں)۔ نذیر فیض پچاس برس سے زائد عرصے تک شاعری کرتے کرتے مر گیا ۔ جیتے جی شعری مجموعہ شائع نہ کر پایا۔ایسا وفات کے بعد ہی ممکن ہو پایا۔


عبید اللہ علیم اپنے ہم عصروں اور نئے تخلیق کاروں کو یہ تسلی دیتا دیتا خود بھی مرگیا کہ '' پیارے صاحب کسی شریف عورت کو کسی طوائف کے تمول سے پریشان نہیں ہونا چاہیے ''۔مگر ایک سفید پوش علیم کو یہ کہنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی ؟ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ ایک دلال سماج میں اہلِ ہنر کے پاس خود کو تسلی دینے والا تکیہ لازمی ہے کہ جس پر سر ٹیک کے رویا جاسکے۔

رہی بات پڑھے لکھے وسطی و لاہوری پنجاب کی تو وہاں آج بھی میراث سر آنکھوں پر اور میراثی جوتے کی نوک پر۔اہلِ قلم وہی بامراد کہ جس کی قلم کسی طاقتور پیڑ میں لگی ہو۔اور خیبر پختون خواہ اور بلوچستان کا کیا کہوں کہ جو عرصہ ہوا اہلِ تخلیق و فن کے لیے صرف ذہنی نہیں ، وجودی کربلا بن چکے ہیں۔

مگر بہادر ہیں دراصل وہ لوگ جنہوں نے نوسر بازی کی بیعت ، جہل کی منشی گیری ، رعونت کی پاپوش برداری، اختیار کی مالش اور بے علمی کی خوشامد اختیار کرنے پر آمادگی کے بجائے تخلیق کاری کے کرب کے وقتی خسارے کو ہی منافع جانا اور اپنے ہی آگے ہاتھ پھیلا کے زندگی گذار ڈالی۔ایک دلال سماج میں یوں سہولت سے گذر جانا بھلا کوئی معمولی کام ہے ؟

ہاں یہاں آپ جونک بن کے ہی آسودگی کاٹ سکتے ہیں۔مگر جونک بننا بھی تو ہر ایک کے بس میں نہیں۔ایک خاص طرح کی بے حسی درکار ہے ، گلاس میں گلاس اور آبخورے میں آبخورہ جیسا ڈھل جانے کی مائع جاتی صفت چاہیے اور ہر طرح کا فاسد و غیر فاسد خون چوسنے اور اسے حلال سمجھنے کا بوتا ہو تب ہی آپ ایک کامیاب کاروباری سماجی جونک بن سکتے ہیں۔اور جب ایک بار آپ آدمیت کے زینے سے اتر کے جونکوں کی دنیا میں داخل ہوگئے تو پھر کسی بھی طرح کے خون کی کیا کمی؟ جس طرح تخلیق کار جزوقتی نہیں ہوسکتا اسی طرح جونک بننے کا عمل بھی کل وقتی ہے۔یا تو آپ جونک ہیں یا پھر نہیں ہیں۔

تخلیق کاروں اور اصحابِ ہنر کے تذکرے سے فوراً یہ بات ذہنِ عمومی میں آتی ہے گویا ہم شاعری ، نثر ، فنونِ لطیفہ وغیرہ کے وابستگان کی بات کررہے ہیں۔مگر یہ دائرہ اتنا چھوٹا نہیں ۔ہر وہ کھلاڑی جو اپنے انداز سے کھیل کے میدان میں اپنا اظہار کرنا چاہتا ہے ، ہر وہ سائنسدان جس کے پاس ایک کایا کلپ آئیڈیا ہے ، ہر وہ میڈیا پرسن جو بھیڑ چال سے نکل کے کچھ نیا کرنا چاہتا ہے ، ہر وہ بیورو کریٹ جو اپنے کام میں انسانیت اور بنیادی اخلاقیات کی آمیزش کرکے اسے انسان دوست بنانا چاہتا ہے ، ہر وہ جنرل جو روایتی وار گیم کے مضمحل دماغ میں تازہ خون دوڑانے کے لیے بیتاب ہے ، ہر وہ عالم جو عقیدے کو پرپیچ در پیچ دستار سے آزاد کر کے سر کو ہوا لگوانے کا خطرہ مول لے رہا ہے ، ہر وہ زن و مرد و طفل جو ننگ کو ستر کہنے سے انکاری ہے۔یہ سب کے سب اہلِ تخلیق و ہنر ہیں اور ان سب کو ایک جونک پرور سماج میں خسارے کی سرمایہ کاری درپیش ہے کہ جس میں اپنا وجود برقرار رکھنے کی صعوبتیں ہی ان کا انعام اور علتِ کج کلاہی ہی ان کا سکون ہے۔

آج یہ منافقت پسند سماج اپنی ہی کھوکھلاہٹ کی دلدل میں خود کو آہستہ آہستہ دھنستے دیکھ تو رہا ہے مگر خود کو بچانے کے لیے کچھ زیادہ نہیں کر پارہا۔بچانے کے لیے ہاتھ ضروری ہیں۔اور سماج کے ہر شعبے کے اہلِ تخلیق و فن کی حوصلہ افزائی و توقیر و اعتراف ہی وہ ہاتھ بخشتے ہیں جنھیں ادھر ادھر چلا کے سماج خود کو بچاتا ہے۔ امان اللہ چلا گیا بہت اچھا ہوا۔کم ازکم اپنا ہی خون جلانے والا ایک تخلیق کار تو پرسکون ہوا۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)
Load Next Story