کب تک عمارتیں گرتی رہیں گی
غیر قانونی تعمیرات کے خلاف جس طرح ادارے کو ایکشن لینا چاہیے نہیں لیا جاتا۔
کراچی بھی کیا شہر ہے ہر وقت مسائل اور مصائب کا شکار رہتا ہے۔ یہاں کے شہری پانی، بجلی، گیس اورگندگی جیسے مسائل سے تو پہلے سے ہی نبرد آزما ہیں ساتھ ہی زلزلوں اور عمارتوں کے گرنے کے سانحات سے بھی دوچار ہیں۔ بدقسمتی سے یہ شہر عمارتوں کے گرنے سے پیدا ہونے والے زلزلوں کی مسلسل زد میں ہے اور یہ انسانی غلطیوں سے رونما ہو رہے ہیں۔
یہ غلطیاں ایسی ہیں جو رکنے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔ ابھی مشکل سے دو ماہ ہی گزرے ہیں کہ دسمبرکے مہینے میں رنچھوڑ لائن کے علاقے میں ایک کئی منزلہ بلڈنگ اچانک زمین بوس ہوگئی تھی جس کی وجہ سے درجنوں رہائشی بے گھر ہوگئے تھے۔ شہر میں رونما ہونے والے ان سانحات کی ذمے داری متعلقہ اداروں پر عائد ہوتی ہے مگر وہ ایسی خاموشی اختیارکر لیتے ہیں جیسے کہ ان کا کوئی قصور ہی نہیں ہے۔
البتہ سیاسی اور سماجی رہنما ضرور عمارتوں کی تعمیرات سے متعلق ادارے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو اس کے فرائض سے غفلت برتنے پر تنقید کا نشانہ بنانے لگتے ہیں سانحات کے متاثرین کے پرزور احتجاج کا بھی متعلقہ ادارہ کوئی اثر نہیں لیتا اور اپنی بے ہنگم روش پر بدستور قائم و دائم رہتا ہے۔ اس شہر میں جو بھی عمارتیں تعمیر ہوتی ہیں خواہ وہ چھوٹی ہوں یا بڑی ان کی تعمیرکی اجازت یہی ادارہ دیتا ہے اور تعمیر کے عمل کے دوران ان کی نگرانی کرنا بھی اسی ادارے کی ذمے داری ہے۔ مکانوں اور بلڈنگوں کی تعمیر ایک انسانی مسئلہ ہے۔
تعمیرات میں غیر معیاری میٹریل کے استعمال اور نقشے سے ہٹ کر عمارت تعمیر کرنے سے روکنا اسی کی ذمے داری ہے مگر افسوس کہ صرف ایک یہی محکمہ کیا حکومت سندھ کا کوئی بھی محکمہ ایسا نہیں ہے جس کی کارکردگی کو تسلی بخش قرار دیا جاسکے اور وہاں رشوت کا چلن نہ ہو۔ حالانکہ سپریم کورٹ آف پاکستان برابر سندھ حکومت کی کارکردگی پر سوالات اٹھاتی رہتی ہے اور اسے اس کے فرائض سے آگاہ کرتی رہتی ہے مگر مشاہدے میں آتا ہے کہ اس پر ان احکامات اور مشوروں کا کوئی اثر ہوتا نظر نہیں آتا۔
رنچھوڑلائن میں زمین بوس ہونے والی عمارت کے گرنے کی وجوہات اور اس سانحے کے ذمے داروں کا تعین کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، ابھی تک اس کی رپورٹ نہیں آئی ہے کہ اب شہر میں یہ نیا سانحہ رونما ہو گیا ہے۔ گزشتہ چھ مارچ کو دن کے بارہ بجے گولیمار کے علاقے میں واقع فاطمہ بلڈنگ اچانک زمین بوس ہوگئی۔ یہ ایک چھ منزلہ بلڈنگ تھی جس کے گرنے سے اس سے ملحق دو اور عمارتیں بھی گر گئیں۔ اس عمارت کے پلر اور بیم جو کہ دو منزلوں کا ہی بوجھ برداشت کرسکتے تھے وہ چھ منزلوں کا بوجھ کیا اٹھا پاتے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ عمارت کے گرتے وقت اس پر مزید ایک اور منزل کی تعمیر کا کام جاری تھا۔
اس عمارت اور اس سے ملحق دو عمارتوں کے گرنے سے 27 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن میں بچے، عورتیں اور مرد شامل ہیں۔ اس بلڈنگ کے ایک گھر میں شکارپور سے ان کے رشتے دار آئے ہوئے تھے یہ تمام کے تمام سات افراد ہلاک ہوگئے۔ ان کی لاشیں شکارپور پہنچائی گئیں جہاں ان کی تدفین کردی گئی ایسے المناک سانحات کے باوجود میں غیر قانونی عمارات کی بلا روک ٹوک تعمیرات جاری ہیں۔
سندھ کے وزیر بلدیات سید ناصر حسین شاہ نے اس عمارت کے گرنے اور انسانی جانوں کے نقصان پر جو بیان دیا ہے وہ سراسر سندھ حکومت کے خلاف ہے انھوں نے کہا ہے کہ کراچی میں غیر قانونی تعمیرات سے حکومت سندھ خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتی یعنی کہ سندھ حکومت کو اپنا قصور تسلیم کرنا چاہیے مگر سوال یہ اٹھتا ہے کہ وہ عمارتوں کے گرنے کی ذمے داری خود اپنے سر کیوں نہیں لیتے کیونکہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی تو براہ راست ان کی ہی وازرت کے تحت آتی ہے۔
اس کا مطلب صاف ہے کہ وہ اس سانحے کی ذمے داری اپنے سر لیتے ہوئے کترا رہے ہیں اگر یہی حالات رہے تو پھر اصلاح کس طرح ہوگی؟ بلدیاتی ادارے اور سندھ کے دوسرے محکموں کے حکام کس طرح اپنی ذمے داری محسوس کریں گے اور اپنے فرائض خدمت خلق کے جذبے کے تحت ایمانداری سے انجام دیں گے۔
اس وقت شہر میں سیکڑوں غیر قانونی طور پر تعمیر کی گئی عمارتیں موجود ہیں متعلقہ ادارے کے ایک بیان کے مطابق ان میں سے نو سو کے قریب گرائی جاچکی ہیں مگر سوال یہ ہے کہ باقی کو کب گرایا جائے گا؟ شہر میں مخدوش عمارتوں کی بھی کمی نہیں ہے جو بہت پرانی ہوچکی ہیں اور رہائش کے قابل نہیں رہی ہیں۔ ان کے گرنے کا ہر وقت خدشہ بنا رہتا ہے مگر انھیں نہ گرانے میں شاید اس ادارے کے افسران کا مفاد وابستہ ہو۔
اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ پورا شہر خطرے کی زد میں ہے اور کراچی کے عوام کسی بھی وقت کسی بڑے حادثے سے دوچار ہوسکتے ہیں جس کی وجہ ظاہر ہے کہ تعمیراتی اصولوں اور ضابطوں کو نظرانداز کیا جانا ہے تاہم عمارات کو تعمیر کرانے والے ایسے لوگ بھی جو غیر قانونی طریقے اور تعمیرات کے معیار سے روگردانی کرتے ہیں کسی طرح بھی معاف کیے جانے کے حق دار نہیں ہیں۔
شہر کے مہنگے علاقوں میں اب لیاقت آباد ، گولیمار اور رضویہ سوسائٹی کا نام بھی لیا جاتا ہے یہاں زمینوں اور مکانوں کی قیمتیں بہت بڑھی ہوئی ہیں اور مکانوں کے کرائے بھی زیادہ ہیں چنانچہ یہاں کے مالکان اکثر کرایہ پر مکان دینے کے لیے متعلقہ ادارے کی ملی بھگت سے اپنے مکانوں میں کئی کئی منزلیں بنا رہے ہیں۔
گولیمار کے جس علاقے میں فاطمہ بلڈنگ گری ہے وہاں کوئی بھی مکان پانچ یا چھ منزلہ سے کم نہیں ہے جب کہ پلاٹوں کا رقبہ چالیس سے ساٹھ گز ہے۔یہاں متعلقہ ادارے سے پاس کرائے گئے نقشوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جا رہی ہے مگر متعلقہ ادارے کا اس غیر قانونی تعمیرات پر خاموشی اختیار کرنا سوالیہ نشان ہے؟
متعلقہ ادارے کے انسپکٹر حضرات کے بارے میں اکثر یہ شکایات آتی رہتی ہیں کہ وہ عمارتوں کی تعمیرات کی جانچ کے سلسلے میں مختلف علاقوں کا دورہ ضرور کرتے رہتے ہیں مگر وہ غیر قانونی تعمیرات جو ان کی ملی بھگت سے چل رہی ہوتی ہیں وہاں وہ کچھ نہیں کہتے البتہ جہاں قانون کے مطابق کوئی عمارت تعمیر کی جا رہی ہوتی ہے وہ وہاں لازمی طور پر عمارت کی تعمیر میں مختلف نقص نکال کر مالک کو تنگ کرتے ہیں اور بغیر کچھ لیے ہرگز مالک کو نہیں بخشتے۔
اسی طرح نقشہ پاس کراتے وقت بھی مختلف اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں اور اگر کوئی بغیر کچھ دیے نقشہ پاس کرانا چاہے تو یہ ناممکن ہے اور اگر کوئی نہ دینے کا عہد ہی کرلے تو پھر ایسے شخص کا نقشہ مہینوں میں پاس ہوتا ہے اور جب تک تو میٹریل کی قیمتیں کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہیں اور بعض ایسے لوگ بد ظن ہوکر اپنے تعمیری کام سے ہی ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔
سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ہی ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آشکار داوڑ نے اعتراف کیا ہے کہ غیر قانونی تعمیرات کے خلاف جس طرح ادارے کو ایکشن لینا چاہیے نہیں لیا جاتا۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی کارکردگی پر سپریم کورٹ آف پاکستان بھی بارہا سوال اٹھا چکی ہے۔
اس حوالے سے چھ فروری کو چیف جسٹس گلزار احمد کراچی میں تجاوزات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران سندھ حکومت، سیکریٹری بلدیات اور میئر کراچی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی مسٹر ظفر احسن کے ساتھ ادارے کے تمام اعلیٰ افسران کو عہدے سے ہٹانے کا حکم دے چکے ہیں۔
کیا سپریم کورٹ کی تنبیہ کے باوجود بھی یہ ادارہ انی اصلاح کرنے کو تیار نہیں ہے تو پھر وزیر اعلیٰ سندھ اپنی حکومت کی گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالا دینے کے لیے کم سے کم ادارے کو لگام دینے پر ضرور توجہ مرکوز کریں کیونکہ اس کی کوتاہی سے شہر میں مسلسل انسانی المیے جنم لے رہے ہیں۔
یہ غلطیاں ایسی ہیں جو رکنے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔ ابھی مشکل سے دو ماہ ہی گزرے ہیں کہ دسمبرکے مہینے میں رنچھوڑ لائن کے علاقے میں ایک کئی منزلہ بلڈنگ اچانک زمین بوس ہوگئی تھی جس کی وجہ سے درجنوں رہائشی بے گھر ہوگئے تھے۔ شہر میں رونما ہونے والے ان سانحات کی ذمے داری متعلقہ اداروں پر عائد ہوتی ہے مگر وہ ایسی خاموشی اختیارکر لیتے ہیں جیسے کہ ان کا کوئی قصور ہی نہیں ہے۔
البتہ سیاسی اور سماجی رہنما ضرور عمارتوں کی تعمیرات سے متعلق ادارے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو اس کے فرائض سے غفلت برتنے پر تنقید کا نشانہ بنانے لگتے ہیں سانحات کے متاثرین کے پرزور احتجاج کا بھی متعلقہ ادارہ کوئی اثر نہیں لیتا اور اپنی بے ہنگم روش پر بدستور قائم و دائم رہتا ہے۔ اس شہر میں جو بھی عمارتیں تعمیر ہوتی ہیں خواہ وہ چھوٹی ہوں یا بڑی ان کی تعمیرکی اجازت یہی ادارہ دیتا ہے اور تعمیر کے عمل کے دوران ان کی نگرانی کرنا بھی اسی ادارے کی ذمے داری ہے۔ مکانوں اور بلڈنگوں کی تعمیر ایک انسانی مسئلہ ہے۔
تعمیرات میں غیر معیاری میٹریل کے استعمال اور نقشے سے ہٹ کر عمارت تعمیر کرنے سے روکنا اسی کی ذمے داری ہے مگر افسوس کہ صرف ایک یہی محکمہ کیا حکومت سندھ کا کوئی بھی محکمہ ایسا نہیں ہے جس کی کارکردگی کو تسلی بخش قرار دیا جاسکے اور وہاں رشوت کا چلن نہ ہو۔ حالانکہ سپریم کورٹ آف پاکستان برابر سندھ حکومت کی کارکردگی پر سوالات اٹھاتی رہتی ہے اور اسے اس کے فرائض سے آگاہ کرتی رہتی ہے مگر مشاہدے میں آتا ہے کہ اس پر ان احکامات اور مشوروں کا کوئی اثر ہوتا نظر نہیں آتا۔
رنچھوڑلائن میں زمین بوس ہونے والی عمارت کے گرنے کی وجوہات اور اس سانحے کے ذمے داروں کا تعین کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، ابھی تک اس کی رپورٹ نہیں آئی ہے کہ اب شہر میں یہ نیا سانحہ رونما ہو گیا ہے۔ گزشتہ چھ مارچ کو دن کے بارہ بجے گولیمار کے علاقے میں واقع فاطمہ بلڈنگ اچانک زمین بوس ہوگئی۔ یہ ایک چھ منزلہ بلڈنگ تھی جس کے گرنے سے اس سے ملحق دو اور عمارتیں بھی گر گئیں۔ اس عمارت کے پلر اور بیم جو کہ دو منزلوں کا ہی بوجھ برداشت کرسکتے تھے وہ چھ منزلوں کا بوجھ کیا اٹھا پاتے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ عمارت کے گرتے وقت اس پر مزید ایک اور منزل کی تعمیر کا کام جاری تھا۔
اس عمارت اور اس سے ملحق دو عمارتوں کے گرنے سے 27 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن میں بچے، عورتیں اور مرد شامل ہیں۔ اس بلڈنگ کے ایک گھر میں شکارپور سے ان کے رشتے دار آئے ہوئے تھے یہ تمام کے تمام سات افراد ہلاک ہوگئے۔ ان کی لاشیں شکارپور پہنچائی گئیں جہاں ان کی تدفین کردی گئی ایسے المناک سانحات کے باوجود میں غیر قانونی عمارات کی بلا روک ٹوک تعمیرات جاری ہیں۔
سندھ کے وزیر بلدیات سید ناصر حسین شاہ نے اس عمارت کے گرنے اور انسانی جانوں کے نقصان پر جو بیان دیا ہے وہ سراسر سندھ حکومت کے خلاف ہے انھوں نے کہا ہے کہ کراچی میں غیر قانونی تعمیرات سے حکومت سندھ خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتی یعنی کہ سندھ حکومت کو اپنا قصور تسلیم کرنا چاہیے مگر سوال یہ اٹھتا ہے کہ وہ عمارتوں کے گرنے کی ذمے داری خود اپنے سر کیوں نہیں لیتے کیونکہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی تو براہ راست ان کی ہی وازرت کے تحت آتی ہے۔
اس کا مطلب صاف ہے کہ وہ اس سانحے کی ذمے داری اپنے سر لیتے ہوئے کترا رہے ہیں اگر یہی حالات رہے تو پھر اصلاح کس طرح ہوگی؟ بلدیاتی ادارے اور سندھ کے دوسرے محکموں کے حکام کس طرح اپنی ذمے داری محسوس کریں گے اور اپنے فرائض خدمت خلق کے جذبے کے تحت ایمانداری سے انجام دیں گے۔
اس وقت شہر میں سیکڑوں غیر قانونی طور پر تعمیر کی گئی عمارتیں موجود ہیں متعلقہ ادارے کے ایک بیان کے مطابق ان میں سے نو سو کے قریب گرائی جاچکی ہیں مگر سوال یہ ہے کہ باقی کو کب گرایا جائے گا؟ شہر میں مخدوش عمارتوں کی بھی کمی نہیں ہے جو بہت پرانی ہوچکی ہیں اور رہائش کے قابل نہیں رہی ہیں۔ ان کے گرنے کا ہر وقت خدشہ بنا رہتا ہے مگر انھیں نہ گرانے میں شاید اس ادارے کے افسران کا مفاد وابستہ ہو۔
اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ پورا شہر خطرے کی زد میں ہے اور کراچی کے عوام کسی بھی وقت کسی بڑے حادثے سے دوچار ہوسکتے ہیں جس کی وجہ ظاہر ہے کہ تعمیراتی اصولوں اور ضابطوں کو نظرانداز کیا جانا ہے تاہم عمارات کو تعمیر کرانے والے ایسے لوگ بھی جو غیر قانونی طریقے اور تعمیرات کے معیار سے روگردانی کرتے ہیں کسی طرح بھی معاف کیے جانے کے حق دار نہیں ہیں۔
شہر کے مہنگے علاقوں میں اب لیاقت آباد ، گولیمار اور رضویہ سوسائٹی کا نام بھی لیا جاتا ہے یہاں زمینوں اور مکانوں کی قیمتیں بہت بڑھی ہوئی ہیں اور مکانوں کے کرائے بھی زیادہ ہیں چنانچہ یہاں کے مالکان اکثر کرایہ پر مکان دینے کے لیے متعلقہ ادارے کی ملی بھگت سے اپنے مکانوں میں کئی کئی منزلیں بنا رہے ہیں۔
گولیمار کے جس علاقے میں فاطمہ بلڈنگ گری ہے وہاں کوئی بھی مکان پانچ یا چھ منزلہ سے کم نہیں ہے جب کہ پلاٹوں کا رقبہ چالیس سے ساٹھ گز ہے۔یہاں متعلقہ ادارے سے پاس کرائے گئے نقشوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جا رہی ہے مگر متعلقہ ادارے کا اس غیر قانونی تعمیرات پر خاموشی اختیار کرنا سوالیہ نشان ہے؟
متعلقہ ادارے کے انسپکٹر حضرات کے بارے میں اکثر یہ شکایات آتی رہتی ہیں کہ وہ عمارتوں کی تعمیرات کی جانچ کے سلسلے میں مختلف علاقوں کا دورہ ضرور کرتے رہتے ہیں مگر وہ غیر قانونی تعمیرات جو ان کی ملی بھگت سے چل رہی ہوتی ہیں وہاں وہ کچھ نہیں کہتے البتہ جہاں قانون کے مطابق کوئی عمارت تعمیر کی جا رہی ہوتی ہے وہ وہاں لازمی طور پر عمارت کی تعمیر میں مختلف نقص نکال کر مالک کو تنگ کرتے ہیں اور بغیر کچھ لیے ہرگز مالک کو نہیں بخشتے۔
اسی طرح نقشہ پاس کراتے وقت بھی مختلف اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں اور اگر کوئی بغیر کچھ دیے نقشہ پاس کرانا چاہے تو یہ ناممکن ہے اور اگر کوئی نہ دینے کا عہد ہی کرلے تو پھر ایسے شخص کا نقشہ مہینوں میں پاس ہوتا ہے اور جب تک تو میٹریل کی قیمتیں کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہیں اور بعض ایسے لوگ بد ظن ہوکر اپنے تعمیری کام سے ہی ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔
سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ہی ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آشکار داوڑ نے اعتراف کیا ہے کہ غیر قانونی تعمیرات کے خلاف جس طرح ادارے کو ایکشن لینا چاہیے نہیں لیا جاتا۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی کارکردگی پر سپریم کورٹ آف پاکستان بھی بارہا سوال اٹھا چکی ہے۔
اس حوالے سے چھ فروری کو چیف جسٹس گلزار احمد کراچی میں تجاوزات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران سندھ حکومت، سیکریٹری بلدیات اور میئر کراچی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی مسٹر ظفر احسن کے ساتھ ادارے کے تمام اعلیٰ افسران کو عہدے سے ہٹانے کا حکم دے چکے ہیں۔
کیا سپریم کورٹ کی تنبیہ کے باوجود بھی یہ ادارہ انی اصلاح کرنے کو تیار نہیں ہے تو پھر وزیر اعلیٰ سندھ اپنی حکومت کی گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالا دینے کے لیے کم سے کم ادارے کو لگام دینے پر ضرور توجہ مرکوز کریں کیونکہ اس کی کوتاہی سے شہر میں مسلسل انسانی المیے جنم لے رہے ہیں۔