کرونا وائرس کی وباء
پاکستانی گلوکاروں، سازندوں اور ایونٹ آرگنائزرز سمیت دنیا بھر کے فنکاروں کو اربوں ڈالر کا نقصان
دنیا بھر میں کورونا وائرس وباء نے اب تک دنیا کے سو سے زائد ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ امریکہ، یورپ، کینیڈا، افریقہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جاپان، چائنہ، ایران، مڈل ایسٹ، انڈیا اور پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
جہاں اس وائرس کے متاثرین بڑھ رہے ہیں ، وہیں مرنے والوں کی تعداد بھی تیزی سے بڑھنے لگی ہے۔ شروع میں تو صرف چائنہ اور ایران ہی اس وائرس کا شکار ہوئے تھے لیکن اب تو یہ وائرس ہر جگہ پھیلتا جارہا ہے۔ اسی وجہ سے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کئے جارہے ہیں۔ وباء تو اس نے روزمرہ زندگی کا تیزی سے چلتا پہیہ روک دیا ہے مختلف شعبوں کی طرح فنون لطیفہ کے تمام شعبے بھی اس سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔
اس بات سے تو سبھی واقف ہونگے کہ جیسے ہی موسم سرما کے بعد بہار کا موسم آتا ہے تو پھر ثقافتی سرگرمیاں جس طرح پاکستان میں عروج پر ہوتی ہیں، اسی طرح دنیا بھر میں موسم کی اس بدلتی رت کو خوش آمدید کہتے ہوئے رنگا رنگ پروگرام سجائے جاتے ہیں۔ میوزیکل پروگرام، فیشن شو، ڈانس ایونٹ ، فلموں کے پریمئر اور اس کے ساتھ ساتھ دیگر ثقافتی تقاریب کو سجانے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ شیڈول کے مطابق گزشتہ برسوں کی طرح اس سال بھی دنیا بھر میں موسم بہار کی مناسبت سے رنگارنگ پروگرام منعقد کئے جانے تھے لیکن کورونا وائرس کے تیزی سے پھیلتے اثرات نے حکومتوں کو تمام پروگرام ہنگامی بنیادوں پر منسوخ کرنے پر مجبور کردیا۔ محتاط اندازہ لگایا جائے تو یہ نقصان اربوں ڈالر کا ہوسکتا ہے لیکن ماہرین کی رائے کے مطابق یہ نقصان اس سے کہیں زیادہ ہوگا اور اس کے اثرات دنیا بھر کی معیشت کی بگڑتی صورتحال کے ذریعے صاف نظر آئیں گے۔
اگر بات کریں پاکستان کی تو یہاں جس طرح بڑے پیمانے پر ثقافتی پروگرام ترتیب دیئے جاتے ہیں ، اس سے کہیں زیادہ بڑے پیمانے پر دنیا کے بیشتر ممالک میں ہونے والے میوزک ، فیشن اور فلم سے وابستہ پروگراموں کے علاوہ فنون لطیفہ کی دیگر تقریبات کو منسوخ کردیا گیا ہے جبکہ لوگوں کے ہجوم پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔
یہ خبر واقعی ہی پاکستانی میوزک اور ایونٹ آرگنائزر انڈسٹری کیلئے بہت بری ہے۔ کورونا وائرس کے پھیلنے سے امریکہ، کینیڈا، یورپ ، برطانیہ ، آسٹریلیا اور مڈل ایسٹ سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں 23 مارچ کے حوالے سے ہونے والے میوزک کنسرٹس منسوخ کر دیئے گئے ہیں۔ جس کی مد میں پاکستانی گلوکاروں ، سازندوں اور آرگنائزرز کو کروڑوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔
پہلے ہی پاکستان میں دہشت گردی سمیت دیگر اہم مسائل کی وجہ سے پاکستانی گلوکاروں ، سازندوں اور اورگنائزرز کے لیے یہاں کام کرنا مشکل ہوچکا تھا اور ایسے میں اکثریت امریکا ، کینیڈا ، برطانیہ، یورپ اور مڈل ایسٹ سمیت دنیا کے دیگر ممالک کی مارکیٹ میں منافع بخش کاروبار کرنے کو ترجیح دینے لگے تھے۔ اسی لئے بین الاقوامی شہرت یافتہ قوال استاد راحت فتح علی خان، عاطف اسلم ، علی ظفر، عارف لوہار ، حدیقہ کیانی ، سجاد علی ، ساحر علی بگا ، ندیم عباس لونے والا ، سلیم جاوید، حمیراارشد عابدہ پروین، غلام علی ، عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی، حامد علی خاں، شفقت سلامت، سارہ رضا خان، ائمہ بیگ، عاصم اظہر، صنم ماروی، شاہدہ منی، سائرہ نسیم، شبنم مجید، شازیہ منظور، سٹرنگز، علی عظمت، امانت علی، علی شیر، سکندر بدرمیانداد، ملکو، مظہر راہی، علی بدر، عمران عزیز میاں، شیراز اوپل اور غلام عباس سمیت بہت سے دوسرے گلوکار بیرون ممالک ہونے والے میوزک پروگراموں میں پرفارم کرکے جہاں پاکستان کا نام روشن کرتے ہیں، وہیں وہ بہت سا منافع بخش کاروبار بھی کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔
اس سلسلہ میں ان کے ساتھ جہاں میوزیشنز، ساؤنڈ انجینئرز کی بڑی ٹیم کو بہتر روزگار ملتا ہے ۔ ارگنائزرز کی بڑی تعداد بھی اس مد میں منافع بخش کاروبار کرنے میں کامیاب رہتی ہے۔ لیکن گذشتہ دو ماہ کے دوران کورونا وائرس نے چین اور ایران کے بعد یورپ، امریکہ، کینیڈا اور خلیجی ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اسی لیے ان ممالک میں ہونے والے 23مارچ کے خصوصی پروگراموں کے ساتھ ساتھ دیگر میوزک کانسرٹس بھی منسوخ کردیئے گئے۔ منسوخ ہونے والے کنسرٹس میں جہاں پاکستانی گلوکاروں کے پروگرام شامل ہیں ، وہیں بھارت سمیت مغربی ممالک کے معروف گلوکاروں کے پروگرام بھی منسوخ کیے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ امریکہ ،کینیڈا، آسٹریلیا، یورپ میں ہونے والے فلم ایوارڈز اور دیگر تقریبات کو بھی فی الحال ملتوی کرنے کے احکامات جاری کر دیئے گئے ہیں۔ اس سلسلہ میں پاکستانی فنکاروں کو کروڑوں روپوں کا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے اور دوسری جانب مغربی ممالک کے فنکاروں کو اربوں ڈالر کا نقصان ہورہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے جاری کردہ ہدایات کے مطابق 50 سے زائد لوگوں کے ہجوم پر پابندی عائد کردی گئی ہے جس کا مقصد احتیاط کرنا ہے کیونکہ یہ وائرس پھیلتا ہے اور اس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
دیکھا جائے تو پاکستان میں فنون لطیفہ سے وابستہ فنکاروں کی بڑی تعداد اس سے مالی طور پر زیادہ متاثر ہوگی، کیونکہ یہاں ہونے والے میوزک کنسرٹس، فیش ویک اور دیگر پروگراموں کے علاوہ سٹیج ڈرامے اور سینما گھروں میں فلموں کے شو بھی کینسل ہونے سے بھاری نقصان ہوگا جبکہ بیرون ممالک میں بھی ایسا ہی کیا جارہا لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ اس صورتحال میں وہاں کی حکومتیں فنون لطیفہ سے وابستہ افراد کو مکمل طور پر سپورٹ کرینگی اور وہ حالات کے سدھرنے پر دوبارہ معمول کے کاموں میں مصروف ہو جائیں گے جبکہ ہمارے ہاں فنکاروں کی اکثریت مالی مشکلات سے ایسی دو چار ہوگی کہ ان کا اس سے نکلنا انتہائی مشکل ہو جائے گا۔
اس طرح کی بہت سی مثالیں ہمیں مغرب میں ملتی ہیں، وہاں پر کام کرنے والے گلوکار اداکار میوزیشن پینٹر اور ڈائریکٹروں کے ساتھ تکنیکی عملہ کو ہر طرح سے حکومت کے جانب سے مالی سپورٹ حاصل ہوتی ہے انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ان کو زندگی کے تمام شعبوں میں سہولیات فراہم کی جاتی ہیں لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہے یہاں پر فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں سے وابستہ فنکاروں کو تیسرے درجے کا انسان سمجھا جاتا ہے جوکہ غلط ہے لیکن حقیقت ایسی ہی تلخ ہے، جس سے نظریں نہیں چرائی جاسکتی۔
حالانکہ پاکستان کے عظیم فنکاروں نے اپنے فن کی بدولت دنیا بھر میں وطن عزیز کا نام روشن کیا ہے۔ اس سلسلہ میں استاد نصرت فتح علی خاں، ریشماں ، مہدی حسن ، ملکہ ترنم نور جہاں ، فریدہ خانم ، عابدہ پروین اور غلام علی سمیت دیگر کے نام شامل ہیں۔ ان فنکاروں نے اپنے بے مثل فن کی بدولت دنیا بھر میں سبز ہلالی پرچم لہرایا اور اور امن کا پیغام عام کیا، ان فنکاروں کی گراں قدر خدمات پر انہیں اعلی سول اعزازات سے بھی نوازا گیا لیکن معاشرے میں انہیں وہ مقام حاصل نہ ہو سکا جس کے وہ حقدار تھے اس لیے مغربی ممالک اور پاکستان میں فنکاروں کے ساتھ ہونے والے سلوک کا فرق بہت واضح ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستان میں کرونا وائرس کی وجہ سے جہاں جانی نقصان کا خدشہ بڑھ رہا ہے، وہیں آنے والے دنوں میں مالی مشکلات کے طوفان کے آنے کے خطرات بھی منڈلانے لگے ہیں۔
اس حوالے سے شوبز انڈسٹری کے سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سے آج تک شوبز انڈسٹری کو یہاں وہ مقام نہیں مل سکا جس کی توقع کی جاتی ہے پاکستان کے نامور فنکاروں، گلوکاروں ،سازندوں، فیشن ڈیزائنرز ،ماڈلز ،رقاصوں اور دیگر تکنیکی شعبوں کے ماہرین نے اپنی صلاحیتوں کے بل پر ایسی مثالیں قائم کیں کہ جن پر انہیں دنیا بھر میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ خاص طور پر پڑوسی ملک بھارت میں پاکستانی فنون لطیفہ سے وابستہ فنکاروں نے اپنے فن کی بدولت جو کام کر کے دکھایا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔
ایک دور ایسا بھی آیا ہے جس میں پاکستانی گلوکاروں نے بالی ووڈ میں بھارتی گلوکاروں کی چھٹی کرا دی اور انہیں فلموں کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا لیکن پھر سوچی سمجھی سازش کے تحت ایسا "کھیل" رچایا گیا کہ جس کا مقصد صرف اور صرف پاکستانی فنکاروں کو نقصان پہنچانا اور بھارتی گلوکاروں کو کام دلانا تھا۔ اس سازش کو کامیاب بنانے کے لیے جہاں اینٹی پاکستان اور اینٹی مسلم ، انتہا پسند ہندوؤں کی جماعت شیوسینا نے اہم کردار ادا کیا، وہیں بھارتی جنتا پارٹی جو کہ حکمران جماعت ہے نہیں بھی اپنا خوب کردار نبھایا بالی ووڈ میں پاکستانی فنکاروں گلوکاروں اور کامیڈین کے کام کرنے پر پابندی عائد کی گئی تو وہیں دنیا بھر کو بھارت کا گھناؤنا چہرہ بھی دیکھنے کا مل گیا۔
اس صورتحال میں پاکستانی فنکاروں کے پاس یورپ امریکہ کینیڈا آسٹریلیا مڈل ایسٹ چائنہ اور دیگر ممالک کی مارکیٹ بچی تھی جہاں ان کا مقابلہ بھارت کی ترقی یافتہ شوبز انڈسٹری سے ہونے لگا تھا مگر اس کے باوجود پاکستانی فنکار اپنی ایسی چھاپ چھوڑ کر آتے تھے کہ سب حیران رہ جاتے تھے، مگر اب کورونا وائرس کی وجہ سے حالات نے ایسی کروٹ لی ہے کہ سب بے بس نظر آتے ہیں۔ ویسے بھی شوبز کی تقریبات میں سینکڑوں، ہزاروں کا مجمعہ ہوتا ہے مگر اب تو پچاس سے زائد ہجوم پر پابندی لگادی گئی ہے۔
کورونا وائرس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ، ایسے میں احتیاطی تدابیر کو ترجیح دینا چاہیے، پوری دنیا میں ہونے والے میوزک پروگرام اور دیگر تقریبات کو منسوخ کیا گیا ہے اس لیے یہ کہنا کہ صرف اس سے پاکستانی فنکاروں کو نقصان ہوا ہے، درست نہیں ہوگا۔ فی الحال پروگرام اور تقریبات ملتوی کی گئی ہیں اور جیسے ہی حالات میں سدھار آئے گا تو انہیں دوبارہ منعقد کیا جائے گا۔
لیکن حکومت پاکستان کو موجودہ صورتحال میں جہاں احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے وہیں فنکاروں کو مالی مشکلات میں مبتلا ہونے سے بچانے کے لیے بھی اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہے۔ وگرنہ وقت گزرنے کے ساتھ کورونا وائرس پر تو قابو پالیا جائے گا لیکن مالی مشکلات کے باعث فنکار برادری ایک ایسے مرض میں مبتلا ہو جائے گی ، جس سے بچنا بہت مشکل ہوگا۔ اس لئے ہمیں اللہ تعالی سے دعا کرنی چاہئے تاکہ پوری دنیا میں بسنے والے لوگ اس مہک مرض سے محفوظ رہتے ہوئے ہنسی خوشی زندگی گزار سکیں۔
جہاں اس وائرس کے متاثرین بڑھ رہے ہیں ، وہیں مرنے والوں کی تعداد بھی تیزی سے بڑھنے لگی ہے۔ شروع میں تو صرف چائنہ اور ایران ہی اس وائرس کا شکار ہوئے تھے لیکن اب تو یہ وائرس ہر جگہ پھیلتا جارہا ہے۔ اسی وجہ سے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کئے جارہے ہیں۔ وباء تو اس نے روزمرہ زندگی کا تیزی سے چلتا پہیہ روک دیا ہے مختلف شعبوں کی طرح فنون لطیفہ کے تمام شعبے بھی اس سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔
اس بات سے تو سبھی واقف ہونگے کہ جیسے ہی موسم سرما کے بعد بہار کا موسم آتا ہے تو پھر ثقافتی سرگرمیاں جس طرح پاکستان میں عروج پر ہوتی ہیں، اسی طرح دنیا بھر میں موسم کی اس بدلتی رت کو خوش آمدید کہتے ہوئے رنگا رنگ پروگرام سجائے جاتے ہیں۔ میوزیکل پروگرام، فیشن شو، ڈانس ایونٹ ، فلموں کے پریمئر اور اس کے ساتھ ساتھ دیگر ثقافتی تقاریب کو سجانے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ شیڈول کے مطابق گزشتہ برسوں کی طرح اس سال بھی دنیا بھر میں موسم بہار کی مناسبت سے رنگارنگ پروگرام منعقد کئے جانے تھے لیکن کورونا وائرس کے تیزی سے پھیلتے اثرات نے حکومتوں کو تمام پروگرام ہنگامی بنیادوں پر منسوخ کرنے پر مجبور کردیا۔ محتاط اندازہ لگایا جائے تو یہ نقصان اربوں ڈالر کا ہوسکتا ہے لیکن ماہرین کی رائے کے مطابق یہ نقصان اس سے کہیں زیادہ ہوگا اور اس کے اثرات دنیا بھر کی معیشت کی بگڑتی صورتحال کے ذریعے صاف نظر آئیں گے۔
اگر بات کریں پاکستان کی تو یہاں جس طرح بڑے پیمانے پر ثقافتی پروگرام ترتیب دیئے جاتے ہیں ، اس سے کہیں زیادہ بڑے پیمانے پر دنیا کے بیشتر ممالک میں ہونے والے میوزک ، فیشن اور فلم سے وابستہ پروگراموں کے علاوہ فنون لطیفہ کی دیگر تقریبات کو منسوخ کردیا گیا ہے جبکہ لوگوں کے ہجوم پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔
یہ خبر واقعی ہی پاکستانی میوزک اور ایونٹ آرگنائزر انڈسٹری کیلئے بہت بری ہے۔ کورونا وائرس کے پھیلنے سے امریکہ، کینیڈا، یورپ ، برطانیہ ، آسٹریلیا اور مڈل ایسٹ سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں 23 مارچ کے حوالے سے ہونے والے میوزک کنسرٹس منسوخ کر دیئے گئے ہیں۔ جس کی مد میں پاکستانی گلوکاروں ، سازندوں اور آرگنائزرز کو کروڑوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔
پہلے ہی پاکستان میں دہشت گردی سمیت دیگر اہم مسائل کی وجہ سے پاکستانی گلوکاروں ، سازندوں اور اورگنائزرز کے لیے یہاں کام کرنا مشکل ہوچکا تھا اور ایسے میں اکثریت امریکا ، کینیڈا ، برطانیہ، یورپ اور مڈل ایسٹ سمیت دنیا کے دیگر ممالک کی مارکیٹ میں منافع بخش کاروبار کرنے کو ترجیح دینے لگے تھے۔ اسی لئے بین الاقوامی شہرت یافتہ قوال استاد راحت فتح علی خان، عاطف اسلم ، علی ظفر، عارف لوہار ، حدیقہ کیانی ، سجاد علی ، ساحر علی بگا ، ندیم عباس لونے والا ، سلیم جاوید، حمیراارشد عابدہ پروین، غلام علی ، عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی، حامد علی خاں، شفقت سلامت، سارہ رضا خان، ائمہ بیگ، عاصم اظہر، صنم ماروی، شاہدہ منی، سائرہ نسیم، شبنم مجید، شازیہ منظور، سٹرنگز، علی عظمت، امانت علی، علی شیر، سکندر بدرمیانداد، ملکو، مظہر راہی، علی بدر، عمران عزیز میاں، شیراز اوپل اور غلام عباس سمیت بہت سے دوسرے گلوکار بیرون ممالک ہونے والے میوزک پروگراموں میں پرفارم کرکے جہاں پاکستان کا نام روشن کرتے ہیں، وہیں وہ بہت سا منافع بخش کاروبار بھی کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔
اس سلسلہ میں ان کے ساتھ جہاں میوزیشنز، ساؤنڈ انجینئرز کی بڑی ٹیم کو بہتر روزگار ملتا ہے ۔ ارگنائزرز کی بڑی تعداد بھی اس مد میں منافع بخش کاروبار کرنے میں کامیاب رہتی ہے۔ لیکن گذشتہ دو ماہ کے دوران کورونا وائرس نے چین اور ایران کے بعد یورپ، امریکہ، کینیڈا اور خلیجی ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اسی لیے ان ممالک میں ہونے والے 23مارچ کے خصوصی پروگراموں کے ساتھ ساتھ دیگر میوزک کانسرٹس بھی منسوخ کردیئے گئے۔ منسوخ ہونے والے کنسرٹس میں جہاں پاکستانی گلوکاروں کے پروگرام شامل ہیں ، وہیں بھارت سمیت مغربی ممالک کے معروف گلوکاروں کے پروگرام بھی منسوخ کیے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ امریکہ ،کینیڈا، آسٹریلیا، یورپ میں ہونے والے فلم ایوارڈز اور دیگر تقریبات کو بھی فی الحال ملتوی کرنے کے احکامات جاری کر دیئے گئے ہیں۔ اس سلسلہ میں پاکستانی فنکاروں کو کروڑوں روپوں کا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے اور دوسری جانب مغربی ممالک کے فنکاروں کو اربوں ڈالر کا نقصان ہورہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے جاری کردہ ہدایات کے مطابق 50 سے زائد لوگوں کے ہجوم پر پابندی عائد کردی گئی ہے جس کا مقصد احتیاط کرنا ہے کیونکہ یہ وائرس پھیلتا ہے اور اس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
دیکھا جائے تو پاکستان میں فنون لطیفہ سے وابستہ فنکاروں کی بڑی تعداد اس سے مالی طور پر زیادہ متاثر ہوگی، کیونکہ یہاں ہونے والے میوزک کنسرٹس، فیش ویک اور دیگر پروگراموں کے علاوہ سٹیج ڈرامے اور سینما گھروں میں فلموں کے شو بھی کینسل ہونے سے بھاری نقصان ہوگا جبکہ بیرون ممالک میں بھی ایسا ہی کیا جارہا لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ اس صورتحال میں وہاں کی حکومتیں فنون لطیفہ سے وابستہ افراد کو مکمل طور پر سپورٹ کرینگی اور وہ حالات کے سدھرنے پر دوبارہ معمول کے کاموں میں مصروف ہو جائیں گے جبکہ ہمارے ہاں فنکاروں کی اکثریت مالی مشکلات سے ایسی دو چار ہوگی کہ ان کا اس سے نکلنا انتہائی مشکل ہو جائے گا۔
اس طرح کی بہت سی مثالیں ہمیں مغرب میں ملتی ہیں، وہاں پر کام کرنے والے گلوکار اداکار میوزیشن پینٹر اور ڈائریکٹروں کے ساتھ تکنیکی عملہ کو ہر طرح سے حکومت کے جانب سے مالی سپورٹ حاصل ہوتی ہے انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ان کو زندگی کے تمام شعبوں میں سہولیات فراہم کی جاتی ہیں لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہے یہاں پر فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں سے وابستہ فنکاروں کو تیسرے درجے کا انسان سمجھا جاتا ہے جوکہ غلط ہے لیکن حقیقت ایسی ہی تلخ ہے، جس سے نظریں نہیں چرائی جاسکتی۔
حالانکہ پاکستان کے عظیم فنکاروں نے اپنے فن کی بدولت دنیا بھر میں وطن عزیز کا نام روشن کیا ہے۔ اس سلسلہ میں استاد نصرت فتح علی خاں، ریشماں ، مہدی حسن ، ملکہ ترنم نور جہاں ، فریدہ خانم ، عابدہ پروین اور غلام علی سمیت دیگر کے نام شامل ہیں۔ ان فنکاروں نے اپنے بے مثل فن کی بدولت دنیا بھر میں سبز ہلالی پرچم لہرایا اور اور امن کا پیغام عام کیا، ان فنکاروں کی گراں قدر خدمات پر انہیں اعلی سول اعزازات سے بھی نوازا گیا لیکن معاشرے میں انہیں وہ مقام حاصل نہ ہو سکا جس کے وہ حقدار تھے اس لیے مغربی ممالک اور پاکستان میں فنکاروں کے ساتھ ہونے والے سلوک کا فرق بہت واضح ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستان میں کرونا وائرس کی وجہ سے جہاں جانی نقصان کا خدشہ بڑھ رہا ہے، وہیں آنے والے دنوں میں مالی مشکلات کے طوفان کے آنے کے خطرات بھی منڈلانے لگے ہیں۔
اس حوالے سے شوبز انڈسٹری کے سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سے آج تک شوبز انڈسٹری کو یہاں وہ مقام نہیں مل سکا جس کی توقع کی جاتی ہے پاکستان کے نامور فنکاروں، گلوکاروں ،سازندوں، فیشن ڈیزائنرز ،ماڈلز ،رقاصوں اور دیگر تکنیکی شعبوں کے ماہرین نے اپنی صلاحیتوں کے بل پر ایسی مثالیں قائم کیں کہ جن پر انہیں دنیا بھر میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ خاص طور پر پڑوسی ملک بھارت میں پاکستانی فنون لطیفہ سے وابستہ فنکاروں نے اپنے فن کی بدولت جو کام کر کے دکھایا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔
ایک دور ایسا بھی آیا ہے جس میں پاکستانی گلوکاروں نے بالی ووڈ میں بھارتی گلوکاروں کی چھٹی کرا دی اور انہیں فلموں کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا لیکن پھر سوچی سمجھی سازش کے تحت ایسا "کھیل" رچایا گیا کہ جس کا مقصد صرف اور صرف پاکستانی فنکاروں کو نقصان پہنچانا اور بھارتی گلوکاروں کو کام دلانا تھا۔ اس سازش کو کامیاب بنانے کے لیے جہاں اینٹی پاکستان اور اینٹی مسلم ، انتہا پسند ہندوؤں کی جماعت شیوسینا نے اہم کردار ادا کیا، وہیں بھارتی جنتا پارٹی جو کہ حکمران جماعت ہے نہیں بھی اپنا خوب کردار نبھایا بالی ووڈ میں پاکستانی فنکاروں گلوکاروں اور کامیڈین کے کام کرنے پر پابندی عائد کی گئی تو وہیں دنیا بھر کو بھارت کا گھناؤنا چہرہ بھی دیکھنے کا مل گیا۔
اس صورتحال میں پاکستانی فنکاروں کے پاس یورپ امریکہ کینیڈا آسٹریلیا مڈل ایسٹ چائنہ اور دیگر ممالک کی مارکیٹ بچی تھی جہاں ان کا مقابلہ بھارت کی ترقی یافتہ شوبز انڈسٹری سے ہونے لگا تھا مگر اس کے باوجود پاکستانی فنکار اپنی ایسی چھاپ چھوڑ کر آتے تھے کہ سب حیران رہ جاتے تھے، مگر اب کورونا وائرس کی وجہ سے حالات نے ایسی کروٹ لی ہے کہ سب بے بس نظر آتے ہیں۔ ویسے بھی شوبز کی تقریبات میں سینکڑوں، ہزاروں کا مجمعہ ہوتا ہے مگر اب تو پچاس سے زائد ہجوم پر پابندی لگادی گئی ہے۔
کورونا وائرس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ، ایسے میں احتیاطی تدابیر کو ترجیح دینا چاہیے، پوری دنیا میں ہونے والے میوزک پروگرام اور دیگر تقریبات کو منسوخ کیا گیا ہے اس لیے یہ کہنا کہ صرف اس سے پاکستانی فنکاروں کو نقصان ہوا ہے، درست نہیں ہوگا۔ فی الحال پروگرام اور تقریبات ملتوی کی گئی ہیں اور جیسے ہی حالات میں سدھار آئے گا تو انہیں دوبارہ منعقد کیا جائے گا۔
لیکن حکومت پاکستان کو موجودہ صورتحال میں جہاں احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے وہیں فنکاروں کو مالی مشکلات میں مبتلا ہونے سے بچانے کے لیے بھی اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہے۔ وگرنہ وقت گزرنے کے ساتھ کورونا وائرس پر تو قابو پالیا جائے گا لیکن مالی مشکلات کے باعث فنکار برادری ایک ایسے مرض میں مبتلا ہو جائے گی ، جس سے بچنا بہت مشکل ہوگا۔ اس لئے ہمیں اللہ تعالی سے دعا کرنی چاہئے تاکہ پوری دنیا میں بسنے والے لوگ اس مہک مرض سے محفوظ رہتے ہوئے ہنسی خوشی زندگی گزار سکیں۔