کورونا وائرس چینی کھانوں اور سی فوڈ کی طلب میں نمایاں کمی
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی غیر مصدقہ اطلاعات کی وجہ سے شہری ان پکوانوں سے گریز کرنے لگے ہیں
کورونا وائرس کے خوف سے چینی اور تھائی کھانوں کی طلب میں نمایاں کمی آگئی اور سی فوڈ کا استعمال بھی کم ہوگیا۔
لاہورمیں چائنیزاورتھائی کھانے فروخت کرنے والے ریستورانوں میں گاہک نہ ہونے کے برابرہیں جبکہ بڑے ہوٹلوں میں سی فوڈز کھانے والوں کی تعداد میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔
کوروناوائرس سے پیدا ہونے اوراس کے پھیلاؤ کی ابھی تک کوئی مستند تحقیق سامنے نہیں آسکی ہے تاہم سوشل میڈیا پرچائنیزکھانوں بالخصوص سی فوڈز کو اس وائرس کا سبب قرار دینے والی اطلاعات گردش میں ہیں، جس بعد شہریوں نے ان کھانوں کا استعمال ترک کردیا ہے۔
شہر کے ایک معروف اوربڑے ہوٹل کے ترجمان نے بتایا کہ ان کے پاس ملکی اورغیرملکی مہمان آتے اورکھانا کھاتے ہیں۔ ان کے ہاں چائنیز،تھائی اورسی فوڈز کے پکوان بھی پیش کیے جاتے ہیں تاہم جب سے کوروناوائرس کا معاملہ سامنے آیا ہے سی فوڈزاورچائنیزکھانے والوں کی تعداد انتہائی کم ہوگئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پہلے ایک ہی دن میں 70 سے 80 لوگ چائنیزاورسی فوڈ کھاتے تھے تواب یہ تعداد 20 سے 25 تک آگئی ہے۔ اب زیادہ ترایسے چائنیزکھانے کھائے جاتے ہیں جوپاکستانی کھانوں جیسے ہیں۔
گلبرگ ،ماڈل ٹاؤن اورڈیفنس میں واقع چائنیزاورتھائی ریسٹورنٹس بھی ویران پڑے ہیں اوریہاں گاہکوں کی تعدادمیں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
چائنیزریسٹورنٹ کے نمائندے نے بتایا کہ پاکستان میں جوچائنیزکھانے مہیاکیے جاتے ہیں وہ سوفیصدحلال اجزا سے تیارہوتے ہیں جب کہ چند ایک ایسے کھانے ہیں جولاہورمیں مقیم چینی،تھائی اورغیرملکی شہریوں کے لیے تیار کیے جاتے ہیں تاہم ایسے کھانے پاکستانیوں کو پیش نہیں کیے جاتے۔ اس کے باوجود عوام میں چائنیزاورتھائی کھانوں سے متعلق ڈر بیٹھ گیا ہے ۔
ریستوراں کے نمائندے کا کہنا تھا کہ شہریوں کویہ سمجھنا چاہیے یہ وائرس کسی کھانے یا خاص پکوان کی وجہ سے نہیں پھیلا ہے۔
لاہورمیں چائنیزاورتھائی کھانے فروخت کرنے والے ریستورانوں میں گاہک نہ ہونے کے برابرہیں جبکہ بڑے ہوٹلوں میں سی فوڈز کھانے والوں کی تعداد میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔
کوروناوائرس سے پیدا ہونے اوراس کے پھیلاؤ کی ابھی تک کوئی مستند تحقیق سامنے نہیں آسکی ہے تاہم سوشل میڈیا پرچائنیزکھانوں بالخصوص سی فوڈز کو اس وائرس کا سبب قرار دینے والی اطلاعات گردش میں ہیں، جس بعد شہریوں نے ان کھانوں کا استعمال ترک کردیا ہے۔
شہر کے ایک معروف اوربڑے ہوٹل کے ترجمان نے بتایا کہ ان کے پاس ملکی اورغیرملکی مہمان آتے اورکھانا کھاتے ہیں۔ ان کے ہاں چائنیز،تھائی اورسی فوڈز کے پکوان بھی پیش کیے جاتے ہیں تاہم جب سے کوروناوائرس کا معاملہ سامنے آیا ہے سی فوڈزاورچائنیزکھانے والوں کی تعداد انتہائی کم ہوگئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پہلے ایک ہی دن میں 70 سے 80 لوگ چائنیزاورسی فوڈ کھاتے تھے تواب یہ تعداد 20 سے 25 تک آگئی ہے۔ اب زیادہ ترایسے چائنیزکھانے کھائے جاتے ہیں جوپاکستانی کھانوں جیسے ہیں۔
گلبرگ ،ماڈل ٹاؤن اورڈیفنس میں واقع چائنیزاورتھائی ریسٹورنٹس بھی ویران پڑے ہیں اوریہاں گاہکوں کی تعدادمیں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
چائنیزریسٹورنٹ کے نمائندے نے بتایا کہ پاکستان میں جوچائنیزکھانے مہیاکیے جاتے ہیں وہ سوفیصدحلال اجزا سے تیارہوتے ہیں جب کہ چند ایک ایسے کھانے ہیں جولاہورمیں مقیم چینی،تھائی اورغیرملکی شہریوں کے لیے تیار کیے جاتے ہیں تاہم ایسے کھانے پاکستانیوں کو پیش نہیں کیے جاتے۔ اس کے باوجود عوام میں چائنیزاورتھائی کھانوں سے متعلق ڈر بیٹھ گیا ہے ۔
ریستوراں کے نمائندے کا کہنا تھا کہ شہریوں کویہ سمجھنا چاہیے یہ وائرس کسی کھانے یا خاص پکوان کی وجہ سے نہیں پھیلا ہے۔