کرنسی نوٹوں سے کورونا کا پھیلاؤ حکومت کا اقدامات سے گریز
متاثرہ ممالک نے نوٹوں کوقرنطینہ میں رکھناشروع کردیا،اے ٹی ایم اورسیل مشینیں بھی وائرس کے پھیلاؤکا سبب بن سکتی ہیں
زیر گردش کرنسی نوٹ مضر صحت بیکٹیریا اور جراثیم پھیلانے کا سبب بنتے ہیں، عالمی ادارہ صحت نے کورونا کی عالمی وبا کے پیش نظر کرنسی نوٹوں کے بجائے بلاواسطہ ادائیگیوں کا طریقہ اختیار کرنے کی سفارش کی ہے اور کرنسی نوٹ استعمال کرنے کے بعد ہاتھ دھونے پر زور دیا ہے جبکہ طبی ماہرین کی جانب سے عوام کو مشورہ دیا جارہا ہے کہ کرنسی نوٹوں کے بجائے ڈیجیٹل لین دین کا طریقہ اختیار کیا جائے۔
کورونا وائرس سے متاثرہ ممالک میں استعمال شدہ کرنسی نوٹوں کو جراثیم سے پاک کرنے کے لیے خصوصی انتظامات کیے جارہے ہیں، تاہم پاکستان میں تاحال ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا، پاکستان میں ڈیجیٹل ادائیگیوں کی سہولت عام ہونے کے باوجود کرنسی نوٹوں کے استعمال میں کمی نہیں آئی، عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ کرنسی نوٹ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا ذریعہ بن سکتے ہیں ماہرین کے مطابق کورنا وائرس مختلف اقسام کی سطحوں پر 10سے 20گھنٹے تک زندہ رہتے ہیں پاکستان میں نقد لین دین عام ہے اور ایک کرنسی نوٹ ایک ہی دن میں درجنوں ہاتھوں سے گزرتا ہے اور کورونا سے متاثرہ فرد کے زیر استعمال رہنے والے نوٹ ملک بھر میں خطرہ بن کر پھیل چکے ہیں چین اور جنوبی کوریا نے استعمال شدہ کرنسی نوٹوں کو علیحدہ کرکے وائرس سے پاک کرنے کے لیے ادویات کا اسپرے کرنا معمول بنالیا ہے۔
ان ممالک میں استعمال شدہ کرنسی نوٹوں کو بھی الٹرا وائلٹ شعاعوں سے گزارنے کے بعد بلند درجہ حرارت پر رکھا جاتا ہے تاکہ جراثیم سے پاک کیا جاسکے اس کے بعد کرنسی نوٹوں کو بھی انسانوں کی طرح 14روز تک آئسولیشن میں رکھا جاتا ہے تاکہ کرنسی نوٹوں سے عوام کی صحت کو لاحق خطرات کا تدارک کیا جاسکے، بینک آف انگلینڈ نے بھی اعتراف کیا ہے کہ کرنسی نوٹ جراثیم کے پھیلاؤ کا ذریعہ ہیں اور جلد ہی بینک آف انگلینڈ نے بھی کرنسی نوٹوں کو آلودگی سے پاک کرنے کے لیے جنوبی کوریا اور چین جیسے اقدامات اٹھانے کا عندیہ دیا ہے، بینکوں میں کیش کاؤنٹر پر کام کرنے والا عملہ جراثیم سے آلودہ کرنسی نوٹوں کا آسان ہدف بن سکتا ہے۔ بینکاری ماہرین کے مطابق پاکستانی بینکوں کی شاخوں میں نوٹ گننے کے لیے مشینیں نصب کردی گئی ہیں تاہم گاہکوں سے ملنے والے نوٹ یا صارفین کو کی جانے والی ادائیگیوں کو عموماً کیشیئر ہاتھوں سے ہی گنتے ہیں، نوٹ میں لگے جراثیم بینک کے عملے کے لیے بڑا خطرہ ہیں کیونکہ وہ سارا دن نوٹوں کی گنتی کرنے اور انھیں جمع کرکے درازوں میں رکھنے یا اسٹیٹ بینک سے آئے ہوئے نوٹوں کو نکال کر صارفین کو ادائیگیاں کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔
یوٹیلیٹی بلز وصول کرنے والے بینک کے ملازمین بھی کرونا وائرس اور دیگر جراثیم کا آسان ہدف ہیں، ماہرین کے مطابق بینکوں کے اے ٹی ایم، بوتھ، داخلی دروازے کے ہینڈل اور پوائنٹ آف سیل مشینیں بھی جراثیم سے آلودہ ہوسکتی ہیں بینکاری ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں نقد رقوم کے لین دین کا رجحان زیادہ ہونے کی وجہ سے کرنسی نوٹوں کو آئیسولیشن میں رکھنا ممکن نہیں ورنہ کاروباری سرگرمیاں جمود کا شکار ہوسکتی ہیں البتہ چھوٹی مالیت کی رقوم کے لین دین اور روزمرہ معمولات کے لیے ڈیجیٹل ادائیگیوں کا طریقہ انتہائی محفوظ ہے پاکستان میں تمام موبائل فون کمپنیوں کی جانب سے بینکوں کے اشتراک سے موبائل بینکنگ کی سہولت فراہم کی جارہی ہے جن کی مدد سے ایسے تمام صارفین جن کے بینک اکاؤنٹس نہ بھی ہوں استفادہ کرسکتے ہیں۔
اسی طرح بیشتر کمرشل بینکوں نے بھی اپنی ڈیجیٹل ایپلی کیشنز متعارف کرادی ہیں جن کے ذریعے بینک کسٹمر یوٹلیٹی بلز کی ادائیگی، گراسریز کی خریداری، ٹرانسپورٹ، ریل اور بسوں کے ٹکٹ باآسانی خرید سکتے ہیں، ماہرین کے مطابق کورونا وائرس کی وبا نے ڈیجیٹل لین دین کے فروغ کے لیے سازگار ماحول مہیا کردیا ہے۔
اسپتالوں،ڈسپنسریوںاورمیڈیکل اسٹوروں سے گزرنے والے نوٹ مہلک وائرس پھیلاسکتے ہیں
اسپتال، ڈسپنسریاں اور میڈیکل اسٹورز میں گردش کرنیو الے کرنسی نوٹ مہلک جراثیم اور بیکٹریاں پھیلانے کا اہم ذریعہ ہیں، چلڈرن اسپتال اور انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ لاہور کے تحت چند سال قبل کی جانے والی تحقیق میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اسپتالوں، ڈسپنسریوں اور میڈیکل اسٹورز میں زیر گردش رہنے والے کرنسی نوٹ اپنے ساتھ مہلک جرثومے لے کر ملک بھر میں بیماریاں پھیلانے کا سبب بنتے ہیں اس تحقیق میں مختلف اسپتالوں اور ڈسپنسریوں سے مختلف مالیت کے 100کرنسی نوٹ سائنسی طریقے سے اکھٹا کیے گئے جو ان اسپتالوں میں آنے والے مریضوں، طبی عملے کے ہاتھوں سے گزرے تھے۔
یہ جرثومے مختلف قسم کے انفیکشن اور وبائی امراض پھیلانے کاذریعہ بن سکتے ہیں زیر تحقیق کرنسی نوٹوں میں 11مختلف بیکٹیریا پائے گئے جو کرنسی نوٹوں کے 97 فیصد حصے پر چپکے ہوئے تھے، تحقیق کے مطابق کرنسی نوٹوں میں سب سے زیادہ 26 فیصد Klebsiella sppنامی جرثومہ پایا جاتا ہے جس سے مختلف طرح کے نمونیا، خون کے انفیکشن اور زخموں کو خراب کرنیو الے انفیکشن پھیلتے ہیں، دوسرے نمبر پر جلدی امراض کا سبب بننے والا بیکٹیریا Coagulase-negative Staphylococci پایا گیا اس کے علاوہ ہیضہ پھیلانے والا جرثومہ E.coli سمیت دیگر8 اقسام کے جرثومے پائے گئے اس تحقیق نے اسپتالوں، لیبارٹریز، ڈسپنسریوں اور میڈیکل اسٹورز کی حد تک کرنسی نوٹوں کے استعمال کو محدود کرنے یا انھیں جراثیم سے پاک کرنے کے لیے نظام وضع کرنے کی اہمیت کو اجاگر کیا تاہم پاکستان میں صحت عامہ کو یقینی بنانے کے لیے ایسا کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا۔
ڈیجیٹل ادائیگی کا سستا اور محفوظ طریقہکیوآر کوڈپذیرائی حاصل نہ کرسکا
ڈیجیٹل ادائیگیوں کے طریقے میں سب سے زیادہ سستا اور محفوظ طریقہ ''کیو آر کوڈ'' کے ذریعے ادائیگی ہے، پاکستان میں ادائیگیوں کی سہولت فراہم کرنے والی تھرڈ پارٹی کمپنیوں ''فن ٹیک فرمز'' نے پاکستان میں بھی کیو آر کوڈز کی ادائیگی کا طریقہ متعارف کرادیا ہے تاہم عوامی سطح پر اس طریقے کو تاحال پذیرائی نہیں مل سکی، کمرشل بینکوں اور برانچ لیس بینکاری کی سہولت فراہم کرنے والی ایپلی موبائل کیشنز میں بھی کوڈ اسکین کرکے ادائیگیوں کی سہولت موجود ہے تاہم پاکستان میں ڈیٹا کی سہولت مہنگی ہونے موبائل فون کی قیمتوں پر ٹیکسوں کی بھرمار ڈیجیٹل ادائیگیوں کے راستے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔
پاکستان میں چھوٹی مالیت کےکرنسی نوٹوں کا لین دین عام ہے
پاکستان میں 5 ہزار 553 ارب روپے کے کرنسی نوٹ زیر گردش ہیں جن میں زیادہ تر چھوٹی مالیت کے کرنسی نوٹ شامل ہیں جن کا روز مرہ زندگی میں لین دین عام ہے۔ اسٹیٹ بینک کے اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ ملک میں ڈیجیٹل ادائیگیوں کا طریقہ عام ہونے کے باوجود زیر گردش کرنسی نوٹوں کی مالیت میں اضافہ ہورہا ہے صرف یکم جولائی سے 6 مارچ2020 کے دوران زیر گردش کرنسی نوٹوں کی مالیت میں 603 ارب50کروڑ روپے کا اضافہ ہوا ہے۔
کورونا وائرس سے متاثرہ ممالک میں استعمال شدہ کرنسی نوٹوں کو جراثیم سے پاک کرنے کے لیے خصوصی انتظامات کیے جارہے ہیں، تاہم پاکستان میں تاحال ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا، پاکستان میں ڈیجیٹل ادائیگیوں کی سہولت عام ہونے کے باوجود کرنسی نوٹوں کے استعمال میں کمی نہیں آئی، عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ کرنسی نوٹ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا ذریعہ بن سکتے ہیں ماہرین کے مطابق کورنا وائرس مختلف اقسام کی سطحوں پر 10سے 20گھنٹے تک زندہ رہتے ہیں پاکستان میں نقد لین دین عام ہے اور ایک کرنسی نوٹ ایک ہی دن میں درجنوں ہاتھوں سے گزرتا ہے اور کورونا سے متاثرہ فرد کے زیر استعمال رہنے والے نوٹ ملک بھر میں خطرہ بن کر پھیل چکے ہیں چین اور جنوبی کوریا نے استعمال شدہ کرنسی نوٹوں کو علیحدہ کرکے وائرس سے پاک کرنے کے لیے ادویات کا اسپرے کرنا معمول بنالیا ہے۔
ان ممالک میں استعمال شدہ کرنسی نوٹوں کو بھی الٹرا وائلٹ شعاعوں سے گزارنے کے بعد بلند درجہ حرارت پر رکھا جاتا ہے تاکہ جراثیم سے پاک کیا جاسکے اس کے بعد کرنسی نوٹوں کو بھی انسانوں کی طرح 14روز تک آئسولیشن میں رکھا جاتا ہے تاکہ کرنسی نوٹوں سے عوام کی صحت کو لاحق خطرات کا تدارک کیا جاسکے، بینک آف انگلینڈ نے بھی اعتراف کیا ہے کہ کرنسی نوٹ جراثیم کے پھیلاؤ کا ذریعہ ہیں اور جلد ہی بینک آف انگلینڈ نے بھی کرنسی نوٹوں کو آلودگی سے پاک کرنے کے لیے جنوبی کوریا اور چین جیسے اقدامات اٹھانے کا عندیہ دیا ہے، بینکوں میں کیش کاؤنٹر پر کام کرنے والا عملہ جراثیم سے آلودہ کرنسی نوٹوں کا آسان ہدف بن سکتا ہے۔ بینکاری ماہرین کے مطابق پاکستانی بینکوں کی شاخوں میں نوٹ گننے کے لیے مشینیں نصب کردی گئی ہیں تاہم گاہکوں سے ملنے والے نوٹ یا صارفین کو کی جانے والی ادائیگیوں کو عموماً کیشیئر ہاتھوں سے ہی گنتے ہیں، نوٹ میں لگے جراثیم بینک کے عملے کے لیے بڑا خطرہ ہیں کیونکہ وہ سارا دن نوٹوں کی گنتی کرنے اور انھیں جمع کرکے درازوں میں رکھنے یا اسٹیٹ بینک سے آئے ہوئے نوٹوں کو نکال کر صارفین کو ادائیگیاں کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔
یوٹیلیٹی بلز وصول کرنے والے بینک کے ملازمین بھی کرونا وائرس اور دیگر جراثیم کا آسان ہدف ہیں، ماہرین کے مطابق بینکوں کے اے ٹی ایم، بوتھ، داخلی دروازے کے ہینڈل اور پوائنٹ آف سیل مشینیں بھی جراثیم سے آلودہ ہوسکتی ہیں بینکاری ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں نقد رقوم کے لین دین کا رجحان زیادہ ہونے کی وجہ سے کرنسی نوٹوں کو آئیسولیشن میں رکھنا ممکن نہیں ورنہ کاروباری سرگرمیاں جمود کا شکار ہوسکتی ہیں البتہ چھوٹی مالیت کی رقوم کے لین دین اور روزمرہ معمولات کے لیے ڈیجیٹل ادائیگیوں کا طریقہ انتہائی محفوظ ہے پاکستان میں تمام موبائل فون کمپنیوں کی جانب سے بینکوں کے اشتراک سے موبائل بینکنگ کی سہولت فراہم کی جارہی ہے جن کی مدد سے ایسے تمام صارفین جن کے بینک اکاؤنٹس نہ بھی ہوں استفادہ کرسکتے ہیں۔
اسی طرح بیشتر کمرشل بینکوں نے بھی اپنی ڈیجیٹل ایپلی کیشنز متعارف کرادی ہیں جن کے ذریعے بینک کسٹمر یوٹلیٹی بلز کی ادائیگی، گراسریز کی خریداری، ٹرانسپورٹ، ریل اور بسوں کے ٹکٹ باآسانی خرید سکتے ہیں، ماہرین کے مطابق کورونا وائرس کی وبا نے ڈیجیٹل لین دین کے فروغ کے لیے سازگار ماحول مہیا کردیا ہے۔
اسپتالوں،ڈسپنسریوںاورمیڈیکل اسٹوروں سے گزرنے والے نوٹ مہلک وائرس پھیلاسکتے ہیں
اسپتال، ڈسپنسریاں اور میڈیکل اسٹورز میں گردش کرنیو الے کرنسی نوٹ مہلک جراثیم اور بیکٹریاں پھیلانے کا اہم ذریعہ ہیں، چلڈرن اسپتال اور انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ لاہور کے تحت چند سال قبل کی جانے والی تحقیق میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اسپتالوں، ڈسپنسریوں اور میڈیکل اسٹورز میں زیر گردش رہنے والے کرنسی نوٹ اپنے ساتھ مہلک جرثومے لے کر ملک بھر میں بیماریاں پھیلانے کا سبب بنتے ہیں اس تحقیق میں مختلف اسپتالوں اور ڈسپنسریوں سے مختلف مالیت کے 100کرنسی نوٹ سائنسی طریقے سے اکھٹا کیے گئے جو ان اسپتالوں میں آنے والے مریضوں، طبی عملے کے ہاتھوں سے گزرے تھے۔
یہ جرثومے مختلف قسم کے انفیکشن اور وبائی امراض پھیلانے کاذریعہ بن سکتے ہیں زیر تحقیق کرنسی نوٹوں میں 11مختلف بیکٹیریا پائے گئے جو کرنسی نوٹوں کے 97 فیصد حصے پر چپکے ہوئے تھے، تحقیق کے مطابق کرنسی نوٹوں میں سب سے زیادہ 26 فیصد Klebsiella sppنامی جرثومہ پایا جاتا ہے جس سے مختلف طرح کے نمونیا، خون کے انفیکشن اور زخموں کو خراب کرنیو الے انفیکشن پھیلتے ہیں، دوسرے نمبر پر جلدی امراض کا سبب بننے والا بیکٹیریا Coagulase-negative Staphylococci پایا گیا اس کے علاوہ ہیضہ پھیلانے والا جرثومہ E.coli سمیت دیگر8 اقسام کے جرثومے پائے گئے اس تحقیق نے اسپتالوں، لیبارٹریز، ڈسپنسریوں اور میڈیکل اسٹورز کی حد تک کرنسی نوٹوں کے استعمال کو محدود کرنے یا انھیں جراثیم سے پاک کرنے کے لیے نظام وضع کرنے کی اہمیت کو اجاگر کیا تاہم پاکستان میں صحت عامہ کو یقینی بنانے کے لیے ایسا کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا۔
ڈیجیٹل ادائیگی کا سستا اور محفوظ طریقہکیوآر کوڈپذیرائی حاصل نہ کرسکا
ڈیجیٹل ادائیگیوں کے طریقے میں سب سے زیادہ سستا اور محفوظ طریقہ ''کیو آر کوڈ'' کے ذریعے ادائیگی ہے، پاکستان میں ادائیگیوں کی سہولت فراہم کرنے والی تھرڈ پارٹی کمپنیوں ''فن ٹیک فرمز'' نے پاکستان میں بھی کیو آر کوڈز کی ادائیگی کا طریقہ متعارف کرادیا ہے تاہم عوامی سطح پر اس طریقے کو تاحال پذیرائی نہیں مل سکی، کمرشل بینکوں اور برانچ لیس بینکاری کی سہولت فراہم کرنے والی ایپلی موبائل کیشنز میں بھی کوڈ اسکین کرکے ادائیگیوں کی سہولت موجود ہے تاہم پاکستان میں ڈیٹا کی سہولت مہنگی ہونے موبائل فون کی قیمتوں پر ٹیکسوں کی بھرمار ڈیجیٹل ادائیگیوں کے راستے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔
پاکستان میں چھوٹی مالیت کےکرنسی نوٹوں کا لین دین عام ہے
پاکستان میں 5 ہزار 553 ارب روپے کے کرنسی نوٹ زیر گردش ہیں جن میں زیادہ تر چھوٹی مالیت کے کرنسی نوٹ شامل ہیں جن کا روز مرہ زندگی میں لین دین عام ہے۔ اسٹیٹ بینک کے اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ ملک میں ڈیجیٹل ادائیگیوں کا طریقہ عام ہونے کے باوجود زیر گردش کرنسی نوٹوں کی مالیت میں اضافہ ہورہا ہے صرف یکم جولائی سے 6 مارچ2020 کے دوران زیر گردش کرنسی نوٹوں کی مالیت میں 603 ارب50کروڑ روپے کا اضافہ ہوا ہے۔