مزدور اور کسان
انسان کی پوری معلوم تاریخ طبقاتی نظام پر مشتمل ہے
ہم آج کے دورکو طبقاتی دورکہہ کر اس کی مذمت کرتے ہیں لیکن اس حقیقت کو کیا کہا جائے کہ انسان کی پوری معلوم تاریخ طبقاتی نظام پر مشتمل ہے۔ غلام داری سماج کرہ ارض پر دنیا کا قدیم نظام کہلاتا ہے، اس نظام میں بھی طبقات تھے لیکن ان کی نوعیت مختلف تھی، ایک طاقتور طبقہ دوسرے کمزور طبقات کو بازار میں کھڑے ہوکر نیلام کرتا تھا، اب دنیا غلام داری نظام سے نجات حاصل کرچکی ہے لیکن اب بھی غلام داری نظام مختلف شکلوں میں موجود ہے، ہمارے ملک میں ساڑھے چھ کروڑ مزدور رہتے ہیں۔ مزدور اور مالک کا رشتہ آقا اور غلام کے رشتے کیسوا کیا ہے؟ ہمارے ملک کی دیہی آبادی کا 60 فیصد حصہ کسانوں، ہاریوں پر مشتمل ہے۔کسانوں ہاریوں اور جاگیرداروں، وڈیروں کے تعلقات عملاً آقا اور غلام کے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسانوں اور مزدوروں کی تعداد کے مقابلے میں وڈیروں اور جاگیرداروں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے لیکن حیرت ہے کہ یہ آٹے میں نمک کی تعداد 12-10 کروڑ سے زیادہ انسانوں پر حکومت کرتی ہے۔ اس کی ایک سے زیادہ وجوہات ہیں، پہلی وجہ یہ ہے کہ مزدوروں، کسانوں میں اتحاد نہیں، دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ طبقات متحد نہیں، تیسری وجہ یہ ہے کہ جاگیردار اور وڈیرے ریاستی مشینری کو مزدوروں اور کسانوں کے خلاف استعمال کرتے ہیں جس کا مقابلہ مزدورکسان نہیں کرسکتے۔
مزدوروں کو ان کے حقوق کا احساس دلانے کے لیے ٹریڈ یونینز بنی ہوئی ہیں لیکن یہ پاکٹ یونینز ہیں جو مالکان کی دلالی کرتی ہیں حالانکہ مزدوروں کو مالکان کے جبر و ظلم سے بچانا ٹریڈ یونینز کا کام ہے۔ بہ ظاہر تو ٹریڈ یونین لیڈر گلٹی نظر آتا ہے لیکن ٹریڈ یونین ہی کیا ہر بے ایمان آدمی بے گناہ۔ گناہ گار وہ نظام ہے جو انسانوں کو دولت کا غلام بنا کر رکھ دیتا ہے۔ دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ مزدور کی اجتماعی طاقت ریاستی مشینری سے بہت زیادہ ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مزدور نہتا ہوتا ہے اور ریاستی مشینری مسلح ہوتی ہے۔ یہ فرق مزدوروں کو ظالم مالکان کے خلاف ناانصافیاں روکنے میں حائل رہتا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کے حامی ہمیشہ کوشش کرتے ہیں کہ مزدور متحد نہ ہوسکیں، جب مزدور متحد ہوتے ہیں تو مالکان کی جان نکلتی ہے، یہ 1968 اور 1972 کی بات ہے، کراچی کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں نے یہ طے کیا کہ مزدوروں کو منظم کرکے انھیں ان کا جائز حق دلایا جائے۔ چنانچہ مزدوروں کو منظم کرنے کے لیے ایک تنظیم لیبر آرگنائزنگ کمیٹی کے نام سے بنائی گئی جو دیکھتے ہی دیکھتے علاقے کے پورے مزدوروں میں بے حد مقبول ہوگئی اور باقی ٹریڈ یونینوں کو اپنا بستر لپیٹنا پڑا۔ لیبر آرگنائزنگ کمیٹی نے مالکان مزدوروں کے حالات کار بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا، اس کا اثر یہ ہوا کہ ساری ٹریڈ یونینوں نے مطالبات پیش کیے جنھیں مالکان نے تسلیم کر لیا۔یہ تھی مزدوروں کی طاقت آج بھی وہی مزدور ہے لیکن اس کا حال غلاموں سے بدتر ہے۔ مزدوروں کے استحصال کے لیے ٹھیکیداری نظام قائم ہے جس میں مزدورکا تعلق صرف پروڈکشن سے ہوتا ہے۔
مزدورکی اپائنمنٹ ٹھیکیدارکرتا ہے، مزدور کی اجرت ٹھیکیدار طے کرتا ہے۔ اجرت کی ادائیگی ٹھیکیدار کرتا ہے غرض وہ تمام کام جو مالکان کے کرنے کے ہوتے ہیں وہ ٹھیکیدار کرتا ہے اور مزدور ایک غلام کی طرح ٹھیکیدار کے احکامات بجا لاتا ہے۔ یہ ہے آج کے مزدور کی حالت سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ مزدوروں کو ٹھیکیدار جب چاہے نوکری سے نکال دیتا ہے، جس کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سب سے پہلے ٹھیکیداری نظام بلاتوقف ختم کردیا جائے اور یونینوں کا اجتماعی مقصد ٹھیکیداری نظام کا خاتمہ ہو۔
ملک میں ہزاروں ٹریڈ یونینیں ہیں، سیکڑوں فیڈریشن ہیں، یہ کیا کر رہی ہیں؟ عموماً منیجمنٹ کے مفادات پورے رہی ہیں۔ بس بہت ہو چکا، سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور اتفاق کی بات یہ ہے کہ بھٹو کے زمانے میں 1972-73 میں مزدوروں اور ٹریڈ یونینوں کے بارے میں جو پالیسی اختیار کی گئی، وہ ٹریڈ یونین کے خاتمے کا سبب بن گئی ۔ بھٹو کے دور کے بعد آج تک ملک میں ٹریڈ یونینیں نہیں بن سکیں، ہر جگہ پاکٹ یونینیں ہیں جو مزدوروں کو مالکان کا غلام بناکر رکھے ہوئے ہیں، کیا غیور مزدور، مالکوں کا غلام بنا رہنا پسند کرے گا؟
مزدور انسانی ضرورت کی تمام اشیا تیارکرتا ہے۔ کسان ملک کے عوام کے لیے گرمی سردی دھوپ سے آزاد اجناس کے ڈھیر لگاتا ہے، ان دو طبقات کی وجہ ان کی محنت سے انسان اپنی ضرورت کی تمام اشیا حاصل کرتا ہے لیکن عوام کو رات دن محنت کرکے اشیا صرف مہیا کرنے والے مزدوروں اور کسانوں کے گھروں میں فاقے ہوتے ہیں، یہ ہے سرمایہ دارانہ نظام کا وہ ظلم جسے ہر حال میں ختم ہونا چاہیے۔ لیکن یہ ظلم ختم کیسے ہوگا ، بعض سیاسی رہنما کو خدا جانے کس نے صلاح دی ہے وہ آج کل کسانوں کے مسائل حل کرنے کی دلچسپ باتیں کر رہے ہیں جب کہ وہ ہزاروں ایکڑ زمین کے مالک ہیں اگر کسانوں سے اتنی ہی ہمدردی ہے تو اپنی لاکھوں ایکڑ زمین کسانوں میں فری بانٹ دیں، یہ کوئی خیرات یا مہربانی نہیں ہے، صرف حق دار کو اس کا حق ملنے کی بات ہے۔
ہمارے وزیر اعظم کی نظر سے مزدور اور کسان گزرتے ہی نہیں کیونکہ عمران خان بھولے سے بھی ان کا نام نہیں لیتے، عمران خان ملک میں غریبوں کو ان کا حق دلانا چاہتے ہیں اور سب سے بڑے غریب مزدور اور کسان ہیں۔ کیا ہم امید کریں کہ عمران خان صنعتوںسے ٹھیکیداری نظام ختم کریں گے اور کسانوں کو اپنے مسائل حل کرنے کے لیے ٹریڈ یونین بنانے کا حق دیں۔ زبانی جمع خرچ کرنے والے تو بہت ہیں، عملی کام کرنے والے ناپید ہیں، عمران خان نے اگر مزدوروں، کسانوں کے مسائل حل کیے تو ان کا ووٹ بینک مضبوط ہو جائے گا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسانوں اور مزدوروں کی تعداد کے مقابلے میں وڈیروں اور جاگیرداروں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے لیکن حیرت ہے کہ یہ آٹے میں نمک کی تعداد 12-10 کروڑ سے زیادہ انسانوں پر حکومت کرتی ہے۔ اس کی ایک سے زیادہ وجوہات ہیں، پہلی وجہ یہ ہے کہ مزدوروں، کسانوں میں اتحاد نہیں، دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ طبقات متحد نہیں، تیسری وجہ یہ ہے کہ جاگیردار اور وڈیرے ریاستی مشینری کو مزدوروں اور کسانوں کے خلاف استعمال کرتے ہیں جس کا مقابلہ مزدورکسان نہیں کرسکتے۔
مزدوروں کو ان کے حقوق کا احساس دلانے کے لیے ٹریڈ یونینز بنی ہوئی ہیں لیکن یہ پاکٹ یونینز ہیں جو مالکان کی دلالی کرتی ہیں حالانکہ مزدوروں کو مالکان کے جبر و ظلم سے بچانا ٹریڈ یونینز کا کام ہے۔ بہ ظاہر تو ٹریڈ یونین لیڈر گلٹی نظر آتا ہے لیکن ٹریڈ یونین ہی کیا ہر بے ایمان آدمی بے گناہ۔ گناہ گار وہ نظام ہے جو انسانوں کو دولت کا غلام بنا کر رکھ دیتا ہے۔ دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ مزدور کی اجتماعی طاقت ریاستی مشینری سے بہت زیادہ ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مزدور نہتا ہوتا ہے اور ریاستی مشینری مسلح ہوتی ہے۔ یہ فرق مزدوروں کو ظالم مالکان کے خلاف ناانصافیاں روکنے میں حائل رہتا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کے حامی ہمیشہ کوشش کرتے ہیں کہ مزدور متحد نہ ہوسکیں، جب مزدور متحد ہوتے ہیں تو مالکان کی جان نکلتی ہے، یہ 1968 اور 1972 کی بات ہے، کراچی کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں نے یہ طے کیا کہ مزدوروں کو منظم کرکے انھیں ان کا جائز حق دلایا جائے۔ چنانچہ مزدوروں کو منظم کرنے کے لیے ایک تنظیم لیبر آرگنائزنگ کمیٹی کے نام سے بنائی گئی جو دیکھتے ہی دیکھتے علاقے کے پورے مزدوروں میں بے حد مقبول ہوگئی اور باقی ٹریڈ یونینوں کو اپنا بستر لپیٹنا پڑا۔ لیبر آرگنائزنگ کمیٹی نے مالکان مزدوروں کے حالات کار بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا، اس کا اثر یہ ہوا کہ ساری ٹریڈ یونینوں نے مطالبات پیش کیے جنھیں مالکان نے تسلیم کر لیا۔یہ تھی مزدوروں کی طاقت آج بھی وہی مزدور ہے لیکن اس کا حال غلاموں سے بدتر ہے۔ مزدوروں کے استحصال کے لیے ٹھیکیداری نظام قائم ہے جس میں مزدورکا تعلق صرف پروڈکشن سے ہوتا ہے۔
مزدورکی اپائنمنٹ ٹھیکیدارکرتا ہے، مزدور کی اجرت ٹھیکیدار طے کرتا ہے۔ اجرت کی ادائیگی ٹھیکیدار کرتا ہے غرض وہ تمام کام جو مالکان کے کرنے کے ہوتے ہیں وہ ٹھیکیدار کرتا ہے اور مزدور ایک غلام کی طرح ٹھیکیدار کے احکامات بجا لاتا ہے۔ یہ ہے آج کے مزدور کی حالت سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ مزدوروں کو ٹھیکیدار جب چاہے نوکری سے نکال دیتا ہے، جس کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سب سے پہلے ٹھیکیداری نظام بلاتوقف ختم کردیا جائے اور یونینوں کا اجتماعی مقصد ٹھیکیداری نظام کا خاتمہ ہو۔
ملک میں ہزاروں ٹریڈ یونینیں ہیں، سیکڑوں فیڈریشن ہیں، یہ کیا کر رہی ہیں؟ عموماً منیجمنٹ کے مفادات پورے رہی ہیں۔ بس بہت ہو چکا، سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور اتفاق کی بات یہ ہے کہ بھٹو کے زمانے میں 1972-73 میں مزدوروں اور ٹریڈ یونینوں کے بارے میں جو پالیسی اختیار کی گئی، وہ ٹریڈ یونین کے خاتمے کا سبب بن گئی ۔ بھٹو کے دور کے بعد آج تک ملک میں ٹریڈ یونینیں نہیں بن سکیں، ہر جگہ پاکٹ یونینیں ہیں جو مزدوروں کو مالکان کا غلام بناکر رکھے ہوئے ہیں، کیا غیور مزدور، مالکوں کا غلام بنا رہنا پسند کرے گا؟
مزدور انسانی ضرورت کی تمام اشیا تیارکرتا ہے۔ کسان ملک کے عوام کے لیے گرمی سردی دھوپ سے آزاد اجناس کے ڈھیر لگاتا ہے، ان دو طبقات کی وجہ ان کی محنت سے انسان اپنی ضرورت کی تمام اشیا حاصل کرتا ہے لیکن عوام کو رات دن محنت کرکے اشیا صرف مہیا کرنے والے مزدوروں اور کسانوں کے گھروں میں فاقے ہوتے ہیں، یہ ہے سرمایہ دارانہ نظام کا وہ ظلم جسے ہر حال میں ختم ہونا چاہیے۔ لیکن یہ ظلم ختم کیسے ہوگا ، بعض سیاسی رہنما کو خدا جانے کس نے صلاح دی ہے وہ آج کل کسانوں کے مسائل حل کرنے کی دلچسپ باتیں کر رہے ہیں جب کہ وہ ہزاروں ایکڑ زمین کے مالک ہیں اگر کسانوں سے اتنی ہی ہمدردی ہے تو اپنی لاکھوں ایکڑ زمین کسانوں میں فری بانٹ دیں، یہ کوئی خیرات یا مہربانی نہیں ہے، صرف حق دار کو اس کا حق ملنے کی بات ہے۔
ہمارے وزیر اعظم کی نظر سے مزدور اور کسان گزرتے ہی نہیں کیونکہ عمران خان بھولے سے بھی ان کا نام نہیں لیتے، عمران خان ملک میں غریبوں کو ان کا حق دلانا چاہتے ہیں اور سب سے بڑے غریب مزدور اور کسان ہیں۔ کیا ہم امید کریں کہ عمران خان صنعتوںسے ٹھیکیداری نظام ختم کریں گے اور کسانوں کو اپنے مسائل حل کرنے کے لیے ٹریڈ یونین بنانے کا حق دیں۔ زبانی جمع خرچ کرنے والے تو بہت ہیں، عملی کام کرنے والے ناپید ہیں، عمران خان نے اگر مزدوروں، کسانوں کے مسائل حل کیے تو ان کا ووٹ بینک مضبوط ہو جائے گا۔