اپوزیشن پر تنقید
موجودہ اپوزیشن نالائق ہے جو کسی چیز سے فائدہ نہیں اٹھا سکی، شیخ رشید
KARACHI:
مسلم لیگی عوامی کے سربراہ اور وزیر اعظم عمران خان کی کابینہ کے اہم رکن شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ موجودہ اپوزیشن نالائق ہے جو کسی چیز سے فائدہ نہیں اٹھا سکی۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کی اپوزیشن مہنگائی اور بے روزگاری ہے اپوزیشن حکومت کے لیے کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ اپوزیشن ملک سے باہر رہنے ہی میں خوش ہے۔
یہ اپوزیشن بھگوڑے ہیں اور نواز شریف بڑے سرمایہ کار ہیں جنھیں ان کے بیٹے کبھی واپس آنے نہیں دیں گے۔ اپنے محکمے ریلوے سے زیادہ اپوزیشن پر تنقید کرنے والے شیخ رشید احمد ماضی میں نواز شریف کی حکومت میں وزیر بھی رہے اور جب نواز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب تھے تو شیخ رشید احمد ان کی قریبی سیاسی ٹیم کے اہم ساتھی تھے اور 1989 میں جب نواز شریف نے پہلی بار شارع قائدین پر منعقدہ ایم کیو ایم کے جلسے میں شرکت کی تو ان کے ساتھ شیخ رشید احمد کے ساتھ چوہدری شجاعت حسین بھی تھے۔
اس جلسے کے بعد میاں نواز شریف میرے آبائی شہر شکارپور حاجی مولا بخش سومرو کی وفات پر تعزیت کے لیے آئے تھے اور ساعت سرا سومرو میں میاں صاحب سے راقم کی ملاقات ہوئی تھی تو میڈیا سے گفتگو کے دوران ان کے دائیں طرف شیخ رشید احمد اور بائیں طرف چوہدری شجاعت حسین کھڑے تھے۔ نواز شریف 1990 میں جب پہلی بار وزیر اعظم بنے تھے تو چوہدری شجاعت اور شیخ رشید جو نواز شریف کے اپوزیشن دور کے ساتھی تھے کابینہ میں اہم وزارتوں پر فائز کیے گئے تھے۔ شیخ رشید محترمہ بے نظیر بھٹو کے سخت ناقد تھے جن کے دور میں شیخ رشید گرفتار ہوکر کچھ عرصے تک بھاولپور میں قید بھی رہے تھے۔
نواز شریف کی دوسری حکومت میں شیخ رشید کو کابینہ کے پہلے مرحلے میں شامل نہیں کیا گیا تھا جس پر شیخ رشید خفا تھے اور دوسرے مرحلے میں انھیں نواز شریف نے ان کے ساتھ اعجاز الحق کو بھی کابینہ میں شامل کرنا چاہا تو شیخ رشید فوراً ہی وزیر بن گئے تھے مگر اعجاز الحق نے پہلے مرحلے میں نظرانداز کیے جانے پر نواز شریف کی کابینہ میں شمولیت سے انکار کردیا تھا جب کہ چوہدری شجاعت پہلے مرحلے میں ہی شامل کرلیے گئے تھے اور شیخ رشید اور چوہدری شجاعت 1999 میں نواز شریف حکومت کی برطرفی تک وزیر اور نواز شریف کے ساتھ رہے تھے۔
چوہدری شجاعت شیخ رشید کی طرح جذباتی نہیں بلکہ دور اندیش رہنما ہیں جو مخالفت بھی اصولی طور پر کرتے ہیں اور بے نظیر دور میں گرفتار نہیں ہوئے جب کہ شیخ رشید اقتدار کی طرح اپوزیشن میں بھی بے قابو ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے انھیں بے نظیر حکومت میں بے نظیر بھٹو پر ان کی کڑی مگر قابل اعتراض تقریر پر گرفتار کیا گیا تھا۔
جنرل پرویز مشرف کے اقتدار میں آنے کے بعد مسلم لیگ (ق) سرکاری طور پر قائم ہوئی تو شیخ رشید جمالی کابینہ میں شامل کرلیے گئے تھے اور نواز شریف جلا وطن کردیے گئے تھے۔ چوہدریوں کی نواز شریف سے ناراضگی اصولی تھی۔بے رحم سیاسی کھیل میں سیاستدان اصولوں سے زیادہ ذاتی اور سیاسی مفاد کو ترجیح دینے کے عادی ہیں اور شیخ رشید نے یہ سبق وقت کے ساتھ ساتھ سیکھا ہوگا اس لیے انھوں نے جنرل پرویز مشرف کا ساتھ دیا اور ان کی حکومت میں رہے اور ان کے جاتے ہی شیخ رشید نے مسلم لیگ (ق) سے جدا ہوکر اپنی عوامی مسلم لیگ بنا لی تھی جس کی ملکی سیاست میں کوئی اہمیت نہیں مگر شیخ رشید اپنی عوامی باتوں کے باعث سیاست میں نمایاں رہنے کا ہنر جانتے ہیں۔
2008 میں راولپنڈی سے الیکشن ہار گئے تھے اور بعد میں ضمنی انتخاب بھی نہیں جیت سکے تھے مگر پی پی حکومت میں انھوں نے صدر آصف علی زرداری سے ملاقات بھی کی تھی اور ان کی اپوزیشن بھی برائے نام تھی ان کے پاس مسلم لیگ (ن) یا (ق) میں جانے کا راستہ بھی نہیں تھا اس لیے انھوں نے اپنی پارٹی برقرار رکھتے ہوئے اپوزیشن کے ابھرتے لیڈر عمران خان کی حمایت شروع کی حالانکہ دونوں ایک ٹاک شو میں الجھ بھی پڑے تھے۔
2013 میں عمران خان کی حمایت سے وہ ایک نشست پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تو انھوں نے کھل کر نواز شریف کی تیسری حکومت میں اپوزیشن کی اور دعویٰ کیا تھا کہ اسحق ڈار اگر ڈالر 98 روپے پر لے آئے تو وہ قومی اسمبلی سے مستعفی ہوجائیں گے مگر ڈالر 98 روپے کا ہوا مگر شیخ رشید مستعفی نہیں ہوئے اور عمران خان سے نہ صرف جا ملے بلکہ ان کے جلسوں میں شریفوں پر ضرورت سے زیادہ برستے رہے جس کی وجہ سے وہ عمران خان کے قریب ہوتے گئے اور آج کابینہ میں ہوتے ہوئے ان کا شوق شریفوں پر کڑی سے کڑی تنقید ہے جب کہ زرداری دور سے ہی وہ پیپلز پارٹی کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور آصف زرداری پر ہاتھ ہلکا رکھتے ہوئے بلاول بھٹو کو پسند بھی کرتے اور پیار سے انھیں بلو رانی بھی کہتے ہیں۔
شریفوں سے جدا ہوکر ان کا ٹارگٹ صرف شریف فیملی ہے مگر وہ اب بھی شہباز شریف کو اپنا قرار دیتے ہیں اور ان کی تنقید شہباز شریف کی بجائے نواز شریف پر زیادہ رہتی ہے اور وفاقی وزیر ہوتے ہوئے وہ نواز شریف پر تنقید زیادہ کرتے ہیں اور کوئی پریس کانفرنس ایسی نہیں جس میں وہ شریفوں کا ذکر کرنا بھولے ہوں۔
شیخ رشید شہباز شریف کی بجائے مولانا فضل الرحمن کو اپوزیشن لیڈر قرار دیتے ہیں جن کے لیے انھوں نے کہا تھا کہ وہ اسلام آباد نہیں آئیں گے مگر مولانا آکر لوٹ گئے تو شیخ رشید نے بھی یو ٹرن لیا اور اب کہہ رہے ہیں کہ اب مولانا آئے تو دھر لیے جائیں گے۔
شریف برادران، پیپلز پارٹی اور مولانا شیخ رشید کی باتوں کا جواب دینا مناسب نہیں سمجھتے مگر شیخ رشید جو بھی پیشگوئی کرچکے ہیں وہ کم ہی پوری ہوئی ہیں۔
شیخ رشید نے اب اپوزیشن کو نالائق قرار دیا ہے حالانکہ اپوزیشن میں شریفوں کے علاوہ دوسرے بھی ہیں اور وطن ہی میں موجود ہیں اور صرف شریف فیملی باہر ہے اور مقدمات میں اپنے رہنماؤں سمیت پھنسی ہوئی ہے اور ان کی ترجیح ملک میں مہنگائی سے زیادہ اپنے معاملات نمٹانا لگتی ہے جب کہ مہنگائی اور بے روزگاری پر تنقید بلاول بھٹو، مولانا اور سراج الحق کھل کر مگر الگ الگ کر رہے ہیں۔
مولانا کے دھرنے میں اپنے اپنے مفاد کے لیے مسلم لیگ (ن) اور پی پی نے ان کا اس طرح ساتھ نہیں دیا جس طرح دینا چاہیے تھا۔ اپوزیشن کو مقدمات اور گرفتاریوں میں پھنسانے میں حکومت سو فیصد کامیاب رہی ہے اور دونوں بڑی پارٹیاں واقعی نالائق ہیں ورنہ دونوں اپنے مفاد کو نظر انداز کرکے مولانا کے دھرنے سے (ق) لیگ کی طرح فائدہ اٹھا سکتی تھیں اب شریفوں کو ووٹ کی عزت سے زیادہ اپنے مقدمات کی فکر ہے، مولانا سے کیے گئے وعدے پورے نہیں ہو رہے تھے تو شیخ رشید شاید اپوزیشن کو نالائق کہہ کر انھیں اپنی ہی حکومت کے خلاف متحد ہوجانے کے لیے اکسا رہے ہیں۔
مسلم لیگی عوامی کے سربراہ اور وزیر اعظم عمران خان کی کابینہ کے اہم رکن شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ موجودہ اپوزیشن نالائق ہے جو کسی چیز سے فائدہ نہیں اٹھا سکی۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کی اپوزیشن مہنگائی اور بے روزگاری ہے اپوزیشن حکومت کے لیے کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ اپوزیشن ملک سے باہر رہنے ہی میں خوش ہے۔
یہ اپوزیشن بھگوڑے ہیں اور نواز شریف بڑے سرمایہ کار ہیں جنھیں ان کے بیٹے کبھی واپس آنے نہیں دیں گے۔ اپنے محکمے ریلوے سے زیادہ اپوزیشن پر تنقید کرنے والے شیخ رشید احمد ماضی میں نواز شریف کی حکومت میں وزیر بھی رہے اور جب نواز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب تھے تو شیخ رشید احمد ان کی قریبی سیاسی ٹیم کے اہم ساتھی تھے اور 1989 میں جب نواز شریف نے پہلی بار شارع قائدین پر منعقدہ ایم کیو ایم کے جلسے میں شرکت کی تو ان کے ساتھ شیخ رشید احمد کے ساتھ چوہدری شجاعت حسین بھی تھے۔
اس جلسے کے بعد میاں نواز شریف میرے آبائی شہر شکارپور حاجی مولا بخش سومرو کی وفات پر تعزیت کے لیے آئے تھے اور ساعت سرا سومرو میں میاں صاحب سے راقم کی ملاقات ہوئی تھی تو میڈیا سے گفتگو کے دوران ان کے دائیں طرف شیخ رشید احمد اور بائیں طرف چوہدری شجاعت حسین کھڑے تھے۔ نواز شریف 1990 میں جب پہلی بار وزیر اعظم بنے تھے تو چوہدری شجاعت اور شیخ رشید جو نواز شریف کے اپوزیشن دور کے ساتھی تھے کابینہ میں اہم وزارتوں پر فائز کیے گئے تھے۔ شیخ رشید محترمہ بے نظیر بھٹو کے سخت ناقد تھے جن کے دور میں شیخ رشید گرفتار ہوکر کچھ عرصے تک بھاولپور میں قید بھی رہے تھے۔
نواز شریف کی دوسری حکومت میں شیخ رشید کو کابینہ کے پہلے مرحلے میں شامل نہیں کیا گیا تھا جس پر شیخ رشید خفا تھے اور دوسرے مرحلے میں انھیں نواز شریف نے ان کے ساتھ اعجاز الحق کو بھی کابینہ میں شامل کرنا چاہا تو شیخ رشید فوراً ہی وزیر بن گئے تھے مگر اعجاز الحق نے پہلے مرحلے میں نظرانداز کیے جانے پر نواز شریف کی کابینہ میں شمولیت سے انکار کردیا تھا جب کہ چوہدری شجاعت پہلے مرحلے میں ہی شامل کرلیے گئے تھے اور شیخ رشید اور چوہدری شجاعت 1999 میں نواز شریف حکومت کی برطرفی تک وزیر اور نواز شریف کے ساتھ رہے تھے۔
چوہدری شجاعت شیخ رشید کی طرح جذباتی نہیں بلکہ دور اندیش رہنما ہیں جو مخالفت بھی اصولی طور پر کرتے ہیں اور بے نظیر دور میں گرفتار نہیں ہوئے جب کہ شیخ رشید اقتدار کی طرح اپوزیشن میں بھی بے قابو ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے انھیں بے نظیر حکومت میں بے نظیر بھٹو پر ان کی کڑی مگر قابل اعتراض تقریر پر گرفتار کیا گیا تھا۔
جنرل پرویز مشرف کے اقتدار میں آنے کے بعد مسلم لیگ (ق) سرکاری طور پر قائم ہوئی تو شیخ رشید جمالی کابینہ میں شامل کرلیے گئے تھے اور نواز شریف جلا وطن کردیے گئے تھے۔ چوہدریوں کی نواز شریف سے ناراضگی اصولی تھی۔بے رحم سیاسی کھیل میں سیاستدان اصولوں سے زیادہ ذاتی اور سیاسی مفاد کو ترجیح دینے کے عادی ہیں اور شیخ رشید نے یہ سبق وقت کے ساتھ ساتھ سیکھا ہوگا اس لیے انھوں نے جنرل پرویز مشرف کا ساتھ دیا اور ان کی حکومت میں رہے اور ان کے جاتے ہی شیخ رشید نے مسلم لیگ (ق) سے جدا ہوکر اپنی عوامی مسلم لیگ بنا لی تھی جس کی ملکی سیاست میں کوئی اہمیت نہیں مگر شیخ رشید اپنی عوامی باتوں کے باعث سیاست میں نمایاں رہنے کا ہنر جانتے ہیں۔
2008 میں راولپنڈی سے الیکشن ہار گئے تھے اور بعد میں ضمنی انتخاب بھی نہیں جیت سکے تھے مگر پی پی حکومت میں انھوں نے صدر آصف علی زرداری سے ملاقات بھی کی تھی اور ان کی اپوزیشن بھی برائے نام تھی ان کے پاس مسلم لیگ (ن) یا (ق) میں جانے کا راستہ بھی نہیں تھا اس لیے انھوں نے اپنی پارٹی برقرار رکھتے ہوئے اپوزیشن کے ابھرتے لیڈر عمران خان کی حمایت شروع کی حالانکہ دونوں ایک ٹاک شو میں الجھ بھی پڑے تھے۔
2013 میں عمران خان کی حمایت سے وہ ایک نشست پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تو انھوں نے کھل کر نواز شریف کی تیسری حکومت میں اپوزیشن کی اور دعویٰ کیا تھا کہ اسحق ڈار اگر ڈالر 98 روپے پر لے آئے تو وہ قومی اسمبلی سے مستعفی ہوجائیں گے مگر ڈالر 98 روپے کا ہوا مگر شیخ رشید مستعفی نہیں ہوئے اور عمران خان سے نہ صرف جا ملے بلکہ ان کے جلسوں میں شریفوں پر ضرورت سے زیادہ برستے رہے جس کی وجہ سے وہ عمران خان کے قریب ہوتے گئے اور آج کابینہ میں ہوتے ہوئے ان کا شوق شریفوں پر کڑی سے کڑی تنقید ہے جب کہ زرداری دور سے ہی وہ پیپلز پارٹی کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور آصف زرداری پر ہاتھ ہلکا رکھتے ہوئے بلاول بھٹو کو پسند بھی کرتے اور پیار سے انھیں بلو رانی بھی کہتے ہیں۔
شریفوں سے جدا ہوکر ان کا ٹارگٹ صرف شریف فیملی ہے مگر وہ اب بھی شہباز شریف کو اپنا قرار دیتے ہیں اور ان کی تنقید شہباز شریف کی بجائے نواز شریف پر زیادہ رہتی ہے اور وفاقی وزیر ہوتے ہوئے وہ نواز شریف پر تنقید زیادہ کرتے ہیں اور کوئی پریس کانفرنس ایسی نہیں جس میں وہ شریفوں کا ذکر کرنا بھولے ہوں۔
شیخ رشید شہباز شریف کی بجائے مولانا فضل الرحمن کو اپوزیشن لیڈر قرار دیتے ہیں جن کے لیے انھوں نے کہا تھا کہ وہ اسلام آباد نہیں آئیں گے مگر مولانا آکر لوٹ گئے تو شیخ رشید نے بھی یو ٹرن لیا اور اب کہہ رہے ہیں کہ اب مولانا آئے تو دھر لیے جائیں گے۔
شریف برادران، پیپلز پارٹی اور مولانا شیخ رشید کی باتوں کا جواب دینا مناسب نہیں سمجھتے مگر شیخ رشید جو بھی پیشگوئی کرچکے ہیں وہ کم ہی پوری ہوئی ہیں۔
شیخ رشید نے اب اپوزیشن کو نالائق قرار دیا ہے حالانکہ اپوزیشن میں شریفوں کے علاوہ دوسرے بھی ہیں اور وطن ہی میں موجود ہیں اور صرف شریف فیملی باہر ہے اور مقدمات میں اپنے رہنماؤں سمیت پھنسی ہوئی ہے اور ان کی ترجیح ملک میں مہنگائی سے زیادہ اپنے معاملات نمٹانا لگتی ہے جب کہ مہنگائی اور بے روزگاری پر تنقید بلاول بھٹو، مولانا اور سراج الحق کھل کر مگر الگ الگ کر رہے ہیں۔
مولانا کے دھرنے میں اپنے اپنے مفاد کے لیے مسلم لیگ (ن) اور پی پی نے ان کا اس طرح ساتھ نہیں دیا جس طرح دینا چاہیے تھا۔ اپوزیشن کو مقدمات اور گرفتاریوں میں پھنسانے میں حکومت سو فیصد کامیاب رہی ہے اور دونوں بڑی پارٹیاں واقعی نالائق ہیں ورنہ دونوں اپنے مفاد کو نظر انداز کرکے مولانا کے دھرنے سے (ق) لیگ کی طرح فائدہ اٹھا سکتی تھیں اب شریفوں کو ووٹ کی عزت سے زیادہ اپنے مقدمات کی فکر ہے، مولانا سے کیے گئے وعدے پورے نہیں ہو رہے تھے تو شیخ رشید شاید اپوزیشن کو نالائق کہہ کر انھیں اپنی ہی حکومت کے خلاف متحد ہوجانے کے لیے اکسا رہے ہیں۔