کورونا وائرس اور ہماری قوم
ہماری قوم کا سب سے بڑا مسئلہ ہی اخلاقیات کا ہے، عوام صفائی کی اہمیت تک سے آگاہ نہیں
لاہور:
میرے سامنے آج کے اخبارات پڑے ہیں۔ ہر سرخی، ہر سطر کورونا کا رونا رو رہی ہے۔ وزیرِاعظم پاکستان نے جلد قوم سے خطاب کرنے کا اعلان بھی کردیا ہے اور نیشنل سیکیورٹی کمیٹی میں لیے گئے سنجیدہ فیصلوں پر عملدرآمد بھی شروع ہوچکا ہے۔ ٹی وی اسکرین ہر کچھ دیر بعد کورونا وائرس کے شکار لوگوں کی تعداد میں اضافے کی خبر دے رہی ہے۔
اس وقت کورونا وائرس کے مریضوں کے لحاظ سے صوبہ سندھ سب سے آگے، جبکہ بلوچستان دوسرے، خیبر پختونخوا تیسرے اور پنجاب چوتھے نمبر پر ہے۔ میں یہاں ابھی تک سامنے آنے والے کیسز کی تعداد کا ذکر نہیں کررہا، کیونکہ تحریر لکھنے سے چھپنے تک اور چھپنے سے آپ کے پڑھنے تک کے وقت میں یہ تعداد کسی بھی حد تک جاسکتی ہے۔ اگلا ایک ہفتہ مگر نہایت اہم ہے۔ کورونا اور پاکستانی قوم میں سے کون دوسرے پر حاوی ہوتا ہے، آنے والے سات روز میں صورت حال واضح ہوجائے گی۔ آج کی تحریر اس نکتے پر لکھ رہا ہوں کہ اس وائرس کے پیشِ نظر ابھی تک کیا اقدامات لیے جانے چاہیے تھے جو نہیں لیے گئے اور جو لیے گئے وہ کیسے بہتر انداز سے لیے جا سکتے تھے۔
آپ شاید نہ مانیں مگر یہ حقیقت ہے کہ سوشل میڈیائی یلغار کے اس دور میں بھی عوامی سطح پر ابھی تک لوگوں کو یہ بات نہیں سمجھائی جاسکی کہ کورونا وائرس کیا ہے اور اس کا پھیلاؤ کیسے ہوا۔ چونکہ عوام ان بنیادی حقائق سے لاعلم ہیں لہٰذا یہ بھی نہیں جانتے کہ اس وائرس سے بچاؤ کیسے ممکن ہے۔ دیگر ممالک میں ایسے مواقعوں پر عوام کی معلومات کا ذریعہ حکومت کی جانب سے دی گئی مستند انفارمیشن ہوتی ہیں۔ مگر پاکستان میں یہ فرض واٹس ایپ اور فیس بک کے خود ساختہ دانشور ادا کرتے ہیں۔ اکثر سوچتا ہوں کہ جیسے بندر کے ہاتھ میں استرے کا تصور نہایت خوفناک ہوتا ہے، ایسے ہی کسی کم علم کے ہاتھ فیس بک اور واٹس ایپ کی سہولت بھی خوفناک صورت اختیار کررہی ہے۔ جہاں جس کا جو دل میں آئے لکھ ڈالتا ہے اور عوام اسے پھیلانے اور ماننے کو اپنا فرض عین سمجھ بیٹھتے ہیں۔ یوں کبھی کورونا یہودیوں کا مسلمانوں کے مصافحہ پر وار ٹھہرتا ہے تو کبھی دنیا کی آبادی کو کم کرنے کےلیے ایجنسیوں کا کھیل۔ حکومت کا پہلا کام جھوٹی خبروں کو روکنا اور اپنی سوشل میڈیا ٹیم کے ذریعے حقائق کا پروپیگنڈا کرنا ہے، تاکہ عوام کو من گھڑت باتوں پر یقین کرکے پریشان ہونے سے روکا جاسکے۔
ایک فیصلہ کرلیجئے کہ کاروبارِ مملکت اہم ہے یا پھر عوام کی صحت۔ اگر عوام کی صحت اہم ہے اور کسی بڑے حادثے سے پہلے ہوش کے ناخن لینے ہیں، تو اہم فیصلے کرنے ہوں گے۔ اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں بند کرنے کا اعلان ہوئے کئی دن ہوچکے مگر آج بھی اسٹاف کی حاضری جاری ہے۔ بیشتر تعلیمی اداروں اور دفاتر کی جانب سے ملازمین کو چھٹیاں کرنے پر تنخواہوں میں کٹوتی کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔
اس وقت دنیا کے دیگر ممالک اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے کا واحد حل لوگوں میں فاصلے کو یقینی بنانا ہے۔ اس کی ایک مثال چین ہے، جہاں اب کورونا وائرس کے کیسز ختم ہونے کے قریب ہیں اور انہوں نے اس بیماری کو مکمل کرفیو کے ذریعے شکست دی ہے۔ ہماری حکومت کو بھی حالات بگڑنے سے پہلے مکمل لاک ڈاؤن کا حکم دے دینا چاہیے۔ لاک ڈاؤن مگر ایک طریقہ کار کے تحت ہونا چاہیے۔ اول تو حکومت کو چاہیے کہ نجی اور سرکاری دفاتر میں پیڈ لیوز دی جائیں۔ ہر سیکٹر میں ملازمین کو جو سالانہ چھٹیاں دی جاتی ہیں، انہیں باقی سال کےلیے منسوخ کرکے اس دورانیے میں صرف کرنی چاہئیں۔ ساتھ ہی انٹرنیٹ کے استعمال کے ذریعے ملازمین کو گھروں سے کام کرنے کی ترغیب دی جانی چاہیے اور اسٹوڈنٹس کےلیے بھی آن لائن کلاسز کا قیام ہونا چاہیے۔ یونیورسٹیوں میں پاور پوائنٹ پریزنٹیشنز پر ہی ٹیچرز وقت صرف کرتے ہیں، بھلا ہوگا بچوں کا اگر وہی سلائیڈ انہیں ای میل کردی جائے تاکہ وہ گھروں میں ہی مطالعہ کرسکیں۔
مان لیجئے کہ ہم سے دیر ہوگئی۔ جب چین میں یہ وائرس تباہی مچا رہا تھا، تو ہمیں ایک پڑوسی ہونے کی صورت میں اپنی کیپیسٹی بلڈنگ کرلینی چاہیے تھی۔ جنگ کی تیاری جنگ کے دوران نہیں بلکہ امن کے موسم میں کی جاتی ہے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ نہ تو ہمارے پاس ٹیسٹنگ کٹس ہیں اور نہ ہی ملک کے بیشتر اسپتالوں میں آئسولیشن وارڈز۔ ہمارے ڈاکٹرز مریضوں کے قریب جانے کو تیار نہیں۔ اور کیوں ہوں؟ ان کے پاس نہ تو حفاظتی یونیفارم ہے اور نہ ہی ایسی صورت حال کےلیے کسی قسم کی ٹریننگ۔ بلا سر پر آن پڑی۔ آج بھی سینیٹائزر اور ماسک مارکیٹ میں دستیاب نہیں اور حکامِ بالا کو ابھی تک اس کا احساس نہیں۔ آج کے دن تک ذخیرہ اندوزوں اور مہنگے داموں ماسک بیچنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن نہ ہوسکا۔ چلیے یہ مشکل کام ہے۔ ہونے میں وقت لگے گا۔ کم سے کم اتنا تو ہوجاتا کہ عوام کو بتادیا جاتا کہ جن کے گھروں اور دفاتر میں صابن اور پانی کی سہولت موجود ہے، انہیں سینیٹائزر کی کوئی ضرورت نہیں۔ حالات مگر ایسے ہیں کہ جنہوں نے پچھلے ہفتے تک ایسا کوئی لفظ نہیں سنا تھا، اور آج بھی جنہیں فائر ایکسٹنگویشر اور سینیٹائزر میں فرق نہیں معلوم، وہ بھی سینیٹائزر خریدنے ایسے پہنچے ہوئے ہیں جیسے کورونا کا واحد علاج ایک عدد سینیٹائزر کی بوتل میں ہو۔
یہاں میڈیا اصل ڈکٹیٹر ہے۔ میڈیا اگر میرے پاس تم ہو جیسے ڈرامے میں دانش کی وفات پر لوگوں کو رلا سکتا ہے، عورت مارچ کے نام پر مردوں اور عورتوں میں لڑائی کروا سکتا ہے، تو یقیناً خیر کے پیغامات میں بھی اثر رکھ سکتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ میڈیا کو استعمال کرکے عوام تک مستند معلومات اور احتیاطی تدابیر اس انداز سے پہنچائی جائیں کہ بچہ بچہ ان پیغامات کو سمجھ کر ان پر عمل کرسکے۔ میڈیا بتائے کہ اگر حکومت نے اسکول بند کیے ہیں تو یہ چھٹیاں نانی کے گھر یا مری کی سیر کےلیے نہیں، بلکہ گھروں میں رہنے اور سوشل ڈسٹنسنگ کی غرض سے دی گئی ہیں۔ میڈیا کے ذریعے مہینوں کا راشن گھر میں اسٹاک کرنے سے منع کیا جائے۔ حکومت اس عمل کو یقینی بنائے اور ساتھ ہی عوام کو بتائے کہ بدترین حالات میں بھی ایک گروسری، ایک فارمیسی اور ایک سبزی کی دکان ہر سیکٹر میں کھلی رہے گی۔ عوام کے گھر پر سودا سلف ان کی اصل قیمت پر پہنچایا جائے گا اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی ہوگی۔
کہتے ہیں کہ حادثات ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ سوچ ہے کہ حادثات ہمیشہ دوسروں کے ساتھ ہوتے ہیں۔ ہمارے بیشتر عوام آج بھی اس مہلک مرض کو اپنے گھر آتا نہیں دیکھ رہے۔ یہ بات تب تک اچھی ہوتی جب تک اس بیماری سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر اختیار کی جاچکی ہوتیں اور پھر مزید اسے سر پر سوار نہ کیا جاتا۔ کورونا کے سوال پر عوامی جواب یہ ہے موت جب آنی ہے تب آئے گی۔ یہاں فرض ہمارے دینی رہنماؤں اور مذہبی پیشواؤں کا بنتا ہے کہ عوام کو تقدیر اور اللہ پر توکل کے ساتھ تدبیر کی اہمیت سے بھی آگاہ کیا جائے۔ انہیں یہ بھی بتایا جائے کہ جہاں اللہ نے اس پر یقین کا حکم دیا ہے، وہیں اللہ نے جسم کو اس کی امانت اور اس امانت کی حفاظت کو انسانوں پر فرض قرار دیا ہے۔
کورونا کا علاج صفائی سے ممکن ہے اور ہمارے عوام اس کی اہمیت سے آگاہ نہیں۔ صفائی کو ایمان کا نصف حصہ کہنے والی یہ قوم آج بھی گندگی کے ڈھیر میں ہی اپنی حسیات کو مکمل طور پر فعال پاتی ہے۔ شاید ہماری قوم کا سب سے بڑا مسئلہ ہی اخلاقیات کا ہے۔ جب تک اس قوم کو ایک ایسا لیڈر نہیں ملتا جو اس کی اخلاقیات سدھارنے کا بیڑا اٹھائے، تب تک ہم خسارے میں رہیں گے۔ یہاں دروازوں پر سینیٹائزر چسپاں کیے جاتے رہیں گے مگر شام ہوتے ہی کوئی نہ کوئی اسے اتار کر گھر لے جاتا رہے گا۔ یہاں شہروں میں مریضوں کےلیے قرنطینہ بنانے پر دیگر صحتمند لوگ احتجاج کرتے رہیں گے۔ یہاں چالیس روپے کا ماسک نو سو روپے کا بکتا رہے گا۔ یہاں لوگ قصداً دوسروں کے اوپر چھینکتے رہیں گے اور لوگ حکومتی اقدامات نظر انداز کرتے اللہ کے اس عذاب کا مذاق اڑاتے رہیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
میرے سامنے آج کے اخبارات پڑے ہیں۔ ہر سرخی، ہر سطر کورونا کا رونا رو رہی ہے۔ وزیرِاعظم پاکستان نے جلد قوم سے خطاب کرنے کا اعلان بھی کردیا ہے اور نیشنل سیکیورٹی کمیٹی میں لیے گئے سنجیدہ فیصلوں پر عملدرآمد بھی شروع ہوچکا ہے۔ ٹی وی اسکرین ہر کچھ دیر بعد کورونا وائرس کے شکار لوگوں کی تعداد میں اضافے کی خبر دے رہی ہے۔
اس وقت کورونا وائرس کے مریضوں کے لحاظ سے صوبہ سندھ سب سے آگے، جبکہ بلوچستان دوسرے، خیبر پختونخوا تیسرے اور پنجاب چوتھے نمبر پر ہے۔ میں یہاں ابھی تک سامنے آنے والے کیسز کی تعداد کا ذکر نہیں کررہا، کیونکہ تحریر لکھنے سے چھپنے تک اور چھپنے سے آپ کے پڑھنے تک کے وقت میں یہ تعداد کسی بھی حد تک جاسکتی ہے۔ اگلا ایک ہفتہ مگر نہایت اہم ہے۔ کورونا اور پاکستانی قوم میں سے کون دوسرے پر حاوی ہوتا ہے، آنے والے سات روز میں صورت حال واضح ہوجائے گی۔ آج کی تحریر اس نکتے پر لکھ رہا ہوں کہ اس وائرس کے پیشِ نظر ابھی تک کیا اقدامات لیے جانے چاہیے تھے جو نہیں لیے گئے اور جو لیے گئے وہ کیسے بہتر انداز سے لیے جا سکتے تھے۔
آپ شاید نہ مانیں مگر یہ حقیقت ہے کہ سوشل میڈیائی یلغار کے اس دور میں بھی عوامی سطح پر ابھی تک لوگوں کو یہ بات نہیں سمجھائی جاسکی کہ کورونا وائرس کیا ہے اور اس کا پھیلاؤ کیسے ہوا۔ چونکہ عوام ان بنیادی حقائق سے لاعلم ہیں لہٰذا یہ بھی نہیں جانتے کہ اس وائرس سے بچاؤ کیسے ممکن ہے۔ دیگر ممالک میں ایسے مواقعوں پر عوام کی معلومات کا ذریعہ حکومت کی جانب سے دی گئی مستند انفارمیشن ہوتی ہیں۔ مگر پاکستان میں یہ فرض واٹس ایپ اور فیس بک کے خود ساختہ دانشور ادا کرتے ہیں۔ اکثر سوچتا ہوں کہ جیسے بندر کے ہاتھ میں استرے کا تصور نہایت خوفناک ہوتا ہے، ایسے ہی کسی کم علم کے ہاتھ فیس بک اور واٹس ایپ کی سہولت بھی خوفناک صورت اختیار کررہی ہے۔ جہاں جس کا جو دل میں آئے لکھ ڈالتا ہے اور عوام اسے پھیلانے اور ماننے کو اپنا فرض عین سمجھ بیٹھتے ہیں۔ یوں کبھی کورونا یہودیوں کا مسلمانوں کے مصافحہ پر وار ٹھہرتا ہے تو کبھی دنیا کی آبادی کو کم کرنے کےلیے ایجنسیوں کا کھیل۔ حکومت کا پہلا کام جھوٹی خبروں کو روکنا اور اپنی سوشل میڈیا ٹیم کے ذریعے حقائق کا پروپیگنڈا کرنا ہے، تاکہ عوام کو من گھڑت باتوں پر یقین کرکے پریشان ہونے سے روکا جاسکے۔
ایک فیصلہ کرلیجئے کہ کاروبارِ مملکت اہم ہے یا پھر عوام کی صحت۔ اگر عوام کی صحت اہم ہے اور کسی بڑے حادثے سے پہلے ہوش کے ناخن لینے ہیں، تو اہم فیصلے کرنے ہوں گے۔ اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں بند کرنے کا اعلان ہوئے کئی دن ہوچکے مگر آج بھی اسٹاف کی حاضری جاری ہے۔ بیشتر تعلیمی اداروں اور دفاتر کی جانب سے ملازمین کو چھٹیاں کرنے پر تنخواہوں میں کٹوتی کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔
اس وقت دنیا کے دیگر ممالک اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے کا واحد حل لوگوں میں فاصلے کو یقینی بنانا ہے۔ اس کی ایک مثال چین ہے، جہاں اب کورونا وائرس کے کیسز ختم ہونے کے قریب ہیں اور انہوں نے اس بیماری کو مکمل کرفیو کے ذریعے شکست دی ہے۔ ہماری حکومت کو بھی حالات بگڑنے سے پہلے مکمل لاک ڈاؤن کا حکم دے دینا چاہیے۔ لاک ڈاؤن مگر ایک طریقہ کار کے تحت ہونا چاہیے۔ اول تو حکومت کو چاہیے کہ نجی اور سرکاری دفاتر میں پیڈ لیوز دی جائیں۔ ہر سیکٹر میں ملازمین کو جو سالانہ چھٹیاں دی جاتی ہیں، انہیں باقی سال کےلیے منسوخ کرکے اس دورانیے میں صرف کرنی چاہئیں۔ ساتھ ہی انٹرنیٹ کے استعمال کے ذریعے ملازمین کو گھروں سے کام کرنے کی ترغیب دی جانی چاہیے اور اسٹوڈنٹس کےلیے بھی آن لائن کلاسز کا قیام ہونا چاہیے۔ یونیورسٹیوں میں پاور پوائنٹ پریزنٹیشنز پر ہی ٹیچرز وقت صرف کرتے ہیں، بھلا ہوگا بچوں کا اگر وہی سلائیڈ انہیں ای میل کردی جائے تاکہ وہ گھروں میں ہی مطالعہ کرسکیں۔
مان لیجئے کہ ہم سے دیر ہوگئی۔ جب چین میں یہ وائرس تباہی مچا رہا تھا، تو ہمیں ایک پڑوسی ہونے کی صورت میں اپنی کیپیسٹی بلڈنگ کرلینی چاہیے تھی۔ جنگ کی تیاری جنگ کے دوران نہیں بلکہ امن کے موسم میں کی جاتی ہے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ نہ تو ہمارے پاس ٹیسٹنگ کٹس ہیں اور نہ ہی ملک کے بیشتر اسپتالوں میں آئسولیشن وارڈز۔ ہمارے ڈاکٹرز مریضوں کے قریب جانے کو تیار نہیں۔ اور کیوں ہوں؟ ان کے پاس نہ تو حفاظتی یونیفارم ہے اور نہ ہی ایسی صورت حال کےلیے کسی قسم کی ٹریننگ۔ بلا سر پر آن پڑی۔ آج بھی سینیٹائزر اور ماسک مارکیٹ میں دستیاب نہیں اور حکامِ بالا کو ابھی تک اس کا احساس نہیں۔ آج کے دن تک ذخیرہ اندوزوں اور مہنگے داموں ماسک بیچنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن نہ ہوسکا۔ چلیے یہ مشکل کام ہے۔ ہونے میں وقت لگے گا۔ کم سے کم اتنا تو ہوجاتا کہ عوام کو بتادیا جاتا کہ جن کے گھروں اور دفاتر میں صابن اور پانی کی سہولت موجود ہے، انہیں سینیٹائزر کی کوئی ضرورت نہیں۔ حالات مگر ایسے ہیں کہ جنہوں نے پچھلے ہفتے تک ایسا کوئی لفظ نہیں سنا تھا، اور آج بھی جنہیں فائر ایکسٹنگویشر اور سینیٹائزر میں فرق نہیں معلوم، وہ بھی سینیٹائزر خریدنے ایسے پہنچے ہوئے ہیں جیسے کورونا کا واحد علاج ایک عدد سینیٹائزر کی بوتل میں ہو۔
یہاں میڈیا اصل ڈکٹیٹر ہے۔ میڈیا اگر میرے پاس تم ہو جیسے ڈرامے میں دانش کی وفات پر لوگوں کو رلا سکتا ہے، عورت مارچ کے نام پر مردوں اور عورتوں میں لڑائی کروا سکتا ہے، تو یقیناً خیر کے پیغامات میں بھی اثر رکھ سکتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ میڈیا کو استعمال کرکے عوام تک مستند معلومات اور احتیاطی تدابیر اس انداز سے پہنچائی جائیں کہ بچہ بچہ ان پیغامات کو سمجھ کر ان پر عمل کرسکے۔ میڈیا بتائے کہ اگر حکومت نے اسکول بند کیے ہیں تو یہ چھٹیاں نانی کے گھر یا مری کی سیر کےلیے نہیں، بلکہ گھروں میں رہنے اور سوشل ڈسٹنسنگ کی غرض سے دی گئی ہیں۔ میڈیا کے ذریعے مہینوں کا راشن گھر میں اسٹاک کرنے سے منع کیا جائے۔ حکومت اس عمل کو یقینی بنائے اور ساتھ ہی عوام کو بتائے کہ بدترین حالات میں بھی ایک گروسری، ایک فارمیسی اور ایک سبزی کی دکان ہر سیکٹر میں کھلی رہے گی۔ عوام کے گھر پر سودا سلف ان کی اصل قیمت پر پہنچایا جائے گا اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی ہوگی۔
کہتے ہیں کہ حادثات ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ سوچ ہے کہ حادثات ہمیشہ دوسروں کے ساتھ ہوتے ہیں۔ ہمارے بیشتر عوام آج بھی اس مہلک مرض کو اپنے گھر آتا نہیں دیکھ رہے۔ یہ بات تب تک اچھی ہوتی جب تک اس بیماری سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر اختیار کی جاچکی ہوتیں اور پھر مزید اسے سر پر سوار نہ کیا جاتا۔ کورونا کے سوال پر عوامی جواب یہ ہے موت جب آنی ہے تب آئے گی۔ یہاں فرض ہمارے دینی رہنماؤں اور مذہبی پیشواؤں کا بنتا ہے کہ عوام کو تقدیر اور اللہ پر توکل کے ساتھ تدبیر کی اہمیت سے بھی آگاہ کیا جائے۔ انہیں یہ بھی بتایا جائے کہ جہاں اللہ نے اس پر یقین کا حکم دیا ہے، وہیں اللہ نے جسم کو اس کی امانت اور اس امانت کی حفاظت کو انسانوں پر فرض قرار دیا ہے۔
کورونا کا علاج صفائی سے ممکن ہے اور ہمارے عوام اس کی اہمیت سے آگاہ نہیں۔ صفائی کو ایمان کا نصف حصہ کہنے والی یہ قوم آج بھی گندگی کے ڈھیر میں ہی اپنی حسیات کو مکمل طور پر فعال پاتی ہے۔ شاید ہماری قوم کا سب سے بڑا مسئلہ ہی اخلاقیات کا ہے۔ جب تک اس قوم کو ایک ایسا لیڈر نہیں ملتا جو اس کی اخلاقیات سدھارنے کا بیڑا اٹھائے، تب تک ہم خسارے میں رہیں گے۔ یہاں دروازوں پر سینیٹائزر چسپاں کیے جاتے رہیں گے مگر شام ہوتے ہی کوئی نہ کوئی اسے اتار کر گھر لے جاتا رہے گا۔ یہاں شہروں میں مریضوں کےلیے قرنطینہ بنانے پر دیگر صحتمند لوگ احتجاج کرتے رہیں گے۔ یہاں چالیس روپے کا ماسک نو سو روپے کا بکتا رہے گا۔ یہاں لوگ قصداً دوسروں کے اوپر چھینکتے رہیں گے اور لوگ حکومتی اقدامات نظر انداز کرتے اللہ کے اس عذاب کا مذاق اڑاتے رہیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔