کبھی سوچا نہ تھا

حالیہ مشاہداتی سفر سے یہ بات سامنے آئی کہ ہماری قوم خود اپنے آپ سے مخلص نہیں۔

مصروفیات کے باعث ہم اس قدر غیر موثر ہوچکے ہیں کہ وقت ڈھونڈنے سے نہیں ملتا ۔ وقت کی جستجو میں، میں نے PTV ہیڈ آفس سے ڈرائیور کو ریلوے اسٹیشن چلنے کوکہا ۔ کئی روز سے میں ایک اہم کتاب'' پاکستان تاریخ وسیاست'' پڑھنے کے لیے بے تاب تھی مگر وقت ِ ندارد، خیال آیا کہ کوئی طویل سفر اختیار کروں ، جس میں کتابیں ہوں اور میں۔ اسی مقصد سے ریلوے اسٹیشن پہنچ کر اگلے روز کے لیے ٹکٹ کے حصول کی درخواست کی۔

متعلقہ اہلکار نے حیرانگی سے کہا کہ محترمہ آپ غلط جگہ تشریف لائی ہیں اس لیے کہ آیندہ دس روز کسی ٹرین میں کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔''مرتا کیا نہ کرتا کے مصدق'' میں نے وفاقی دارالحکومت سے رابطہ کیا تو خوش قسمتی سے بزنس کلاس کا ٹکٹ مہیا ہوگیا۔ مروجہ نظام کے مطابق یہ سہولت اس لیے اور اچھی ہوگئی کہ صحافتی رعایت کے تحت ٹکٹ ایک ہزار اسی روپے میں دستیاب ہوگیا۔ میں خود کلامی کی کیفیت میں کچھ یوں مبتلا رہی کہ واقعی برائے نام ادائیگی پر آج بھی اتنا طویل سفر ہوسکتا ہے۔

میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا کہ اگلے روز جب میں عزمِ سفر ہوئی توخوشی دوچند ہوگئی کہ ریل بھی بروقت روانہ ہوئی۔ وہی پھر میرے خیالات کی جنگ شروع ہوگئی کہ ہم کسی بارے میں منفی پہلو پر زیادہ زورکیوں دیتے ہیں؟ آخر مثبت عوامل ہمیں کیوں نظر نہیں آتے؟ تاہم مجھے یہ بات بہت گراں گزری کہ جتنی احتیاط سے مسافر اپنے سامان کی حفاظت کرتے ہیں آخر وہ ریل گاڑی سمیت قومی املاک کی حفاظت کیوں نہیں کرتے۔

سوچوں کی یلغار سے قدرے فراغت ملی تو نظروں اور نظاروں کی اٹھکیلیاں شروع ہوگئیں لیکن کچھ الجھن بھی ہوئی کہ نظریں چُرانا بھی چاہیں تو راستے بھر کی گندگی اور غلاظت کے ڈھیر مرزا غالب کے اس مصرعے کی تکرار کرتے رہے کہ ''دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو'' اور مجھے یہ بھی خیال آیا کہ اگرکسی غیر ملکی نے غلطی سے ہماری ٹرین میں سفر کرلیا تو وہ کیا سوچے گا کہ ''پاکستان میں لوگ گندگی میں پلتے ہیں یا گندگی کو پالتے ہیں'' پنڈی پہنچ کر سب سے پہلے ریلوے ڈی ایس سندھ کو ٹیلیفونک مبارکباد شکریہ کے ساتھ ترسیل کی کہ ٹرین بروقت روانہ ہوئی اور بروقت ہی منزل مقصود کو پہنچی۔

چونکہ دورانِ سفر میرے ہم سفر میری کتابیں اور تنہائی تھی اور سوچوں کی یلغار بھی مجھے چھیڑتی رہی ۔ خاص طور پر اس نکتے پر کہ وطن عزیز کا مستقبل کون سنوارے گا؟حکومت، یا عوام یا کوئی غیبی قوت، بہرحال اﷲ تعالیٰ کی ذات سے مایوس نہیں ہونا چاہیے، انشاء اﷲ عنقریب حالت ضرور بہتر ہوں گے بقول شاعر...

ذرا سکون تو لینے دیں گردش ایام ہمیں

ہم اپنے وطن کو ایک دن زمیں کا چاند بنائیں گے


میں انھی سوچوں میں گم تھی کہ ایک آواز نے مجھے چونکا دیا '' باجی سامان اٹھا لوں''دیکھا تو قلی صاحب مجھ سے سوال کررہے تھے۔ ان کے چہرے اور حلیے سے آسودگی محسوس نہیں ہورہی تھی لیکن انھوں نے کراچی کے اپنے ہم منصب سے تین گنا زیادہ اُجرت طلب کی ۔ جس پر مجھے شدید جھٹکا لگا۔ اتنے میں ایک پریشانِ حال بزرگ اور ان کی فیملی کو دیکھا تو میں ان ناپسندیدہ حرکات وسکنات اور خاص طور پر اس دھکم پیل کو بھول گئی جو ایک صرف ایک گیٹ سے اسٹیشن سے باہر جانے والے مسافروں کی افراتفریحی کی باعث مجھے زلزلے کے جھٹکوں سے زیادہ ناگوار گزرے تھے اور میرے ذہن میں یہ خیال آیا تھا کہ ہم ایک مہذب قوم ہونے کے باوجود تہذیب سے ناآشنا کیوں ہیں۔ کیا وفاقی دارالحکومت سے ملحقہ جڑواں شہر راولپنڈی ریلوے اسٹیشن مسافروں کی آمدورفت کے لیے ایک سے زیادہ گیٹ برقرار نہیں رکھے جاسکتے۔ نامعلوم باقی گیٹ کیوں بند کیے گئے ہیں ۔

خیر صاحب، وہ بزرگ ٹیکسی ڈرائیوروں کی مہربانیوں کے شکار ہوگئے تھے۔ چار و ناچار انھوں نے دوتین ڈرائیوروں کی پیش کش سے معذرت کے بعد بری طرح سے پیچھے پڑجانے والے ایک ٹیکسی ڈرائیور کے ساتھ روانگی کا فیصلہ کرلیا اور میں افسوس اور صورتِ حال کی سنگینی اور دلچسپی سے بھرپور مشاہداتی کشمکش کے ہاتھوں مسکرانے پر مجبور ہوگئی کہ بارِ خدا ہم کب تک ناجائز مال کمانے والوں کے ہاتھوں مجبور اور پریشان ہوتے رہیں گے۔

اسلام آباد میں چند روز ٹھہرنے کے بعد لاہور میں قیام کیا اور پھر بس کے ذریعے واپسی کا ارادہ کیا جس کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ بس کے مسافروں اور انتظامیہ کی اخلاقی اور انسانی اقدارکا قریب سے مشاہدہ کیا جائے۔

لاہور ڈیفنس سے میں '' ٹھوکر نیاز بیگ'' بس کے اسٹیشن پہنچی تو ڈرائیور نے گاڑی اندر لے جانے سے پہلے کنفرم کیا کہ انٹری فیس کی ادائیگی میری جیب سے ہوگی ۔ میرے حامی بھرنے پر گاڑی اندر گئی تو میری نگاہ گیٹ پر کھڑے گارڈ پر پڑی جو اپنی ڈیوٹی کررہا تھا۔ میرے ذہن کو ''ٹھوکر نیاز بیگ'' کے اس منظر سے ابھی حالیہ یاد داشت کی ٹھوکر لگی اور یاد آیا کہ اسلام آباد میں وزارتِ اطلاعات کی سیکیورٹی سرچ مشین عرصے دراز سے خراب ہے لیکن اس کی مرمت اور بحالی کا اب تک انتظام نہیں ہوسکا ۔ میں جب بھی اسلام آباد جاتی ہوں تو دیدہ دانستہ مشین خراب دیکھنے کے باوجود لیڈی سرچر سے مشین کی خیریت دریافت کرتی ہوں اور جواب نفی میں پاکر مسکراتی ہوئی آگے بڑھ جاتی ہوں ۔ یہ میرا یہاں کا تجربہ بڑا حیران کن رہا کہ بس اسٹیشن پر نہ صرف خاتون نے چیکنگ کی بلکہ ان کی مشین بھی صحیح کام کر رہی تھی۔ پر مجھے نہیں پتہ تھا کہ آگے مزید کچھ الجھنیں میرا والہانہ استقبال کررہی ہیں۔

اس سلسلے میں ایک الجھن ذہن میں بھی گشت کرتی رہی کہ آمد ایک ہزار روپے میں اور واپسی پانچ ہزار روپے میں۔ اور یہی نہیں ہر چیز کے دام بالائے بام پائے۔ بلیک کافی ایک کپ ایک سونّوے روپے میں، پاپ کارن اسّی روپے میں، چپس پر درج کی گئی قیمت کو کاٹ پر پچاس روپے سمیت ہر جگہ جہان دیگر محسوس ہوا۔ دوسوچالیس روپے کھانے کی ادائیگی کے ساتھ دس روپے سروس چارجز لیے گئے۔ دل میں خیال آیا کہ ہمارے دین میں مسافرکے سفرکی آسانی کے لیے فرضی روزہ چھوڑنے کے بھی احکامات ہیں مگر یہاں تو گنگا ہی الٹی بہہ رہی ہے۔میرے دل ودماغ میں عوام کو مظلوم ثابت کرنے کی کشمکش میرے احساسات کو برا نگیختہ کرگئی اس لیے کہ ہمارے یہاں نہ تو قیمتوں کے استحکام پر زور دیا جاتا ہے اور نہ مجرموں کے خلاف کارروائی۔

ہرچند کہ قیمتوں کے تعین کے سلسلے میں قومی اور صوبائی سطح پر کئی محکمے کام کررہے ہیں مگر کیفیت یہ ہے کہ '' ہر شاخ پر الّو بیٹھا ہے انجامِ گلستاں کیا ہوگا؟''

حالیہ مشاہداتی سفر سے یہ بات سامنے آئی کہ ہماری قوم خود اپنے آپ سے مخلص نہیں اگر انھیں اپنی حیثیت کا قرارِ واقعی احساس ہوتو حکومتوں سے روابط کوفروغ دیں جس کے نتیجے میں بہت سی برائیاں جو ہمارے اندر سرائیت کرچکی ہیں وہ دور ہوجائیں گی اور پھر طرفین ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرانے کے بجائے باہم مشاورت سے قومی ترقی اور خوشحالی یقینی بناسکتے ہیں۔ میری دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ وطنِ عزیزمیں ہر فرد و بشر کو برائیوں سے بچنے کی توفیق اور نیکی کی ترغیب عطا فرمائے۔ بصورت ِدیگر ہمارا شمار دنیا کی بد ترین اقوام میں ہوتا رہے گا اور ہم اپنی مجموعی عزت نفس کو اپنے ہاتھوں پامال کرکے بے وقوفی کے ڈنکے بجاتے رہیں گے۔
Load Next Story