کورونا سے نبٹنے کیلئے حکومت اور عوام کو یکجا ہو کر مقابلہ کرنا ہو گا
ملکی معیشت تو پہلے ہی دباو اور زوال کا شکار تھی اور اب کورونا وائرس کی وجہ سے صورتحال تباہ کن رخ اختیار کر چکی ہے۔
کورونا وائرس کی تباہ کاریوں نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ، ترقی یافتہ ممالک تو اپنے وافر مالی وسائل اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے وبا پر قابو پانے میں بتدریج کامیابی حاصل کر رہے ہیں لیکن تیسری دنیا کے ممالک تباہ کن اثرات کا شکار ہیں، تقریباً آدھی دنیا خود کو''لاک ڈاون'' کر چکی ہے۔
پاکستان میں بھی کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور آنے والے دنوں میں صورتحال مزید خراب ہونے کا خطرہ ہے۔ پاکستان میں کورونا کا شکار ہونے والے مریضوں کی 95 فیصد تعداد ایران سے واپس آنے والے زائرین میں سے ہے اور اس حوالے سے وفاقی حکومت پر کی جانے والی تنقید اس لحاظ سے درست ہے کہ وفاقی کابینہ نے چین گئے طلباء کو واپس آنے سے تو سختی سے روک کر درست اقدام کیا لیکن ایران سے واپس آنے والے زائرین کو روکنے یا ان کی فول پروف سکریننگ کیلئے مناسب ا قدامات نہیں کیئے گئے ۔
بعض حلقوں کا دعوی ہے کہ کابینہ کے بہت سے ارکان واپس آنے والوں پر پابندی عائد کرنا چاہتے تھے لیکن کابینہ میں شامل وزیر اعظم کے ایک معاون خصوصی نے (جو کہ وزیر اعظم کی آنکھ کا تارہ ہیں ) اس کی مخالفت کی۔ ایرانی سرحد پر متعلقہ محکموں نے بھی سکریننگ کیلئے سخت انتظامات نہیں کیئے جبکہ واپس آنے والوں نے بھی اپنے اندر پائے جانے والی علامات بارے رضاکارانہ طور پر حکام کو آگاہ نہیں کیا ۔
کورونا وائرس سے نبٹنے کے لیے وفاقی وصوبائی حکومتوں نے اقدامات کا آغاز تو کیا ہے لیکن انہیں تسلی بخش قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ پاکستان میں حکومت نے ہنگامی بنیادوں پر جو پابندیاں عائد کی ہیں انہیں ایک طرح سے''لاک ڈاون'' ہی کہا جا سکتا ہے، تعلیمی و مذہبی ادارے بند کر دیئے گئے ہیں، شادی ہالز، ایکسرسائزجم، تفریحی مقامات، عجائب گھر اور قومی یادگاریں بند کی جا چکی ہیں اور یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مریضوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہونے کی صورت میں حکومت باضابطہ طور پر لاک ڈاون کا اعلان کر سکتی ہے ۔
چین میں کورونا وائرس کے پھیلتے ہی دنیا کو معلوم ہو گیا تھا کہ یہ ایک عالمی وبا کی صورت اختیار کرے گا، ممالک نے مستقبل کے چیلنجز کا اندازہ کرتے ہوئے انتظامات کاآغاز کر دیا تھا لیکن پاکستان میں حکومت نے ایک ماہ تاخیر سے اقدامات شروع کیئے۔ حکومت پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ اس نے پی ایس ایل کے متاثر ہونے کے اندیشہ کی وجہ سے کورونا وائرس کے معاملہ کو دبائے رکھا۔ حکومتوں کی صلاحیت اور قومی رہنماوں کی دانشمندی ہمیشہ بحران میں ہی جانچی جاتی ہے۔
اس وقت یہ عالم ہے کہ بازاروں میں ہینڈ واش لیکوئیڈ اور سینی ٹائزر ختم ہو چکا ہے اور جہاں موجود ہے وہاں کئی گنا زیادہ قیمت پر فروخت ہو رہا ہے۔ مارکیٹ میں غیر معمولی طلب کی وجہ سے غیر معیاری سینی ٹائزر مارکیٹ میں فروخت ہو رہے ہیں۔ ماسک بھی نایاب ہو چکے ہیں اور چند روپے والا ماسک کئی سو روپے میں بک رہا ہے۔دکانوں پر کھانے پینے کی اشیاء کی قلت پیدا ہونے کا خطرہ پیدا ہو چکا ہے ۔
من الحیث القوم ہمارا مزاج تو ویسے بھی ایسا ہے کہ اگر افواہ پھیل جائے کہ پٹرول مہنگا ہونے والا ہے تو ایک لٹر پٹرول ڈلوانے والا شخص پوری ٹینکی بھروا لیتا ہے، چینی اور آٹے کی قلت کا خدشہ ہوتو کئی ماہ کیلئے راشن بھر لیا جاتا ہے۔اس وقت بھی ملک بھر میں ہیجان خیزی کا شکار عوام PANIC BUYING کر رہے ہیںاور گھروں میں اضافی راشن ذخیرہ کر رہے ہیں جس کی وجہ سے اشیائے ضروریہ کی رسد و طلب میں بحرانی صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔
پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے اور ہماری حکومت کے پاس مالی وسائل کی کثرت بھی نہیں ہے اور منصوبہ سازی کا فقدان تو گزشتہ 19 ماہ سے دکھائی دے رہا ہے۔ حکومتی فیصلہ سازی میں گھبراہٹ اور ہیجان خیزی دکھائی دے رہی ہے جس کی وجہ سے عوام افواہوں پر یقین کر کے مزید خوف کا شکار ہو رہے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ وہ ہر ممکن اقدامات کرے لیکن اس طرح سے کرے کہ ملک میں خوف پیدا نہ ہو۔
مکمل غیر جانبداری سے جائزہ لیا جائے تو وزیر اعلی سندھ مراد شاہ کی کارکردگی دیگر وزرائے اعلی سے بہت بہتر دکھائی دے رہی ہے۔ وہ فیلڈ میں خود جا رہے ہیں، روزانہ میڈیا میں آکر سندھ کے عوام کو صورتحال سے آگاہ کر رہے ہیں جبکہ دوسری جانب ملک کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کے وزیر اعلی سردار عثمان بزدار ابھی تک بند کمروں میں اجلاسوں تک محدود دکھائی دے رہے ہیں ، سردار عثمان بزدار صوبے کے چیف ایگزیکٹو ہیں انہیں چاہیے کہ تمام اضلاع کا ہنگامی دورہ کر کے طبی سہولیات کا جائزہ لیں، خود ماسک پہن کر سڑکوں پر آکر عوام میں ماسک تقسیم کر کے انہیں آگاہی دیں۔
پابندی کی وجہ سے متاثر ہونے والی کسی شادی کی تقریب کے حوالے سے وہاں جا کر دلہا دلہن اور ان کے والدین کو اپنے گھرکی چار دیواری میں سادگی سے شادی کرنے کے بارے میں سمجھائیںا ور ممکن ہو تو کسی گھر میں ہونے والی تقریب میں شرکت بھی کر لیں ۔ چند بڑے سٹورز کا دورہ کر کے لوگوں کو یقین دلائیں کہ ہیجان خیز خریداری سے پرہیز کریں جبکہ وزیر اعلی اس وقت اپنی پرائس کنٹرول کمیٹی کو حقیقی معنوں میں استعمال کرتے ہوئے قیمتوں میں ہونے والے غیر معمولی اضافہ کو روکنے کیلئے اقدامات کریں۔ وہ عملی طور پر میدان میں آکر نہ صرف حکومت بلکہ اپنی ساکھ کو بھی مزید بہتر بنا سکتے ہیں ۔
فی الوقت تو چیف سیکرٹری پنجاب میجر (ر) اعظم سلیمان خان ہی بھرپور طریقے سے متحرک دکھائی دے رہے ہیں اور وہ اپنی ماتحت بیوروکریسی کے ذریعے صورتحال کو معمول پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ بعض معاملات میں حکومت بھی مجبوریوں کا شکار ہے جیسا کہ سبزی و پھل منڈیوں میں روزانہ لاکھوں لوگ خریدو فروخت کیلئے مختلف علاقوں سے آتے ہیں اور نیلامی کے وقت حد درجہ کی دھکم پیل بھی معمول ہے جو کورونا وائرس کے پھیلاو کا سبب بن سکتی ہے لیکن عوام کو خوراک کی فراہمی کی غرض سے منڈیوں کو بند کرنا ممکن نہیں ہے۔ چیف سیکرٹری کی ہدایت پر سیکرٹری زراعت نے مارکیٹ کمیٹیوں کے ذریعے تمام منڈیوں میں ہینڈ واش اور سینی ٹائزر کا انتظام کروایا ہے ۔
چند روز تک گندم کی فصل تیار ہونے والی ہے اور پنجاب بھر میں 5 لاکھ سے زائد لوگ محکمہ خوراک اور پاسکو کے قائم کردہ خریداری مراکز پر جائیں گے۔آٹے کی دستیابی کو مستحکم رکھنے اور کسانوں کو ان کی فصل کی بروقت قیمت کی ادائیگی کی خاطر گندم خریداری مہم کو موخر کرنا بھی ممکن نہیں ہے اسی وجہ سے سیکرٹری فوڈ نے تمام خریداری مراکز پر کورونا وائرس سے بچاو کیلئے خصوصی انتظامات کرنے کا سرکلر جاری کیا ہے۔کورونا وائرس نے پاکستان کی معیشت کو شدید متاثر کیا ہے اور ابھی مزید کرے گا ۔
ملکی معیشت تو پہلے ہی دباو اور زوال کا شکار تھی اور اب کورونا وائرس کی وجہ سے صورتحال تباہ کن رخ اختیار کر چکی ہے اور اس کے نقصانات کا ازالہ کرنے میں طویل وقت درکار ہوگا۔کورونا وائرس کے عالمی چیلنج سے نبٹنے کیلئے تمام تر ذمہ داری حکومتوں پرعائد نہیں کی جا سکتی، عوام کو بھی اپنے حصے کی ذمہ داری نبھانا ہوگی، سماجی میل جول کے روایتی طریقے ترک کرنا ہوں گے، حکومت کی عائد کردہ پابندیوں اور ہدایات پر عمل کرنا ہوگا جبکہ سب سے اہم یہ کہ نہ تو خود خوفزدہ ہونا ہے اور نہ ہی دوسروں کو خوفزدہ کرنا ہے ۔ حکومت بھی بروقت فیصلے کرے جیسا کہ پی ایس ایل کو کئی روز قبل ختم کردینا چاہئے تھا لیکن یہ فیصلہ گزشتہ روز کیا گیا ۔
پاکستان میں بھی کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور آنے والے دنوں میں صورتحال مزید خراب ہونے کا خطرہ ہے۔ پاکستان میں کورونا کا شکار ہونے والے مریضوں کی 95 فیصد تعداد ایران سے واپس آنے والے زائرین میں سے ہے اور اس حوالے سے وفاقی حکومت پر کی جانے والی تنقید اس لحاظ سے درست ہے کہ وفاقی کابینہ نے چین گئے طلباء کو واپس آنے سے تو سختی سے روک کر درست اقدام کیا لیکن ایران سے واپس آنے والے زائرین کو روکنے یا ان کی فول پروف سکریننگ کیلئے مناسب ا قدامات نہیں کیئے گئے ۔
بعض حلقوں کا دعوی ہے کہ کابینہ کے بہت سے ارکان واپس آنے والوں پر پابندی عائد کرنا چاہتے تھے لیکن کابینہ میں شامل وزیر اعظم کے ایک معاون خصوصی نے (جو کہ وزیر اعظم کی آنکھ کا تارہ ہیں ) اس کی مخالفت کی۔ ایرانی سرحد پر متعلقہ محکموں نے بھی سکریننگ کیلئے سخت انتظامات نہیں کیئے جبکہ واپس آنے والوں نے بھی اپنے اندر پائے جانے والی علامات بارے رضاکارانہ طور پر حکام کو آگاہ نہیں کیا ۔
کورونا وائرس سے نبٹنے کے لیے وفاقی وصوبائی حکومتوں نے اقدامات کا آغاز تو کیا ہے لیکن انہیں تسلی بخش قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ پاکستان میں حکومت نے ہنگامی بنیادوں پر جو پابندیاں عائد کی ہیں انہیں ایک طرح سے''لاک ڈاون'' ہی کہا جا سکتا ہے، تعلیمی و مذہبی ادارے بند کر دیئے گئے ہیں، شادی ہالز، ایکسرسائزجم، تفریحی مقامات، عجائب گھر اور قومی یادگاریں بند کی جا چکی ہیں اور یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مریضوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہونے کی صورت میں حکومت باضابطہ طور پر لاک ڈاون کا اعلان کر سکتی ہے ۔
چین میں کورونا وائرس کے پھیلتے ہی دنیا کو معلوم ہو گیا تھا کہ یہ ایک عالمی وبا کی صورت اختیار کرے گا، ممالک نے مستقبل کے چیلنجز کا اندازہ کرتے ہوئے انتظامات کاآغاز کر دیا تھا لیکن پاکستان میں حکومت نے ایک ماہ تاخیر سے اقدامات شروع کیئے۔ حکومت پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ اس نے پی ایس ایل کے متاثر ہونے کے اندیشہ کی وجہ سے کورونا وائرس کے معاملہ کو دبائے رکھا۔ حکومتوں کی صلاحیت اور قومی رہنماوں کی دانشمندی ہمیشہ بحران میں ہی جانچی جاتی ہے۔
اس وقت یہ عالم ہے کہ بازاروں میں ہینڈ واش لیکوئیڈ اور سینی ٹائزر ختم ہو چکا ہے اور جہاں موجود ہے وہاں کئی گنا زیادہ قیمت پر فروخت ہو رہا ہے۔ مارکیٹ میں غیر معمولی طلب کی وجہ سے غیر معیاری سینی ٹائزر مارکیٹ میں فروخت ہو رہے ہیں۔ ماسک بھی نایاب ہو چکے ہیں اور چند روپے والا ماسک کئی سو روپے میں بک رہا ہے۔دکانوں پر کھانے پینے کی اشیاء کی قلت پیدا ہونے کا خطرہ پیدا ہو چکا ہے ۔
من الحیث القوم ہمارا مزاج تو ویسے بھی ایسا ہے کہ اگر افواہ پھیل جائے کہ پٹرول مہنگا ہونے والا ہے تو ایک لٹر پٹرول ڈلوانے والا شخص پوری ٹینکی بھروا لیتا ہے، چینی اور آٹے کی قلت کا خدشہ ہوتو کئی ماہ کیلئے راشن بھر لیا جاتا ہے۔اس وقت بھی ملک بھر میں ہیجان خیزی کا شکار عوام PANIC BUYING کر رہے ہیںاور گھروں میں اضافی راشن ذخیرہ کر رہے ہیں جس کی وجہ سے اشیائے ضروریہ کی رسد و طلب میں بحرانی صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔
پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے اور ہماری حکومت کے پاس مالی وسائل کی کثرت بھی نہیں ہے اور منصوبہ سازی کا فقدان تو گزشتہ 19 ماہ سے دکھائی دے رہا ہے۔ حکومتی فیصلہ سازی میں گھبراہٹ اور ہیجان خیزی دکھائی دے رہی ہے جس کی وجہ سے عوام افواہوں پر یقین کر کے مزید خوف کا شکار ہو رہے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ وہ ہر ممکن اقدامات کرے لیکن اس طرح سے کرے کہ ملک میں خوف پیدا نہ ہو۔
مکمل غیر جانبداری سے جائزہ لیا جائے تو وزیر اعلی سندھ مراد شاہ کی کارکردگی دیگر وزرائے اعلی سے بہت بہتر دکھائی دے رہی ہے۔ وہ فیلڈ میں خود جا رہے ہیں، روزانہ میڈیا میں آکر سندھ کے عوام کو صورتحال سے آگاہ کر رہے ہیں جبکہ دوسری جانب ملک کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کے وزیر اعلی سردار عثمان بزدار ابھی تک بند کمروں میں اجلاسوں تک محدود دکھائی دے رہے ہیں ، سردار عثمان بزدار صوبے کے چیف ایگزیکٹو ہیں انہیں چاہیے کہ تمام اضلاع کا ہنگامی دورہ کر کے طبی سہولیات کا جائزہ لیں، خود ماسک پہن کر سڑکوں پر آکر عوام میں ماسک تقسیم کر کے انہیں آگاہی دیں۔
پابندی کی وجہ سے متاثر ہونے والی کسی شادی کی تقریب کے حوالے سے وہاں جا کر دلہا دلہن اور ان کے والدین کو اپنے گھرکی چار دیواری میں سادگی سے شادی کرنے کے بارے میں سمجھائیںا ور ممکن ہو تو کسی گھر میں ہونے والی تقریب میں شرکت بھی کر لیں ۔ چند بڑے سٹورز کا دورہ کر کے لوگوں کو یقین دلائیں کہ ہیجان خیز خریداری سے پرہیز کریں جبکہ وزیر اعلی اس وقت اپنی پرائس کنٹرول کمیٹی کو حقیقی معنوں میں استعمال کرتے ہوئے قیمتوں میں ہونے والے غیر معمولی اضافہ کو روکنے کیلئے اقدامات کریں۔ وہ عملی طور پر میدان میں آکر نہ صرف حکومت بلکہ اپنی ساکھ کو بھی مزید بہتر بنا سکتے ہیں ۔
فی الوقت تو چیف سیکرٹری پنجاب میجر (ر) اعظم سلیمان خان ہی بھرپور طریقے سے متحرک دکھائی دے رہے ہیں اور وہ اپنی ماتحت بیوروکریسی کے ذریعے صورتحال کو معمول پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ بعض معاملات میں حکومت بھی مجبوریوں کا شکار ہے جیسا کہ سبزی و پھل منڈیوں میں روزانہ لاکھوں لوگ خریدو فروخت کیلئے مختلف علاقوں سے آتے ہیں اور نیلامی کے وقت حد درجہ کی دھکم پیل بھی معمول ہے جو کورونا وائرس کے پھیلاو کا سبب بن سکتی ہے لیکن عوام کو خوراک کی فراہمی کی غرض سے منڈیوں کو بند کرنا ممکن نہیں ہے۔ چیف سیکرٹری کی ہدایت پر سیکرٹری زراعت نے مارکیٹ کمیٹیوں کے ذریعے تمام منڈیوں میں ہینڈ واش اور سینی ٹائزر کا انتظام کروایا ہے ۔
چند روز تک گندم کی فصل تیار ہونے والی ہے اور پنجاب بھر میں 5 لاکھ سے زائد لوگ محکمہ خوراک اور پاسکو کے قائم کردہ خریداری مراکز پر جائیں گے۔آٹے کی دستیابی کو مستحکم رکھنے اور کسانوں کو ان کی فصل کی بروقت قیمت کی ادائیگی کی خاطر گندم خریداری مہم کو موخر کرنا بھی ممکن نہیں ہے اسی وجہ سے سیکرٹری فوڈ نے تمام خریداری مراکز پر کورونا وائرس سے بچاو کیلئے خصوصی انتظامات کرنے کا سرکلر جاری کیا ہے۔کورونا وائرس نے پاکستان کی معیشت کو شدید متاثر کیا ہے اور ابھی مزید کرے گا ۔
ملکی معیشت تو پہلے ہی دباو اور زوال کا شکار تھی اور اب کورونا وائرس کی وجہ سے صورتحال تباہ کن رخ اختیار کر چکی ہے اور اس کے نقصانات کا ازالہ کرنے میں طویل وقت درکار ہوگا۔کورونا وائرس کے عالمی چیلنج سے نبٹنے کیلئے تمام تر ذمہ داری حکومتوں پرعائد نہیں کی جا سکتی، عوام کو بھی اپنے حصے کی ذمہ داری نبھانا ہوگی، سماجی میل جول کے روایتی طریقے ترک کرنا ہوں گے، حکومت کی عائد کردہ پابندیوں اور ہدایات پر عمل کرنا ہوگا جبکہ سب سے اہم یہ کہ نہ تو خود خوفزدہ ہونا ہے اور نہ ہی دوسروں کو خوفزدہ کرنا ہے ۔ حکومت بھی بروقت فیصلے کرے جیسا کہ پی ایس ایل کو کئی روز قبل ختم کردینا چاہئے تھا لیکن یہ فیصلہ گزشتہ روز کیا گیا ۔