بلوچستان یونیورسٹی کے پاس تدریسی عمل جاری رکھنے کیلئے فنڈ نہیں اساتذہ کا بھیک مانگنے کا اعلان

اگر ایچ ای سی نے فنڈ فراہم نہ کئے تو کشکول اٹھا کر سڑکوں پر بھیک مانگیں گے، اساتذہ

جامعہ بلوچستان کے پاس اساتذہ سمیت 1800 ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے بھی فنڈز موجود نہیں۔ فوٹو؛فائل

حکومت کی غفلت اور ہایئرایجوکیشن کمیشن کی جانب سے فنڈ میں کٹوتی سے بلوچستان یونیورسٹی میں تدریسی عمل رک گیا ہے جس کے باعث اساتذہ نے سڑکوں پر بھیک مانگنے کا اعلان کیا ہے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق ہائیرایجو کیشن کمیشن کی جانب سےبلوچستان یونیورسٹی کے فنڈز میں 50 فیصد کٹوتی کے بعد تدریسی عمل متاثر ہونے پر پروفیسر اور صدر جوائنٹ ایکشن کمیٹی کلیم اللہ نے اعلان کیا ہے کہ اگر ایچ ای سی کی جانب سے فنڈ فراہم نہ کئے گئے تو ہم لوگ کشکول اٹھا کر سڑکوں پر کھڑے ہوجائیں گے اور جامعہ کی حالت کو بہتر بنانے کے لیے بھیک مانگیں گے۔


فنڈز کی کٹوتی کے باعث یونیورسٹی میں تعلیمی سرگرمیاں نہ ہونے کے باعث قیمتی وقت کے ضیاع پر طلبا بھی پریشان ہیں۔ فنڈز کی عدم دستیابی کے باعث یونیورسٹی کے پاس اساتذہ سمیت دیگر 1800 ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے بھی رقم موجود نہیں۔ یونیورسٹی کو اس وقت 300 اساتذہ کی ضرورت ہے مگر فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے ان اسامیوں کو بھی پر نہیں کیا جاسکا۔

واضح رہے کہ بلوچستان یونیورسٹی میں تدریسی عمل کے ساتھ بولان میڈیکل کالج، لاء کالج، ویمن یونیورسٹی سمیت صوبے بھر کے دیگر 50 ڈگری کالجز کے امتحانات اور پرچوں کی تیاری میں مددبھی فراہم کر تا ہے۔ اگر حکومت نے بلوچستان یونیورسٹی کو فنڈز کی فوری فراہمی کو یقینی نہیں بنایا تو اس سے ہزاروں طالب علموں کا مستقبل خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
Load Next Story