کرونا وائرس مساجد میں احتیاطی تدابیر
مساجد مسلم معاشرے میں دل کی مانند ہیں، جہاں نمازیوں کو وائرس سے محفوظ رکھنا اہم ہے
عالمی ادارہ صحت نے کرونا وائرس کو عالمی وبا قرار دیدیا ہے۔ اس وقت دنیا میں کرونا کے متاثرین کی تعداد ایک لاکھ 82 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔
اب تک سات ہزار سے زائد افراد اس وائرس کی وجہ سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ پاکستان بھی اُن ممالک میں شامل ہے جہاں اس کے مریض مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ نتیجتاً حکومت کی جانب سے غیر معمولی اقدامات کیے گئے ہیں جن میں تعلیمی اداروں میں تعطیل، شادی ہالوں اور بڑے اجتماعات پر پابندی شامل ہے۔ حکومت کی جانب سے اجتماعات کے انعقاد پر بھی مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
پاکستان میں کرونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ سندھ ہے۔ منگل تک جن افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہو چکی تھی، ان کی تعداد 155 ہو چکی ہے، اس کے علاوہ پنجاب میں بھی پانچ نئے مریضوں کی تصدیق ہوئی ہے، جس کے بعد پنجاب میں مریضوں کی کل تعداد چھ ہوگئی ہے۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق سندھ اور پنجاب کے علاوہ خیبر پختونخوا میں15، بلوچستان میں10، اسلام آباد میں چار اور گلگت بلتستان میں کرونا کے تین مریض موجود ہیں۔اس طرح ملک میں کرونا سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد 193 ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
اس وائرس کے ان مقامات پر پھیلنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے، جہاں لوگ زیادہ تعداد میں جمع ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے زیادہ تعداد میں لوگوں کے جمع ہونے کی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے۔ مساجد کسی بھی مسلمان معاشرے میں دل کی مانند ہیں۔ بطور امت ہمارا فرض ہے کہ مساجد اور ان میں عبادت کرنے والوں کو بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ہر ممکن اقدام کریں۔ موجودہ حالات میں مساجد اور نمازیوں کو اس وائرس سے محفوظ رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) ڈاکٹرز کی نمایاں تنظیموں میں سے ایک ہے ، پیما نے معروف علماء، متعلقہ شعبے کے ماہرین کی مشاورت اور حالیہ طبی معلومات کی روشنی میں مساجد اور نمازیوں کو اس وبائی وائرس سے بچانے کے لیے درج ذیل گائیڈ لائینز مرتب کی ہیں۔ اس مہلک بیماری کے پھیلاؤ کو کم کرنے کے لیے سماجی رابطوں میں کمی کو کلیدی تصور خیال کیا جاتا ہے۔ اسی بنیاد پر تمام افراد کو درج ذیل احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا چاہیے تاکہ اس وائرس کو پھیلنے سے روکا جا سکے:
ایسے لوگوں کو مسجد میں آنے سے اور بڑے اجتماعات میں شرکت سے گریز کرنا چاہیے :
جس شخص میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوچکی ہو۔ (ایسے شخص کے لیے مسجد میں جانا جائز نہیں۔)
جس شخص میں بیماری کی علامات بخار، کھانسی موجود ہو۔ (کرونا کے احتمال کی بنیاد پر [جب تک یہ احتمال باقی رہے] ایسے افراد مسجد کی جماعت ترک کرنے میں شرعاً معذور ہیں تاکہ دوسروں کو ضرر سے بچایا جا سکے۔)
وہ بزرگ حضرات جن کی صحت خراب رہتی ہو یا پھیپھڑوں اور دل کے امراض میں مبتلا ہوں ، تو ان کی قوت مدافعت کمزور ہونے کی وجہ سے وہ بہ آسانی کرونا وائرس کا شکار ہوسکتے ہیں۔ (ایسے لوگ اگر [کورونا کا خطرہ ٹلنے تک] مرض کے خوف سے مسجد نہ آئیں تو شرعاً معذور ہیں۔)
جس نے کسی ایسے ملک یا جگہ کا سفر کیا ہو جہاں بڑی تعداد میں کرونا کے مریض موجود ہوں۔
جس کا کرونا کے مریض کے ساتھ قریبی تعلق ہو یا وہ اس کی دیکھ بھال پر مامور ہو۔
ان پابندیوں پر عمل اس وقت تک جاری رہنا چاہیے جب تک حکومت کی جانب سے کرونا کا خطرہ ٹل جا نے کا حتمی اعلان نہ ہو جائے۔
ایسے لوگ جنہیں دوسروں کی صحت کے پیش نظر مسجد میں جانے سے روکا جا رہا ہے، انہیں اس بات کا یقین رکھنا چاہیے کہ چونکہ ان کی نیت دوسروں کی حفاظت کرنا ہے، اس لیے اللہ ان کی اس نیت کے بدلے انہیں نماز کے اْسی قدر ثواب سے نوازے گا، جو مسجد میں باجماعت نماز کا ہے۔ دوسری طرف اگر وہ اس ضابطے کی خلاف ورزی کریں یا حقیقت کو چھپائیں گے، تو کہیں وہ اجر کی بجائے گناہ کے مرتکب نہ ہو جائیں!
ایسے لوگ جو مسجد میں جائیں یا دیگر اجتماعی عبادات و دینی مجالس کا حصہ بنیں ، انہیں درج ذیل محفوظ طریقے ضرور اپنانے چاہییں:
گھر سے وضو کر کے مسجد آئیں۔
سنت و نوافل گھر سے ادا کر کے تشریف لائیں اور فرض نماز کی ادائیگی کی بعد بقیہ سنت و نوافل گھر واپس جا کر ادا کریں۔
مسجد میں لوگوں سے میل ملاپ کے وقت کو کم سے کم کریں۔
ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ ملانے یا گلے ملنے سے گریز کریں۔
کھانسی یا چھینکتے وقت اپنے ناک اور منہ کو بازو سے یا ٹشو سے ڈھانپ لیں اور پھر ٹشو کو محفوظ طریقے سے تلف کر دیں۔
وقتاً فوقتاً اپنے ہاتھوں کو صابن کے ساتھ تقریباً 20 سیکنڈز تک دھوئیں، خصوصاً دوسرے سے ہاتھ ملانے کے بعد۔
اگر آپ کو کسی بھی قسم کی الرجی ہے تو اپنی ذاتی جائے نماز مسجد میں لائیں۔
جس طرح اس بیماری سے محتاط رہنا ضروری ہے، اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ دوسروں میں خوف و ہراس پھیلانے سے، یا سختی سے پیش آنے سے گریز کیا جائے۔
تمام مساجد کی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ:مسجد میں صفائی ستھرائی کا خصوصی اہتمام کریں۔ فرش، دیواریں دھونے کے لیے فینائل یا اس طرح کے لیکوڈ کا استعمال مناسب ہو گا۔
نماز کی جگہوں پر قالین کے استعمال سے گریز کریں، کیونکہ یہ جراثیم کی پناہ گاہیں ہیں اور انہیں صاف کرنا بھی نہایت مشکل ہے۔ اگر قالینوں کا ہٹانا ممکن نہ ہو تو مسجد کے خالی ہونے کے اوقات میں ان کی اچھی طرح سے صفائی کا اہتمام کریں۔
ایسے کسی بھی شخص کو جس میں بیماری کی علامات پائی جائیں، مسجد سے باہر جانے کی نرمی سے درخواست کریں یا اگر اسے مدد درکار ہو تو ڈاکٹر کے پاس لے جائیں۔
نمازیوں، خصوصاً آئمہ حضرات کو باور کروائیں کہ موجود صورت حال میں یہ تمام حفاظتی تدابیر اختیار کرنا ضروری ہے کیونکہ ایسا نہ کرنے سے دوسرے لوگوں کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے اور ہمارے دین میں کسی کی زندگی کے لیے خطرے کا سبب بننا ممنوع ہے۔
تمام لوگوں کو چاہیے خواہ وہ مسجد میں ہوں یا کہیں اور، اس مشکل وقت میں نماز، دعا، تلاوت قرآن، ذکر اذکار اور توبہ استغفار کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط جوڑیں۔ صرف اللہ ہی ہے جو ہمیں بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے اور صحت عطا کرتا ہے۔ یہ موقع ہے کہ ہم اپنے ایمان کی تجدید کریں۔
ہمیں کرونا وائرس سے متعلق غیر مصدقہ اطلاعات و طریقہ ہائے علاج کے ابلاغ اور غیر ضروری بحث سے گریز کرنا چاہیے۔ یہ امور بنیادی طور پر متعلقہ اداروں بشمول حکومت و ڈاکٹرز کی ذمہ داری ہے۔ خوف و ہراس پھیلانے سے بچنا چاہیے۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کوکسی بھی مرض سے اپنی پناہ میں رکھے۔
پروفیسر سہیل اختر انڈس ہسپتال کراچی میں بطور ماہر امراضِ سینہ خدمات سر انجام دے رہے ہیں اور پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے مرکزی صدر بھی رہ چکے ہیں۔
اب تک سات ہزار سے زائد افراد اس وائرس کی وجہ سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ پاکستان بھی اُن ممالک میں شامل ہے جہاں اس کے مریض مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ نتیجتاً حکومت کی جانب سے غیر معمولی اقدامات کیے گئے ہیں جن میں تعلیمی اداروں میں تعطیل، شادی ہالوں اور بڑے اجتماعات پر پابندی شامل ہے۔ حکومت کی جانب سے اجتماعات کے انعقاد پر بھی مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
پاکستان میں کرونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ سندھ ہے۔ منگل تک جن افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہو چکی تھی، ان کی تعداد 155 ہو چکی ہے، اس کے علاوہ پنجاب میں بھی پانچ نئے مریضوں کی تصدیق ہوئی ہے، جس کے بعد پنجاب میں مریضوں کی کل تعداد چھ ہوگئی ہے۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق سندھ اور پنجاب کے علاوہ خیبر پختونخوا میں15، بلوچستان میں10، اسلام آباد میں چار اور گلگت بلتستان میں کرونا کے تین مریض موجود ہیں۔اس طرح ملک میں کرونا سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد 193 ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
اس وائرس کے ان مقامات پر پھیلنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے، جہاں لوگ زیادہ تعداد میں جمع ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے زیادہ تعداد میں لوگوں کے جمع ہونے کی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے۔ مساجد کسی بھی مسلمان معاشرے میں دل کی مانند ہیں۔ بطور امت ہمارا فرض ہے کہ مساجد اور ان میں عبادت کرنے والوں کو بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ہر ممکن اقدام کریں۔ موجودہ حالات میں مساجد اور نمازیوں کو اس وائرس سے محفوظ رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) ڈاکٹرز کی نمایاں تنظیموں میں سے ایک ہے ، پیما نے معروف علماء، متعلقہ شعبے کے ماہرین کی مشاورت اور حالیہ طبی معلومات کی روشنی میں مساجد اور نمازیوں کو اس وبائی وائرس سے بچانے کے لیے درج ذیل گائیڈ لائینز مرتب کی ہیں۔ اس مہلک بیماری کے پھیلاؤ کو کم کرنے کے لیے سماجی رابطوں میں کمی کو کلیدی تصور خیال کیا جاتا ہے۔ اسی بنیاد پر تمام افراد کو درج ذیل احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا چاہیے تاکہ اس وائرس کو پھیلنے سے روکا جا سکے:
ایسے لوگوں کو مسجد میں آنے سے اور بڑے اجتماعات میں شرکت سے گریز کرنا چاہیے :
جس شخص میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوچکی ہو۔ (ایسے شخص کے لیے مسجد میں جانا جائز نہیں۔)
جس شخص میں بیماری کی علامات بخار، کھانسی موجود ہو۔ (کرونا کے احتمال کی بنیاد پر [جب تک یہ احتمال باقی رہے] ایسے افراد مسجد کی جماعت ترک کرنے میں شرعاً معذور ہیں تاکہ دوسروں کو ضرر سے بچایا جا سکے۔)
وہ بزرگ حضرات جن کی صحت خراب رہتی ہو یا پھیپھڑوں اور دل کے امراض میں مبتلا ہوں ، تو ان کی قوت مدافعت کمزور ہونے کی وجہ سے وہ بہ آسانی کرونا وائرس کا شکار ہوسکتے ہیں۔ (ایسے لوگ اگر [کورونا کا خطرہ ٹلنے تک] مرض کے خوف سے مسجد نہ آئیں تو شرعاً معذور ہیں۔)
جس نے کسی ایسے ملک یا جگہ کا سفر کیا ہو جہاں بڑی تعداد میں کرونا کے مریض موجود ہوں۔
جس کا کرونا کے مریض کے ساتھ قریبی تعلق ہو یا وہ اس کی دیکھ بھال پر مامور ہو۔
ان پابندیوں پر عمل اس وقت تک جاری رہنا چاہیے جب تک حکومت کی جانب سے کرونا کا خطرہ ٹل جا نے کا حتمی اعلان نہ ہو جائے۔
ایسے لوگ جنہیں دوسروں کی صحت کے پیش نظر مسجد میں جانے سے روکا جا رہا ہے، انہیں اس بات کا یقین رکھنا چاہیے کہ چونکہ ان کی نیت دوسروں کی حفاظت کرنا ہے، اس لیے اللہ ان کی اس نیت کے بدلے انہیں نماز کے اْسی قدر ثواب سے نوازے گا، جو مسجد میں باجماعت نماز کا ہے۔ دوسری طرف اگر وہ اس ضابطے کی خلاف ورزی کریں یا حقیقت کو چھپائیں گے، تو کہیں وہ اجر کی بجائے گناہ کے مرتکب نہ ہو جائیں!
ایسے لوگ جو مسجد میں جائیں یا دیگر اجتماعی عبادات و دینی مجالس کا حصہ بنیں ، انہیں درج ذیل محفوظ طریقے ضرور اپنانے چاہییں:
گھر سے وضو کر کے مسجد آئیں۔
سنت و نوافل گھر سے ادا کر کے تشریف لائیں اور فرض نماز کی ادائیگی کی بعد بقیہ سنت و نوافل گھر واپس جا کر ادا کریں۔
مسجد میں لوگوں سے میل ملاپ کے وقت کو کم سے کم کریں۔
ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ ملانے یا گلے ملنے سے گریز کریں۔
کھانسی یا چھینکتے وقت اپنے ناک اور منہ کو بازو سے یا ٹشو سے ڈھانپ لیں اور پھر ٹشو کو محفوظ طریقے سے تلف کر دیں۔
وقتاً فوقتاً اپنے ہاتھوں کو صابن کے ساتھ تقریباً 20 سیکنڈز تک دھوئیں، خصوصاً دوسرے سے ہاتھ ملانے کے بعد۔
اگر آپ کو کسی بھی قسم کی الرجی ہے تو اپنی ذاتی جائے نماز مسجد میں لائیں۔
جس طرح اس بیماری سے محتاط رہنا ضروری ہے، اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ دوسروں میں خوف و ہراس پھیلانے سے، یا سختی سے پیش آنے سے گریز کیا جائے۔
تمام مساجد کی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ:مسجد میں صفائی ستھرائی کا خصوصی اہتمام کریں۔ فرش، دیواریں دھونے کے لیے فینائل یا اس طرح کے لیکوڈ کا استعمال مناسب ہو گا۔
نماز کی جگہوں پر قالین کے استعمال سے گریز کریں، کیونکہ یہ جراثیم کی پناہ گاہیں ہیں اور انہیں صاف کرنا بھی نہایت مشکل ہے۔ اگر قالینوں کا ہٹانا ممکن نہ ہو تو مسجد کے خالی ہونے کے اوقات میں ان کی اچھی طرح سے صفائی کا اہتمام کریں۔
ایسے کسی بھی شخص کو جس میں بیماری کی علامات پائی جائیں، مسجد سے باہر جانے کی نرمی سے درخواست کریں یا اگر اسے مدد درکار ہو تو ڈاکٹر کے پاس لے جائیں۔
نمازیوں، خصوصاً آئمہ حضرات کو باور کروائیں کہ موجود صورت حال میں یہ تمام حفاظتی تدابیر اختیار کرنا ضروری ہے کیونکہ ایسا نہ کرنے سے دوسرے لوگوں کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے اور ہمارے دین میں کسی کی زندگی کے لیے خطرے کا سبب بننا ممنوع ہے۔
تمام لوگوں کو چاہیے خواہ وہ مسجد میں ہوں یا کہیں اور، اس مشکل وقت میں نماز، دعا، تلاوت قرآن، ذکر اذکار اور توبہ استغفار کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط جوڑیں۔ صرف اللہ ہی ہے جو ہمیں بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے اور صحت عطا کرتا ہے۔ یہ موقع ہے کہ ہم اپنے ایمان کی تجدید کریں۔
ہمیں کرونا وائرس سے متعلق غیر مصدقہ اطلاعات و طریقہ ہائے علاج کے ابلاغ اور غیر ضروری بحث سے گریز کرنا چاہیے۔ یہ امور بنیادی طور پر متعلقہ اداروں بشمول حکومت و ڈاکٹرز کی ذمہ داری ہے۔ خوف و ہراس پھیلانے سے بچنا چاہیے۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کوکسی بھی مرض سے اپنی پناہ میں رکھے۔
پروفیسر سہیل اختر انڈس ہسپتال کراچی میں بطور ماہر امراضِ سینہ خدمات سر انجام دے رہے ہیں اور پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے مرکزی صدر بھی رہ چکے ہیں۔