طالبان امریکا معاہدہ ایک جائزہ
صدر اشرف غنی کا اسیروں کی رہائی کے لیے شرائط رکھنا امریکا سے امن معاہدے کی سرا سر خلاف ورزی ہے۔
جب سے قطر میں طالبان اور امریکا کے مابین امن معاہدہ پر دستخط ہوئے ہیں۔ اس ضمن میں اتارچڑھائو نظر آرہا ہے ۔ آئیے! جائزہ لیتے ہیں کہ اس سلسلے میں کیا کچھ ہوتا رہا ہے،کیا ہونے والا ہے اور بات کہاں تک پہنچی ہے۔
تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ بی بی سی کے مطابق قطر میں افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے بتایا کہ انھیں ایسی اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ کابل انتظامیہ جن 15سو قیدیوں کا رہا کر رہی ہے، وہ جرائم پیشہ افراد ہیں اورجو فہرست انھوں نے کابل انتظامیہ کودی تھی، یہ وہ قیدی نہیں ہیں، اسی لیے انھوں نے ایک گرینڈ وفد تشکیل دیا ہے، جو 34 افراد پر مشتمل ہے، اس وفد میں افغانستان کے تمام صوبوں سے ایک ایک نمایندہ لیا گیا ہے اور یہ وفد کابل انتظامیہ کی جانب سے رہا کیے جانے والے تمام قیدیوں کی تصدیق کرے گا اور اس کے بعد مزید پیشرفت ہوگی۔
قبل ازیں افغانستان کے صدر اشرف غنی نے افغان طالبان قیدیوں کو عارضی طور پر رہا کرنے کا فرمان جاری کیا کہ وہ تمام قیدی جنھیں رہا کیا جائے گا انھیں اس عزم کی تحریری ضمانت دینی ہوگی کہ وہ دوبارہ جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے، ہر قیدی کو بائیومیٹرک اندراج کے عمل سے گزرنا ہوگا۔
افغان صدارتی فرمان کے مطابق مذاکرات شروع ہونے کے بعد ہر دو ہفتے میں 500طالبان قیدی رہا کیے جائیں گے اور بقیہ 35سو قیدیوں کی رہا ئی تک تشدد میں بہت زیادہ کمی دیکھنے میں آنی چاہیے۔
ادھر عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق افغان طالبان کے ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر اشرف غنی کا اسیروں کی رہائی کے لیے شرائط رکھنا امریکا سے امن معاہدے کی سرا سر خلاف ورزی ہے ۔ترجمان سہیل شاہین کا افغان صدرکی شرائط کو مسترد کرتے ہوئے مزید کہنا تھا کہ امن معاہدے میں پانچ ہزار طالبان اسیروں کی غیر مشروط رہائی درج ہے جس کے بعد ہی انٹر افغان مذاکرات کا انعقاد ہوسکے گا۔
29فروری 2020ء کے روز امریکا اور افغان طالبان کے درمیان 18ماہ مذاکرات کے بعد قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے ۔ معاہدے پر دستخط سینئر طالبان رہنما ملا عبدالغنی برادر اور امریکی نمایندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے کیے تھے۔ معاہدے کے تحت فریقین جنگ بندی پر عمل درآمد یقینی بنائیں گے، امریکی فوج 14ماہ میں افغانستان سے نکل جائے گی ، امریکا امن معاہدے کے بعد 135 دنوں کے اندر افغانستان میں فوج کی تعداد 8600 تک کم اور طالبان کے ساتھ کیے گئے دیگر وعدوں پر عمل درآمدکرے گا۔ طالبان کو تمام دہشتگرد تنظیموں سے روابط منقطع کرنا ہونگے۔
افغان سر زمین پر القاعدہ ، داعش سمیت تمام شدت پسند تنظیموں کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔10مارچ تک طالبان کے 5 ہزار سے زائد اور افغان فورسزکے ایک ہزار قیدیوں کو رہا کیا جائے گا ،29 مئی تک طالبان رہنماؤں کے نام اقوام متحدہ میں دہشتگردوں کی فہرست سے نکال دیے جائیں گے۔ انٹر افغان ڈائیلاگ کا آغاز 10مارچ سے کیا جائے گا۔2001ء میں نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملوں کے بعد شروع ہونے والی 18سالہ افغان جنگ کے خاتمے کے لیے پاکستان کی سفارتی کوششوں نے اہم کردار ادا کیا۔
ابھی طالبان اور امریکا امن معاہدہ کو محض تین دن گزرے تھے کہ طالبان نے قندوز میں افغان فوج کی چھاؤنی پر حملہ کیا۔ عالمی خبر رساں کے مطابق دوطرفہ فائرنگ میں 16افغان فوجی ہلاک ہوگئے جب کہ افغان حکام نے 8 جنگجو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا۔ قندوز میں ہی طالبان نے افغان چیک پوسٹ پر فائرنگ کرکے 4 پولیس اہلکاروں کو ہلاک کر دیا۔ دونوں کارروائیوں کے بعد طالبان افغان فوج کا اسلحہ ساتھ لے گئے جب کہ طالبان نے 10اہلکاروں کو یرغمال بنانے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔ دوسری جانب اتحادی افواج کے دفاع میں امریکا نے ہلمند میں طالبان پر فضائی حملہ کیا۔
افغانستان میں امریکی افواج کے ترجمان کرنل سونی لی گٹ نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں لکھا کہ امریکا نے 4 مارچ کوان طالبان جنگجوؤں پر نہر سراج، ہلمند میں فضائی حملہ کیا ہے جو افغان فورسزکی ایک چیک پوسٹ پر حملہ آور تھے۔ حملے کو روکنے کے لیے یہ ایک دفاعی کارروائی تھی۔ یہ گیارہ دن میں طالبان کے خلاف ہماری پہلی کارروائی تھی۔کرنل سونی نے مزید لکھا کہ طالبان رہنماؤں نے بین الاقوامی برادری سے وعدہ کیا تھاکہ وہ تشدد میں کمی اورحملوں میں اضافہ نہیں کریں گے، ہم امن کے لیے پر عزم ہیں، لیکن اتحادی فورسزکا دفاع کریں گے۔ انھوں نے مزید لکھا کہ تین مارچ کو ہی طالبان نے ہلمند میں افغان افواج کی چیک پوسٹ پر 43 حملے کیے۔ طالبان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ غیرضروری حملوں کو روکیں۔
ادھر امریکی پینٹاگون کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ جنگجو افغان سیکیورٹی فورسزکو بلاضرورت نشانہ بنانے میں ملوث تھے۔ طالبان افغانستان میں غیر ضروری حملوں سے گریزکریں۔ اس طرح امن معاہدے کے چند دن بعد ہی فریقین میں جھڑپیں اگلے ہفتے منعقد ہونے والے افغان انٹرا مذاکرات پر سوالیہ نشان لگ گیا۔اس دوران افغان صدر اشرف غنی نے ایک بیان میں کہا کہ طالبان نے ہمیں اپنے قیدیوں کی رہائی کا کہا ہے جس کے جواب میں ہماری بھی شرط ہے کہ طالبان امن مذاکرات کے لیے پاکستان سے انخلا کو ممکن بنائیں، طالبان سے خفیہ نہیں کھلم کھلا مذاکرات ہونگے، انھوں نے مزید کہا کہ غیر ملکیوں کے خلاف حملے بند مگر افغانوں کے خلاف حملے جاری رکھنا کون سا جہاد ہے۔
امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والا امن معاہدہ بچانے کے لیے سفارتی کوششیں جاری ہیں۔ سفارتی ذرایع کے مطابق فریقین کے درمیان اعلیٰ سطح پر رابطوں کا مقصد انٹر افغان مذاکرات کے درمیان ممکنہ رکاوٹیں ہٹانا ہے۔ پاکستان بھی اس ضمن میں کوششیں کر رہا ہے کہ سب کچھ منصوبے کے مطابق یقینی بنایا جائے۔
افغاستان میں حالیہ حملوں کے بعد امریکی نمایندہ خصوصی برائے مصالحتی عمل زلمے خلیل زاد نے طالبان کے سیاسی سربراہ ملا عبدالغنی برادر اور ان کی ٹیم سے ملاقات کی اور اگلے اقدامات پر واضح طریقے سے بات چیت کی۔ انھوں نے ٹویٹ کیا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ تعمیری ٹیلی فونک کال کے بعد طالبان سربراہ سے بات چیت میں ہم سب نے اتفاق کیا کہ امریکا، طالبان معاہدے کا مقصد وسیع امن کے لیے راہ ہموارکرنا ہے، بڑھتا تشدد معاہدے کے لیے خطرہ ہے،اسے فوری ختم ہونا چاہیے، ہم نے قیدیوں کے تبادلے سے متعلق بھی بات کی۔
امریکا ، طالبان معاہدے اور امریکا افغان مشترکہ اعلامیہ میں اتفاق ہوا تھا ، فریقین کی جانب سے نمایاں تعداد میں قیدیوں کی رہائی کی حمایت کریں گے، بین الافغان مذاکرات کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ ہٹانی چاہیے، افغانوں سے کہوںگا، ان کے لیے یہ تاریخی موقع ہے ، وہ سب سے پہلے ملک سامنے رکھیں اورآگے بڑھیں۔ ان کے یہ ریمارکس اس وقت سامنے آئے جب افغان صدر اشرف غنی کی طرف سے یہ بیان جاری کیا گیا کہ ان کی حکومت نے 5 ہزار طالبان چھوڑنے کا عہد وپیمان نہیں کیا۔
دوسری طرف طالبان کے سیاسی ترجمان سہیل شاہین نے ٹویٹ کیا کہ بین الافغان مذاکرات صرف تب ہوں گے جب قیدی چھوڑے جائیں گے، ہم جنگ شدید ہونے سے روکنے کے لیے معاہدے کے تمام حصوں پر مرحلہ وار عمل درآمد کریں گے، دوسرے فریق کو بھی معاہدے کے تمام حصوں پر عمل درآمد کے لیے رکاوٹیں ہٹانی چاہئیں، ملک گیر امن اور افغانوں کے لیے اپنے بنیادی حقوق سے لطف اندوز ہونے کے لیے راستہ ہموارکرنے کا یہی طریقہ ہے۔
تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ بی بی سی کے مطابق قطر میں افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے بتایا کہ انھیں ایسی اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ کابل انتظامیہ جن 15سو قیدیوں کا رہا کر رہی ہے، وہ جرائم پیشہ افراد ہیں اورجو فہرست انھوں نے کابل انتظامیہ کودی تھی، یہ وہ قیدی نہیں ہیں، اسی لیے انھوں نے ایک گرینڈ وفد تشکیل دیا ہے، جو 34 افراد پر مشتمل ہے، اس وفد میں افغانستان کے تمام صوبوں سے ایک ایک نمایندہ لیا گیا ہے اور یہ وفد کابل انتظامیہ کی جانب سے رہا کیے جانے والے تمام قیدیوں کی تصدیق کرے گا اور اس کے بعد مزید پیشرفت ہوگی۔
قبل ازیں افغانستان کے صدر اشرف غنی نے افغان طالبان قیدیوں کو عارضی طور پر رہا کرنے کا فرمان جاری کیا کہ وہ تمام قیدی جنھیں رہا کیا جائے گا انھیں اس عزم کی تحریری ضمانت دینی ہوگی کہ وہ دوبارہ جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے، ہر قیدی کو بائیومیٹرک اندراج کے عمل سے گزرنا ہوگا۔
افغان صدارتی فرمان کے مطابق مذاکرات شروع ہونے کے بعد ہر دو ہفتے میں 500طالبان قیدی رہا کیے جائیں گے اور بقیہ 35سو قیدیوں کی رہا ئی تک تشدد میں بہت زیادہ کمی دیکھنے میں آنی چاہیے۔
ادھر عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق افغان طالبان کے ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر اشرف غنی کا اسیروں کی رہائی کے لیے شرائط رکھنا امریکا سے امن معاہدے کی سرا سر خلاف ورزی ہے ۔ترجمان سہیل شاہین کا افغان صدرکی شرائط کو مسترد کرتے ہوئے مزید کہنا تھا کہ امن معاہدے میں پانچ ہزار طالبان اسیروں کی غیر مشروط رہائی درج ہے جس کے بعد ہی انٹر افغان مذاکرات کا انعقاد ہوسکے گا۔
29فروری 2020ء کے روز امریکا اور افغان طالبان کے درمیان 18ماہ مذاکرات کے بعد قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے ۔ معاہدے پر دستخط سینئر طالبان رہنما ملا عبدالغنی برادر اور امریکی نمایندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے کیے تھے۔ معاہدے کے تحت فریقین جنگ بندی پر عمل درآمد یقینی بنائیں گے، امریکی فوج 14ماہ میں افغانستان سے نکل جائے گی ، امریکا امن معاہدے کے بعد 135 دنوں کے اندر افغانستان میں فوج کی تعداد 8600 تک کم اور طالبان کے ساتھ کیے گئے دیگر وعدوں پر عمل درآمدکرے گا۔ طالبان کو تمام دہشتگرد تنظیموں سے روابط منقطع کرنا ہونگے۔
افغان سر زمین پر القاعدہ ، داعش سمیت تمام شدت پسند تنظیموں کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔10مارچ تک طالبان کے 5 ہزار سے زائد اور افغان فورسزکے ایک ہزار قیدیوں کو رہا کیا جائے گا ،29 مئی تک طالبان رہنماؤں کے نام اقوام متحدہ میں دہشتگردوں کی فہرست سے نکال دیے جائیں گے۔ انٹر افغان ڈائیلاگ کا آغاز 10مارچ سے کیا جائے گا۔2001ء میں نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملوں کے بعد شروع ہونے والی 18سالہ افغان جنگ کے خاتمے کے لیے پاکستان کی سفارتی کوششوں نے اہم کردار ادا کیا۔
ابھی طالبان اور امریکا امن معاہدہ کو محض تین دن گزرے تھے کہ طالبان نے قندوز میں افغان فوج کی چھاؤنی پر حملہ کیا۔ عالمی خبر رساں کے مطابق دوطرفہ فائرنگ میں 16افغان فوجی ہلاک ہوگئے جب کہ افغان حکام نے 8 جنگجو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا۔ قندوز میں ہی طالبان نے افغان چیک پوسٹ پر فائرنگ کرکے 4 پولیس اہلکاروں کو ہلاک کر دیا۔ دونوں کارروائیوں کے بعد طالبان افغان فوج کا اسلحہ ساتھ لے گئے جب کہ طالبان نے 10اہلکاروں کو یرغمال بنانے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔ دوسری جانب اتحادی افواج کے دفاع میں امریکا نے ہلمند میں طالبان پر فضائی حملہ کیا۔
افغانستان میں امریکی افواج کے ترجمان کرنل سونی لی گٹ نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں لکھا کہ امریکا نے 4 مارچ کوان طالبان جنگجوؤں پر نہر سراج، ہلمند میں فضائی حملہ کیا ہے جو افغان فورسزکی ایک چیک پوسٹ پر حملہ آور تھے۔ حملے کو روکنے کے لیے یہ ایک دفاعی کارروائی تھی۔ یہ گیارہ دن میں طالبان کے خلاف ہماری پہلی کارروائی تھی۔کرنل سونی نے مزید لکھا کہ طالبان رہنماؤں نے بین الاقوامی برادری سے وعدہ کیا تھاکہ وہ تشدد میں کمی اورحملوں میں اضافہ نہیں کریں گے، ہم امن کے لیے پر عزم ہیں، لیکن اتحادی فورسزکا دفاع کریں گے۔ انھوں نے مزید لکھا کہ تین مارچ کو ہی طالبان نے ہلمند میں افغان افواج کی چیک پوسٹ پر 43 حملے کیے۔ طالبان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ غیرضروری حملوں کو روکیں۔
ادھر امریکی پینٹاگون کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ جنگجو افغان سیکیورٹی فورسزکو بلاضرورت نشانہ بنانے میں ملوث تھے۔ طالبان افغانستان میں غیر ضروری حملوں سے گریزکریں۔ اس طرح امن معاہدے کے چند دن بعد ہی فریقین میں جھڑپیں اگلے ہفتے منعقد ہونے والے افغان انٹرا مذاکرات پر سوالیہ نشان لگ گیا۔اس دوران افغان صدر اشرف غنی نے ایک بیان میں کہا کہ طالبان نے ہمیں اپنے قیدیوں کی رہائی کا کہا ہے جس کے جواب میں ہماری بھی شرط ہے کہ طالبان امن مذاکرات کے لیے پاکستان سے انخلا کو ممکن بنائیں، طالبان سے خفیہ نہیں کھلم کھلا مذاکرات ہونگے، انھوں نے مزید کہا کہ غیر ملکیوں کے خلاف حملے بند مگر افغانوں کے خلاف حملے جاری رکھنا کون سا جہاد ہے۔
امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والا امن معاہدہ بچانے کے لیے سفارتی کوششیں جاری ہیں۔ سفارتی ذرایع کے مطابق فریقین کے درمیان اعلیٰ سطح پر رابطوں کا مقصد انٹر افغان مذاکرات کے درمیان ممکنہ رکاوٹیں ہٹانا ہے۔ پاکستان بھی اس ضمن میں کوششیں کر رہا ہے کہ سب کچھ منصوبے کے مطابق یقینی بنایا جائے۔
افغاستان میں حالیہ حملوں کے بعد امریکی نمایندہ خصوصی برائے مصالحتی عمل زلمے خلیل زاد نے طالبان کے سیاسی سربراہ ملا عبدالغنی برادر اور ان کی ٹیم سے ملاقات کی اور اگلے اقدامات پر واضح طریقے سے بات چیت کی۔ انھوں نے ٹویٹ کیا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ تعمیری ٹیلی فونک کال کے بعد طالبان سربراہ سے بات چیت میں ہم سب نے اتفاق کیا کہ امریکا، طالبان معاہدے کا مقصد وسیع امن کے لیے راہ ہموارکرنا ہے، بڑھتا تشدد معاہدے کے لیے خطرہ ہے،اسے فوری ختم ہونا چاہیے، ہم نے قیدیوں کے تبادلے سے متعلق بھی بات کی۔
امریکا ، طالبان معاہدے اور امریکا افغان مشترکہ اعلامیہ میں اتفاق ہوا تھا ، فریقین کی جانب سے نمایاں تعداد میں قیدیوں کی رہائی کی حمایت کریں گے، بین الافغان مذاکرات کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ ہٹانی چاہیے، افغانوں سے کہوںگا، ان کے لیے یہ تاریخی موقع ہے ، وہ سب سے پہلے ملک سامنے رکھیں اورآگے بڑھیں۔ ان کے یہ ریمارکس اس وقت سامنے آئے جب افغان صدر اشرف غنی کی طرف سے یہ بیان جاری کیا گیا کہ ان کی حکومت نے 5 ہزار طالبان چھوڑنے کا عہد وپیمان نہیں کیا۔
دوسری طرف طالبان کے سیاسی ترجمان سہیل شاہین نے ٹویٹ کیا کہ بین الافغان مذاکرات صرف تب ہوں گے جب قیدی چھوڑے جائیں گے، ہم جنگ شدید ہونے سے روکنے کے لیے معاہدے کے تمام حصوں پر مرحلہ وار عمل درآمد کریں گے، دوسرے فریق کو بھی معاہدے کے تمام حصوں پر عمل درآمد کے لیے رکاوٹیں ہٹانی چاہئیں، ملک گیر امن اور افغانوں کے لیے اپنے بنیادی حقوق سے لطف اندوز ہونے کے لیے راستہ ہموارکرنے کا یہی طریقہ ہے۔