کورونا وائرس اسلام آباد ہائیکورٹ کا معمولی جرائم والے قیدیوں کی رہائی کا حکم
خدانخواستہ کسی قیدی کوکورونا ہوگیا تو پھر قابو نہیں آئے گا، ہائی کورٹ
اسلام آباد ہائیکورٹ نے کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے اڈیالہ جیل سے معمولی جرائم میں ملوث اور 7 سال سے کم سزا والے قیدیوں کی رہائی کا حکم جاری کردیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اڈیالہ جیل میں 1362 قیدیوں کی ضمانت پر رہائی کے کیس کی سماعت کی جس میں دس سال سے کم سزا کے انڈر ٹرائل قیدیوں کی ضمانت پر رہائی پر غور کیا گیا۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ اڈیالہ جیل میں 2174 قیدیوں کی گنجائش موجود ہے لیکن اس وقت 5001 قیدی موجود ہیں، 1362 قیدیوں کے عدالتوں میں ٹرائل زیر التوا ہیں، کورونا وائرس کے خطرے کے پیش نظر کیوں نہ انڈر ٹرائل قیدیوں کو رہا کر دیا جائے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ اگر ایک بھی متاثرہ مریض جیل کے اندر چلا گیا تو جیل میں موجود قیدیوں کو متاثر کرسکتا ہے، ایران نے تو جیلوں سے سارے قیدی نکال دیئے ہیں، خدانخواستہ کسی قیدی کوکورونا ہوگیا تو پھر قابو نہیں آئے گا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے اڈیالہ جیل میں معمولی جرائم میں قید اور 7 سال سے کم سزا والے قیدیوں کوضمانتی مچلکوں پررہا کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ڈپٹی کمشنر ایک آفیسر مقرر کریں جو ضمانتی مچلکوں کے معاملات دیکھے، جو قیدی مچلکے جمع نہ کرا سکیں حکومت ان قیدیوں کے مچلکے خود دے، جو افراد گرفتاری کے بعدابھی جیل نہیں گئے انہیں تھانے کے حوالات سے ہی رہا کیاجائے۔
بیرسٹر جہانگیر جدون نے پوچھا کہ کیا نیب کیسز میں گرفتارملزمان بھی ضمانت پررہا ہوں گے؟۔ جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ یہ معاملہ صوبائی حکومت نے دیکھنا ہے، عدالت نیب کیسز میں پہلے کہہ چکی ہے کہ غیرضروری گرفتاریوں کی ضرورت نہیں، ڈپٹی کمشنر ایک افسر نامزد کریں جن کی تسلی کے بعد ملزموں کو ضمانت پر رہا کیا جائے، جیل میں قید بیمار افراد بالخصوص ایچ آئی وی کے مریضوں کو بھی حکومت ضمانت دے سکتی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اڈیالہ جیل میں 1362 قیدیوں کی ضمانت پر رہائی کے کیس کی سماعت کی جس میں دس سال سے کم سزا کے انڈر ٹرائل قیدیوں کی ضمانت پر رہائی پر غور کیا گیا۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ اڈیالہ جیل میں 2174 قیدیوں کی گنجائش موجود ہے لیکن اس وقت 5001 قیدی موجود ہیں، 1362 قیدیوں کے عدالتوں میں ٹرائل زیر التوا ہیں، کورونا وائرس کے خطرے کے پیش نظر کیوں نہ انڈر ٹرائل قیدیوں کو رہا کر دیا جائے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ اگر ایک بھی متاثرہ مریض جیل کے اندر چلا گیا تو جیل میں موجود قیدیوں کو متاثر کرسکتا ہے، ایران نے تو جیلوں سے سارے قیدی نکال دیئے ہیں، خدانخواستہ کسی قیدی کوکورونا ہوگیا تو پھر قابو نہیں آئے گا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے اڈیالہ جیل میں معمولی جرائم میں قید اور 7 سال سے کم سزا والے قیدیوں کوضمانتی مچلکوں پررہا کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ڈپٹی کمشنر ایک آفیسر مقرر کریں جو ضمانتی مچلکوں کے معاملات دیکھے، جو قیدی مچلکے جمع نہ کرا سکیں حکومت ان قیدیوں کے مچلکے خود دے، جو افراد گرفتاری کے بعدابھی جیل نہیں گئے انہیں تھانے کے حوالات سے ہی رہا کیاجائے۔
بیرسٹر جہانگیر جدون نے پوچھا کہ کیا نیب کیسز میں گرفتارملزمان بھی ضمانت پررہا ہوں گے؟۔ جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ یہ معاملہ صوبائی حکومت نے دیکھنا ہے، عدالت نیب کیسز میں پہلے کہہ چکی ہے کہ غیرضروری گرفتاریوں کی ضرورت نہیں، ڈپٹی کمشنر ایک افسر نامزد کریں جن کی تسلی کے بعد ملزموں کو ضمانت پر رہا کیا جائے، جیل میں قید بیمار افراد بالخصوص ایچ آئی وی کے مریضوں کو بھی حکومت ضمانت دے سکتی ہے۔