انڈونیشیا کی آزادی انقلاب نیو گینیا تنازعہ پر اقوام متحدہ کی قرارداد
قائد اعظم نے سفارتی سطح پر انڈونیشیا کی حمایت کی، اقوام متحدہ ڈائمنڈ جوبلی پر خصوصی سلسلہ
( قسط نمبر6)
اگرچہ پہلی عالمی جنگ کے بعد بڑی قوتوں کے نوآبادیاتی رقبے میں اُس وقت بہت اضافہ ہوا تھا جب برطانیہ، فرانس اور دوسری عالمی قوتوں نے خلافت عثمانیہ کے زیر اقتدار علاقوں پر قبضہ کر کے اِن علاقوں کو آپس میں تقسیم کر لیا تھا، مگر 1918 میں جنگِ عظیم اوّ ل کے خاتمے پر اب دنیا بھر کے ملکوں میں یہ سیاسی نوآبادیاتی نظام ہی چیلنج ہو گیا تھا اور یہ چیلنج جنگ میں بڑی عالمی قوتوں کے کمزور پڑنے اور ساتھ ہی روس میں کامیاب کیمونسٹ انقلاب کی وجہ سے ہوا تھا۔
یو ں اِس پرانے نو آبادیاتی نظام کو نئی سیاسی اور اقتصادی اسٹرٹیجی سے عالمی اقتصادی نوآباددیاتی نظام سے بدلنے کی منصوبہ بندی بھی ہوئی تھی جو امریکہ کے تھنک ٹینک نے تشکیل دی تھی اور اس پر عملدر آمد کا آغاز بھی جنگ ِ عظیم اوّل کے فوراً بعد ہوگیا تھا اور اس نئی اسٹرٹیجی کو بہت حد تک برطانیہ نے حقیقت پسندی کے ساتھ قبول کر کے اپنانا شروع کر دیا تھا،اس کی غالباً ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ بر طانیہ خود رقبے اور آبادی کے اعتبار سے بہت چھوٹا ملک ہے مگر اُس وقت وہ دنیا کے تقریباً چوتھائی رقبے اور آبادی پر حکومت کر رہا تھا، اورجو چھوٹے ہتھیار، ڈائنامائٹ وغیرہ خود برطانیہ نے عرب ممالک میں جنگِ عظیم اوّل کے دوران عرب باغیوں کے حوالے سے استعمال کروائے تھے۔
اب انہی کا استعمال مختلف غلام ملکوں میں نو آبادیا تی قوتوں کے خلاف شروع ہونے والا تھا، اِس طرح بر طانیہ اپنی نو آبادیات میں ریاست کے تین بنیادی اداروں انتظامیہ، عدلیہ اور مقننہ میں مقامی آبادیوں کو بتدریج شامل کر کے اِن نوآبادیاتی ملکوں کے عوام کو اِن کی لیڈر شپ کے ذریعے مطیع کر رہا تھا اور اِس کی یہ حکمت عملی ہندوستان جیسے بڑے ملک میں کا میاب رہی تھی۔ پھر جنگ عظیم اوّل کے ردعمل کے طور پر اِن بڑی قوتوں سمیت پوری دنیا کو مالیاتی، اقتصادی ، معاشی اور معاشرتی بحرانوں کا بھی سامنا تھا۔
یوں ہندوستان میں پہلے انگریز نے مقامی لیڈروں کو صوبائی اور مرکزی کونسلوں میں اور ساتھ ہی انتظامیہ اور عدلیہ میں بھی مقامی لوگوں کو شامل کیا پھر دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد صوبائی اسمبلیوں اور مر کزی اسمبلی کے انتخابات کروا کے حکومتوں کی تشکیل کے ساتھ ہی بھارت اور پاکستان کو بطور آزاد و خودمختار ملکوں کے پورا بنا بنایا تیار شدہ سیٹ اپ یعنی نظام بھی دے دیا یعنی جب بھارت اور پا کستان آزاد ہوئے تو آل انڈیا کانگریس اور مسلم لیگ نے اس آزادی کے لیے سیاسی جد وجہد تو کی تھی لیکن انگر یز کے خلاف اِس کو مسلح جد وجہد نہیں بننے دیا، جس کی ناکام کوشش ہندوں کی طرف سے سبھاش چندر پوس کی صورت میں اور مسلمانوں کی جانب سے علامہ عنایت اللہ مشرقی کی جانب سے ہوئی تھی۔
یوں جب 14 اور15 اگست 1947 کو پاکستان اور بھارت آزاد ہوئے توگورنر، صوبائی و مرکزی سیکرٹریوں ، سے لیکر ڈویژن، ضلع اور تحصیل تک کمشنر، ڈپٹی کمشنر ، پو لیس تھانہ اور دیگر محکموں کا انتظامی ڈھانچہ بھی تھا اور میکنزم بھی، ساتھ ہی عدلیہ کا بھی تحصیل اور ضلع سطح سے سپریم یا چیف کورٹ تک کا نظام 1935 کے آئین قانون ہند کے ساتھ موجود تھا اور مقننہ مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں اور حکومتوں کی تشکیل کے لیے آزادی سے قبل دسمبر 1945 تا جنوری 1946 کے مشترکہ ہندوستان کے آخری انتخابات میں ہند و، مسلم جداگانہ انتخا ب کے بعد وجود میں آئی تھیں۔
یوں اگر پا کستان اور بھارت کی آزادی کے بعد جو خونریزی ہوئی تو وہ صرف ایک کروڑ سے زیادہ مہاجرین کی ایک ملک سے دوسرے ملک میں منتقل ہونے کے حوالے سے ہوئی کہ تقسیم کے عمل میں انگریروں اور کانگریس کی جانب سے سازش اور بددیانتی ہوئی تھی لیکن جہاں تک سیٹ اپ کا تعلق تھا تو یہ انگریز نے بنا بنایا دیا تھا اور پھر آزادی کے پہلے سال دونوں ملکوں کی آزادیاں کچھ شرائط کے ساتھ تھیں اور بھارت اور پاکستان میں گورنر جنرل، آرمی کمانڈر انچیف انگریز تھے بلکہ صوبائی گورنروں، کمشنرز ، سیکرٹریوں سمیت کئی محکموں میں ہزاروں اعلیٰ افسران بھی انگریز تھے جو رفتہ رفتہ 1950 کی دہائی میں انگلینڈ چلے گئے۔
تعریف کی بات یہ ہے کہ وہا ں اِن افسران کو ریٹائر کر کے معقول پینشنیں دی گئیں، بہت عزت دی اور اکثر کو اعزازات سے نوازا مگر کیونکہ یہ غلام ملکوں میں اپنے آقائی کردار کے ساتھ حکومت کرتے رہے یوں ان کے رویوں اور رجحانات اور مزاج میں یہ سما گیا تھا کہ وہ آقا ہیں اور عوام غلام، اس لیے برطانیہ نے اپنے جمہوری باوقار اور مستحکم معاشرے اور اپنی انتظامیہ اور عدلیہ کو اِن محب وطن انگریزوں سے پاک رکھا، لیکن ہمارے ہاں آزادی کے بعد ادارے مستحکم تھے، یہ ضرور ہے کہ وہ عوام کی عزت و وقار جمہوری مزاج سے کم آشنا نہیں تھے۔
دوسری جانب فرانس، نیدرلینڈ کی وہ نو آبادیات تھیں جہاں اس حکمت علمی کو کم استعمال کیا گیا جیسے الجزائر میں جہاں بن بلا، بوم دین اور جمیلہ بھو پاشا جیسی شخصیات نے فرانس کے خلاف مسلح جد وجہد کی اور کامیابی پر اپنے ملک کو آزاد کروایا۔ عمو ماً ایسے ملکوں میں جمہوریت اور ادارے بہت دیر سے مستحکم ہوئے اورا یسے بعض ملکوں میں ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں تبدیلیاں سرد جنگ میں مغربی ملکوں کی پشت پناہی کی بدولت آئیں اور پھر خصوصاً 1990 میں سوویت یونین اور اس کے اشتراکی نظام کے دنیا سے ختم ہو جانے کے بعد جب عوام اِن ملکوں میں لیڈروں کے خلاف ہوئے تو اس طرح کی تبد یلی اور جمہوریت اور ترقی کے نئے سفر میں وقت اور وسائل کے لحاظ سے اِن ملکوں کے عوام کو کافی نقصان ہوا۔
مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اسی کی دہائی کے وسط تک کم ازکم ترقی پذیر اور پس ماندہ ملکوں کے سربراہوں اور عوام کے علاوہ محققین اور دانشوروں کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ سابق سوویت یونین جیسی عالمی طاقت کا حامل ملک اور اس کا اشتراکی نظام دنیا سے ختم ہو جائے گا۔ مسلم آبادی کی اکثریت کا ملک انڈونیشیا بھی ایک ہی ایسا ملک ہے جوصدر سیکارنو کی قیات میں نوآبادیاتی قوت نیدر لینڈ کے خلاف دس سالہ مسلح جد وجہد کے بعد 1949 میں آزاد ہوا۔ آج انڈونیشیا آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور2017 کے مطابق اِس کی آبادی 26 کروڑ 40 لاکھ ہے، یہاں مسلم آبادی کا تناسب 87.2% ، عیسائی 9.9 فیصد، ہندو 1.7% اور باقی دیگر مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں، اگست 2017 میں مجھے اللہ پاک کی طرف سے حج کی سعادت نصیب ہوئی تو دیکھا کہ وہاں سب سے زیادہ تعداد میں انڈونیشی مسلمان تھے اور سب سے زیادہ عاجزاور منکسرالمزاج مسلمان تھے ، انڈونیشیا کا رقبہ 1904569 مربع کلومیٹر ہے۔
یوں یہ رقبے کے لحاظ سے دنیا کا 14 واں بڑا ملک ہے اور 17000 جزائر پر مشتمل ہے، یوں سمندری اور خشکی کی حدود کے اعتبار سے یہ دنیا کا ساتواں بڑا ملک ہے جو بحرہند اور بحر اوقیانوس کے درمیان واقع ہے اس کی سمندری اورخشکی کی سرحدیں مشرقی تیمورسے ملتی ہیں جو چند برس قبل تک انڈونیشیا ہی کا حصہ تھا، یہاں عیسائی آبادی کی اکثریت اور مطالبے پر الگ کر دیا گیا، دیگر ہمسایہ ملکوں میں پا پوانیوگینیا، ملائشیا، سنگا پور، ویت نام، فلپائن ، جزائر نیکو بار اور سمندر کی قربت کی بنیاد پرآسٹریلیا اور بھارت ہیں۔ اس کے 34 صوبے اور پانچ ریاستیں ہیںاور جکارتہ دارالحکومت ہے، انڈونیشی اگرچہ قومی اور سرکاری زبان ہے لیکن 17000 ہزار جزائر پر مشتمل اس ملک میںلسانی، مذہبی، نسلی اور قومی تنوع بہت زیادہ ہے اس اعتبار سے یہاں 300 قومیتیں آباد ہیں جو 700 کے قریب مادری زبانیں بولتی ہیں۔ 13 ویں صدی تک یہاں ہندو اور بدھ بادشاہتیں رہیں۔
اسلام کی آمد کے بعد یہاں عرب تاجر آئے جن کے اخلاق اور تبلیغ سے یہاں اسلام تیزی سے پھیلا اور پھر مسلمانوں کی حکمرانی قائم ہو گئی، یہاں اسلام مبلغین اور مسلم تاجروں کی آمد سے اِن کے عمل اور اخلاق سے پھیلا ، یہی وہ مقامات تھے جہاں سے مسلمان تاجروں کی چند بیواؤں اور یتیم بچوں کے علاوہ مسلمان خلیفہ کے لیے تحائف لے کر جہاز جب اُس وقت کے دیبل اور آج کے کراچی کے قریب سے گذر رہا تھا تو سندھ کے ہندو حکمران راجہ نے اُس جہاز کو لوٹ کر خواتین، بچوں اور ملاحوں کو قیدی بنا لیا تھا اور جب حجاج بن یوسف نے اُسے خط لکھا کہ قیدیوں کو رہا کیا جائے اور لوٹا ہوا سامان واپس کیا جائے تو راجہ داہر نے کہا تھا کہ بحری قزاق اُس کی پہنچ سے باہر ہیں۔
اس پر اُس نے اپنے سترا سالہ بھتجے محمد بن قاسم کو راجہ داہر کے خلاف جنگ کے لیے بھیجا تھا اور سندھ فتح ہوا تھا، اور پھر جب مسلمان یہاں اکثریت میں ہو گئے تو یہاں 13 ویں صدی عیسوی سے مسلمان باد شاہیں قائم ہوئیں، سترویں صدی عیسوی کے آغاز میں ڈچ مشرقی انڈونیشیا میں داخل ہوئے پھر انیسویں صدی تک یہاں نیدر لینڈ کے ڈچ قابض ہو گئے۔
پھر تقریباً ساڑھے تین سو سالہ نو آبادیاتی دور میں بر طانیہ، پرتگال، فرانس اور نیدر لینڈ کے درمیان بھی تجارتی مفادات کی کشاکش رہی ، پھر کچھ عرصہ 1942میں انڈو نیشیا کے علاقے جاپانیوں کے قبضے میں رہے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران ہی انڈونیشیا کے آزادی کے قومی رہنما سیکار نو نے یہاں جد وجہد آزادی کی مسلح تحریک شروع کی اور 17 اگست 1945 کو جنگِ عظیم کے ختم ہوتے ہی انڈونیشیا کی آزادی کا اعلان کر دیا، مگر انڈونیشیا کی اس آزادی کو اُس وقت تسلیم نہیں کیا گیا پھر اُس وقت کے انڈو نیشیا کے ایک علاقے Papua New Guinea جو آج ایک آزاد خود مختار ملک ہے جس کا رقبہ 785753 مربع کلومیٹر اور 1990 کے مطابق آبادی 11306940 ہے، اس آبادی کی دو تہائی اکثریت عیسائی ہے، یہاں کی آبادی650 قومیتوں میں تقسیم ہے اور 450 مختلف زبانیں بولی جا تی ہیں۔
یہ تاریخی طور پر انڈو نیشیا کا حصہ تھا اور جب Indonesian,Nationlist Movement انڈونیشی قومی تحریک آزادی کا اعلان کیا گیا تو پاپوا نیو گینیا کا علاقہ انڈونیشیا میں شامل تھا۔ پا پوا نیو گینیا دنیا کا دوسرا بڑا جزیرہ ہے جو سمندر میں اسٹرٹیجک اعتبار سے آسٹریلیا اور انڈونیشیا کی قربت کی بنیاد پر بھی ہے، یوں سیکار نو کی قیادت میں جو جنگ آزادی انڈونیشی نوآدیاتی قوتوں کے خلاف لڑ رہے تھے۔
وہ ایک بڑی جنگ کی صورت اُس وقت اختیار کر گئی جب نیدر لینڈ کا موقف پاپوا نیو گینیا کے785753 مربع کلومیٹر رقبے پر مشتمل علاقے کو جو رقبے کے لحاظ سے پا کستان کے برابر ہے انڈونیشیا سے الگ ایک ملک کے طور پر آزاد اور خود مختار کر نے کا تھا، جس پر 1945 سے جب صدر سیکارنو نے جمہوریہ انڈونیشیا کے آزاد ملک کی بنیاد پر پاپوا نیو گینیا کے علاقے کو انڈونیشیا میں شامل رکھا تو یہاں جنگ شرع ہو گئی جو 28 جنوری 1949 تک جاری رہی۔ واضح رہے کہ قائد اعظم نے فلسطین ، مشرق وسطٰی،کشمیر اور انڈونیشیا میں نو آبادیاتی قوتوں کی جانب سے کی جانے والی کاروائیاں طاقت کی بنیاد پر کھیلا جانے والا ڈارمہ قرار دیتے ہوئے شدید مذمت کی تھی اور اُس وقت پا کستا ن اقوام متحدہ کا رکن تھا جو 50 دیگر رکن ملکوں کے مقابلے میں بہت جرات کا مظاہرہ کر رہا تھا۔
انڈونیشیا کی آزادی کی تحریک اب جنگِ آزادی کی شکل اختیار کر گئی تھی اس جنگ میں غیر تسلیم شدہ جمہوریہ انڈونیشیا کی فوج کے کمانڈر سیکار نو تھے جب کے نیدر لینڈ کے فوجی اتحاد کے کمانڈر جنرل ہیو برٹُس ون موک Hubertusven Mook تھے، اس جنگ میں انڈو نیشیا کی 195000فوج اور100000 نوجوان رضا کاروں کے مقابلے میں 180000 فوج، ڈچ رائل آرمی 60000، برطانوی فوج 30000، سابق شاہی جاپانی فوجی رضاکار 3000 یعنی کل فوج 273000 تھی۔ یہ جنگ جو دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد لڑی گئی اس میں شدت 1947 سے آئی اور یہ جنگ 1949 تک لڑی گئی۔ واضح رہے کہ یہ وہی دور ہے جب چین میںماوزے تنگ کی قیادت میں جنگ آزادی کمیونسٹ تحریک کے زیر اثر اپنی حتمی کا میابیوں کی منازل طے کر رہی تھی۔
یوں اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اُس دور میں کس طرح دنیا بھر میں ایک جانب کمیونزم ''اشتراکیت'' اور دوسری طرف سرمایہ دارانہ بنیادوں پر آزاد مارکیٹ کے نام پر مغربی جمہوریت کے ساتھ اقتصادی نوآبادیاتی نظام سامنے آرہا تھا، یوں مڈل ایسٹ کے ساتھ ساتھ فار ایسٹ میں بھی اب ایک اہم تاریخی موڑ تھا اور دو برس قبل قائم ہونے والے اقوام متحدہ کے ادارے کے لیے اس کے آغاز پر فلسطین، اسرائیل اور کشمیر کے بعد یہ تیسرا چیلنج تھا، یہ مسئلہ سکیورٹی کونسل میں لایا گیا، اُس وقت سکیورٹی کونسل کے اراکین کی تعداد 10 ہوا کرتی تھی جن میں پا نچ مستقل اور ویٹو کے حامل ملک برطانیہ، فرانس، امریکہ، سوویت یونین اور چین کے نام سے نمائندگی تائیوان کو دی ہوئی تھی، جب کہ باقی اراکین میں ارجنٹائن،کینیڈا، کیوبا، مصر اور ناروے شامل تھے۔ نیدر لینڈ کا موقف یہ تھا کہ پاپپوا نیو گینیا کاعلاقہ جس قوم اور قومیتوں پر مشتمل ہے وہ انڈونیشیا کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ہیں اور انڈو نیشیا کی جانب سے جنگ اور گوریلا طرزکے حملوں کا سلسلہ رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے 28 جنوری 1949 کی قرارداد نمبر67 میں نیدر لینڈ کو فوری طور پر فوجی کاروائیاں روکنے کا حکم دیا۔ انڈونیشیا اور نیدر لینڈ دونوں اس قرارداد پر متفق ہو گئے۔
واضح رہے کہ انڈونیشیا کو اُس وقت اقوام متحدہ کی رکنیت بھی نہیں ملی تھی اور پھر 28 ستمبر 1950 کو انڈونیشیا اقوام متحدہ کا رکن بنا، اُس وقت نوآبایاتی نظام سے آزاد ہونے والے ملکوں کے لیڈروں قائداعظم محمد علی جناح، ماوزئے تنگ ، پنڈت جواہر لال نہرو، جما ل عبدالناصر اور سیکارنو مقبول اور اہم لیڈر تھے۔ قائد اعظم 11 سمبر 1948 کو انتقال کر گئے اور انڈونیشیا اُن کی وفات کے بعد آزاد ہوا مگر اپنی زند گی میں اُنہوں نے سفارتی محاذ پر انڈو نیشیا کی اُ س وقت حمایت کی تھی جب سیکارنو انڈونیشیا کی جنگِ ا ٓزادی کی جدوجہد میں مصروف تھے۔
انڈونیشیا کی جنگ آزادی میں 45000 فوجی اور97421 سویلین شہید ہوئے، جب کہ دوسری جانب ڈچ فوج کے 6125 فوجی اور 1200 برطانوی ہلاک ہوئے تھے، اگر اسلامی ملکوں کی بنیاد پر دیکھا جائے تو 1945 میں دوسری جنگ عظیم کے بعد فوری طور پر تیسر ا موقع تھا جس میں جنگ کے بعد ا قوام متحدہ کی جانب سے جنگ رکوانے کی قراردادوں کے ساتھ تنازعات کے حل پر بھی زور دیا گیا تھا۔ انڈونیشیا اور نیدر لینڈ دونوں 28 جنوری1949 کی سکیورٹی کونسل کی قرار داد پر اتفاق کر گئے اور اس طرح یہاں جنگ بندی کے بعد یہ مسئلہ حل ہو گیا، اگرچہ انڈونیشیا کو یہاں اپنے پہلے موقف سے دستبردار ہو نا پڑا، یوں 28 جنوری1949 سے لے کر آج تک پاپوا نیو گینیا کے مسئلے پر کوئی اور جنگ نہیں ہوئی۔
دوسری جانب اسرائیل اور اس کے عرب ہمسایوں میں جنگ بندی تو ہوئی اور یہ بھی کہا گیا یہاں پائید ار امن قائم ہو اور اسرائیل اور عرب ممالک اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اِن مسائل کو حل کریں مگر اس پر اسرائیل اور عرب ممالک اپنے اپنے تحفظات رکھتے ہیں اس لیے وہاں اب تک پائیدار بنیادوں پر امن قائم نہیں ہو سکا، لیکن کشمیر کے مسئلے پر بھی نیدر لینڈ اور انڈونیشیا کی طرح دونوں فریقین نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو تسلیم کیا تھا اور اس پر عملدر آمد کے لیے بھی کشمیر پر اقوام متحدہ کی قرار دادیں فریقین کے اتفاق سے منظور ہوئیں لیکن اقوام متحدہ ابھی تک عملدرآمد نہیں کر واسکا، جہاں تک تعلق انڈونیشیا کی آزادی کے رہنما صدر سیکارنو کا ہے تو اُنہوں نے دس سال تک آزادی کے لیے نیدر لینڈ کے ساتھ مسلح جنگ کی، پہلے یہ جنگ گوریلا انداز کی تھی پھر 1945 کے بعد سے یہ پوری بڑی جنگ تھی جس میں دونوں طرف سے فوجوں کی تعداد لاکھوں میں تھی جس میں ایک لاکھ 42 ہزار انڈونیشین فوجی اور سویلین شہید ہوئے لیکن یہاں سیکارنو نے آزادی کو مکمل انقلاب یعنی بڑی معاشرتی، سیاسی، اقتصادی تبدیلی کے طور پر نافذ العمل کیا، یہاں آزادی کی انقلابی روح کے مطابق ملک کی حکومت بیوروکریسی، فوج سبھی کو نئے انداز سے ترتیب دیا گیا۔
انڈونیشیا کے عظیم لیڈر سیکارنو جو 6 جون 1901 میں پیدا ہو ئے، وہ تقریباً 34 برس کی عمر میں انڈونیشیا کے مقبول حریت پسند لیڈر بن گئے، 8 اگست 1945 کو انڈونیشیا کی آزادی کا اعلان کر کے ملک کے صدر بن گئے لیکن 1949 تک وہ ایک بڑ ی فوج کے کمانڈر کی حیثیت سے ملک کی جنگ ِآزادی لڑتے رہے، اُس وقت تک اُنہوں نے کوشش کی کہ نیوگینیا کا 785753 کلومیٹر رقبے کا علاقہ جو تاریخی طور پر انڈونیشیا کا حصہ ہے وہ انڈونیشیا ہی کے ساتھ رہے لیکن نوآبادیاتی دور میںاس بڑے جزیرے کی ڈیمو گرافی مذہب کی بنیاد پر تبدیلی کردی گئی تھی جب کہ یہاں 650 قومیتیں 450 زبانیں بولتیں ہیں، لیکن انہوں نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ اس تنازعے کو حل کر کے مستقبل میں انڈونیشیا کو امن اور خوشحالی دی جائے، وہ بنیادی طور پر اُس زمانے کی غیر وابستہ ممالک کی صف میں شامل تھے جس کی روح پنڈت جواہر لال نہرو، صدر کرنل ناصر، مارشل ٹیٹو، وزیر اعظم چواین لائی تھے۔
یوں وہ برطانیہ، امریکہ، فرانس اور دیگر سرمایہ دارانہ معاشی پالیسی رکھنے والے ملکوں کے مقا بلے میں روس اور چین سے بہتر سیاسی اقتصادی تعلقات استوار کئے ہوئے تھے اور باوجود اِس کے کہ پا کستان آزادی کے تقریباً دس برس بعد ہی سیٹو اور سینٹو جیسی دفاعی مغربی تنظیمو ں کا رکن بن کر روس مخالف گروپ میں تھا اور امریکہ نواز اور جا نبدار ملک تھا مگر صدر سیکارنو پاکستان کے دوست تھے، شاید وہ قائد اعظم کی اُس حمایت کو نہیں بھولے تھے جو قائد اعظم نے بہت نازک موقع پر برطانیہ، فرانس، امریکہ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے انڈونیشیا کی آزادی کے اعلان پر انڈونیشیا کے عوام سے کی تھی، اور شائد یہی وجہ تھی کہ جب ستمبر1965 میں بھارت سے جنگ شروع ہوئی تو پاکستان کی نیوی فورس بھارت کے مقابلے میں بہت کم تھی اور اُس وقت اسلامی دنیا میں اور ترقی پزیر ملکوں میں انڈونیشیا کی بحری قوت سب سے مضبوط تھی اور انڈونیشیا نے نہ صرف مغربی پاکستان کے محاذ پر بھارت کے خلاف پاکستان کی بھر پور مدد کی بلکہ مشرقی پاکستان میں وہاں طویل ساحل خصوصاً کاکس بازار پر اپنے بحری جنگی جہاز بھیج دیئے اور مشرقی پا کستان کے محاذ سے پاکستان کو بالکل فارغ کر دیا تھا۔
یہ وہ موقع تھا کہ اگر بھارت مشرقی پاکستان پر حملہ کرتا تو اُسے فارایسٹ میں نزدیک ایک بڑے ملک انڈونیشیا کی دشمنی مول لینی پڑتی، یوں بھارت کی جرات نہ ہوئی کہ وہ مشرقی پاکستان پر حملہ کرتا پھر بھارت نے بعد میں یہ پر وپیگنڈا کیا کہ مشرقی پاکستان کے لوگوں سے اُسے ہمدردی تھی اس لیے بھارت نے مشرقی پا کستان پر حملہ نہیں کیا۔ صدرسیکارنو کی اس جرات پر ہی پا کستان مختلف مقامات کے نام سیکارنو سے منسلک کئے گئے۔
لاہور مغلپورہ میں ایک بڑے بارونق بازار کا نام اب بھی سیکارنو بازار ہے۔ صدر سیکارنو بہت دلیر، جرات مند عوامی لیڈر تھے، اُن کے ساتھ مسئلہ یہ تھا کہ ایک تو آزادی کے وقت انڈو نیشیا میں خواندگی کی شرح کم تھی ایسے ماہرین جو سوویت یونین اور چینی انقلاب کی طرح تیز رفتاری سے ملک کو ترقی دے سکتے وہ نہ ہو نے کے برابر تھے، پھر یہاں لسانی ، مذہبی تنوع کو سرد جنگ کے زمانے میں مغربی قوتوں نے انڈونیشیا کے خلاف استعمال کیا، انڈونیشیا کے خلاف شائد یہ شدت اس لیے بھی تھی کہ انڈونیشیا کے تعلقات روس اور چین سے زیادہ قریبی تھے اور فار ایسٹ میں امریکہ، برطانیہ اور دیگر مغربی یورپی ممالک اِن کو اسٹرٹیجی کے حوالے سے اپنے مفادا ت کے خلاف سمجھتے تھے جب کہ سابق سوویت یونین کے مسلم اکثریت کی آبادی والے ملکوں سے تعلقات عجیب نوعیت کے تھے کیونکہ کسی ایسے مسلم ملک میں کمیونسٹ انقلاب نہیں آیا تھا، یوں روس کی جانب سے مختلف صنعتی، اقتصادی شعبوں میں تعاون اور اشترک انڈونیشیا، مصر، شام اور عراق جیسے ملکوں سے ایسا نہیں تھا جیسا مشرقی یورپ کے وہ ممالک جو عیسائی اکثریت آبادی کے ملک تھے اور اِن ملکوں نے کمیونزم کو پوری طرح اپنا لیا تھا۔
پھر جہاں تک تعلق چین کا ہے تو ساٹھ کی دہائی تک چین کے مستقبل کی ترقی اور خوشحالی مشکوک تھی کہ چین میں آبادی پر کو ئی کنٹرول نہیں تھا، اقوام متحدہ میں اُس کی رکنیت 1970 تک نہیں تھی اور اگرچہ چین نے 1964 میں ایٹمی دھماکہ کرکے ایٹمی قوت ہونے کا اعلان کر دیا تھا مگرجدید اسلحہ سازی اور ٹیکنالوجی میں ابھی چین بہت پیچھے تھا، پھر سوویت یونین سے بھی چین کے تعلقات خراب ہوئے، 1962 میں بھارت سے چین کی جنگ میں جہاں چین کی فوجی قوت اور برتری کو دنیا نے تسلیم کیا وہاں بھارت اورسوویت یونین ایک جانب چین کے خلاف خاموش اتحادی بن گئے تھے تو دوسری جانب امریکہ بحرہند میں فارایسٹ تک بھارت کے غیر جانبدارانہ کردار کے ساتھ یہ چاہتا تھا کہ انڈونیشیا میں بھی امریکہ نواز حکومت قائم ہو۔
یہ وہ عوامل تھے کہ پھر 1967 میں انڈونیشیا کے مغرب نواز جنرل سہارتو نے صدر سیکارنو کی حکومت کے خلاف بھرپور فوجی کاروائی کی ، یہ بڑی خونریز کاروائی تھی جس میں لاکھوں انڈو نیشی جان بحق ہوئے۔ 12 مارچ 1967 کو صدر سیکار نو کو اقتدار سے ہٹا دیا گیا اور پھروہ نظر بند کر دئیے گئے، پھر تینبرس بعد 21 جون 1970 میں وفات پائی، اُن قبرکے کتبے پر لکھا ہے کہ یہاں انڈو نیشیا کا دوست سویا ہوا ہے، وہ واقعی نہ صرف انڈو نیشیا کے دوست تھے بلکہ پاکستان کے بھی دوست تھے۔
سیکارنو کے بعد انڈونیشیا کے صدر سہارتو 32 سال صدر رہے اور اُن پر 32 ارب ڈالر کی کرپشن کے الزامات عائد ہوئے اور کہا جاتا ہے کہ یہ قومی دولت اُنہوں نے باہر غیر ملکی بنکوں میں منتقل کی۔ اِن کے دور میں انڈونیشیا میں بیرونی سرمایہ کاری بھی ہوئی مگر سیاسی طور پر ملک کی سالمیت سے غفلت بھی برتی گئی جس کی وجہ سے انڈونیشیا کی عالمی حیثیت وہ نہیں رہی جو صدر سیکارنو کے زمانے میں تھی۔ انڈو نیشیا میں تیل ،گیس، تانبے، سونے اور نکل کے معدنی ذخائر بھی ہیں جب کہ زرعی پیدوار میں ربر،کافی،کوکو اور ادویاتی پودے وغیرہ ہیں جن کی تجارت زیادہ تر امریکہ ، جاپان، چین اور بھارت سے ہوتی ہے۔
انڈو نیشیا کی واضح اکثریتی آبادی مسلمان ہے اور کل آبادی میں اس کا تناسب 87.2 فیصد ہے، لیکن یہ کہا جاتا ہے کہ جس طرح نو آبادیاتی دور میں پا پوا نیو گینیا میں عیسائی اکثریت بنانے پر انڈو نیشیا کے صدر نے 1945 میں ملک کی آزادی کے اعلان پر اس 785753 مربع کلومیٹر رقبے پر پہلے نیدر لینڈ کے اس دعویٰ کو مسترد کر دیا تھا کہ اس کو ایک الگ ملک کی حیثیت سے الگ کر دیا جائے اور اس کے لیے 1945 سے 1949 تک جنگ لڑی تھی اور پھر مجبور ہو کر اقوام متحدہ کی قرار داد کو تسلیم کر لیا تھا جس کی تو ثیق نیدر لینڈ کی ملکہ جولیانا Juliana نے 27 دسمبر1949 میں دستخط کر کے کر دی تھی، کہا جاتا ہے کہ جب صدر سہارتو کے زمانے میںاُنہوں نے ملک کی خارجہ پالیسی تبدیل کر دی اور امریکہ ، برطانیہ اور دیگر مغربی یورپی ملکوں سے تعلقات زیادہ بڑھائے تو یہاں مشرقی تیمور کے علاقے میں وہی پالیسی اپنائی گئی جو نیو گینیا کے لیے اپنائی گئی تھی یہاں عیسائی اکثریت کی بنیاد پر انقلابی محاذ برائے آزادی ِ مشرقی تیمور Revolutionary Front for Independent East Timar نے 28 جولائی 1975 کو مشرقی تیمور کی آزادی، خود مختاری کا اعلان کر دیا اس کے نو دن بعد انڈو نیشیا کی حکومت نے مشرقی تیمور کو ملک کا 27 واں صوبہ بنانے کا اعلان کر دیا۔
اس کے کچھ عرصے بعد اقوام متحدہ نے یہاں اس علاقے کی آزادی اور خودمختاری کی بنیاد پر بات شروع کروائی اور 1999 میں مشرقی تیمور کو خود مختار علاقہ قراردیکر انڈونیشیا ہی کے کنٹرول میں رکھنے کے احکامات دئیے، پھر یہاں اقوام متحدہ کی امن فورس تعینا ت کی گئی اور پھر 20 مئی 2002 کو مشرقی تیمور کو ایک الگ اور خود مختار ملک قرار دے دیا، یہ 21 ویں صدی میں آزاد ہونے والا پہلا ملک تھا۔ 2019 کے مطابق اب اس ملک کی آبادی 3182693 ہے اور آبادی میں97.57% عیسائی رومن کیتھولک ہے اور رقبہ 15007 مربع کلومیٹر ہے۔
یہاں 15 زبانیں بولی جاتی ہیں، اس کا سالانہ جی ڈی پی ۔ پی پی پی 7.22 ارب ڈالر ہے اور فی کس سالانہ آمدنی 5561 ڈالر ہے، اس کا دارالحکو مت دیلی ہے اور کرنسی امریکی ڈالر ہے ۔ اگرچہ انڈونیشیا سے اس کے الگ ہونے کی بنیادی وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ یہاں قدرتی وسائل ہیں اور ان کے جانے سے انڈونیشیا کو بڑا نقصان ہوا لیکن انڈونیشیا نے مثال قائم کی کہ اُس نے اقوام متحدہ کی قرار دادوں کا احترام کیا ہے اور اس ملک سے دو علاقے نکال کر ملک بنا دئیے گئے۔ (جاری ہے)
اگرچہ پہلی عالمی جنگ کے بعد بڑی قوتوں کے نوآبادیاتی رقبے میں اُس وقت بہت اضافہ ہوا تھا جب برطانیہ، فرانس اور دوسری عالمی قوتوں نے خلافت عثمانیہ کے زیر اقتدار علاقوں پر قبضہ کر کے اِن علاقوں کو آپس میں تقسیم کر لیا تھا، مگر 1918 میں جنگِ عظیم اوّ ل کے خاتمے پر اب دنیا بھر کے ملکوں میں یہ سیاسی نوآبادیاتی نظام ہی چیلنج ہو گیا تھا اور یہ چیلنج جنگ میں بڑی عالمی قوتوں کے کمزور پڑنے اور ساتھ ہی روس میں کامیاب کیمونسٹ انقلاب کی وجہ سے ہوا تھا۔
یو ں اِس پرانے نو آبادیاتی نظام کو نئی سیاسی اور اقتصادی اسٹرٹیجی سے عالمی اقتصادی نوآباددیاتی نظام سے بدلنے کی منصوبہ بندی بھی ہوئی تھی جو امریکہ کے تھنک ٹینک نے تشکیل دی تھی اور اس پر عملدر آمد کا آغاز بھی جنگ ِ عظیم اوّل کے فوراً بعد ہوگیا تھا اور اس نئی اسٹرٹیجی کو بہت حد تک برطانیہ نے حقیقت پسندی کے ساتھ قبول کر کے اپنانا شروع کر دیا تھا،اس کی غالباً ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ بر طانیہ خود رقبے اور آبادی کے اعتبار سے بہت چھوٹا ملک ہے مگر اُس وقت وہ دنیا کے تقریباً چوتھائی رقبے اور آبادی پر حکومت کر رہا تھا، اورجو چھوٹے ہتھیار، ڈائنامائٹ وغیرہ خود برطانیہ نے عرب ممالک میں جنگِ عظیم اوّل کے دوران عرب باغیوں کے حوالے سے استعمال کروائے تھے۔
اب انہی کا استعمال مختلف غلام ملکوں میں نو آبادیا تی قوتوں کے خلاف شروع ہونے والا تھا، اِس طرح بر طانیہ اپنی نو آبادیات میں ریاست کے تین بنیادی اداروں انتظامیہ، عدلیہ اور مقننہ میں مقامی آبادیوں کو بتدریج شامل کر کے اِن نوآبادیاتی ملکوں کے عوام کو اِن کی لیڈر شپ کے ذریعے مطیع کر رہا تھا اور اِس کی یہ حکمت عملی ہندوستان جیسے بڑے ملک میں کا میاب رہی تھی۔ پھر جنگ عظیم اوّل کے ردعمل کے طور پر اِن بڑی قوتوں سمیت پوری دنیا کو مالیاتی، اقتصادی ، معاشی اور معاشرتی بحرانوں کا بھی سامنا تھا۔
یوں ہندوستان میں پہلے انگریز نے مقامی لیڈروں کو صوبائی اور مرکزی کونسلوں میں اور ساتھ ہی انتظامیہ اور عدلیہ میں بھی مقامی لوگوں کو شامل کیا پھر دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد صوبائی اسمبلیوں اور مر کزی اسمبلی کے انتخابات کروا کے حکومتوں کی تشکیل کے ساتھ ہی بھارت اور پاکستان کو بطور آزاد و خودمختار ملکوں کے پورا بنا بنایا تیار شدہ سیٹ اپ یعنی نظام بھی دے دیا یعنی جب بھارت اور پا کستان آزاد ہوئے تو آل انڈیا کانگریس اور مسلم لیگ نے اس آزادی کے لیے سیاسی جد وجہد تو کی تھی لیکن انگر یز کے خلاف اِس کو مسلح جد وجہد نہیں بننے دیا، جس کی ناکام کوشش ہندوں کی طرف سے سبھاش چندر پوس کی صورت میں اور مسلمانوں کی جانب سے علامہ عنایت اللہ مشرقی کی جانب سے ہوئی تھی۔
یوں جب 14 اور15 اگست 1947 کو پاکستان اور بھارت آزاد ہوئے توگورنر، صوبائی و مرکزی سیکرٹریوں ، سے لیکر ڈویژن، ضلع اور تحصیل تک کمشنر، ڈپٹی کمشنر ، پو لیس تھانہ اور دیگر محکموں کا انتظامی ڈھانچہ بھی تھا اور میکنزم بھی، ساتھ ہی عدلیہ کا بھی تحصیل اور ضلع سطح سے سپریم یا چیف کورٹ تک کا نظام 1935 کے آئین قانون ہند کے ساتھ موجود تھا اور مقننہ مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں اور حکومتوں کی تشکیل کے لیے آزادی سے قبل دسمبر 1945 تا جنوری 1946 کے مشترکہ ہندوستان کے آخری انتخابات میں ہند و، مسلم جداگانہ انتخا ب کے بعد وجود میں آئی تھیں۔
یوں اگر پا کستان اور بھارت کی آزادی کے بعد جو خونریزی ہوئی تو وہ صرف ایک کروڑ سے زیادہ مہاجرین کی ایک ملک سے دوسرے ملک میں منتقل ہونے کے حوالے سے ہوئی کہ تقسیم کے عمل میں انگریروں اور کانگریس کی جانب سے سازش اور بددیانتی ہوئی تھی لیکن جہاں تک سیٹ اپ کا تعلق تھا تو یہ انگریز نے بنا بنایا دیا تھا اور پھر آزادی کے پہلے سال دونوں ملکوں کی آزادیاں کچھ شرائط کے ساتھ تھیں اور بھارت اور پاکستان میں گورنر جنرل، آرمی کمانڈر انچیف انگریز تھے بلکہ صوبائی گورنروں، کمشنرز ، سیکرٹریوں سمیت کئی محکموں میں ہزاروں اعلیٰ افسران بھی انگریز تھے جو رفتہ رفتہ 1950 کی دہائی میں انگلینڈ چلے گئے۔
تعریف کی بات یہ ہے کہ وہا ں اِن افسران کو ریٹائر کر کے معقول پینشنیں دی گئیں، بہت عزت دی اور اکثر کو اعزازات سے نوازا مگر کیونکہ یہ غلام ملکوں میں اپنے آقائی کردار کے ساتھ حکومت کرتے رہے یوں ان کے رویوں اور رجحانات اور مزاج میں یہ سما گیا تھا کہ وہ آقا ہیں اور عوام غلام، اس لیے برطانیہ نے اپنے جمہوری باوقار اور مستحکم معاشرے اور اپنی انتظامیہ اور عدلیہ کو اِن محب وطن انگریزوں سے پاک رکھا، لیکن ہمارے ہاں آزادی کے بعد ادارے مستحکم تھے، یہ ضرور ہے کہ وہ عوام کی عزت و وقار جمہوری مزاج سے کم آشنا نہیں تھے۔
دوسری جانب فرانس، نیدرلینڈ کی وہ نو آبادیات تھیں جہاں اس حکمت علمی کو کم استعمال کیا گیا جیسے الجزائر میں جہاں بن بلا، بوم دین اور جمیلہ بھو پاشا جیسی شخصیات نے فرانس کے خلاف مسلح جد وجہد کی اور کامیابی پر اپنے ملک کو آزاد کروایا۔ عمو ماً ایسے ملکوں میں جمہوریت اور ادارے بہت دیر سے مستحکم ہوئے اورا یسے بعض ملکوں میں ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں تبدیلیاں سرد جنگ میں مغربی ملکوں کی پشت پناہی کی بدولت آئیں اور پھر خصوصاً 1990 میں سوویت یونین اور اس کے اشتراکی نظام کے دنیا سے ختم ہو جانے کے بعد جب عوام اِن ملکوں میں لیڈروں کے خلاف ہوئے تو اس طرح کی تبد یلی اور جمہوریت اور ترقی کے نئے سفر میں وقت اور وسائل کے لحاظ سے اِن ملکوں کے عوام کو کافی نقصان ہوا۔
مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اسی کی دہائی کے وسط تک کم ازکم ترقی پذیر اور پس ماندہ ملکوں کے سربراہوں اور عوام کے علاوہ محققین اور دانشوروں کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ سابق سوویت یونین جیسی عالمی طاقت کا حامل ملک اور اس کا اشتراکی نظام دنیا سے ختم ہو جائے گا۔ مسلم آبادی کی اکثریت کا ملک انڈونیشیا بھی ایک ہی ایسا ملک ہے جوصدر سیکارنو کی قیات میں نوآبادیاتی قوت نیدر لینڈ کے خلاف دس سالہ مسلح جد وجہد کے بعد 1949 میں آزاد ہوا۔ آج انڈونیشیا آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور2017 کے مطابق اِس کی آبادی 26 کروڑ 40 لاکھ ہے، یہاں مسلم آبادی کا تناسب 87.2% ، عیسائی 9.9 فیصد، ہندو 1.7% اور باقی دیگر مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں، اگست 2017 میں مجھے اللہ پاک کی طرف سے حج کی سعادت نصیب ہوئی تو دیکھا کہ وہاں سب سے زیادہ تعداد میں انڈونیشی مسلمان تھے اور سب سے زیادہ عاجزاور منکسرالمزاج مسلمان تھے ، انڈونیشیا کا رقبہ 1904569 مربع کلومیٹر ہے۔
یوں یہ رقبے کے لحاظ سے دنیا کا 14 واں بڑا ملک ہے اور 17000 جزائر پر مشتمل ہے، یوں سمندری اور خشکی کی حدود کے اعتبار سے یہ دنیا کا ساتواں بڑا ملک ہے جو بحرہند اور بحر اوقیانوس کے درمیان واقع ہے اس کی سمندری اورخشکی کی سرحدیں مشرقی تیمورسے ملتی ہیں جو چند برس قبل تک انڈونیشیا ہی کا حصہ تھا، یہاں عیسائی آبادی کی اکثریت اور مطالبے پر الگ کر دیا گیا، دیگر ہمسایہ ملکوں میں پا پوانیوگینیا، ملائشیا، سنگا پور، ویت نام، فلپائن ، جزائر نیکو بار اور سمندر کی قربت کی بنیاد پرآسٹریلیا اور بھارت ہیں۔ اس کے 34 صوبے اور پانچ ریاستیں ہیںاور جکارتہ دارالحکومت ہے، انڈونیشی اگرچہ قومی اور سرکاری زبان ہے لیکن 17000 ہزار جزائر پر مشتمل اس ملک میںلسانی، مذہبی، نسلی اور قومی تنوع بہت زیادہ ہے اس اعتبار سے یہاں 300 قومیتیں آباد ہیں جو 700 کے قریب مادری زبانیں بولتی ہیں۔ 13 ویں صدی تک یہاں ہندو اور بدھ بادشاہتیں رہیں۔
اسلام کی آمد کے بعد یہاں عرب تاجر آئے جن کے اخلاق اور تبلیغ سے یہاں اسلام تیزی سے پھیلا اور پھر مسلمانوں کی حکمرانی قائم ہو گئی، یہاں اسلام مبلغین اور مسلم تاجروں کی آمد سے اِن کے عمل اور اخلاق سے پھیلا ، یہی وہ مقامات تھے جہاں سے مسلمان تاجروں کی چند بیواؤں اور یتیم بچوں کے علاوہ مسلمان خلیفہ کے لیے تحائف لے کر جہاز جب اُس وقت کے دیبل اور آج کے کراچی کے قریب سے گذر رہا تھا تو سندھ کے ہندو حکمران راجہ نے اُس جہاز کو لوٹ کر خواتین، بچوں اور ملاحوں کو قیدی بنا لیا تھا اور جب حجاج بن یوسف نے اُسے خط لکھا کہ قیدیوں کو رہا کیا جائے اور لوٹا ہوا سامان واپس کیا جائے تو راجہ داہر نے کہا تھا کہ بحری قزاق اُس کی پہنچ سے باہر ہیں۔
اس پر اُس نے اپنے سترا سالہ بھتجے محمد بن قاسم کو راجہ داہر کے خلاف جنگ کے لیے بھیجا تھا اور سندھ فتح ہوا تھا، اور پھر جب مسلمان یہاں اکثریت میں ہو گئے تو یہاں 13 ویں صدی عیسوی سے مسلمان باد شاہیں قائم ہوئیں، سترویں صدی عیسوی کے آغاز میں ڈچ مشرقی انڈونیشیا میں داخل ہوئے پھر انیسویں صدی تک یہاں نیدر لینڈ کے ڈچ قابض ہو گئے۔
پھر تقریباً ساڑھے تین سو سالہ نو آبادیاتی دور میں بر طانیہ، پرتگال، فرانس اور نیدر لینڈ کے درمیان بھی تجارتی مفادات کی کشاکش رہی ، پھر کچھ عرصہ 1942میں انڈو نیشیا کے علاقے جاپانیوں کے قبضے میں رہے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران ہی انڈونیشیا کے آزادی کے قومی رہنما سیکار نو نے یہاں جد وجہد آزادی کی مسلح تحریک شروع کی اور 17 اگست 1945 کو جنگِ عظیم کے ختم ہوتے ہی انڈونیشیا کی آزادی کا اعلان کر دیا، مگر انڈونیشیا کی اس آزادی کو اُس وقت تسلیم نہیں کیا گیا پھر اُس وقت کے انڈو نیشیا کے ایک علاقے Papua New Guinea جو آج ایک آزاد خود مختار ملک ہے جس کا رقبہ 785753 مربع کلومیٹر اور 1990 کے مطابق آبادی 11306940 ہے، اس آبادی کی دو تہائی اکثریت عیسائی ہے، یہاں کی آبادی650 قومیتوں میں تقسیم ہے اور 450 مختلف زبانیں بولی جا تی ہیں۔
یہ تاریخی طور پر انڈو نیشیا کا حصہ تھا اور جب Indonesian,Nationlist Movement انڈونیشی قومی تحریک آزادی کا اعلان کیا گیا تو پاپوا نیو گینیا کا علاقہ انڈونیشیا میں شامل تھا۔ پا پوا نیو گینیا دنیا کا دوسرا بڑا جزیرہ ہے جو سمندر میں اسٹرٹیجک اعتبار سے آسٹریلیا اور انڈونیشیا کی قربت کی بنیاد پر بھی ہے، یوں سیکار نو کی قیادت میں جو جنگ آزادی انڈونیشی نوآدیاتی قوتوں کے خلاف لڑ رہے تھے۔
وہ ایک بڑی جنگ کی صورت اُس وقت اختیار کر گئی جب نیدر لینڈ کا موقف پاپوا نیو گینیا کے785753 مربع کلومیٹر رقبے پر مشتمل علاقے کو جو رقبے کے لحاظ سے پا کستان کے برابر ہے انڈونیشیا سے الگ ایک ملک کے طور پر آزاد اور خود مختار کر نے کا تھا، جس پر 1945 سے جب صدر سیکارنو نے جمہوریہ انڈونیشیا کے آزاد ملک کی بنیاد پر پاپوا نیو گینیا کے علاقے کو انڈونیشیا میں شامل رکھا تو یہاں جنگ شرع ہو گئی جو 28 جنوری 1949 تک جاری رہی۔ واضح رہے کہ قائد اعظم نے فلسطین ، مشرق وسطٰی،کشمیر اور انڈونیشیا میں نو آبادیاتی قوتوں کی جانب سے کی جانے والی کاروائیاں طاقت کی بنیاد پر کھیلا جانے والا ڈارمہ قرار دیتے ہوئے شدید مذمت کی تھی اور اُس وقت پا کستا ن اقوام متحدہ کا رکن تھا جو 50 دیگر رکن ملکوں کے مقابلے میں بہت جرات کا مظاہرہ کر رہا تھا۔
انڈونیشیا کی آزادی کی تحریک اب جنگِ آزادی کی شکل اختیار کر گئی تھی اس جنگ میں غیر تسلیم شدہ جمہوریہ انڈونیشیا کی فوج کے کمانڈر سیکار نو تھے جب کے نیدر لینڈ کے فوجی اتحاد کے کمانڈر جنرل ہیو برٹُس ون موک Hubertusven Mook تھے، اس جنگ میں انڈو نیشیا کی 195000فوج اور100000 نوجوان رضا کاروں کے مقابلے میں 180000 فوج، ڈچ رائل آرمی 60000، برطانوی فوج 30000، سابق شاہی جاپانی فوجی رضاکار 3000 یعنی کل فوج 273000 تھی۔ یہ جنگ جو دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد لڑی گئی اس میں شدت 1947 سے آئی اور یہ جنگ 1949 تک لڑی گئی۔ واضح رہے کہ یہ وہی دور ہے جب چین میںماوزے تنگ کی قیادت میں جنگ آزادی کمیونسٹ تحریک کے زیر اثر اپنی حتمی کا میابیوں کی منازل طے کر رہی تھی۔
یوں اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اُس دور میں کس طرح دنیا بھر میں ایک جانب کمیونزم ''اشتراکیت'' اور دوسری طرف سرمایہ دارانہ بنیادوں پر آزاد مارکیٹ کے نام پر مغربی جمہوریت کے ساتھ اقتصادی نوآبادیاتی نظام سامنے آرہا تھا، یوں مڈل ایسٹ کے ساتھ ساتھ فار ایسٹ میں بھی اب ایک اہم تاریخی موڑ تھا اور دو برس قبل قائم ہونے والے اقوام متحدہ کے ادارے کے لیے اس کے آغاز پر فلسطین، اسرائیل اور کشمیر کے بعد یہ تیسرا چیلنج تھا، یہ مسئلہ سکیورٹی کونسل میں لایا گیا، اُس وقت سکیورٹی کونسل کے اراکین کی تعداد 10 ہوا کرتی تھی جن میں پا نچ مستقل اور ویٹو کے حامل ملک برطانیہ، فرانس، امریکہ، سوویت یونین اور چین کے نام سے نمائندگی تائیوان کو دی ہوئی تھی، جب کہ باقی اراکین میں ارجنٹائن،کینیڈا، کیوبا، مصر اور ناروے شامل تھے۔ نیدر لینڈ کا موقف یہ تھا کہ پاپپوا نیو گینیا کاعلاقہ جس قوم اور قومیتوں پر مشتمل ہے وہ انڈونیشیا کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ہیں اور انڈو نیشیا کی جانب سے جنگ اور گوریلا طرزکے حملوں کا سلسلہ رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے 28 جنوری 1949 کی قرارداد نمبر67 میں نیدر لینڈ کو فوری طور پر فوجی کاروائیاں روکنے کا حکم دیا۔ انڈونیشیا اور نیدر لینڈ دونوں اس قرارداد پر متفق ہو گئے۔
واضح رہے کہ انڈونیشیا کو اُس وقت اقوام متحدہ کی رکنیت بھی نہیں ملی تھی اور پھر 28 ستمبر 1950 کو انڈونیشیا اقوام متحدہ کا رکن بنا، اُس وقت نوآبایاتی نظام سے آزاد ہونے والے ملکوں کے لیڈروں قائداعظم محمد علی جناح، ماوزئے تنگ ، پنڈت جواہر لال نہرو، جما ل عبدالناصر اور سیکارنو مقبول اور اہم لیڈر تھے۔ قائد اعظم 11 سمبر 1948 کو انتقال کر گئے اور انڈونیشیا اُن کی وفات کے بعد آزاد ہوا مگر اپنی زند گی میں اُنہوں نے سفارتی محاذ پر انڈو نیشیا کی اُ س وقت حمایت کی تھی جب سیکارنو انڈونیشیا کی جنگِ ا ٓزادی کی جدوجہد میں مصروف تھے۔
انڈونیشیا کی جنگ آزادی میں 45000 فوجی اور97421 سویلین شہید ہوئے، جب کہ دوسری جانب ڈچ فوج کے 6125 فوجی اور 1200 برطانوی ہلاک ہوئے تھے، اگر اسلامی ملکوں کی بنیاد پر دیکھا جائے تو 1945 میں دوسری جنگ عظیم کے بعد فوری طور پر تیسر ا موقع تھا جس میں جنگ کے بعد ا قوام متحدہ کی جانب سے جنگ رکوانے کی قراردادوں کے ساتھ تنازعات کے حل پر بھی زور دیا گیا تھا۔ انڈونیشیا اور نیدر لینڈ دونوں 28 جنوری1949 کی سکیورٹی کونسل کی قرار داد پر اتفاق کر گئے اور اس طرح یہاں جنگ بندی کے بعد یہ مسئلہ حل ہو گیا، اگرچہ انڈونیشیا کو یہاں اپنے پہلے موقف سے دستبردار ہو نا پڑا، یوں 28 جنوری1949 سے لے کر آج تک پاپوا نیو گینیا کے مسئلے پر کوئی اور جنگ نہیں ہوئی۔
دوسری جانب اسرائیل اور اس کے عرب ہمسایوں میں جنگ بندی تو ہوئی اور یہ بھی کہا گیا یہاں پائید ار امن قائم ہو اور اسرائیل اور عرب ممالک اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اِن مسائل کو حل کریں مگر اس پر اسرائیل اور عرب ممالک اپنے اپنے تحفظات رکھتے ہیں اس لیے وہاں اب تک پائیدار بنیادوں پر امن قائم نہیں ہو سکا، لیکن کشمیر کے مسئلے پر بھی نیدر لینڈ اور انڈونیشیا کی طرح دونوں فریقین نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو تسلیم کیا تھا اور اس پر عملدر آمد کے لیے بھی کشمیر پر اقوام متحدہ کی قرار دادیں فریقین کے اتفاق سے منظور ہوئیں لیکن اقوام متحدہ ابھی تک عملدرآمد نہیں کر واسکا، جہاں تک تعلق انڈونیشیا کی آزادی کے رہنما صدر سیکارنو کا ہے تو اُنہوں نے دس سال تک آزادی کے لیے نیدر لینڈ کے ساتھ مسلح جنگ کی، پہلے یہ جنگ گوریلا انداز کی تھی پھر 1945 کے بعد سے یہ پوری بڑی جنگ تھی جس میں دونوں طرف سے فوجوں کی تعداد لاکھوں میں تھی جس میں ایک لاکھ 42 ہزار انڈونیشین فوجی اور سویلین شہید ہوئے لیکن یہاں سیکارنو نے آزادی کو مکمل انقلاب یعنی بڑی معاشرتی، سیاسی، اقتصادی تبدیلی کے طور پر نافذ العمل کیا، یہاں آزادی کی انقلابی روح کے مطابق ملک کی حکومت بیوروکریسی، فوج سبھی کو نئے انداز سے ترتیب دیا گیا۔
انڈونیشیا کے عظیم لیڈر سیکارنو جو 6 جون 1901 میں پیدا ہو ئے، وہ تقریباً 34 برس کی عمر میں انڈونیشیا کے مقبول حریت پسند لیڈر بن گئے، 8 اگست 1945 کو انڈونیشیا کی آزادی کا اعلان کر کے ملک کے صدر بن گئے لیکن 1949 تک وہ ایک بڑ ی فوج کے کمانڈر کی حیثیت سے ملک کی جنگ ِآزادی لڑتے رہے، اُس وقت تک اُنہوں نے کوشش کی کہ نیوگینیا کا 785753 کلومیٹر رقبے کا علاقہ جو تاریخی طور پر انڈونیشیا کا حصہ ہے وہ انڈونیشیا ہی کے ساتھ رہے لیکن نوآبادیاتی دور میںاس بڑے جزیرے کی ڈیمو گرافی مذہب کی بنیاد پر تبدیلی کردی گئی تھی جب کہ یہاں 650 قومیتیں 450 زبانیں بولتیں ہیں، لیکن انہوں نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ اس تنازعے کو حل کر کے مستقبل میں انڈونیشیا کو امن اور خوشحالی دی جائے، وہ بنیادی طور پر اُس زمانے کی غیر وابستہ ممالک کی صف میں شامل تھے جس کی روح پنڈت جواہر لال نہرو، صدر کرنل ناصر، مارشل ٹیٹو، وزیر اعظم چواین لائی تھے۔
یوں وہ برطانیہ، امریکہ، فرانس اور دیگر سرمایہ دارانہ معاشی پالیسی رکھنے والے ملکوں کے مقا بلے میں روس اور چین سے بہتر سیاسی اقتصادی تعلقات استوار کئے ہوئے تھے اور باوجود اِس کے کہ پا کستان آزادی کے تقریباً دس برس بعد ہی سیٹو اور سینٹو جیسی دفاعی مغربی تنظیمو ں کا رکن بن کر روس مخالف گروپ میں تھا اور امریکہ نواز اور جا نبدار ملک تھا مگر صدر سیکارنو پاکستان کے دوست تھے، شاید وہ قائد اعظم کی اُس حمایت کو نہیں بھولے تھے جو قائد اعظم نے بہت نازک موقع پر برطانیہ، فرانس، امریکہ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے انڈونیشیا کی آزادی کے اعلان پر انڈونیشیا کے عوام سے کی تھی، اور شائد یہی وجہ تھی کہ جب ستمبر1965 میں بھارت سے جنگ شروع ہوئی تو پاکستان کی نیوی فورس بھارت کے مقابلے میں بہت کم تھی اور اُس وقت اسلامی دنیا میں اور ترقی پزیر ملکوں میں انڈونیشیا کی بحری قوت سب سے مضبوط تھی اور انڈونیشیا نے نہ صرف مغربی پاکستان کے محاذ پر بھارت کے خلاف پاکستان کی بھر پور مدد کی بلکہ مشرقی پاکستان میں وہاں طویل ساحل خصوصاً کاکس بازار پر اپنے بحری جنگی جہاز بھیج دیئے اور مشرقی پا کستان کے محاذ سے پاکستان کو بالکل فارغ کر دیا تھا۔
یہ وہ موقع تھا کہ اگر بھارت مشرقی پاکستان پر حملہ کرتا تو اُسے فارایسٹ میں نزدیک ایک بڑے ملک انڈونیشیا کی دشمنی مول لینی پڑتی، یوں بھارت کی جرات نہ ہوئی کہ وہ مشرقی پاکستان پر حملہ کرتا پھر بھارت نے بعد میں یہ پر وپیگنڈا کیا کہ مشرقی پاکستان کے لوگوں سے اُسے ہمدردی تھی اس لیے بھارت نے مشرقی پا کستان پر حملہ نہیں کیا۔ صدرسیکارنو کی اس جرات پر ہی پا کستان مختلف مقامات کے نام سیکارنو سے منسلک کئے گئے۔
لاہور مغلپورہ میں ایک بڑے بارونق بازار کا نام اب بھی سیکارنو بازار ہے۔ صدر سیکارنو بہت دلیر، جرات مند عوامی لیڈر تھے، اُن کے ساتھ مسئلہ یہ تھا کہ ایک تو آزادی کے وقت انڈو نیشیا میں خواندگی کی شرح کم تھی ایسے ماہرین جو سوویت یونین اور چینی انقلاب کی طرح تیز رفتاری سے ملک کو ترقی دے سکتے وہ نہ ہو نے کے برابر تھے، پھر یہاں لسانی ، مذہبی تنوع کو سرد جنگ کے زمانے میں مغربی قوتوں نے انڈونیشیا کے خلاف استعمال کیا، انڈونیشیا کے خلاف شائد یہ شدت اس لیے بھی تھی کہ انڈونیشیا کے تعلقات روس اور چین سے زیادہ قریبی تھے اور فار ایسٹ میں امریکہ، برطانیہ اور دیگر مغربی یورپی ممالک اِن کو اسٹرٹیجی کے حوالے سے اپنے مفادا ت کے خلاف سمجھتے تھے جب کہ سابق سوویت یونین کے مسلم اکثریت کی آبادی والے ملکوں سے تعلقات عجیب نوعیت کے تھے کیونکہ کسی ایسے مسلم ملک میں کمیونسٹ انقلاب نہیں آیا تھا، یوں روس کی جانب سے مختلف صنعتی، اقتصادی شعبوں میں تعاون اور اشترک انڈونیشیا، مصر، شام اور عراق جیسے ملکوں سے ایسا نہیں تھا جیسا مشرقی یورپ کے وہ ممالک جو عیسائی اکثریت آبادی کے ملک تھے اور اِن ملکوں نے کمیونزم کو پوری طرح اپنا لیا تھا۔
پھر جہاں تک تعلق چین کا ہے تو ساٹھ کی دہائی تک چین کے مستقبل کی ترقی اور خوشحالی مشکوک تھی کہ چین میں آبادی پر کو ئی کنٹرول نہیں تھا، اقوام متحدہ میں اُس کی رکنیت 1970 تک نہیں تھی اور اگرچہ چین نے 1964 میں ایٹمی دھماکہ کرکے ایٹمی قوت ہونے کا اعلان کر دیا تھا مگرجدید اسلحہ سازی اور ٹیکنالوجی میں ابھی چین بہت پیچھے تھا، پھر سوویت یونین سے بھی چین کے تعلقات خراب ہوئے، 1962 میں بھارت سے چین کی جنگ میں جہاں چین کی فوجی قوت اور برتری کو دنیا نے تسلیم کیا وہاں بھارت اورسوویت یونین ایک جانب چین کے خلاف خاموش اتحادی بن گئے تھے تو دوسری جانب امریکہ بحرہند میں فارایسٹ تک بھارت کے غیر جانبدارانہ کردار کے ساتھ یہ چاہتا تھا کہ انڈونیشیا میں بھی امریکہ نواز حکومت قائم ہو۔
یہ وہ عوامل تھے کہ پھر 1967 میں انڈونیشیا کے مغرب نواز جنرل سہارتو نے صدر سیکارنو کی حکومت کے خلاف بھرپور فوجی کاروائی کی ، یہ بڑی خونریز کاروائی تھی جس میں لاکھوں انڈو نیشی جان بحق ہوئے۔ 12 مارچ 1967 کو صدر سیکار نو کو اقتدار سے ہٹا دیا گیا اور پھروہ نظر بند کر دئیے گئے، پھر تینبرس بعد 21 جون 1970 میں وفات پائی، اُن قبرکے کتبے پر لکھا ہے کہ یہاں انڈو نیشیا کا دوست سویا ہوا ہے، وہ واقعی نہ صرف انڈو نیشیا کے دوست تھے بلکہ پاکستان کے بھی دوست تھے۔
سیکارنو کے بعد انڈونیشیا کے صدر سہارتو 32 سال صدر رہے اور اُن پر 32 ارب ڈالر کی کرپشن کے الزامات عائد ہوئے اور کہا جاتا ہے کہ یہ قومی دولت اُنہوں نے باہر غیر ملکی بنکوں میں منتقل کی۔ اِن کے دور میں انڈونیشیا میں بیرونی سرمایہ کاری بھی ہوئی مگر سیاسی طور پر ملک کی سالمیت سے غفلت بھی برتی گئی جس کی وجہ سے انڈونیشیا کی عالمی حیثیت وہ نہیں رہی جو صدر سیکارنو کے زمانے میں تھی۔ انڈو نیشیا میں تیل ،گیس، تانبے، سونے اور نکل کے معدنی ذخائر بھی ہیں جب کہ زرعی پیدوار میں ربر،کافی،کوکو اور ادویاتی پودے وغیرہ ہیں جن کی تجارت زیادہ تر امریکہ ، جاپان، چین اور بھارت سے ہوتی ہے۔
انڈو نیشیا کی واضح اکثریتی آبادی مسلمان ہے اور کل آبادی میں اس کا تناسب 87.2 فیصد ہے، لیکن یہ کہا جاتا ہے کہ جس طرح نو آبادیاتی دور میں پا پوا نیو گینیا میں عیسائی اکثریت بنانے پر انڈو نیشیا کے صدر نے 1945 میں ملک کی آزادی کے اعلان پر اس 785753 مربع کلومیٹر رقبے پر پہلے نیدر لینڈ کے اس دعویٰ کو مسترد کر دیا تھا کہ اس کو ایک الگ ملک کی حیثیت سے الگ کر دیا جائے اور اس کے لیے 1945 سے 1949 تک جنگ لڑی تھی اور پھر مجبور ہو کر اقوام متحدہ کی قرار داد کو تسلیم کر لیا تھا جس کی تو ثیق نیدر لینڈ کی ملکہ جولیانا Juliana نے 27 دسمبر1949 میں دستخط کر کے کر دی تھی، کہا جاتا ہے کہ جب صدر سہارتو کے زمانے میںاُنہوں نے ملک کی خارجہ پالیسی تبدیل کر دی اور امریکہ ، برطانیہ اور دیگر مغربی یورپی ملکوں سے تعلقات زیادہ بڑھائے تو یہاں مشرقی تیمور کے علاقے میں وہی پالیسی اپنائی گئی جو نیو گینیا کے لیے اپنائی گئی تھی یہاں عیسائی اکثریت کی بنیاد پر انقلابی محاذ برائے آزادی ِ مشرقی تیمور Revolutionary Front for Independent East Timar نے 28 جولائی 1975 کو مشرقی تیمور کی آزادی، خود مختاری کا اعلان کر دیا اس کے نو دن بعد انڈو نیشیا کی حکومت نے مشرقی تیمور کو ملک کا 27 واں صوبہ بنانے کا اعلان کر دیا۔
اس کے کچھ عرصے بعد اقوام متحدہ نے یہاں اس علاقے کی آزادی اور خودمختاری کی بنیاد پر بات شروع کروائی اور 1999 میں مشرقی تیمور کو خود مختار علاقہ قراردیکر انڈونیشیا ہی کے کنٹرول میں رکھنے کے احکامات دئیے، پھر یہاں اقوام متحدہ کی امن فورس تعینا ت کی گئی اور پھر 20 مئی 2002 کو مشرقی تیمور کو ایک الگ اور خود مختار ملک قرار دے دیا، یہ 21 ویں صدی میں آزاد ہونے والا پہلا ملک تھا۔ 2019 کے مطابق اب اس ملک کی آبادی 3182693 ہے اور آبادی میں97.57% عیسائی رومن کیتھولک ہے اور رقبہ 15007 مربع کلومیٹر ہے۔
یہاں 15 زبانیں بولی جاتی ہیں، اس کا سالانہ جی ڈی پی ۔ پی پی پی 7.22 ارب ڈالر ہے اور فی کس سالانہ آمدنی 5561 ڈالر ہے، اس کا دارالحکو مت دیلی ہے اور کرنسی امریکی ڈالر ہے ۔ اگرچہ انڈونیشیا سے اس کے الگ ہونے کی بنیادی وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ یہاں قدرتی وسائل ہیں اور ان کے جانے سے انڈونیشیا کو بڑا نقصان ہوا لیکن انڈونیشیا نے مثال قائم کی کہ اُس نے اقوام متحدہ کی قرار دادوں کا احترام کیا ہے اور اس ملک سے دو علاقے نکال کر ملک بنا دئیے گئے۔ (جاری ہے)