کورونا وائرس سندھ حکومت کی بہتر کارکردگی
وفاقی حکومت نے جن ڈاکٹروں کو تفتان بھیجا تھا وہ اپنی ڈیوٹی پر حاضر نہیں ہوئے
صدی کی بدترین بیماری کورونا وائرس COVID-19 پر سارک ممالک کے وزراء اعظم اور صدورکی وڈیو کانفرنس ہوئی۔ وزیر اعظم عمران خان کے علاوہ چھ رکن ممالک کے سربراہوں نے اس خطرناک وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے تبادلہ خیال کیا مگر وزیر اعظم عمران خان نے کانفرنس میں شرکت کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ وفاقی کابینہ میں وزارت صحت کا مکمل وزیر موجود نہیں ہے۔ وزیر اعظم کے مشیر ڈاکٹر ظفر مرزا نے اس کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کی، ابھی تک ملک میں میڈیکل ایمرجنسی نافذ نہیں ہوئی، یوں ملک کے سربراہ کی عدم موجودگی سے حکومت کی اس اہم مسئلہ سے نبردآزما ہونے کی حکمت عملی عیاں ہوگئی۔
کورونا وائرس پہلے چین میں پھیلا ، چین کے صوبہ ووہان میں ہزاروں افراد اس وائرس سے ہلاک ہوئے۔ چین کی حکومت نے تمام وسائل اس وائرس کی روک تھام پر خرچ کیے۔ چند ہفتوں میں مریضوں کو قرنطانیہ میں رکھنے کے لیے اسپتال قائم کیا۔ شہریوں کوگھروں میں رہنے کی ہدایت کی۔ وائرس کے انفیکشن کو روکنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیارکی گئیں۔ ہر فرد کو پابند کیا گیا کہ ان طبی ہدایات کی پابندی کرے ، یوں چین میں پھر ہلاکتوں کی تعداد کم ہونا شروع ہوئی۔ پاکستان کے ہزاروں شہری چین میں مقیم ہیں۔ چین کے صوبہ ووہان میں خاصے طالب علم تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ حکومت پاکستان نے صرف ایک فیصلہ کیا کہ ان طالب علموں کو ملک واپس نہیں لایا جائے گا۔
صحت کے مشیر ڈاکٹر ظفر مرزا کی منطق یہ تھی کہ چین میں کورونا وائرس کے علاج کی سہولتیں موجود ہیں اور یہ طلبہ پاکستان آئیں گے تو ممکن ہے ان میں سے کوئی کورونا وائرس کا کیریئر نہ بن جائے۔ اس بناء پر ان طلبہ کو وہاں ہی رکھا جائے۔ یہ طلبہ اپنے ہاسٹلوں میں مقید ہوگئے۔ ان کے پاس پیسے ختم ہوگئے۔ طلبہ کے والدین نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا، مختلف شہروں میں مظاہرین ہوئے۔ طلبہ نے سوشل میڈیا پر اپنی کتھا بتائی۔ والدین کی نیندیں اڑگئیں مگر ان طلبہ کا کہنا تھا کہ اکثر پاکستانی کورونا کا شکار نہیں ہوئے۔ ان کے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ وہ پاکستان آجائیں مگر حکام چین کی نیند سوتے رہے۔ پھر ایران میں کورونا وائرس نے تباہی مچائی۔ ہزاروں افراد اس بیماری سے متاثر ہوئے۔
ایران سے پاکستان میں داخلہ کی سرکاری پوسٹ تفتان ہے۔ وفاقی حکومت نے 5 ہزار افراد کو قرنطینیہ میں رکھنے کے نام پر مقید کیا مگر حکومت نے قرنطینیہ کے بنیادی اصولوں کو نظرانداز کردیا، یوں ہزاروں افراد کو کیمپ میں رکھا گیا۔ ان افراد کے بستر ساتھ ساتھ لگائے گئے۔ بیت الخلاء کی صحت کے معیار کے مطابق سہولت فراہم نہیں کی گئی۔ اس کیمپ میں مقیم لوگوں نے میڈیا کو بتایا کہ صفائی کا اس کیمپ میں فقدان ہے، پانی کی سہولت موجود نہیں ہے۔ ایک فرد نے بتایا کہ ڈاکٹروں کی ہدایت پر کورونا کے مشتبہ مریضوں کو ہر پانچ منٹ بعد پانی پینا چاہیے مگر پینے کے پانی کا ذکر تو دور ہاتھ دھونے اور نہانے کی سہولتیں بھی نہیں ہیں۔
وفاقی حکومت نے جن ڈاکٹروں کو تفتان بھیجا تھا وہ اپنی ڈیوٹی پر حاضر نہیں ہوئے۔ اس کے ساتھ وزارت صحت کی جانب سے مریضوں کے خون کے نمونوں کی جانچ پڑتال کے لیے تفتان میں لیباریٹری نہیں بنائی گئی، مریضوں کے نمونے 6سوکلومیٹر دورکوئٹہ لے جائے جاتے ہیں، یوں ایران سے آنے والے جو زائرین کورونا کا شکار نہیں ہوتے تھے وہ اس کیمپ میں موذی مرض سے متاثر ہوئے۔ وفاقی حکومت نے ایران میں اس وباء کی صورتحال کی سنگینی کو محسوس نہیں کیا۔ بلوچستان میں سرحدی چوکیوں خاص طور پر تفتان کی سرحد پر طبی ماہرین کو تعینات نہیں کیا گیا۔ ایران سے آنے والے زائرین میں سے کچھ وائرس کیریئر بن گئے۔
اس صورتحال کی سنگینی کو سب سے زیادہ سندھ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے محسوس کیا۔ وزیر اعلیٰ نے فوری طور پر تعلیمی ادارے بند کرنے کا فیصلہ کیا، اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔ لیباریٹریوں میں اس وائرس کا پتہ چلانے کی سہولت موجود نہیں تھی۔ حکومت سندھ نے فوری طور پر تین اسپتالوں کی لیب میں یہ سہولت فراہم کی۔ ممکنہ طور پرکورونا وائرس کے متاثرین کو قرنطینہ میں رکھنے کے لیے اسپتالوں میں انتظامات کیے۔
وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے صورتحال کی مانیٹرنگ کے لیے روزانہ اجلاس منعقد کیے ۔ سندھ حکومت نے اس مرض کی روک تھام کے لیے مزید پابندیوں کا فیصلہ کیا ، مگر ایران سے متصل سرحد اور ملک کے بین الاقوامی ہوائی اڈوں پر آنے والے مسافروں کی اسکیننگ کے لیے معیاری انتظامات نہیں ہوئے، یوں مریضوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ جب صورتحال خطرناک ہوئی اور کور کمانڈر کے اجلاس میں اس صورتحال کی سنگینی کا جائزہ لیا گیا تو پھر وزیر اعظم عمران خان نے پہلی دفعہ قومی سلامتی کونسل کے اجلاس کی صدارت کی اور چاروں وزراء اعلیٰ مدعو کیے گئے۔ اس سے قبل ڈاکٹر ظفر مرزا نے جو اجلاس بلائے تھے، اس میں صرف سندھ کے وزیر اعلیٰ نے شرکت کی تھی۔ وفاقی حکومت کے ناقص انتظامات کی بناء پر وائرس کے کیریئر مختلف شہروں میں منتقل ہوگئے اور اب تازہ ترین اطلاع سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس بیماری سے متاثر ہونے والے چند مریض ایسے ہیں جو بیرون ملک نہیں گئے تھے، یوں اب خطرناک صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔
بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت ورلڈ بینک کی جانب سے کورونا وائرس سے ہونے والے نقصانات کے ازالے کے لیے اعلان کردہ مالی امداد کے بعد متحرک ہوئی ہے۔ یہ ایک اور زیادہ افسوسناک صورتحال ہے۔ حکومت نے اپنے شہریوں کو بچانے میں اس بناء پر دیر کی کہ بین الاقوامی امداد آجائے ۔ سندھ کی حکومت کی ماضی میں کارکردگی مایوس کن رہی ہے۔ عمومی طور پر 2008 کے بعد سے رائے عامہ بن گئی ہے کہ سندھ کی حکومت اچھی طرز حکومت کی اہمیت کو محسوس نہیں کرتی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے تنقید نگار اس مسئلہ کو کرپشن کی صوبہ میں بڑھتی ہوئی شرح سے منسلک کرتے ہیں۔ اس صورتحال کا منطقی نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے عوام کی بہبود کے لیے بہترین منصوبوں کی اہمیت کو بھی نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔
سندھ کی حکومت نے خواتین مزدوروں اور ہاریوں کی بہبود کے بہت سے اچھے قوانین بنائے ہیں۔ ان قوانین میں کم سن لڑکیوں کی شادی پر پابندی کا قانون بھی ہے۔ یہ قانون براہ راست کم سن بچیوں کی صحت سے منسلک ہے۔ ابھی تک معاشرہ میں خواتین کی صحت کی اہمیت پر توجہ نہیں دی جاتی۔ ملک میں زچہ اور بچہ کے مرنے کی شرح اس خطہ کے ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔ اس شرح کو صرف کم سن بچیوں کی شادی پر پابندی لگا کر اور ماؤں کو صحت کے معاملہ میں اہمیت دے کر ہی حل کیا جاسکتا ہے۔ گزشتہ دنوں اسمبلی نے کھیتوں میں کام کرنے والی عورتوں کے حالات کارکو بہتر بنانے کے لیے ایک جامع قانون منظور کیا ہے۔
اس قانون پر عملدرآمد سے دیہی عورتوں کے حالات کار بہتر ہونگے اور ان کی صحت کا معیار بلند ہوگا۔ پیپلز پارٹی کے دور میں کراچی میں جناح اسپتال اور دل کے قومی ادارہ میں جدید ترین ٹیکنالوجی نصب کی گئی ہے۔ جناح اسپتال میں کینسر کے علاج کا ایک جدید سینٹر قائم کیا گیا ہے۔ یہ سینٹر ملک میں اپنی نوعیت کا پہلا سینٹر ہے جہاں علاج بالکل مفت ہوتا ہے۔ دل کے قومی ادارہ جب سے صوبائی حکومت کی تحویل میں آیا ہے اس ادارہ نے دل کے علاج کے لیے جدید ٹیکنالوجی منگوائی ہے اور اب اس ادارہ میں دل کے پیچیدہ آپریشن مفت ہوتے ہیں۔ اس ادارہ کے ڈائریکٹر نے کراچی شہر سمیت سندھ کے مختلف شہروں میں موبائل یونٹ قائم کیے ہیں۔ یہ یونٹ کراچی میں مختلف شاہراہوں پر 24 گھنٹے کام کرتے ہیں۔
اگر کسی فرد کے دل میں یا بائیں بازو میں درد ہو یا سانس گھٹنے کی شکایت ہو تو اس موبائل یونٹ میں جا کر اپنا معائنہ کراسکتا ہے۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کی قیادت میں سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (S.I.U.T) روزانہ ہزاروں مریضوں کو علاج کی مفت سہولت فراہم کرتا ہے۔ سندھ کی حکومت کی صحت کے شعبہ اور خاص طور پر کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں فعال کردار سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر پیپلز پارٹی اچھی طرز حکومت ، کرپشن کے خاتمہ اور میرٹ پر فیصلوں کو اہمیت دے تو سندھ ماڈل صوبہ بن سکتا ہے اور تحریک انصاف کی حکومت ایکسپوز ہوسکتی ہے۔
کورونا وائرس پہلے چین میں پھیلا ، چین کے صوبہ ووہان میں ہزاروں افراد اس وائرس سے ہلاک ہوئے۔ چین کی حکومت نے تمام وسائل اس وائرس کی روک تھام پر خرچ کیے۔ چند ہفتوں میں مریضوں کو قرنطانیہ میں رکھنے کے لیے اسپتال قائم کیا۔ شہریوں کوگھروں میں رہنے کی ہدایت کی۔ وائرس کے انفیکشن کو روکنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیارکی گئیں۔ ہر فرد کو پابند کیا گیا کہ ان طبی ہدایات کی پابندی کرے ، یوں چین میں پھر ہلاکتوں کی تعداد کم ہونا شروع ہوئی۔ پاکستان کے ہزاروں شہری چین میں مقیم ہیں۔ چین کے صوبہ ووہان میں خاصے طالب علم تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ حکومت پاکستان نے صرف ایک فیصلہ کیا کہ ان طالب علموں کو ملک واپس نہیں لایا جائے گا۔
صحت کے مشیر ڈاکٹر ظفر مرزا کی منطق یہ تھی کہ چین میں کورونا وائرس کے علاج کی سہولتیں موجود ہیں اور یہ طلبہ پاکستان آئیں گے تو ممکن ہے ان میں سے کوئی کورونا وائرس کا کیریئر نہ بن جائے۔ اس بناء پر ان طلبہ کو وہاں ہی رکھا جائے۔ یہ طلبہ اپنے ہاسٹلوں میں مقید ہوگئے۔ ان کے پاس پیسے ختم ہوگئے۔ طلبہ کے والدین نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا، مختلف شہروں میں مظاہرین ہوئے۔ طلبہ نے سوشل میڈیا پر اپنی کتھا بتائی۔ والدین کی نیندیں اڑگئیں مگر ان طلبہ کا کہنا تھا کہ اکثر پاکستانی کورونا کا شکار نہیں ہوئے۔ ان کے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ وہ پاکستان آجائیں مگر حکام چین کی نیند سوتے رہے۔ پھر ایران میں کورونا وائرس نے تباہی مچائی۔ ہزاروں افراد اس بیماری سے متاثر ہوئے۔
ایران سے پاکستان میں داخلہ کی سرکاری پوسٹ تفتان ہے۔ وفاقی حکومت نے 5 ہزار افراد کو قرنطینیہ میں رکھنے کے نام پر مقید کیا مگر حکومت نے قرنطینیہ کے بنیادی اصولوں کو نظرانداز کردیا، یوں ہزاروں افراد کو کیمپ میں رکھا گیا۔ ان افراد کے بستر ساتھ ساتھ لگائے گئے۔ بیت الخلاء کی صحت کے معیار کے مطابق سہولت فراہم نہیں کی گئی۔ اس کیمپ میں مقیم لوگوں نے میڈیا کو بتایا کہ صفائی کا اس کیمپ میں فقدان ہے، پانی کی سہولت موجود نہیں ہے۔ ایک فرد نے بتایا کہ ڈاکٹروں کی ہدایت پر کورونا کے مشتبہ مریضوں کو ہر پانچ منٹ بعد پانی پینا چاہیے مگر پینے کے پانی کا ذکر تو دور ہاتھ دھونے اور نہانے کی سہولتیں بھی نہیں ہیں۔
وفاقی حکومت نے جن ڈاکٹروں کو تفتان بھیجا تھا وہ اپنی ڈیوٹی پر حاضر نہیں ہوئے۔ اس کے ساتھ وزارت صحت کی جانب سے مریضوں کے خون کے نمونوں کی جانچ پڑتال کے لیے تفتان میں لیباریٹری نہیں بنائی گئی، مریضوں کے نمونے 6سوکلومیٹر دورکوئٹہ لے جائے جاتے ہیں، یوں ایران سے آنے والے جو زائرین کورونا کا شکار نہیں ہوتے تھے وہ اس کیمپ میں موذی مرض سے متاثر ہوئے۔ وفاقی حکومت نے ایران میں اس وباء کی صورتحال کی سنگینی کو محسوس نہیں کیا۔ بلوچستان میں سرحدی چوکیوں خاص طور پر تفتان کی سرحد پر طبی ماہرین کو تعینات نہیں کیا گیا۔ ایران سے آنے والے زائرین میں سے کچھ وائرس کیریئر بن گئے۔
اس صورتحال کی سنگینی کو سب سے زیادہ سندھ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے محسوس کیا۔ وزیر اعلیٰ نے فوری طور پر تعلیمی ادارے بند کرنے کا فیصلہ کیا، اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔ لیباریٹریوں میں اس وائرس کا پتہ چلانے کی سہولت موجود نہیں تھی۔ حکومت سندھ نے فوری طور پر تین اسپتالوں کی لیب میں یہ سہولت فراہم کی۔ ممکنہ طور پرکورونا وائرس کے متاثرین کو قرنطینہ میں رکھنے کے لیے اسپتالوں میں انتظامات کیے۔
وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے صورتحال کی مانیٹرنگ کے لیے روزانہ اجلاس منعقد کیے ۔ سندھ حکومت نے اس مرض کی روک تھام کے لیے مزید پابندیوں کا فیصلہ کیا ، مگر ایران سے متصل سرحد اور ملک کے بین الاقوامی ہوائی اڈوں پر آنے والے مسافروں کی اسکیننگ کے لیے معیاری انتظامات نہیں ہوئے، یوں مریضوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ جب صورتحال خطرناک ہوئی اور کور کمانڈر کے اجلاس میں اس صورتحال کی سنگینی کا جائزہ لیا گیا تو پھر وزیر اعظم عمران خان نے پہلی دفعہ قومی سلامتی کونسل کے اجلاس کی صدارت کی اور چاروں وزراء اعلیٰ مدعو کیے گئے۔ اس سے قبل ڈاکٹر ظفر مرزا نے جو اجلاس بلائے تھے، اس میں صرف سندھ کے وزیر اعلیٰ نے شرکت کی تھی۔ وفاقی حکومت کے ناقص انتظامات کی بناء پر وائرس کے کیریئر مختلف شہروں میں منتقل ہوگئے اور اب تازہ ترین اطلاع سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس بیماری سے متاثر ہونے والے چند مریض ایسے ہیں جو بیرون ملک نہیں گئے تھے، یوں اب خطرناک صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔
بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت ورلڈ بینک کی جانب سے کورونا وائرس سے ہونے والے نقصانات کے ازالے کے لیے اعلان کردہ مالی امداد کے بعد متحرک ہوئی ہے۔ یہ ایک اور زیادہ افسوسناک صورتحال ہے۔ حکومت نے اپنے شہریوں کو بچانے میں اس بناء پر دیر کی کہ بین الاقوامی امداد آجائے ۔ سندھ کی حکومت کی ماضی میں کارکردگی مایوس کن رہی ہے۔ عمومی طور پر 2008 کے بعد سے رائے عامہ بن گئی ہے کہ سندھ کی حکومت اچھی طرز حکومت کی اہمیت کو محسوس نہیں کرتی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے تنقید نگار اس مسئلہ کو کرپشن کی صوبہ میں بڑھتی ہوئی شرح سے منسلک کرتے ہیں۔ اس صورتحال کا منطقی نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے عوام کی بہبود کے لیے بہترین منصوبوں کی اہمیت کو بھی نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔
سندھ کی حکومت نے خواتین مزدوروں اور ہاریوں کی بہبود کے بہت سے اچھے قوانین بنائے ہیں۔ ان قوانین میں کم سن لڑکیوں کی شادی پر پابندی کا قانون بھی ہے۔ یہ قانون براہ راست کم سن بچیوں کی صحت سے منسلک ہے۔ ابھی تک معاشرہ میں خواتین کی صحت کی اہمیت پر توجہ نہیں دی جاتی۔ ملک میں زچہ اور بچہ کے مرنے کی شرح اس خطہ کے ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔ اس شرح کو صرف کم سن بچیوں کی شادی پر پابندی لگا کر اور ماؤں کو صحت کے معاملہ میں اہمیت دے کر ہی حل کیا جاسکتا ہے۔ گزشتہ دنوں اسمبلی نے کھیتوں میں کام کرنے والی عورتوں کے حالات کارکو بہتر بنانے کے لیے ایک جامع قانون منظور کیا ہے۔
اس قانون پر عملدرآمد سے دیہی عورتوں کے حالات کار بہتر ہونگے اور ان کی صحت کا معیار بلند ہوگا۔ پیپلز پارٹی کے دور میں کراچی میں جناح اسپتال اور دل کے قومی ادارہ میں جدید ترین ٹیکنالوجی نصب کی گئی ہے۔ جناح اسپتال میں کینسر کے علاج کا ایک جدید سینٹر قائم کیا گیا ہے۔ یہ سینٹر ملک میں اپنی نوعیت کا پہلا سینٹر ہے جہاں علاج بالکل مفت ہوتا ہے۔ دل کے قومی ادارہ جب سے صوبائی حکومت کی تحویل میں آیا ہے اس ادارہ نے دل کے علاج کے لیے جدید ٹیکنالوجی منگوائی ہے اور اب اس ادارہ میں دل کے پیچیدہ آپریشن مفت ہوتے ہیں۔ اس ادارہ کے ڈائریکٹر نے کراچی شہر سمیت سندھ کے مختلف شہروں میں موبائل یونٹ قائم کیے ہیں۔ یہ یونٹ کراچی میں مختلف شاہراہوں پر 24 گھنٹے کام کرتے ہیں۔
اگر کسی فرد کے دل میں یا بائیں بازو میں درد ہو یا سانس گھٹنے کی شکایت ہو تو اس موبائل یونٹ میں جا کر اپنا معائنہ کراسکتا ہے۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کی قیادت میں سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (S.I.U.T) روزانہ ہزاروں مریضوں کو علاج کی مفت سہولت فراہم کرتا ہے۔ سندھ کی حکومت کی صحت کے شعبہ اور خاص طور پر کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں فعال کردار سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر پیپلز پارٹی اچھی طرز حکومت ، کرپشن کے خاتمہ اور میرٹ پر فیصلوں کو اہمیت دے تو سندھ ماڈل صوبہ بن سکتا ہے اور تحریک انصاف کی حکومت ایکسپوز ہوسکتی ہے۔