مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے

اگرکسی کوعبرت حاصل کرنی ہو تو قبرستان چلاجائے اورقبروں کے سرہانے لگی تختیاں پڑھ لے۔۔۔زندگی کی حقیقت سمجھ میں آ جاتی ہے

وقت نے کِیا' کیا حسیں ستم

تم رہے نہ تم' ہم رہے نہ ہم

گرودت اور وحیدہ رحمن پہ فلمایا جانے والا یہ گیت اپنے وقت کا مقبول گیت تو ہے ہی لیکن جس دلسوز آواز میں گیتادت نے اسے گایا اور پردہ سیمیں پر جس طرح وحیدہ رحمن نے اسے عکس بند کروایا اس نے فلم بینوں کو رلا دیا تھا۔ واقعی۔۔۔ وقت بڑا ظالم ہے۔ یہ کسی پہ رحم نہیں کھاتا، کسی کو گریس مارک نہیں دیتا، دریا کی طرح بہتا ہی چلا جاتا ہے۔۔۔۔ حکیم لقمان نے بھی وقت کو شکست دینے کی کوشش کی تھی لیکن عزرائیل کو دھوکا نہ دے سکے۔ بڑے بڑے تاجداروں اور فرعونوں نے سمجھا کہ وقت سدا ایک جیسا رہے گا۔ ان کی سلطنت کا سورج کبھی غروب نہیں ہو گا۔۔۔۔ لیکن دنیا نے دیکھا کہ مسلمانوں کی عظیم سلطنت عثمانیہ تین بر اعظموں یورپ، افریقہ اور ایشیا تک پھیلی ہوئی تھی۔ لیکن آپس کی چپقلش، حکمرانی کی ہوس اور سازشوں نے اسے کتنا مختصر کر دیا۔۔۔۔ انگریزوں نے بھی آدھی دنیا کو اپنی کالونی بنا لیا تھا۔ لیکن وقت کو اپنے قبضے میں نہ کر سکے۔ اپنی کالونیوں خصوصاً برصغیر میں بے پناہ اصلاحات، خصوصاً تعلیم، ریلوے، سڑکیں اور صحت کے حوالے سے انگریزوں کے احسانات سے انکار ممکن ہی نہیں۔ لیکن وہ بھی بھول گئے کہ وہ خدا نہیں بن سکتے تھے۔ خودی کا نشہ تو چڑھا لیکن خدا نہ بنا گیا، اور وہ سلطنت صرف جرائر برطانیہ تک محدود ہو گئی۔

وقت کو اگر کوئی سمجھا تو صرف شاعر سمجھا، برسوں پہلے امیرؔ مینائی کہہ گئے:

ہوئے نام ور بے نشاں کیسے کیسے؟

زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے؟

زمینیں فتح کرتے چلے گئے، سروں کے مینار بناتے چلے گئے، خوں ریزی کرنے میں ایک دوسرے سے بازی لے گئے۔ بے گناہوں کو پھانسی چڑھوا دیا اور یہ بھول گئے کہ ایک دن یہی پھانسی کا پھندا ان کی گردن میں بھی لگ سکتا ہے۔ ہوس حکمرانی اور ملک گیری ایک اچھے بھلے انسان کو قاتل بنا دیتی ہے۔ دشمنوں کو معاف کرنا اور اختلافات بھلا کر انھیں گلے لگا لینا اعلیٰ ظرفی کی نشانی ہے۔ لیکن یہ اعلیٰ ظرفی کہیں سے خریدی نہیں جا سکتی۔ یہ خون میں شامل ہوتی ہے اور وراثت میں ملتی ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ۔۔۔۔ ''آدمی آدمی انتر' کوئی ہیرا کوئی کنکر'' کوئلہ اور ہیرا ایک ہی جگہ جنم لیتے ہیں، لیکن اپنی قدر و قیمت کے لحاظ سے الگ الگ بھاؤ رکھتے ہیں، ایک تاج میں جڑا جاتا ہے، دوسرا چولہے کا ایندھن بنتا ہے۔ اسی طرح قیمتی لوگ ہوتے ہیں جو وقت کی نبض کو سمجھتے ہیں۔ خواجہ حیدر علی آتشؔ نے کیا خوب کہا ہے:

زمینِ چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا


بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

نہ گور سکندر نہ ہے قبر دارا

مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے

جب سب کچھ ہاتھ سے نکل جاتا ہے تب انسان سوچتا ہے کہ۔۔۔۔وقت اتنی جلدی گزر گیا۔۔۔۔یہ وقت ہی تھا جس نے ٹیپو سلطان اور نواب سراج الدولہ سے وفا نہ کی، وقت ہی نے میر جعفر اور میر صادق جیسے غداروں کو تاریخ کے صفحات میں جگہ دی۔ اگر کسی کو عبرت حاصل کرنی ہو تو قبرستان چلا جائے اور قبروں کے سرہانے لگی تختیاں پڑھ لے۔۔۔۔ زندگی کی حقیقت سمجھ میں آ جاتی ہے۔ ایک عام آدمی جب لمحہ لمحہ اور رفتہ رفتہ موت کو اپنے اطراف محسوس کرنے لگتا ہے۔ تب وہ بہت سے اہم فیصلے اپنے بچوں کے لیے زندگی ہی میں کر لیتا ہے۔ اور پھر مطمئن ہو کر موت کا انتظار کرتا ہے۔ لیکن حکمرانوں کا معاملہ الگ ہے۔ وقت سے نہ وہ کچھ سیکھتے ہیں نہ کسی اور کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ انھیں یاد دلائے کہ وقت ایک جیسا نہیں رہتا۔ ان لیڈروں اور سیاستدانوں کے اندر ایک مینوفیکچرنگ فالٹ ہوتا ہے اور یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہمیشہ طاقتور اور مضبوط رہیں گے۔ قذافی، ہٹلر، مسولینی، صدّام حسین، جمال عبدالناصر اور شاہ ایران سمیت سب ہی خود کو ناقابل شکست اور مرد آہن کہتے تھے۔۔۔۔ لیکن کیا ہوا۔۔۔۔کوئی پھانسی لٹک گیا، کسی نے خودکشی کر لی ، کسی کے دفن ہونے کے لیے اپنے وطن میں دو گز زمین بھی نہ مل سکی۔۔۔!!۔۔۔ منصوبے اور ارادے نجانے کتنی نسلوں کے لیے۔۔۔۔ وارث کے لیے دوسری شادی کی گئی۔۔۔۔ وارث بھی مل گیا، لیکن وہ تخت ہی نہ رہا جس پر وارث کو بیٹھنا تھا۔۔۔۔ یہ ہے فلکِ کج رفتار کی ستم ظریفی جو انسان کو بار بار یاد دلاتی ہے کہ۔۔۔۔تم ہزار وقت اور زمانے پہ حکومت کرنا چاہو، لیکن یہ نہ بھولو کہ زمانے کی چال کسی اور کے اختیار میں ہے۔

ہمارے ہاں بھی تو یہی ہو رہا ہے۔ اگلی باری پھر۔۔۔۔؟ خالی جگہ آپ خود پُر کر لیں۔ جن مردمانِ آہن کے نام میں نے گنوائے انھوں نے اپنی قوم کے لیے کچھ تو کیا تھا۔ خاص کر قذافی نے۔۔۔۔لیکن ہمارے مرد آہن صرف اپنا خزانہ بھرنا جانتے ہیں اسی لیے ''فرینڈلی اپوزیشن'' وجود میں لائی گئی تا کہ See Saw کا کھیل کامیابی سے جاری رہ سکے۔ برصغیر کے تین خاندان بھی اسی سچائی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اندرا گاندھی کا خاندان اور وہ خود۔ شیخ مجیب الرحمن اور ان کی فیملی، پاکستان توڑ کر۔۔۔۔شکر ہے پاکستان بچ گیا۔ کہنے والے اور ان کا پورا خاندان۔۔۔۔ ناقابل تسخیر امیرالمومنین۔۔۔۔ ان میں سے ہر ایک کے دماغ میں یہ خناس تھا کہ اس کا نعم البدل کوئی نہیں۔۔۔۔ نتیجہ سامنے ہے۔۔۔۔لیکن ان نتائج اور ہولناک غلطیوں سے کسی نے سبق نہیں سیکھا۔

کاش آج کے لیڈر اس حقیقت کو جان پاتے کہ جس پاکستان کو انھوں نے اپنی اولاد کی چراگاہ بنانا چاہا ہے۔ ویسا ہی تو ان سے پہلے کے لوگوں نے بھی کیا تھا۔ چنگیز، ہلاکو، تیمور، سکندر، دارا اور نہ جانے کون کون۔۔۔۔؟ لیکن ان میں سے کسی کا نام بھی مثبت طور پر نہیں لیا جاتا۔۔۔۔ اگر وقت کو کسی نے پہچانا تو صوفیا اور اولیا نے۔۔۔۔ بڑے بڑے محلات جل کر بھسم ہو گئے۔ زمین کے نیچے دب گئے۔ شدّاد کی جنت کا کیا ہوا؟ قارون کے خزانے کا کیا ہوا؟ لیکن نظام الدین اولیاؒ، بابا فرید گنج شکرؒ، داتا گنج بخشؒ، بہاؤالدین ذکریاؒ، حضرت نصیر الدین چراغ دہلی، قطب الاقطاب حضرت بختیار کاکیؒ اور ان جیسے دوسرے صوفیائے کرام تاج و تخت نہ ہونے کے باوجود، آج بھی زندہ ہیں اور ان کا فیض جاری ہے۔ حالانکہ انھوں نے تو کسی ''یاری'' کے لیے ملک و قوم کو نہیں لوٹا، کسی ظالم حکمراں کے آگے سر نہیں جھکایا، حق بات کہنے سے کبھی نہ ڈرے، جو کچھ میسر تھا اس کو بھی لوگوں کی نذر کر دیا، اسی لیے اللہ نے انھیں اپنے خاص بندے بنا لیا۔ کہ خدا کا خاص بندہ بننے کے لیے اس کے بندوں سے پیار کرنا ضروری ہے۔۔۔۔ یہ بات ہمارے لیڈروں کی سمجھ میں کیوں نہیں آتی کہ مرنے کے بعد بھی لوگوں کے دلوں میں اور تاریخ کے صفحات پہ زندہ رہنے کے لیے خدا کے بندوں سے پیار کرنا ضروری ہے۔

شیرشاہ سوری ہمیشہ زندہ رہے گا کہ اس نے گرانڈ ٹرنک روڈ بنوائی جو پاکستان میں صرف جی ٹی روڈ کہلاتی ہے۔ کاش اسے اس کے خالق کے نام سے پکارا جاتا۔۔۔!!۔۔۔ لیکن یہاں تو دو نمبر کے لوگ اپنے اپنے ناموں کی تختیاں لگوانے کے لیے اتنی بڑی تعداد میں ہاتھ باندھے قطار میں کھڑے ہیں کہ ان کے اپنے گھر والے بھی ان کے کارناموں سے واقف نہیں۔۔۔۔ اور جب یہ سفارشی کلچر کی پیداوار اپنے ہاتھوں میں ایوارڈ لیے داخل ہوتے ہیں تو ڈرائنگ روم میں سجاتے وقت سوچتے ہیں کہ پوچھنے والے کو کیا بتایا جائے کہ یہ ایوارڈ نما ریوڑی جو انھیں کسی ادارے کے سربراہ کی ذاتی نوازش سے ملی ہے اس کی وجہ تسمیہ کیا ہے؟ لیکن وقت بڑا ظالم ہے۔ یہ تختیاں، ایوارڈ سب وقت کی گرد میں مٹ جائے گا۔ اگر زندہ رہ جائے گا تو صرف وہ جس نے اپنی ذات اور خاندان سے بلند ہو کر انسانیت کی فلاح کے لیے کام کیا۔۔۔۔ کیا ہم کبھی بھی لاہور کے گلاب دیوی اسپتال، سر گنگا رام اسپتال، کراچی کے سو بھراج اسپتال، این ای ڈی انجینئرنگ یونیورسٹی، ماما پارسی گرلز اسکول، BVS بوائز اسکول، ایڈلجی ڈنشا فلاحی ڈسپنسری، جہانگیر کوٹھاری پارک جہانگیر پارک، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج اور میو اسپتال لاہور، ڈی جے کالج کراچی، جانوروں کا اسپتال کراچی کے خالقوں کو کبھی فراموش کر سکتے ہیں۔۔۔۔!!۔۔۔۔؟ کاش ہمارے صنعت کار، سیاستدان اور حکمران اس حقیقت کا ادراک کر سکیں:

نام منظور ہے تو فیض کے اسباب بنا
Load Next Story