ہم تو گھبرائیں گے
کورونا نام کا نواں آیا اے سوہنیا وائرس کیا خاک ڈرائے گا؟
ہم جو کہ جذباتی، عدم برداشت کے حامل، افواہ سازی کی چلتی پھرتی فیکٹریز، سنی سنائی باتوں کو آگے بڑھانے والے،اتہام کے پیشوا اورمشورہ ساز ہجوم ہیں ، ہمیں کورونا نام کا نواں آیا اے سوہنیا وائرس کیا خاک ڈرائے گا؟ اﷲ کی کتاب سے غافل، اس کے حبیبﷺکے احکامات سے ناآشنا اور خلافت راشدہ کی تعبیرات سے بے فکر اپنی ماہرانہ تجاویز کے گھوڑوں پرسوار سرپٹ دوڑتے ہوئے ہم کورونا سے چمٹ کر اسے خوش آمدید کہنے کو یوں بے قرار و بے تاب ہیں کہ جیسے ڈینگی کو اس کا بھائی مل گیاہو۔نبی کریمﷺ کے اطوارحسنہ بتاؤتو حوالے کے ذریعے رقم بھیجنے والے حوالے مانگتے ہیں، کوئی مثال پیش کرو تو مغلظات بک بک کر مثال بنادیتے ہیں اور احتیاط کا کہو تو جواب ملے گا سالا خود مرنے سے ڈرتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم من حیث القوم ، قوموں کی تعریف سے یکسر خارج ہیں، ہم ایک بھیڑ ہیںجن میں سے اکثر بھیڑ ہیں اور بھیڑیوں کے دانتوں تلے دبنے کو تلے بیٹھے ہیں۔لاک ڈان سیاسی مسئلہ بنادیاگیا کیونکہ سندھ کا مطالبہ ہے، سندھ بازی کیوں لے جائے؟ پھر دوسرے دن خیال آتا ہے شاید لاک ڈا ؤن ہی بہتر ہوگا مگر گھبرانا نہیں ہے۔
حضور والا! ہم کیوں نہ گھبرائیں؟ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم جنھیں اﷲ کی عطاسے دلوں کا حال بھی پتہ ہے وہ بھی بادلوں کی گھن گرج سن کر اپنے قدمین پاک مصلے کو چومنے کے لیے عطا فرمادیتے تھے کہ اﷲ بہتر جانتا ہے کہ یہ عذاب نہ ہوجب کہ اﷲ پیارے سے ارشاد فرماتاہے اور اﷲ کا کام نہیں کہ انھیں عذاب کرے جب تک اے محبوب تم ان میں تشریف فرماہو اور اﷲ انھیں عذاب کرنے والا نہیں جب تک وہ بخشش مانگ رہے ہیں یعنی استغفار کرنے والی امت جب تک گھبراکے اپنے رب کو نہیں پکارے گی ، وہ اﷲ کو اپنا مددگار کیسے پائے گی؟ یعنی حضورﷺجانتے ہیں کہ جب تک میں ہوں (اور آپ ہیں آقا )عذاب نہیں آئے گا تب بھی میرے آقا کی تضرعو الحا زاری رب کو بے حد پسند ہے۔
نماز وحشت ہو یا نماز خوف، مومن جب گھبرا کر اپنے رب کو پکارتا ہے تب ہی بے نیاز صمد عطاکے در کھول دیتا ہے کہ یہ ہے میرا بندہ جس نے تڑپ کر مجھے یاد کیا۔اِس سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ جناب ِمن فرمائیں امید اور خوف کے درمیان جینا سیکھو لیکن کیا کہیے کہ سورہ فاتحہ جہاں مکمل پڑھنے کا رواج نہ ہو اور ایاک نعبد وایاک نستعین سے آغاز ہو وہاں بات ذرا کم ہی سمجھ میں آتی ہے۔ میں تو بہرحال اتنا جانتا ہوں کہ میرے نبی کریمﷺ سب بتارہے ہیں، ان سے بڑھ کر کسی نے احتیاطی تدابیر نہیںبتائیں، اب یہ عاشقان کا فرض ہے کہ وہ اپنے نبیﷺکے نصائح کو احکامات اور احکامات کو روحِ جسم سمجھ کر قبول کرتے ہیں یا پھر گھبرانا نہیں ہے کی فکر پر عمل پیرا رہتے ہیں کیونکہ مجھے تو دو دن سے ا ب ویسے بھی دائیں بائیں دو اجنبیوں کو دیکھ کر بڑی گھبراہٹ ہونے لگی ہے۔ چھوڑیے نام میں کیا رکھا ہے!کیونکہ اگلی سطر قیمتی ہے نام لکھ کر کیوں ضایع کروں؟
اہل جاہلیت کا یہ عقیدہ تھا کہ اﷲ تعالی کے حکم اور فیصلے کے بنا بیماری خود سے متعدی ہوتی ہے، یعنی خود سے پھیل جاتی ہے، اسلام نے ان کے اس اعتقاد باطل کو غلط ٹھہرایا، چنانچہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لاعدو یعنی بیماری خود سے متعدی نہیں ہوتی، اور اس کے لیے اونٹ کوکھجلی کی بیماری کیسے لگی؟ کی بات کہہ کر سمجھایا اور بتایا کہ کسی بیماری کا لاحق ہونا اور اس بیماری سے شفادینا یہ سب اﷲ رب العالمین کے حکم سے ہے وہی مسبب الاسباب ہے۔ سب کچھ اﷲ تعالی کے حکم اور اس کی بنائی ہوئی تقدیر سے ہوتا ہے، البتہ بیماریوں سے بچنے کے لیے اﷲ تعالی پر توکل کرتے ہوئے ا سباب کو اپنانا مستحب ہے...عدوی (مرض کا متعدی ہونا)موجود ہے اور اس کی موجودگی کی دلیل نبیﷺ کا یہ فرمان ہے:
لَا یُوَرِدُ مُمْرِضٌ عَلٰی مُصِحِ ...صحیح بخاری و مسلم یعنی بیمار اونٹوں والا اپنے اونٹوں کو تندرست اونٹوں والے کے پاس نہ لے جائے...تاکہ متعدی بیماری ایک سے دوسرے اونٹوں کی طرف منتقل نہ ہو نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے جو یہ فرمایا ہے:
فِرَّ مِنَ الْمَجْذُوْمِ فِرَارَکَ مِنَ الْاَسَدِصحیح البخاری، الطب، باب الجذام، ح: ومسند احمد: / واللفظلہ۔
جذام کی بیماری میں مبتلا مریض سے اس طرح بھاگو جس طرح شیر سے بھاگتے ہو...
تو پھر کیا حرج ہے کہ کچھ دنوں کے لیے اپنے آپ کو گھروں تک محدود کر لیا جائے؟
تو پھر کیا حرج ہے ماسک پہن لیا جائے تاکہ وینٹی لیٹر ماسک پہننے سے بچ سکیں؟
تو پھر کیا حرج ہے کہ جراثیم کش صابن سے اچھی طرح ہاتھ دھولیے جائیں تاکہ زندگی سے ہاتھ نہ دھونا پڑیں؟
تو پھر کیا حرج ہے کہ نماز گھر پر ہی ادا کر لی جائے تاکہ فرماں بردار امتی ہونے کا حق ادا کیا جائے؟
تو پھر کیا حرج ہے کہ معانقے اور مصافحے سے گریز کیا جائے کہ رسول اللہ نے کوڑھی سے ہاتھ ملانے سے اجتناب اور بیعت لینے سے احتیاط فرمائی!
حالانکہ آپ اگر کوڑھی کو چھولیتے تو وہ صحت یاب ہو جاتا کیونکہ آپ تو سیدنا عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے بھی امام ہیں اور ہاں حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک مجذوم شخص حاضر ہوا، آپ نے اس کے ہاتھ کو پکڑا اور فرمایا: کھا!یعنی اس کھانے کو کھا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تناول فرما رہے تھے، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اﷲ تعالی کی ذات پاک پر توکل بہت قوی ہے اور یہ توکل متعدی سبب کا مقابلہ کرنے کے لیے اینٹی بائیوٹک کا کام کرتاہے لیکن عوام کے سامنے فاصلہ رکھنے کے احکامات اس لیے عطا فرمائے کہ مسب الاسباب پر توکل کے ساتھ ساتھ احتیاط اور علاج سے پہلو تہی نہ برتی جائے اور کبھی خود کسی مجذوم کا ہاتھ اس لیے پکڑا کہ جان لیا جائے اﷲ نے محمد ﷺ کو شفا بنایا ہے ۔
تو پھر چلو ہم سب مل کر کچھ دنوں کے لیے اسپیس بار بن جائیں، بہت شوق ہے نا ہمیں کی بورڈ پرانگلیاں چلانے کا؟ تو اردو ٹائپنگ کرنے والے ذرا دیکھیں کہ اسپیس بار کا ترجمہ اس پر کیا لکھا ہے؟ کیاکہا؟ فاصلہ! ...فاصلہ لکھا ہے نا!....تو پھر ہر لفظ کے بعد دوسرے لفظ کے لیے فاصلہ ضروری ہے ور نہ تحریر خلط ملط ہو جائے گی ، پھر تیار ہیں نا فاصلے کے لیے؟اپنا بہت خیال رکھیے اور ہجوم کو قوم میںبدل دیجیے.!
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم من حیث القوم ، قوموں کی تعریف سے یکسر خارج ہیں، ہم ایک بھیڑ ہیںجن میں سے اکثر بھیڑ ہیں اور بھیڑیوں کے دانتوں تلے دبنے کو تلے بیٹھے ہیں۔لاک ڈان سیاسی مسئلہ بنادیاگیا کیونکہ سندھ کا مطالبہ ہے، سندھ بازی کیوں لے جائے؟ پھر دوسرے دن خیال آتا ہے شاید لاک ڈا ؤن ہی بہتر ہوگا مگر گھبرانا نہیں ہے۔
حضور والا! ہم کیوں نہ گھبرائیں؟ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم جنھیں اﷲ کی عطاسے دلوں کا حال بھی پتہ ہے وہ بھی بادلوں کی گھن گرج سن کر اپنے قدمین پاک مصلے کو چومنے کے لیے عطا فرمادیتے تھے کہ اﷲ بہتر جانتا ہے کہ یہ عذاب نہ ہوجب کہ اﷲ پیارے سے ارشاد فرماتاہے اور اﷲ کا کام نہیں کہ انھیں عذاب کرے جب تک اے محبوب تم ان میں تشریف فرماہو اور اﷲ انھیں عذاب کرنے والا نہیں جب تک وہ بخشش مانگ رہے ہیں یعنی استغفار کرنے والی امت جب تک گھبراکے اپنے رب کو نہیں پکارے گی ، وہ اﷲ کو اپنا مددگار کیسے پائے گی؟ یعنی حضورﷺجانتے ہیں کہ جب تک میں ہوں (اور آپ ہیں آقا )عذاب نہیں آئے گا تب بھی میرے آقا کی تضرعو الحا زاری رب کو بے حد پسند ہے۔
نماز وحشت ہو یا نماز خوف، مومن جب گھبرا کر اپنے رب کو پکارتا ہے تب ہی بے نیاز صمد عطاکے در کھول دیتا ہے کہ یہ ہے میرا بندہ جس نے تڑپ کر مجھے یاد کیا۔اِس سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ جناب ِمن فرمائیں امید اور خوف کے درمیان جینا سیکھو لیکن کیا کہیے کہ سورہ فاتحہ جہاں مکمل پڑھنے کا رواج نہ ہو اور ایاک نعبد وایاک نستعین سے آغاز ہو وہاں بات ذرا کم ہی سمجھ میں آتی ہے۔ میں تو بہرحال اتنا جانتا ہوں کہ میرے نبی کریمﷺ سب بتارہے ہیں، ان سے بڑھ کر کسی نے احتیاطی تدابیر نہیںبتائیں، اب یہ عاشقان کا فرض ہے کہ وہ اپنے نبیﷺکے نصائح کو احکامات اور احکامات کو روحِ جسم سمجھ کر قبول کرتے ہیں یا پھر گھبرانا نہیں ہے کی فکر پر عمل پیرا رہتے ہیں کیونکہ مجھے تو دو دن سے ا ب ویسے بھی دائیں بائیں دو اجنبیوں کو دیکھ کر بڑی گھبراہٹ ہونے لگی ہے۔ چھوڑیے نام میں کیا رکھا ہے!کیونکہ اگلی سطر قیمتی ہے نام لکھ کر کیوں ضایع کروں؟
اہل جاہلیت کا یہ عقیدہ تھا کہ اﷲ تعالی کے حکم اور فیصلے کے بنا بیماری خود سے متعدی ہوتی ہے، یعنی خود سے پھیل جاتی ہے، اسلام نے ان کے اس اعتقاد باطل کو غلط ٹھہرایا، چنانچہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لاعدو یعنی بیماری خود سے متعدی نہیں ہوتی، اور اس کے لیے اونٹ کوکھجلی کی بیماری کیسے لگی؟ کی بات کہہ کر سمجھایا اور بتایا کہ کسی بیماری کا لاحق ہونا اور اس بیماری سے شفادینا یہ سب اﷲ رب العالمین کے حکم سے ہے وہی مسبب الاسباب ہے۔ سب کچھ اﷲ تعالی کے حکم اور اس کی بنائی ہوئی تقدیر سے ہوتا ہے، البتہ بیماریوں سے بچنے کے لیے اﷲ تعالی پر توکل کرتے ہوئے ا سباب کو اپنانا مستحب ہے...عدوی (مرض کا متعدی ہونا)موجود ہے اور اس کی موجودگی کی دلیل نبیﷺ کا یہ فرمان ہے:
لَا یُوَرِدُ مُمْرِضٌ عَلٰی مُصِحِ ...صحیح بخاری و مسلم یعنی بیمار اونٹوں والا اپنے اونٹوں کو تندرست اونٹوں والے کے پاس نہ لے جائے...تاکہ متعدی بیماری ایک سے دوسرے اونٹوں کی طرف منتقل نہ ہو نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے جو یہ فرمایا ہے:
فِرَّ مِنَ الْمَجْذُوْمِ فِرَارَکَ مِنَ الْاَسَدِصحیح البخاری، الطب، باب الجذام، ح: ومسند احمد: / واللفظلہ۔
جذام کی بیماری میں مبتلا مریض سے اس طرح بھاگو جس طرح شیر سے بھاگتے ہو...
تو پھر کیا حرج ہے کہ کچھ دنوں کے لیے اپنے آپ کو گھروں تک محدود کر لیا جائے؟
تو پھر کیا حرج ہے ماسک پہن لیا جائے تاکہ وینٹی لیٹر ماسک پہننے سے بچ سکیں؟
تو پھر کیا حرج ہے کہ جراثیم کش صابن سے اچھی طرح ہاتھ دھولیے جائیں تاکہ زندگی سے ہاتھ نہ دھونا پڑیں؟
تو پھر کیا حرج ہے کہ نماز گھر پر ہی ادا کر لی جائے تاکہ فرماں بردار امتی ہونے کا حق ادا کیا جائے؟
تو پھر کیا حرج ہے کہ معانقے اور مصافحے سے گریز کیا جائے کہ رسول اللہ نے کوڑھی سے ہاتھ ملانے سے اجتناب اور بیعت لینے سے احتیاط فرمائی!
حالانکہ آپ اگر کوڑھی کو چھولیتے تو وہ صحت یاب ہو جاتا کیونکہ آپ تو سیدنا عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے بھی امام ہیں اور ہاں حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک مجذوم شخص حاضر ہوا، آپ نے اس کے ہاتھ کو پکڑا اور فرمایا: کھا!یعنی اس کھانے کو کھا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تناول فرما رہے تھے، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اﷲ تعالی کی ذات پاک پر توکل بہت قوی ہے اور یہ توکل متعدی سبب کا مقابلہ کرنے کے لیے اینٹی بائیوٹک کا کام کرتاہے لیکن عوام کے سامنے فاصلہ رکھنے کے احکامات اس لیے عطا فرمائے کہ مسب الاسباب پر توکل کے ساتھ ساتھ احتیاط اور علاج سے پہلو تہی نہ برتی جائے اور کبھی خود کسی مجذوم کا ہاتھ اس لیے پکڑا کہ جان لیا جائے اﷲ نے محمد ﷺ کو شفا بنایا ہے ۔
تو پھر چلو ہم سب مل کر کچھ دنوں کے لیے اسپیس بار بن جائیں، بہت شوق ہے نا ہمیں کی بورڈ پرانگلیاں چلانے کا؟ تو اردو ٹائپنگ کرنے والے ذرا دیکھیں کہ اسپیس بار کا ترجمہ اس پر کیا لکھا ہے؟ کیاکہا؟ فاصلہ! ...فاصلہ لکھا ہے نا!....تو پھر ہر لفظ کے بعد دوسرے لفظ کے لیے فاصلہ ضروری ہے ور نہ تحریر خلط ملط ہو جائے گی ، پھر تیار ہیں نا فاصلے کے لیے؟اپنا بہت خیال رکھیے اور ہجوم کو قوم میںبدل دیجیے.!