دعا کے لیے اٹھے ہاتھ
بابا آج شام کو ہم نے ٹی وی پر ہونے والی دعا میں شریک ہونا ہے
سر شام ہی میرے پوتے اور پوتیوں نے کہا کہ بابا آج شام کو ہم نے ٹی وی پر ہونے والی دعا میں شریک ہونا ہے، اس لیے آپ کوکچھ دیر کے لیے خبریں بند کر نا ہوں گی۔ میری پوتیاں لاہور کے ایک اسلامی اسکول میں زیر تعلیم ہیں اور خد اکا شکر ہے کہ ان کی تربیت خالصتاً اسلامی ماحول میں ہو رہی ہے ۔ بہر حال بچیوں کے مطالبے پر مجھ میں کبھی انکار کی جرات نہیں ہوتی ۔ میں نے ان کی خوشنودی کے لیے کہا کہ میں بھی ان کے ساتھ بیٹھ کردعا میں شریک ہوں گا ۔
بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ ٹیلی ویژن پر کوئی عالم دین وعظ یا تقریر کر رہا ہو اور لوگ اسے دیکھ اور سن رہے ہوں عموماً چینل تبدیل کردیا جاتا ہے اور اپنی پسند کا کوئی اور پروگرام دیکھنے لگ جاتے ہیں اگر مبالغہ آرائی نہ ہو تو گزشتہ روز مجھ سمیت کروڑوں نہیں تو لاکھوں انسانوں نے ٹیلی ویژن پر معروف عالم دین اورتبلیغی جماعت کے رہنما مولانا طارق جمیل کی پر اثر گفتگو سنی اور ان کے ساتھ اجتماعی دعا میں حصہ لیا۔مولانا صاحب سے میری کوئی بالمشافہ ملاقات نہیں ہے مگر چند ایک مواقع پر ان کی براہ راست گفتگو سننے کا موقع ضرور ملا ہے، وہ جس شائستگی اور نہایت سلیقے سے گفتگو کرتے ہیں، ان کے ادا کیے گئے الفاظ سیدھے دل میں اتر جاتے ہیں۔
ان کا پاکستان کے عوام کے علاوہ حکمران طبقہ سے قریبی تعلق ہے، ان کے سامنے وہ جس طرح تقریر کرتے ہیں اورحکمران طبقہ کو ان کے فرائض یاد دلاتے رہتے ہیں، یہ سن کر ان محفلوں میں موجود حاضرین دم بخود رہ جاتے ہیں ، ان کی گفتگو سن کر یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا طبقہ علماء بانجھ نہیں ہوا اور مولانا طارق جمیل نے حق گو علماء کا مسلک اپنا رکھا ہے جو اس کا اصل مسلک ہے اور جس پر چلنے کے لیے اس نے دین و دنیا کے علوم کی تعلیم حاصل کی ہے اور اس تعلیم کے ساتھ وہ حق گوئی اور حسن کلام کی نعمت سے بھی مالا مال ہیں۔
علمائے حق کا یہ نمایندہ عالم جس موضوع پر گفتگو کر رہے تھے، اس میں سر فہرست تو دنیابھر میں پھیلی کورونا وباء کے متعلق گفتگو تھی جس کے متعلق وہ قرآن و حدیث اور اسلامی تاریخ کے حوالے کے ساتھ تفصیل سے ذکر کر رہے تھے ۔ میں جب یہ ایمان افروز دلنشیں باتیں سن رہا تھا تو میرے ذہن میں تاریخ کے وہ واقعات گردش کر رہے تھے جب نڈر اور بے خوف عالم حق پرست علما ء کی نمایندگی کرتے ہوئے اپنے مخاطب چاہے وہ عوام ہوں یا حکمران ان کے سامنے سچ ہی بولتے تھے اور جزاء و سزا کے خوف سے مطلقاً لاپروا ہو کر اپنی گفتگو میں اقتدار کی رعونتوں ،عفثوںاور تعلیوں کی اس خوبصورتی کے ساتھ قلعی کھولتے اور اس قدر عبرت پیدا کرتے کہ اگر کوئی نیک حکمران ان کی گفتگو سننے کی جرات کر لیتا تو وہ پھر اقتدار کی غلام گردشوں سے اپنے آپ کو آزاد کر لیتا یا کم از کم عوام کے لیے آسانیاں تقسیم کرنے لگ جاتا ۔
مولانا طارق جمیل نے جس خوبصورتی اورشائستگی کے ساتھ جس موضوع پرگفتگو کی وہ ان کی روائتی گفتگو نہیں تھی ایک درد مندانہ گفتگو تھی اور دنیا بھر میں جو سامعین ان کو سن رہے تھے ان میں زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے تھے جو اپنے کسی پسندیدہ پروگرام کے لیے بے چین ہو کرچینل تبدیل نہیں کر رہے تھے بلکہ وہ ان کی گفتگو میں گم ہو کر بے اختیار اپنے رب کے حضوردعا کے لیے ہاتھ بلند کیے ہوئے تھے اور وبا کی صورت میں جوعذاب دنیا پر آیا ہوا ہے اس سے پناہ مانگ رہے تھے ۔ میں جو ایک گنہگار انسان ہوں ان کی گفتگو اور دعا نے میرے دل و دماغ پر جادو کردیا، میں سرجھکائے اپنے رب کی بارگاہ میں ہاتھ بلند کیے اپنے گناہوں کی معافی کا طلبگار تھا۔
مولانا طارق جمیل کی گفتگو ایک روحانی پھوار بن کر دل و دماغ پربرس رہی تھی ۔ میں اس مستی کے عالم میں اپنے ان شب و روز کو یاد کر رہا تھا جو محفوظ گھر میں بیٹھ کر گزر رہے ہیں ۔ یہ سب سننے کے بعد کس کا کیا حال ہوا ہو گا یہ مجھے معلوم نہیں کہ دلوں کا حال صرف خدا جانتا ہے، میں نے اپنی آنکھوں کو نچوڑتے ہوئے خدا کا شکر ادا کیا کہ میں نے انھی علماء کی جوتیوں کی خاک کے طفیل سخت جدو جہد کے بعد کسی نہ کسی حد تک بچے رہنے کی کوشش کی جو لگتا ہے کہ ایک ناکام کوشش ہے لیکن صاحب دعا نے دلوں کی دنیا میں ایک ہلچل مچا دی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں وبائیں کسی نہ کسی صورت میں تباہی مچاتی رہی ہیں اور موجودہ وباء نے بھی دنیا کو جھنجوڑ دیا ہے، دنیاکے طاقت ور ممالک اس کے سامنے بے بس ہو گئے ہیں اور ابھی تک کوئی ایسی صورت نظر نہیں آرہی کہ اس وباء سے چھٹکارا کس طرح ممکن ہو گا۔
ہم مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ انسانوں پر کسی بھی قسم کا عذاب اﷲ کی ناراضگی کی صورت میں آتا ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارے اعمال نے ہمیں یہ دن دکھائے ہیں کہ اﷲ رب العزت ہم سے ناراض ہو گئے ہیں اور ناراضگی کا یہ عالم ہے کہ انھوں نے ہمیں اپنے گھر کے دیدار اور اپنے پیارے نبی ﷺ کے در پر حاضری سے بھی روک دیا ہے کہ ہم وہاں جا کر معافی مانگ لیں ۔ اب ہمارے پاس ایک ہی راستہ رہ گیا ہے کہ اپنے گھر میں بیٹھ کر ہمیں اﷲ کے حضور سر بسجود ہو کر گڑگڑا کر اپنے گناہوں کی معافی مانگنی ہے، اپنے رب کو راضی کرنا ہے۔
اس وباء سے بچاؤ کی دعا کرنی ہے تا کہ ہمیں اس وبا سے نجات مل سکے اور ہم ایک بار پھراپنی معمول کی زندگی کی جانب لوٹ سکیں وہی زندگی جو گناہوں سے لبریز ہے لیکن موجودہ حالات اس بات کی واضح علامت ہیں کہ ہمیںاپنے شب و روز کو بدلنا ہوگا، اپنی دنیاوی زندگی کو بدلنا ہو گا اوراس کو اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کے تحت گزارنا ہو گا ورنہ اس سے پہلے کئی قومیں اس لیے برباد ہو گئیں اور ان کانام و نشان مٹ گیا کہ وہ اﷲ اور اس کے نبیوں کے پیغام سے رو گردانی کرتی تھیں۔ ہمارے حالات بھی کچھ ایسے ہی ہیں، ہم سب اپنے رب سے معافی کے طلبگار ہیں، وہ اپنے بندوں کی سنتا ہے اور معافی کا دروازہ کبھی بند نہیںکرتا، اس لیے ہر مسلمان اپنے خالق سے معافی کا طلبگار ہو، نہ جانے کس کے دعا کے لیے اٹھے ہوئے ہاتھ یا کوئی ادا اس کو پسند آجائے اور ہم سب کو رب العالمین کے دربار سے معافی مل جائے ۔
بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ ٹیلی ویژن پر کوئی عالم دین وعظ یا تقریر کر رہا ہو اور لوگ اسے دیکھ اور سن رہے ہوں عموماً چینل تبدیل کردیا جاتا ہے اور اپنی پسند کا کوئی اور پروگرام دیکھنے لگ جاتے ہیں اگر مبالغہ آرائی نہ ہو تو گزشتہ روز مجھ سمیت کروڑوں نہیں تو لاکھوں انسانوں نے ٹیلی ویژن پر معروف عالم دین اورتبلیغی جماعت کے رہنما مولانا طارق جمیل کی پر اثر گفتگو سنی اور ان کے ساتھ اجتماعی دعا میں حصہ لیا۔مولانا صاحب سے میری کوئی بالمشافہ ملاقات نہیں ہے مگر چند ایک مواقع پر ان کی براہ راست گفتگو سننے کا موقع ضرور ملا ہے، وہ جس شائستگی اور نہایت سلیقے سے گفتگو کرتے ہیں، ان کے ادا کیے گئے الفاظ سیدھے دل میں اتر جاتے ہیں۔
ان کا پاکستان کے عوام کے علاوہ حکمران طبقہ سے قریبی تعلق ہے، ان کے سامنے وہ جس طرح تقریر کرتے ہیں اورحکمران طبقہ کو ان کے فرائض یاد دلاتے رہتے ہیں، یہ سن کر ان محفلوں میں موجود حاضرین دم بخود رہ جاتے ہیں ، ان کی گفتگو سن کر یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا طبقہ علماء بانجھ نہیں ہوا اور مولانا طارق جمیل نے حق گو علماء کا مسلک اپنا رکھا ہے جو اس کا اصل مسلک ہے اور جس پر چلنے کے لیے اس نے دین و دنیا کے علوم کی تعلیم حاصل کی ہے اور اس تعلیم کے ساتھ وہ حق گوئی اور حسن کلام کی نعمت سے بھی مالا مال ہیں۔
علمائے حق کا یہ نمایندہ عالم جس موضوع پر گفتگو کر رہے تھے، اس میں سر فہرست تو دنیابھر میں پھیلی کورونا وباء کے متعلق گفتگو تھی جس کے متعلق وہ قرآن و حدیث اور اسلامی تاریخ کے حوالے کے ساتھ تفصیل سے ذکر کر رہے تھے ۔ میں جب یہ ایمان افروز دلنشیں باتیں سن رہا تھا تو میرے ذہن میں تاریخ کے وہ واقعات گردش کر رہے تھے جب نڈر اور بے خوف عالم حق پرست علما ء کی نمایندگی کرتے ہوئے اپنے مخاطب چاہے وہ عوام ہوں یا حکمران ان کے سامنے سچ ہی بولتے تھے اور جزاء و سزا کے خوف سے مطلقاً لاپروا ہو کر اپنی گفتگو میں اقتدار کی رعونتوں ،عفثوںاور تعلیوں کی اس خوبصورتی کے ساتھ قلعی کھولتے اور اس قدر عبرت پیدا کرتے کہ اگر کوئی نیک حکمران ان کی گفتگو سننے کی جرات کر لیتا تو وہ پھر اقتدار کی غلام گردشوں سے اپنے آپ کو آزاد کر لیتا یا کم از کم عوام کے لیے آسانیاں تقسیم کرنے لگ جاتا ۔
مولانا طارق جمیل نے جس خوبصورتی اورشائستگی کے ساتھ جس موضوع پرگفتگو کی وہ ان کی روائتی گفتگو نہیں تھی ایک درد مندانہ گفتگو تھی اور دنیا بھر میں جو سامعین ان کو سن رہے تھے ان میں زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے تھے جو اپنے کسی پسندیدہ پروگرام کے لیے بے چین ہو کرچینل تبدیل نہیں کر رہے تھے بلکہ وہ ان کی گفتگو میں گم ہو کر بے اختیار اپنے رب کے حضوردعا کے لیے ہاتھ بلند کیے ہوئے تھے اور وبا کی صورت میں جوعذاب دنیا پر آیا ہوا ہے اس سے پناہ مانگ رہے تھے ۔ میں جو ایک گنہگار انسان ہوں ان کی گفتگو اور دعا نے میرے دل و دماغ پر جادو کردیا، میں سرجھکائے اپنے رب کی بارگاہ میں ہاتھ بلند کیے اپنے گناہوں کی معافی کا طلبگار تھا۔
مولانا طارق جمیل کی گفتگو ایک روحانی پھوار بن کر دل و دماغ پربرس رہی تھی ۔ میں اس مستی کے عالم میں اپنے ان شب و روز کو یاد کر رہا تھا جو محفوظ گھر میں بیٹھ کر گزر رہے ہیں ۔ یہ سب سننے کے بعد کس کا کیا حال ہوا ہو گا یہ مجھے معلوم نہیں کہ دلوں کا حال صرف خدا جانتا ہے، میں نے اپنی آنکھوں کو نچوڑتے ہوئے خدا کا شکر ادا کیا کہ میں نے انھی علماء کی جوتیوں کی خاک کے طفیل سخت جدو جہد کے بعد کسی نہ کسی حد تک بچے رہنے کی کوشش کی جو لگتا ہے کہ ایک ناکام کوشش ہے لیکن صاحب دعا نے دلوں کی دنیا میں ایک ہلچل مچا دی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں وبائیں کسی نہ کسی صورت میں تباہی مچاتی رہی ہیں اور موجودہ وباء نے بھی دنیا کو جھنجوڑ دیا ہے، دنیاکے طاقت ور ممالک اس کے سامنے بے بس ہو گئے ہیں اور ابھی تک کوئی ایسی صورت نظر نہیں آرہی کہ اس وباء سے چھٹکارا کس طرح ممکن ہو گا۔
ہم مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ انسانوں پر کسی بھی قسم کا عذاب اﷲ کی ناراضگی کی صورت میں آتا ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارے اعمال نے ہمیں یہ دن دکھائے ہیں کہ اﷲ رب العزت ہم سے ناراض ہو گئے ہیں اور ناراضگی کا یہ عالم ہے کہ انھوں نے ہمیں اپنے گھر کے دیدار اور اپنے پیارے نبی ﷺ کے در پر حاضری سے بھی روک دیا ہے کہ ہم وہاں جا کر معافی مانگ لیں ۔ اب ہمارے پاس ایک ہی راستہ رہ گیا ہے کہ اپنے گھر میں بیٹھ کر ہمیں اﷲ کے حضور سر بسجود ہو کر گڑگڑا کر اپنے گناہوں کی معافی مانگنی ہے، اپنے رب کو راضی کرنا ہے۔
اس وباء سے بچاؤ کی دعا کرنی ہے تا کہ ہمیں اس وبا سے نجات مل سکے اور ہم ایک بار پھراپنی معمول کی زندگی کی جانب لوٹ سکیں وہی زندگی جو گناہوں سے لبریز ہے لیکن موجودہ حالات اس بات کی واضح علامت ہیں کہ ہمیںاپنے شب و روز کو بدلنا ہوگا، اپنی دنیاوی زندگی کو بدلنا ہو گا اوراس کو اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کے تحت گزارنا ہو گا ورنہ اس سے پہلے کئی قومیں اس لیے برباد ہو گئیں اور ان کانام و نشان مٹ گیا کہ وہ اﷲ اور اس کے نبیوں کے پیغام سے رو گردانی کرتی تھیں۔ ہمارے حالات بھی کچھ ایسے ہی ہیں، ہم سب اپنے رب سے معافی کے طلبگار ہیں، وہ اپنے بندوں کی سنتا ہے اور معافی کا دروازہ کبھی بند نہیںکرتا، اس لیے ہر مسلمان اپنے خالق سے معافی کا طلبگار ہو، نہ جانے کس کے دعا کے لیے اٹھے ہوئے ہاتھ یا کوئی ادا اس کو پسند آجائے اور ہم سب کو رب العالمین کے دربار سے معافی مل جائے ۔