خدارا سنجیدگی اختیار کیجیے
اس وقت ملک بھر میں کوروناکے پھیلاو کا ایک بڑا سبب پاکستان ریلوے ہے۔
رجوع الی اﷲ اور احتیاط کے علاوہ اس مہلک وباء سے نجات کا کوئی راستہ نہیں، اگر ہوتا تو بڑی بڑی سپر طاقتیں آج بے بس و بے یارو مددگار نظر نہ آتیں، اﷲ رب العزت کی طرف سے معمولی سے آزمائش کیا آئی، طاقت کے نشے میں دھت ان سب ایٹمی طاقتوں کے ہوش ٹھکانے آگئے۔
تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ نمرود کی پوری بادشاہت ایک مچھر کے سامنے بے بس ہوکر رہ گئی تھی اور آج دنیا کی ساری ایٹمی طاقتیں ایک معمولی سے وائرس جو نظر بھی نہیں آتا اس کے سامنے ڈھیر ہیں،یہ میرے رب کی قدرت کی نشانیاں نہیں تو اور کیا ہے؟ آج ساری دنیا اس بات کا اقرار کر رہی ہے کہ بیشک اﷲ ہی کی بادشاہی ہے اور قیامت تک اسی کی بادشاہی قائم و دائم رہے گی۔
کورونا وائرس مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے، روئے زمین پر شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جہاں اس وبا کا شکار مریض موجود نہ ہو۔ تادم تحریرپوری دینا میں کورونا وائرس کے کیس تین لاکھ 82 ہزار سے تجاوز کرچکے ہیں، یہ وبا ساڑھے 16 ہزار سے زائد انسانوں کو نگل چکی ہے۔ صرف اٹلی میں ہلاکتوں کی تعداد چھ ہزار سے متجاوز ہے، وہاں سے موصول ہونے والی وڈیوز دیکھنے کے لیے بڑی ہمت چاہیے، کیسے لاشیں بکھری پڑی ہیں کوئی اٹھانے والا ہے نہ کوئی آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے تیار۔
پاکستان میں 9سو کے لگ بھگ افراد کورونا وائرس کا شکار بن چکے ہیں، اس وبا کے نتیجے میں سات افراد جان کی بازی ہار بیٹھے ہیں۔ اٹلی میں کورونا وائرس کا پہلا کیس 31 جنوری کو سامنے آیا، 23دنوں بعد وہاں 150 افراد اس مہلک وائرس کا شکار ہوچکے تھے، پاکستان میں پہلا کیس 26فروری کو سامنے آیا اور 23 دنوں بعد یہاں 453 کیس رپورٹ ہوچکے تھے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس کے پھیلاو کا ٹرینڈ اٹلی سے زیادہ ہے لیکن ہماری صورتحال یہ ہے کہ نہ حکومتی سطح پر اسے سنجیدہ لیا جارہا ہے نہ عوامی سطح پر۔
وزیر اعظم قوم سے خطاب میں فرماتے ہیں کہ ملک کو لاک ڈائون نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس اقدام سے پچیس فیصد غریب لوگ متاثر ہوںگے۔ سندھ حکومت پہلے دن سے ہی حفاظتی و تدبیری اقدامات میں باقی صوبوں اور وفاق پر سبقت لیے ہوئے ہے۔ پیر سے صوبہ سندھ پندرہ ایام کے لیے لاک ڈائون کر دیا گیا ہے، انھیں اس بات کی سمجھ آچکی ہے کہ اس وبا کا علاج لاک ڈائون کے علاوہ کچھ نہیں اس کی تقلید میں پنجاب حکومت نے بھی منگل سے14 دن کے لیے جزوی لاک ڈاون پر عملدرآمد شروع کر رکھا ہے۔
لوگ جزوی لاک ڈاون کو بھی سنجیدہ نہیں لے رہے، کنٹونمنٹ کے علاقوں میں تو لاک ڈائون پر سختی سے عملدرآمد دکھائی دے رہا ہے تاہم سول علاقے بدستور خدا کے رحم و کر م پر نظر آرہے ہیں، بعض لوگ تو چھٹیاں انجوائے کر رہے ہیں، بچوں کو لے کر مٹر گشت کے لیے نکل آتے ہیں، ایسے غیر ذمے دارانہ رویوں کی وجہ سے اس بات کا قوی امکان ہے کہ پنجاب میں صورتحال ابتر ہوسکتی ہے۔
خیبرپختونخوا میں بھی حالات تسلی بخش نہیں۔ لاک ڈاون کے باوجود لوگ میل ملاقات کا سلسلہ جاری ہے، کھانے پینے کی کھلی دکانوں پر عوام کا جم غفیر دیکھ کے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے جشن کا سماں ہے۔ہمیں اس بات کا اندازہ ہی نہیں کہ کیسی مصیبت ہمارے سروں پر منڈلا رہی ہے۔ دفاتر اور کاروباری مراکز بند کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ اپنے آپ کو گھروں میں بند کرلیں تاکہ خود کو اور دوسروں کو اس وبا سے بچا سکیں۔
جب لوگ گھروں میں بند ہوجائیں گے تو کورونا وائرس کی چین خود بخود ٹوٹ جائے گی، متاثرہ مریضوں کی نشاندہی ہوگی اور وہ خود اپنے گھر والوں کو دعوت دیں گے کہ میرا علاج کراو، قوم کو اس صورتحال کے لیے سنجیدہ ہونا پڑے گا لیکن ابھی تک ہمارے غیر سنجیدہ رویے کسی بڑی مصیبت کو دعوت دے رہے ہیں۔ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ کورونا وائرس اس وقت تک ہمارے گھر میں نہیں آئے گا جب تک ہم خوداسے لینے باہر نہیں جائیں گے۔
اٹلی کو آج جس صورتحال کا سامنا ہے وہ لاک ڈائون سمیت درست وقت پر درست اقدامات اٹھانے میں تاخیر کا نتیجہ ہے، ہمارے ہاں اس وائرس کے پھیلائو کا ٹرینڈ اٹلی سے زیادہ ریکارڈ کیا جارہا ہے۔ خدا نہ کرے کہ یہاں بھی اٹلی جیسی صورتحال پیدا ہولیکن اس کے لیے ہمیں بروقت صحیح فیصلے کرنا ہوںگے۔اس وقت ملک بھر میں کوروناکے پھیلاو کا ایک بڑا سبب پاکستان ریلوے ہے۔ایسی ہی محکمہ ڈاک، بینکس اور دیگر ادارے ابھی تک کھلے ہوئے ہیں۔اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ حکومت اور عوام دونوں اپنے رویوں میں تبدیلی لائیں، اسلام بھی ہمیں یہی راستہ دکھاتا ہے۔خلیفہ ثانی امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ کے عہد میں طاعون کی وبا پھیل گئی، اس وقت بھی ''قرنطینہ'' کے اصول پر عمل کیا گیا۔
(جاری ہے)
تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ نمرود کی پوری بادشاہت ایک مچھر کے سامنے بے بس ہوکر رہ گئی تھی اور آج دنیا کی ساری ایٹمی طاقتیں ایک معمولی سے وائرس جو نظر بھی نہیں آتا اس کے سامنے ڈھیر ہیں،یہ میرے رب کی قدرت کی نشانیاں نہیں تو اور کیا ہے؟ آج ساری دنیا اس بات کا اقرار کر رہی ہے کہ بیشک اﷲ ہی کی بادشاہی ہے اور قیامت تک اسی کی بادشاہی قائم و دائم رہے گی۔
کورونا وائرس مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے، روئے زمین پر شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جہاں اس وبا کا شکار مریض موجود نہ ہو۔ تادم تحریرپوری دینا میں کورونا وائرس کے کیس تین لاکھ 82 ہزار سے تجاوز کرچکے ہیں، یہ وبا ساڑھے 16 ہزار سے زائد انسانوں کو نگل چکی ہے۔ صرف اٹلی میں ہلاکتوں کی تعداد چھ ہزار سے متجاوز ہے، وہاں سے موصول ہونے والی وڈیوز دیکھنے کے لیے بڑی ہمت چاہیے، کیسے لاشیں بکھری پڑی ہیں کوئی اٹھانے والا ہے نہ کوئی آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے تیار۔
پاکستان میں 9سو کے لگ بھگ افراد کورونا وائرس کا شکار بن چکے ہیں، اس وبا کے نتیجے میں سات افراد جان کی بازی ہار بیٹھے ہیں۔ اٹلی میں کورونا وائرس کا پہلا کیس 31 جنوری کو سامنے آیا، 23دنوں بعد وہاں 150 افراد اس مہلک وائرس کا شکار ہوچکے تھے، پاکستان میں پہلا کیس 26فروری کو سامنے آیا اور 23 دنوں بعد یہاں 453 کیس رپورٹ ہوچکے تھے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس کے پھیلاو کا ٹرینڈ اٹلی سے زیادہ ہے لیکن ہماری صورتحال یہ ہے کہ نہ حکومتی سطح پر اسے سنجیدہ لیا جارہا ہے نہ عوامی سطح پر۔
وزیر اعظم قوم سے خطاب میں فرماتے ہیں کہ ملک کو لاک ڈائون نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس اقدام سے پچیس فیصد غریب لوگ متاثر ہوںگے۔ سندھ حکومت پہلے دن سے ہی حفاظتی و تدبیری اقدامات میں باقی صوبوں اور وفاق پر سبقت لیے ہوئے ہے۔ پیر سے صوبہ سندھ پندرہ ایام کے لیے لاک ڈائون کر دیا گیا ہے، انھیں اس بات کی سمجھ آچکی ہے کہ اس وبا کا علاج لاک ڈائون کے علاوہ کچھ نہیں اس کی تقلید میں پنجاب حکومت نے بھی منگل سے14 دن کے لیے جزوی لاک ڈاون پر عملدرآمد شروع کر رکھا ہے۔
لوگ جزوی لاک ڈاون کو بھی سنجیدہ نہیں لے رہے، کنٹونمنٹ کے علاقوں میں تو لاک ڈائون پر سختی سے عملدرآمد دکھائی دے رہا ہے تاہم سول علاقے بدستور خدا کے رحم و کر م پر نظر آرہے ہیں، بعض لوگ تو چھٹیاں انجوائے کر رہے ہیں، بچوں کو لے کر مٹر گشت کے لیے نکل آتے ہیں، ایسے غیر ذمے دارانہ رویوں کی وجہ سے اس بات کا قوی امکان ہے کہ پنجاب میں صورتحال ابتر ہوسکتی ہے۔
خیبرپختونخوا میں بھی حالات تسلی بخش نہیں۔ لاک ڈاون کے باوجود لوگ میل ملاقات کا سلسلہ جاری ہے، کھانے پینے کی کھلی دکانوں پر عوام کا جم غفیر دیکھ کے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے جشن کا سماں ہے۔ہمیں اس بات کا اندازہ ہی نہیں کہ کیسی مصیبت ہمارے سروں پر منڈلا رہی ہے۔ دفاتر اور کاروباری مراکز بند کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ اپنے آپ کو گھروں میں بند کرلیں تاکہ خود کو اور دوسروں کو اس وبا سے بچا سکیں۔
جب لوگ گھروں میں بند ہوجائیں گے تو کورونا وائرس کی چین خود بخود ٹوٹ جائے گی، متاثرہ مریضوں کی نشاندہی ہوگی اور وہ خود اپنے گھر والوں کو دعوت دیں گے کہ میرا علاج کراو، قوم کو اس صورتحال کے لیے سنجیدہ ہونا پڑے گا لیکن ابھی تک ہمارے غیر سنجیدہ رویے کسی بڑی مصیبت کو دعوت دے رہے ہیں۔ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ کورونا وائرس اس وقت تک ہمارے گھر میں نہیں آئے گا جب تک ہم خوداسے لینے باہر نہیں جائیں گے۔
اٹلی کو آج جس صورتحال کا سامنا ہے وہ لاک ڈائون سمیت درست وقت پر درست اقدامات اٹھانے میں تاخیر کا نتیجہ ہے، ہمارے ہاں اس وائرس کے پھیلائو کا ٹرینڈ اٹلی سے زیادہ ریکارڈ کیا جارہا ہے۔ خدا نہ کرے کہ یہاں بھی اٹلی جیسی صورتحال پیدا ہولیکن اس کے لیے ہمیں بروقت صحیح فیصلے کرنا ہوںگے۔اس وقت ملک بھر میں کوروناکے پھیلاو کا ایک بڑا سبب پاکستان ریلوے ہے۔ایسی ہی محکمہ ڈاک، بینکس اور دیگر ادارے ابھی تک کھلے ہوئے ہیں۔اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ حکومت اور عوام دونوں اپنے رویوں میں تبدیلی لائیں، اسلام بھی ہمیں یہی راستہ دکھاتا ہے۔خلیفہ ثانی امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ کے عہد میں طاعون کی وبا پھیل گئی، اس وقت بھی ''قرنطینہ'' کے اصول پر عمل کیا گیا۔
(جاری ہے)