نہ تین میں نہ تیرہ میں
مشاعرے کے بعد ہم نے اس شاعر سے جو سوکھا ان پڑھ اور الف لٹھ تھا، پوچھا کہ منصور کون تھا؟
یہ محاورہ یا روزمرہ چونکہ '' شاملات دیہہ''میں سے ہے، اس لیے آج بیسٹ سیلرجارہاہے۔ تفصیلات میں جانے سے معذرت کہ اکثر اس محاورے کا روئے سخن کچھ خطرناک عناصر کی طرف ہوجاتاہے بلکہ بعض لوگ امریکا وغیرہ کے مدنظر پاکستانی لیڈروں کی طرف بھی اس کا روئے سخن موڑ دیتے ہیں۔لیکن اس کثرت استعمال کے باوجود بہت کم لوگوں کو علم ہوگا کہ یہ''تین اور تیرہ''ہیں کیا؟
یعنی اس کی وجہ تسمیہ ، وجہ عددیہ یا وجہ ہندسیہ بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ آخر یہ''تین''کون ہے یاکیا ہے اور تیرہ کیا بیچتا ہے اور ان دونوں کا آپسی تعلق کیاہے اور پھر لوگوں سے اس کا تعلق کیا بنتاہے جونہ تین میں ہوتے ہیں نہ تیرہ میں۔اور وہ کون لوگ ہیں جو ''تین''میں ہیں یا تیرہ میں اور یادونوں میں۔بس ایک دوسرے سے سن سناکر غیرقانونی طور پراس کا استعمال کیاجاتا جس طرح اکثرلوگ کچھ دوسرے لوگوں کا کرتے ہیں مثلاً ایک مرتبہ ایک شاعر نے مشاعرے میں غزل پڑھی تواس کے ایک شعر میں ''منصور''کا حوالہ تھا۔کہ میں منصور حلاج کی طرح دار پرچڑھایا گیاہوں۔
مشاعرے کے بعد ہم نے اس شاعر سے جو سوکھا ان پڑھ اور الف لٹھ تھا، پوچھا کہ منصور کون تھا؟بولا ، یہ ایک غریب آدمی تھا جو بادشاہ کی بیٹی پرعاشق ہوا تھا اور بادشاہ نے اسے دار پر کھینچاتھا۔شاید ہم اس''تین''اور ''تیرہ''کے چکر میں بالکل نہ پڑتے لیکن کچھ دنوں سے ہم محسوس کر رہے ہیں کہ ہم بھی نہ تین میں ہیں نہ تیرہ میں۔اس لیے تحقیق ناگزیر ٹھہری یہاں وہاں کے کچھ ثقہ نا ثقہ دانشوروں اور محققوں سے معلومات حاصل کیں توپتہ چلا کہ کسی شہر میں یا ملک میں یا زمانے میں ایک بڑی مشہور اور رسوائے عالم (کہ یہی کسی طوائف کی سب سے بڑی ڈگری ہوتی ہے)طوائف تھی۔جس کے نام توبہت تھے لیکن ایک مشہور نام''سرکار بائی رجسٹروں والی''بھی تھا ،کچھ لوگ اسے ''امیربائی ناٹکی''(امیربائی کرناٹکی نہیں) تھا۔
کرناٹک کے بجائے اس کا تعلق ''ناٹک''سے تھا، اس کے عشاق اور فین چونکہ بے حساب اور بے شمارو قطار تھے، اس لیے اس نے ان عشاق کی کٹیگریاں بنائی ہوئی تھیں۔رجسٹرنمبر(3)میں وی آئی پی لوگ جسے وزیران کرام، مشیران عظام، معاونین اور منتخب خادمین درج تھے۔ جب کہ صرف وی آئی پی دولت مداروں،مالداروں، ٹھیکداروں، زمین داروں، سرداروں، جاگیرداروں کے لیے رجسٹر نمبر(13)مختص تھا۔ایک مرتبہ کسی اور ملک یاشہر کا انتہائی مالدار تجار اور سرکار دربار میں منظور شدہ ٹھیکیدار کا اس شہر میں ورود ہوا تو طوائف سربائی رجسٹروں والی۔یا امیربائی ناٹکی کی بدنامیوں، رسوائیوں اور ہرجائیوں نے اسے بہت اٹریکٹ کیااور اس نے بھی اس کی زیارت سے مشرف ہونے کی سعادت حاصل کرنا چاہی۔
از دل وجاں عرض صحبت ماناں غرض است
ہمہ آنست وگر دل وجاں ایں ہمہ سنبت
در دولت پرپہنچا تو بیرونی اسٹاف نے حوالہ نمبر پوچھا۔ لیکن اس کے پاس ایسا کچھ بھی نہ تھا جب کہ اس کے کروفر اور شان عالیشان پتہ دے رہے تھے کہ عام نہیں خاص ہے۔اسٹاف نے فوراً بذریعہ '' موبائل کنیز'' نائیکہ کوکال کیا، وہاں اسی موبائل کنیز کے ذریعے استفسار ہوا کہ کس رجسٹرکاہے۔تین میں یا تیرہ میں۔ جواب دیا گیا کہ نہ تین میں ہے نہ تیرہ میں لیکن آدمی مرغن ہے۔ کیونکہ اس سے پہلے اسٹاف کو نوٹوںکے جلوے دکھاچکا تھا۔موبائل کنیزکو بھی سوداگر نے جلوہ دکھایا گیا توجواب مثبت آیا اور سوداگر کو اذن باریابی مل گیا۔کہانی تویہاں تک ہے۔لیکن اس کہانی کے ترازو میں ہم نے خود کو تولا تو وہی نتیجہ نکلا جس کا خطرہ تھا اور ہمارے دل میں ایک عرصے سے کھٹک رہاتھا۔
کیونکہ ہم صاف صاف محسوس کررہے تھے بلکہ دیکھ رہے ہیں کہ اردگرد جو نعمتوں کی تقسیم ہورہی تھی، اس میں ہمیں کہیں بھی کچھ نہیں مل رہاتھا حالانکہ ہم اپنی دانست میں اپنے مطابق قطار دیکھ کر اس میں کھڑے ہوجاتے تھے لیکن کھڑکی پرپہنچ کر ایک دم نامنظور ہوجاتے تھے اور کسی دوسری قطار میں کھڑے ہونے کی ہدایت کی جاتی تھی، ہم اس قطار کے آخر میں جاکرکھڑے ہوجاتے تھے لیکن پھروہی غلط قطار کا ٹھپہ۔مدتیں گزری کہ قطاروں میں آگے پیچھے اور سانپ سیڑھی کا کھیل کھیل رہے ہیں لیکن سیڑھی تو کبھی نہیں ملی البتہ ہرخانے میں سانپ ہمیں نگل کراپنی دُم تک پہنچانے کے لیے منہ کھولے بیٹھا ہوتاہے۔
قمست کی خوبی دیکھیے ٹوٹی کہاں کمند
دوچار ہاتھ جب کہ لب بام رہ گئے
بلکہ اس سے بھی زیادہ برا کہ دوچار ہاتھ بھی نہیں رہے، بام تک پہنچ بھی جاتے ہیں لیکن وہاں بھی سانپ کا منہ کھلا ہوتاہے۔پہلے پہل ہم صحافیوں کی قطار میں کھڑے تھے یہاں تک کہ پریس کلب کے بانیوں میں بھی شامل تھے۔لیکن جب کھڑکی کے قریب پہنچے۔ تو جواب ملا کہ تم تو کالم نگار ہو اور تمہاری جگہ قلمکاروں اور ادبیوں کی اس لمبی قطار میں ہے۔کیاکرتے جانا پڑا اور قطار کے اس آخری سرے پرجاکھڑے ہوگئے جو کھڑکی بلکہ کھڑکیوںسے میلوں بلکہ میلوں اور فیملوں دور تھا۔ اب اس کے آگے کیا سنائیں۔
اب کہ تجدید وفا کا نہیں امکاں جاناں
یاد کیا تجھ کو دلائیں ترے پیماں جاناں
ان تین اور تیرہ ، قطاروں یا رجسٹروں کے علاوہ کسی اور قطار یا رجسٹر میں توجانے یا کھڑے ہونے کا تو تصور بھی نہیں کرسکتے کہ وہاں تو مقالات کی بجائے ''مکالات''کا خطرہ ہے۔ ایک''مک مکا''کا راستہ ہے لیکن اس کے لیے اس تاجر کی طرح کاغذاعظم کی ضرورت ہے جو ہمارے پاس نہ کبھی تھا نہ ہے نہ ہوگا۔
درم ودام اپنے پاس کہاں
چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں
چیل بھی محض برائے نام جس کی چونچ ہے نہ پنجے۔یعنی ڈمی۔ایسی حالت میں ہم صرف وہی کرسکتے ہیں جو بزرگوں نے کہاہے کہ
خدائے چہ چاتہ پیخہ کڑی
زان دے ورتہ میخہ کڑی
یعنی خدا جب سر پرلا ڈالے تو خود کو بھینس بنالینا چاہیے۔موٹا چمڑا چڑھا کر۔
یعنی اس کی وجہ تسمیہ ، وجہ عددیہ یا وجہ ہندسیہ بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ آخر یہ''تین''کون ہے یاکیا ہے اور تیرہ کیا بیچتا ہے اور ان دونوں کا آپسی تعلق کیاہے اور پھر لوگوں سے اس کا تعلق کیا بنتاہے جونہ تین میں ہوتے ہیں نہ تیرہ میں۔اور وہ کون لوگ ہیں جو ''تین''میں ہیں یا تیرہ میں اور یادونوں میں۔بس ایک دوسرے سے سن سناکر غیرقانونی طور پراس کا استعمال کیاجاتا جس طرح اکثرلوگ کچھ دوسرے لوگوں کا کرتے ہیں مثلاً ایک مرتبہ ایک شاعر نے مشاعرے میں غزل پڑھی تواس کے ایک شعر میں ''منصور''کا حوالہ تھا۔کہ میں منصور حلاج کی طرح دار پرچڑھایا گیاہوں۔
مشاعرے کے بعد ہم نے اس شاعر سے جو سوکھا ان پڑھ اور الف لٹھ تھا، پوچھا کہ منصور کون تھا؟بولا ، یہ ایک غریب آدمی تھا جو بادشاہ کی بیٹی پرعاشق ہوا تھا اور بادشاہ نے اسے دار پر کھینچاتھا۔شاید ہم اس''تین''اور ''تیرہ''کے چکر میں بالکل نہ پڑتے لیکن کچھ دنوں سے ہم محسوس کر رہے ہیں کہ ہم بھی نہ تین میں ہیں نہ تیرہ میں۔اس لیے تحقیق ناگزیر ٹھہری یہاں وہاں کے کچھ ثقہ نا ثقہ دانشوروں اور محققوں سے معلومات حاصل کیں توپتہ چلا کہ کسی شہر میں یا ملک میں یا زمانے میں ایک بڑی مشہور اور رسوائے عالم (کہ یہی کسی طوائف کی سب سے بڑی ڈگری ہوتی ہے)طوائف تھی۔جس کے نام توبہت تھے لیکن ایک مشہور نام''سرکار بائی رجسٹروں والی''بھی تھا ،کچھ لوگ اسے ''امیربائی ناٹکی''(امیربائی کرناٹکی نہیں) تھا۔
کرناٹک کے بجائے اس کا تعلق ''ناٹک''سے تھا، اس کے عشاق اور فین چونکہ بے حساب اور بے شمارو قطار تھے، اس لیے اس نے ان عشاق کی کٹیگریاں بنائی ہوئی تھیں۔رجسٹرنمبر(3)میں وی آئی پی لوگ جسے وزیران کرام، مشیران عظام، معاونین اور منتخب خادمین درج تھے۔ جب کہ صرف وی آئی پی دولت مداروں،مالداروں، ٹھیکداروں، زمین داروں، سرداروں، جاگیرداروں کے لیے رجسٹر نمبر(13)مختص تھا۔ایک مرتبہ کسی اور ملک یاشہر کا انتہائی مالدار تجار اور سرکار دربار میں منظور شدہ ٹھیکیدار کا اس شہر میں ورود ہوا تو طوائف سربائی رجسٹروں والی۔یا امیربائی ناٹکی کی بدنامیوں، رسوائیوں اور ہرجائیوں نے اسے بہت اٹریکٹ کیااور اس نے بھی اس کی زیارت سے مشرف ہونے کی سعادت حاصل کرنا چاہی۔
از دل وجاں عرض صحبت ماناں غرض است
ہمہ آنست وگر دل وجاں ایں ہمہ سنبت
در دولت پرپہنچا تو بیرونی اسٹاف نے حوالہ نمبر پوچھا۔ لیکن اس کے پاس ایسا کچھ بھی نہ تھا جب کہ اس کے کروفر اور شان عالیشان پتہ دے رہے تھے کہ عام نہیں خاص ہے۔اسٹاف نے فوراً بذریعہ '' موبائل کنیز'' نائیکہ کوکال کیا، وہاں اسی موبائل کنیز کے ذریعے استفسار ہوا کہ کس رجسٹرکاہے۔تین میں یا تیرہ میں۔ جواب دیا گیا کہ نہ تین میں ہے نہ تیرہ میں لیکن آدمی مرغن ہے۔ کیونکہ اس سے پہلے اسٹاف کو نوٹوںکے جلوے دکھاچکا تھا۔موبائل کنیزکو بھی سوداگر نے جلوہ دکھایا گیا توجواب مثبت آیا اور سوداگر کو اذن باریابی مل گیا۔کہانی تویہاں تک ہے۔لیکن اس کہانی کے ترازو میں ہم نے خود کو تولا تو وہی نتیجہ نکلا جس کا خطرہ تھا اور ہمارے دل میں ایک عرصے سے کھٹک رہاتھا۔
کیونکہ ہم صاف صاف محسوس کررہے تھے بلکہ دیکھ رہے ہیں کہ اردگرد جو نعمتوں کی تقسیم ہورہی تھی، اس میں ہمیں کہیں بھی کچھ نہیں مل رہاتھا حالانکہ ہم اپنی دانست میں اپنے مطابق قطار دیکھ کر اس میں کھڑے ہوجاتے تھے لیکن کھڑکی پرپہنچ کر ایک دم نامنظور ہوجاتے تھے اور کسی دوسری قطار میں کھڑے ہونے کی ہدایت کی جاتی تھی، ہم اس قطار کے آخر میں جاکرکھڑے ہوجاتے تھے لیکن پھروہی غلط قطار کا ٹھپہ۔مدتیں گزری کہ قطاروں میں آگے پیچھے اور سانپ سیڑھی کا کھیل کھیل رہے ہیں لیکن سیڑھی تو کبھی نہیں ملی البتہ ہرخانے میں سانپ ہمیں نگل کراپنی دُم تک پہنچانے کے لیے منہ کھولے بیٹھا ہوتاہے۔
قمست کی خوبی دیکھیے ٹوٹی کہاں کمند
دوچار ہاتھ جب کہ لب بام رہ گئے
بلکہ اس سے بھی زیادہ برا کہ دوچار ہاتھ بھی نہیں رہے، بام تک پہنچ بھی جاتے ہیں لیکن وہاں بھی سانپ کا منہ کھلا ہوتاہے۔پہلے پہل ہم صحافیوں کی قطار میں کھڑے تھے یہاں تک کہ پریس کلب کے بانیوں میں بھی شامل تھے۔لیکن جب کھڑکی کے قریب پہنچے۔ تو جواب ملا کہ تم تو کالم نگار ہو اور تمہاری جگہ قلمکاروں اور ادبیوں کی اس لمبی قطار میں ہے۔کیاکرتے جانا پڑا اور قطار کے اس آخری سرے پرجاکھڑے ہوگئے جو کھڑکی بلکہ کھڑکیوںسے میلوں بلکہ میلوں اور فیملوں دور تھا۔ اب اس کے آگے کیا سنائیں۔
اب کہ تجدید وفا کا نہیں امکاں جاناں
یاد کیا تجھ کو دلائیں ترے پیماں جاناں
ان تین اور تیرہ ، قطاروں یا رجسٹروں کے علاوہ کسی اور قطار یا رجسٹر میں توجانے یا کھڑے ہونے کا تو تصور بھی نہیں کرسکتے کہ وہاں تو مقالات کی بجائے ''مکالات''کا خطرہ ہے۔ ایک''مک مکا''کا راستہ ہے لیکن اس کے لیے اس تاجر کی طرح کاغذاعظم کی ضرورت ہے جو ہمارے پاس نہ کبھی تھا نہ ہے نہ ہوگا۔
درم ودام اپنے پاس کہاں
چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں
چیل بھی محض برائے نام جس کی چونچ ہے نہ پنجے۔یعنی ڈمی۔ایسی حالت میں ہم صرف وہی کرسکتے ہیں جو بزرگوں نے کہاہے کہ
خدائے چہ چاتہ پیخہ کڑی
زان دے ورتہ میخہ کڑی
یعنی خدا جب سر پرلا ڈالے تو خود کو بھینس بنالینا چاہیے۔موٹا چمڑا چڑھا کر۔