’’مواخات‘‘
خوش آئند بات یہ ہے کہ اس تکلیف اور دھندلائے ہوئے منظر سے باہر بہت سے اچھے اور قابلِ فخر کام بھی ہورہے ہیں۔
وقت کی چھلنی سے گزرتے ہوئے الفاظ کے معنی شائد بدلتے تو نہیں مگر اُن کے اندر موجود روشنی یقینا گھٹتی بڑھتی رہتی ہے۔
مل کر رہنے ، بانٹ کر کھانے اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں حصہ دار بننے کے لیے اُردو اور ہماری مقامی زبانوں میں بہت سے لفظ اور استعارے مل جائیں گے مگر کورونا کی پیدا کردہ اس موجودہ صورت حال میں مجھے جو لفظ سب سے زیادہ با معنی ا ور بھرپور لگتا ہے اُس کا تعلق چودہ صدیاں قبل ہونے و الی اُس عظیم ہجرت سے ہے جسے عرفِ عام میں مواخاتِ مدینہ کہا جاتاہے کہ اس کے پس منظر میں انسانوں کے مابین جس بھائی چارے اور اخّوت کا درس دیا گیا تھا اُس کے اظہار کا ایسا موقع شائد ہی اس کے بعد کی تاریخ میں اتنی شدت سے آیا ہو۔
گزشتہ دنوں بے مثال رفاہی اور سماجی تنظیم '''اخوت'' کے بانی اور ہم سب کے محترم دوست ڈاکٹر امجد ثاقب کا ''اخّوت'' کے لیے لکھا ہوا ایک گیت نما ترانہ عزیزی علی ذی شان کی معرفت میری نظر سے گزرا جس کی مرکزی لائن ''ہم مواخات ہیں ہم مواخات ہیں'' تھی لیکن اس وقت میرے اور ڈاکٹر امجد ثاقب سمیت شائد کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ ایک ایسی صورتِ حال دنیا میں جنم لے چکی ہے جسے کل کو ہمارے وطنِ عزیز سمیت پوری دنیا کو ایک ایسے امتحان میں ڈالنا ہے جس کی اب کسی کی آخری نظیر تقریباًاسّی برس قبل ہونے والی دوسری جنگِ عظیم تھی، یہ اور بات ہے کہ دنیا کے بہت سے ممالک جو اُس وقت محض تماشائی تھے، اب خود اس تماشے کا حصہ بن چکے ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ لاک ڈائون چاہے پورا ہو یا ادھورا اب ایک حقیقت کی شکل اختیار کرچکا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اب اس میں ہونے و الی مبینہّ دیر سویرکی بحث سے آگے نکل کر ہم سب اُس کو ایک قومی مسئلے اور خطرناک صورتِ حال کی طرح سے دیکھیں اور دکھائیں ۔
ہمارے جیسے کم وسیلہ اور نسبتاً بے ترتیب معاشروں میں جہاں آبادی کے ساتھ ساتھ غربت اور جہالت کی بھی فراوانی ہے اور جہاں تقریباً ایک تہائی آبادی کسی نہ کسی حوالے سے روزانہ کی بنیاد پر زندہ رہتی ہے یعنی اُس کی حیثیت اور بنیادی ضروریات کے پورا ہونے کا تعلق کسی ایک دن سے حاصل ہونے والی کمائی اور محنت سے ہوتا ہے اور جہاں عام طور پر آٹھ دس افراد پر مشکل گھڑی میں ایک ہی کمانے والا ہوتا ہے یعنی جس روز وہ اپنی دن بھر کی محنت کے بعد جو کچھ کما کر لاتاہے اس سے اُس گھر کی روٹی روزی چلتی ہے اور اگلے دن کے لیے عام طور پر کچھ بھی بچ نہیں پاتا اب تصور کیجیے کہ کسی وجہ سے وہ شخص کام پر نہ جاسکے تو وہ رات اُس پر اور اُس کے خاندان پر کس طرح سے گزرے گی؟ اور اگر یہ دورانیہ بڑھتا چلا جائے تو پھر اُن کا کیا بنے گا؟
کسی قسم کی سیاسی بحث میں پڑے بغیر میں یہ سمجھتاہوں کہ عمران خان کے کسی کرفیو جیسے مکمل لاک ڈائون سے گریز کو بھی اس پس منظر میں دیکھنا چاہیے اس پر مستزاد یہ کہ کورونا کے پھیلائو کے اندیشے اور تباہ کاریوں کے باوجود ابھی تک کچھ لوگ کسی طرح کی پابندی یا قربانی کو ماننے سے نہ صرف انکاری ہیں بلکہ اس کا جواب جگتوں اور ٹوٹکوں میں ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں اور بجائے اس کے کہ اس قومی بلکہ بین الاقوامی آفت کے رستے میں کندھے سے کندھا ملا کر دیوار بنائیں بعض جگہوں بالخصوص سوشل میڈیا میں اس بات پر بحث ہورہی ہے کہ اس کے پھیلائو کے ضمن میں کسی خاص فرقے یا راستے کو کیوں نشانہ بنایا جارہا ہے ؟
اس میں شک نہیں کہ نامور مذہبی علماء اپنے فقہی اختلافات سے بالاتر ہوکر حکومت کے بنائے ہوئے حفاظتی پلان میں موجود مذہبی معاملات پر بہت بالغ نظری ، تعاون اور یکسوئی سے کام لے رہے ہیں لیکن یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اُن سے نیچے کی سطح پر موجود کئی لوگوں نے انتہائی غیر ذمے د اری کا ثبوت دیا ہے ا ور کورونا وائرس سے بچنے کے لیے کی جانے والی حفاظتی تدابیر کو دین کی کمزوری اور ایمان کی کمی سے کچھ اس طرح سے تعبیر کیا ہے کہ گویا ایک عزم سے وہ خود اس کے حامی اور مدد گار بن گئے ہیں، اسی افسوسناک طرزِ عمل کا نتیجہ ہے کہ وہ نوجوان طبقہ بھی جو بوجوہ اُن کے دائرہ اثر سے باہر ہے، غیر ذمے داری اور بے احتیاطی کی حد تک انھی کے رستے پر چل پڑا ہے ۔
ٹیلی وژن پر مختلف شہروں میں لاک ڈائون کی خلاف ورزی کے جو مناظر دکھائے جارہے ہیں وہ تعداد میں اتنے زیادہ اور اپنے نتائج کے اعتبار سے اس قدر ہولناک ہیں کہ اُن کی مثال صرف اجتماعی خود کشی سے ہی دی جاسکتی ہے ۔ تنگ و تاریک گلیوں اور مرکزی شاہراہوں سے ہٹی ہوئی گنجان آبادیوں میں اس مسلسل اور بے تکلفانہ آمدورفت اور میل ملاپ سے نہ صرف لاک ڈائون کا مقصد ہی فوت ہوجائے گا بلکہ بے شمار لوگوں کی تکالیف اور مشکلات بھی اپنی اثر آفرینی کے اعتبار سے صفر ہوجائیں گی اور یوں ہم اس عظیم اجتماعی قربانی کے بعد بھی ڈینجر زون سے باہر نہ نکل پائیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر گھر اور عملے کے سمجھ دار لوگ آگے آئیں اور اپنے اپنے علاقے میں اس طرح کی حرکات کا نہ صرف سختی سے نوٹس لیں بلکہ ان کو روکنے کے لیے ہر ممکن کارروائی بھی کریں۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ اس تکلیف اور دھندلائے ہوئے منظر سے باہر بہت سے اچھے اور قابلِ فخر کام بھی ہورہے ہیں ، ان کے کرنے و الوں کا تعلق بھی ہماری ہی قوم سے ہے بہت سی نیک نام رفاہی انجمنیں ہمیشہ کی طرح اس مشکل وقت میں بھی نہ صرف میدان میں نکل آتی ہیں۔ میں کبھی جماعتِ اسلامی میں شامل نہیں رہا اوراُس کی بہت سی باتوں سے مجھے اختلاف بھی ہے مگر اس جماعت سے متعلق کچھ ذیلی تنظیموں کی کارکردگی کا میں ہمیشہ سے مداح رہا ہوں۔ یہاں میں الخدمت فائونڈیشن کا خصوصیت سے ذکر کرنا چاہوں گا، اس کے موجودہ صدر میاں عبدالشکور میرے ذاتی دوستوں میں سے ہیں مگر اس تعلق سے قطع نظر جس تیزی ، مہارت اور ذمے داری سے ان لوگوں نے اس انتشار اور افراتفری کی صورتِ حال میں اپنی صلاحیتوں اور کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، اُس کی داد نہ دینا یقینا زیادتی ہوگی۔
تفتان بارڈر سے لائے اور سکھر میں رکھے گئے زائرین کی دیکھ بھال اور اُن کی نگہداشت کرنے والے ڈاکٹروں اور طبی عملے کی مدد کے لیے اُن کا بنایا گیا ایک کیمپ اُس کی ز ندہ مثال ہے۔ اسی طرح اُن کا ایسی آبادیوں میں ضروری راشن پہنچانا جہاں بیشتر دیہاڑی دار اور کم وسیلہ لوگ رہتے ہیں اور پھر اس کے تسلسل کو قائم رکھنا اور پھیلاتے چلے جانا اور عوام کے عطیہ کیے ہوئے فنڈز کو بہتر سے بہتر طور پر استعمال کرنا ایسے اوصاف ہیں جن کی تقلید ہم سب کو کرنی چاہیے کہ جہاں خیرات کا تعلق دردِ دل سے ہے وہاں اسے مستحق لوگوں تک ایمانداری سے پہنچانا بھی ایک خاص طرح کی تنظیم اور صلاحیت کا متقاضی ہوتا ہے ۔
مجھے خوشی ہے کہ میاں شہباز شریف نے حزبِ مخالف جماعتوں کی طرف سے مکمل تعاون کا یقین دلاتے ہوئے اپنی انتظامی صلاحیتوں کے حوالے سے بھی حکومت کو کئی اچھے مشورے دیے ہیں، اب حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ ان پر سنجیدگی اورکھلے دل سے غور کرے اور کسی قابلِ عمل اچھی بات کو محض اس وجہ سے نظر انداز نہ کرے کہ یہ اُن کے کسی سیاسی مخالف کی طرح سے آئی ہے۔
نوجوان ڈاکٹر اسامہ کی شہادت اور اس ایمرجنسی میں برسرِ عمل ہمارے ڈاکٹروں ، نرسوں اور معاون طبی عملے کی خدمات کا اعتراف اور تحسین بھی نہ صرف لازمی اور واجب ہے بلکہ انھیں ہر طرح کی ضروری سہولیات فراہم کرنا بھی حکومت سمیت ہم سب کا فریضہ اول ہونا چاہیے کہ یہ اس جنگ میں لڑنے والوں کی پہلی صف کے لوگ ہیں اور یوں سب سے زیادہ خطرے میں ہیں۔ یہاں بات کو ختم کرنے سے پہلے میں ایک بار پھر ان تمام اہلِ وطن سے ان کی مدد کی درخواست کروں گااور فی الوقت وہ مدد یہی ہے کہ نہ آپ خود بلا ضرورت گھروں سے باہر نکلیں اور نہ دوسروں کو نکلنے دیں کہ اس لاک ڈائون کا بنیادی مقصد اس وبا کے پھیلائوکو روکنا ہے اور یاد رکھنا چاہیے کہ اسے روکنے کا واحد طریقہ اپنے آپ کو روکنا ہے ہر اس چیز سے جو ہمیں بڑی وضاحت سے بتائی جاچکی ہے۔
مل کر رہنے ، بانٹ کر کھانے اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں حصہ دار بننے کے لیے اُردو اور ہماری مقامی زبانوں میں بہت سے لفظ اور استعارے مل جائیں گے مگر کورونا کی پیدا کردہ اس موجودہ صورت حال میں مجھے جو لفظ سب سے زیادہ با معنی ا ور بھرپور لگتا ہے اُس کا تعلق چودہ صدیاں قبل ہونے و الی اُس عظیم ہجرت سے ہے جسے عرفِ عام میں مواخاتِ مدینہ کہا جاتاہے کہ اس کے پس منظر میں انسانوں کے مابین جس بھائی چارے اور اخّوت کا درس دیا گیا تھا اُس کے اظہار کا ایسا موقع شائد ہی اس کے بعد کی تاریخ میں اتنی شدت سے آیا ہو۔
گزشتہ دنوں بے مثال رفاہی اور سماجی تنظیم '''اخوت'' کے بانی اور ہم سب کے محترم دوست ڈاکٹر امجد ثاقب کا ''اخّوت'' کے لیے لکھا ہوا ایک گیت نما ترانہ عزیزی علی ذی شان کی معرفت میری نظر سے گزرا جس کی مرکزی لائن ''ہم مواخات ہیں ہم مواخات ہیں'' تھی لیکن اس وقت میرے اور ڈاکٹر امجد ثاقب سمیت شائد کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ ایک ایسی صورتِ حال دنیا میں جنم لے چکی ہے جسے کل کو ہمارے وطنِ عزیز سمیت پوری دنیا کو ایک ایسے امتحان میں ڈالنا ہے جس کی اب کسی کی آخری نظیر تقریباًاسّی برس قبل ہونے والی دوسری جنگِ عظیم تھی، یہ اور بات ہے کہ دنیا کے بہت سے ممالک جو اُس وقت محض تماشائی تھے، اب خود اس تماشے کا حصہ بن چکے ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ لاک ڈائون چاہے پورا ہو یا ادھورا اب ایک حقیقت کی شکل اختیار کرچکا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اب اس میں ہونے و الی مبینہّ دیر سویرکی بحث سے آگے نکل کر ہم سب اُس کو ایک قومی مسئلے اور خطرناک صورتِ حال کی طرح سے دیکھیں اور دکھائیں ۔
ہمارے جیسے کم وسیلہ اور نسبتاً بے ترتیب معاشروں میں جہاں آبادی کے ساتھ ساتھ غربت اور جہالت کی بھی فراوانی ہے اور جہاں تقریباً ایک تہائی آبادی کسی نہ کسی حوالے سے روزانہ کی بنیاد پر زندہ رہتی ہے یعنی اُس کی حیثیت اور بنیادی ضروریات کے پورا ہونے کا تعلق کسی ایک دن سے حاصل ہونے والی کمائی اور محنت سے ہوتا ہے اور جہاں عام طور پر آٹھ دس افراد پر مشکل گھڑی میں ایک ہی کمانے والا ہوتا ہے یعنی جس روز وہ اپنی دن بھر کی محنت کے بعد جو کچھ کما کر لاتاہے اس سے اُس گھر کی روٹی روزی چلتی ہے اور اگلے دن کے لیے عام طور پر کچھ بھی بچ نہیں پاتا اب تصور کیجیے کہ کسی وجہ سے وہ شخص کام پر نہ جاسکے تو وہ رات اُس پر اور اُس کے خاندان پر کس طرح سے گزرے گی؟ اور اگر یہ دورانیہ بڑھتا چلا جائے تو پھر اُن کا کیا بنے گا؟
کسی قسم کی سیاسی بحث میں پڑے بغیر میں یہ سمجھتاہوں کہ عمران خان کے کسی کرفیو جیسے مکمل لاک ڈائون سے گریز کو بھی اس پس منظر میں دیکھنا چاہیے اس پر مستزاد یہ کہ کورونا کے پھیلائو کے اندیشے اور تباہ کاریوں کے باوجود ابھی تک کچھ لوگ کسی طرح کی پابندی یا قربانی کو ماننے سے نہ صرف انکاری ہیں بلکہ اس کا جواب جگتوں اور ٹوٹکوں میں ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں اور بجائے اس کے کہ اس قومی بلکہ بین الاقوامی آفت کے رستے میں کندھے سے کندھا ملا کر دیوار بنائیں بعض جگہوں بالخصوص سوشل میڈیا میں اس بات پر بحث ہورہی ہے کہ اس کے پھیلائو کے ضمن میں کسی خاص فرقے یا راستے کو کیوں نشانہ بنایا جارہا ہے ؟
اس میں شک نہیں کہ نامور مذہبی علماء اپنے فقہی اختلافات سے بالاتر ہوکر حکومت کے بنائے ہوئے حفاظتی پلان میں موجود مذہبی معاملات پر بہت بالغ نظری ، تعاون اور یکسوئی سے کام لے رہے ہیں لیکن یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اُن سے نیچے کی سطح پر موجود کئی لوگوں نے انتہائی غیر ذمے د اری کا ثبوت دیا ہے ا ور کورونا وائرس سے بچنے کے لیے کی جانے والی حفاظتی تدابیر کو دین کی کمزوری اور ایمان کی کمی سے کچھ اس طرح سے تعبیر کیا ہے کہ گویا ایک عزم سے وہ خود اس کے حامی اور مدد گار بن گئے ہیں، اسی افسوسناک طرزِ عمل کا نتیجہ ہے کہ وہ نوجوان طبقہ بھی جو بوجوہ اُن کے دائرہ اثر سے باہر ہے، غیر ذمے داری اور بے احتیاطی کی حد تک انھی کے رستے پر چل پڑا ہے ۔
ٹیلی وژن پر مختلف شہروں میں لاک ڈائون کی خلاف ورزی کے جو مناظر دکھائے جارہے ہیں وہ تعداد میں اتنے زیادہ اور اپنے نتائج کے اعتبار سے اس قدر ہولناک ہیں کہ اُن کی مثال صرف اجتماعی خود کشی سے ہی دی جاسکتی ہے ۔ تنگ و تاریک گلیوں اور مرکزی شاہراہوں سے ہٹی ہوئی گنجان آبادیوں میں اس مسلسل اور بے تکلفانہ آمدورفت اور میل ملاپ سے نہ صرف لاک ڈائون کا مقصد ہی فوت ہوجائے گا بلکہ بے شمار لوگوں کی تکالیف اور مشکلات بھی اپنی اثر آفرینی کے اعتبار سے صفر ہوجائیں گی اور یوں ہم اس عظیم اجتماعی قربانی کے بعد بھی ڈینجر زون سے باہر نہ نکل پائیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر گھر اور عملے کے سمجھ دار لوگ آگے آئیں اور اپنے اپنے علاقے میں اس طرح کی حرکات کا نہ صرف سختی سے نوٹس لیں بلکہ ان کو روکنے کے لیے ہر ممکن کارروائی بھی کریں۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ اس تکلیف اور دھندلائے ہوئے منظر سے باہر بہت سے اچھے اور قابلِ فخر کام بھی ہورہے ہیں ، ان کے کرنے و الوں کا تعلق بھی ہماری ہی قوم سے ہے بہت سی نیک نام رفاہی انجمنیں ہمیشہ کی طرح اس مشکل وقت میں بھی نہ صرف میدان میں نکل آتی ہیں۔ میں کبھی جماعتِ اسلامی میں شامل نہیں رہا اوراُس کی بہت سی باتوں سے مجھے اختلاف بھی ہے مگر اس جماعت سے متعلق کچھ ذیلی تنظیموں کی کارکردگی کا میں ہمیشہ سے مداح رہا ہوں۔ یہاں میں الخدمت فائونڈیشن کا خصوصیت سے ذکر کرنا چاہوں گا، اس کے موجودہ صدر میاں عبدالشکور میرے ذاتی دوستوں میں سے ہیں مگر اس تعلق سے قطع نظر جس تیزی ، مہارت اور ذمے داری سے ان لوگوں نے اس انتشار اور افراتفری کی صورتِ حال میں اپنی صلاحیتوں اور کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، اُس کی داد نہ دینا یقینا زیادتی ہوگی۔
تفتان بارڈر سے لائے اور سکھر میں رکھے گئے زائرین کی دیکھ بھال اور اُن کی نگہداشت کرنے والے ڈاکٹروں اور طبی عملے کی مدد کے لیے اُن کا بنایا گیا ایک کیمپ اُس کی ز ندہ مثال ہے۔ اسی طرح اُن کا ایسی آبادیوں میں ضروری راشن پہنچانا جہاں بیشتر دیہاڑی دار اور کم وسیلہ لوگ رہتے ہیں اور پھر اس کے تسلسل کو قائم رکھنا اور پھیلاتے چلے جانا اور عوام کے عطیہ کیے ہوئے فنڈز کو بہتر سے بہتر طور پر استعمال کرنا ایسے اوصاف ہیں جن کی تقلید ہم سب کو کرنی چاہیے کہ جہاں خیرات کا تعلق دردِ دل سے ہے وہاں اسے مستحق لوگوں تک ایمانداری سے پہنچانا بھی ایک خاص طرح کی تنظیم اور صلاحیت کا متقاضی ہوتا ہے ۔
مجھے خوشی ہے کہ میاں شہباز شریف نے حزبِ مخالف جماعتوں کی طرف سے مکمل تعاون کا یقین دلاتے ہوئے اپنی انتظامی صلاحیتوں کے حوالے سے بھی حکومت کو کئی اچھے مشورے دیے ہیں، اب حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ ان پر سنجیدگی اورکھلے دل سے غور کرے اور کسی قابلِ عمل اچھی بات کو محض اس وجہ سے نظر انداز نہ کرے کہ یہ اُن کے کسی سیاسی مخالف کی طرح سے آئی ہے۔
نوجوان ڈاکٹر اسامہ کی شہادت اور اس ایمرجنسی میں برسرِ عمل ہمارے ڈاکٹروں ، نرسوں اور معاون طبی عملے کی خدمات کا اعتراف اور تحسین بھی نہ صرف لازمی اور واجب ہے بلکہ انھیں ہر طرح کی ضروری سہولیات فراہم کرنا بھی حکومت سمیت ہم سب کا فریضہ اول ہونا چاہیے کہ یہ اس جنگ میں لڑنے والوں کی پہلی صف کے لوگ ہیں اور یوں سب سے زیادہ خطرے میں ہیں۔ یہاں بات کو ختم کرنے سے پہلے میں ایک بار پھر ان تمام اہلِ وطن سے ان کی مدد کی درخواست کروں گااور فی الوقت وہ مدد یہی ہے کہ نہ آپ خود بلا ضرورت گھروں سے باہر نکلیں اور نہ دوسروں کو نکلنے دیں کہ اس لاک ڈائون کا بنیادی مقصد اس وبا کے پھیلائوکو روکنا ہے اور یاد رکھنا چاہیے کہ اسے روکنے کا واحد طریقہ اپنے آپ کو روکنا ہے ہر اس چیز سے جو ہمیں بڑی وضاحت سے بتائی جاچکی ہے۔