کورونا سے نجات اور معیشت کی بحالی
حکومت اولین فرصت میں زرعی شعبے کی کسمپرسی اور کسانوں اور ہاریوں کی حالت زار کی طرف توجہ دے۔
ISLAMABAD:
ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے حکومتی اقدامات کے نتیجہ خیز ہونے کا قوم شدت سے انتظار کررہی ہے، دوسری جانب عالمی سطح پر محصور دکھی انسانیت کو ریلیف مہیا کرنے کے لیے جی ایٹ ممالک نے عالمی معیشت کی بحالی کے لیے پانچ کھرب ڈالر خرچ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
سعودی فرمانروا شاہ سلمان کی زیر صدارت جی ٹوئنٹی ممالک کا اجلاس ہوا جس میں کورونا وائرس سے پیدا شدہ صورتحال پر غور کیا گیا، اجلاس میں کورونا وائرس کے اثرات سے نمٹنے میں بڑی معاشی طاقتوں نے غریب ملکوں کے قرضوں سے متعلق عالمی اداروں کی اپیل پر غور کیا لیکن بنیادی مسئلہ خود عالمی معیشت کا پیداشدہ بحران ہے جس میں سب پھنسے ہوئے ہیں۔
پاکستان نے عالمی برادری اور دیگر بڑی طاقتوں سے خیر یا امداد کی جو توقع وابستہ کر رکھی ہے اس کا پورا ہونا اس لیے مشکل نظر آتا ہے کہ جن معاشی طاقتوں نے دنیا کو کورونا سے بچانا ہے وہ خود ایک مشکل ترین اقتصادی صورتحال سے دوچار ہیں، بلاشبہ امریکا کی معیشت دنیا کی طاقتور اقتصادی حقیقت ہے، وہ اس بحران سے نکل سکتی ہے، مگر امریکا میں 30 لاکھ افراد بے روزگار ہوچکے جب کہ کہا جاتا ہے کہ امریکا کورونا کا سب سے بڑا مرکز بننے کے خطرہ سے دوچار ہے، اسی طرح بھارت کی معیشت خطے کی ایک حقیقت ہے، مودی 2 ارب 26کروڑ ڈالر کا کورونا ریلیف پیکیج دینے پر تیار ہے۔
ایک طرف چین کے صدر شی چنگ پنگ نے جی ٹونٹی اجلاس میں عالمی تجارت میں رکاوٹیں دور کرنے پر زور دیا ہے دوسری جانب سعودی عرب اور روس کے درمیان تیل کی پیداوار کم کرنے پر اتفاق رائے نہ ہوسکنے کے باعث ایک ''آئل وار'' شروع ہوچکی ہے، پاکستان اس وار سے فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں ضرور ہے لیکن اسے اَن دیکھے شدید معاشی ڈیزاسٹر کا سامنا ہے، حکومت کو ادراک ہے کہ کورونا کی روک تھام کے لیے لاک ڈاؤن یا کرفیو مجبوری تو ہوسکتی ہے لیکن اسے مہم جوئی نہیں بنایا جاسکتا۔
وزیراعظم کو اس امر کا احساس ہے کہ یہ وقت ٹوٹل لاک ڈاؤن یا کرفیو کی باتیں پوائنٹ اسکورنگ کرنے کا نہیں، اس وقت قومی اتفاق رائے سے کورونا سے بچاؤ اور معیشت کی بحالی کی اشد ضرورت ہے، وفاق اور سندھ سمیت دیگر صوبائی اکائیوں کو ایک پیج پر رہتے ہوئے اقدامات کرنا ہوں گے، ایسا کوئی کنفیوژن پیدا نہ ہو جس سے قومی کاز کو نقصان پہنچ سکے۔
کوشش ہونی چاہیے کہ کورونا وائرس کی سائنٹیفک طریقوں سے موثر روک تھام اور طبی سہولتوں کے ساتھ ساتھ اکانومی کے سنگلاخ حقائق کو بھی پیش نظر رکھا جائے، کیونکہ یہ بات تو عالمی ادارہ صحت کے سربراہ بھی کہہ چکے ہیں کہ لاک ڈاؤن ہی کورونا کے اسباب کا واحد ذریعہ نہیں، ان کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ عالمی انسانیت کو بے بس یا معاشی اعتبار سے مجبور رکھنا صائب انداز فکر نہیں، یہی وجہ ہے فہمیدہ حلقوں کی یہ تشویش بلاوجہ نہیں کہ ملک کو معاشی بحران اور اقتصادی گرداب میں پھنسنے سے روکا جائے۔
بے روزگاری، اشیائے خورونوش کی رسد میں تسلسل ناگزیر ہے، اقتصادی ماہرین کثیر جہتی خدشات کے سر اٹھانے کا عندیہ دے رہے ہیں تو ان پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے، اس ضمن میں عالمی مالیاتی اداروں سے قرض کی ادائیگی کے لیے مہلت پر غور بھی جاری ہے، اقتصادی ذرائع کے مطابق ہمیں اگلے 3 ماہ کے دوران 2.3 ارب ڈالر ادا کرنے ہیں، زر مبادلہ پر دباؤ بھی آسکتا ہے۔ وزارت توانائی نے مقامی ریفائننگ کمپنیوں کی سروسز کو لازمی قرار دیتے ہوئے خام تیل کی درآمد یکم اپریل سے بند کردی ہے۔
وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت قومی رابطہ کمیٹی نے کورونا سے عوام کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے تمام صوبوں کی باہمی رضامندی سے ملک بھر میں تعلیمی ادارے 31 مئی تک بند رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، رابطہ کمیٹی کے مطابق صوبائی حکومتوں کے تعاون سے ریلیف کا نظام مربوط بنایا جائے گا، قومی رابطہ کمیٹی اگلے اجلاس میں بلوچستان اور کے پی کے حکومت کی جانب سے ٹرانسپورٹ کی بندش پر درپیش چیلنجز، ادویات، کھانے پینے کی اشیا سمیت کاروبار کھلے رکھنے کے فیصلے کا جائزہ لے گی۔
یہ خوش آئند اطلاع ہے کہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے ملک میں آٹے کی قلت کا نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ آٹے کی قلت نہیں اور خبردار کیا ہے کہ ایسی صورتحال میں ذخیرہ اندوزی کرنے والے اللہ تعالیٰ، ملک اور قوم کے مجرم ہیں، تاہم میڈیا کو آٹے کی قلت کی شکایات مختلف ذرائع سے ملی ہیں، عوام نے شکایت کی کہ آٹا آسانی سے دستیاب نہیں، چکی مالکان اور فلور ملز کے ذرائع نے گندم کی عدم رسائی کا حوالہ دیا ہے، صوبائی حکومتوں کو مسئلہ کے گمبھیر ہونے سے قبل آٹے کی قلت کی قیاس آرائیوں کا سدباب کرنا چاہیے۔
اگر یہ افواہ ہے تو اس دھویں کے پیچھے موجود تپش کا پہلے سے خاتمہ ہونا ضروری ہے۔ ذرائع کے مطابق پنجاب میں گندم کی زیر کاشت فصل کو شدید خطرات لاحق ہیں، بارشوں، ژالہ باری، ٹڈی دل اور یلورسٹ (پیلی کنگی) سے پیداوار میں کمی کا اندیشہ ہے۔
روپے کی قدر میں کمی اور ڈالر مہنگا ہونے سے پاکستان کے غیرملکی قرضوں میں 700ارب روپے کا اضافہ ہوچکا ہے۔ فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے مطابق ٹریژری بلز میں کی جانے والی غیر ملکی سرمایہ کاری میں انخلا دیکھا جارہا ہے کورونا کی وبا کی وجہ سے غیرملکی سرمایہ کار اپنا سرمایہ نکال رہے ہیں، انھوں نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ ڈالر ایکس چینج کمپنیوں کی وجہ سے مہنگا ہورہا ہے، ملک بوستان کا کہنا تھا کہ ایکس چینج کمپنیاں لاک ڈاؤن کی وجہ سے بند پڑی ہیں۔
دریں اثنا پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں کاروباری ہفتہ کے اختتام پر جمعرات کے روز شدید مندی کا تسلسل قائم نہ رہ سکا کاروباری سرگرمیوں میں اتار چڑھاؤ کی صورتحال رہی، کے ایس ای 100انڈیکس کاروبار کے اختتام پر 38 پوائنٹس اضافے کے بعد 27ہزار267 پر بند ہوئی۔ جمعرات کو مارکیٹ آغاز پر 182پوائنٹس کمی سے 27046پوائنٹس کی سطح پر آگیا تاہم پرکشش قیمتوں پر خریداری کی لہر کی وجہ سے مارکیٹ مثبت زون کی جانب بڑھ گئی ایک موقع پر انڈیکس 937پوائنٹس تک بڑھ گیا اور 28ہزار کی نفسیاتی حد بحال ہوگئی تاہم کاروبار کے اختتام تک اتار چڑھاؤ کی صورتحال رہی اور کاروبار کا اختتام 38پوائنٹس اضافہ پر ہوا، کاروباری حجم 18کروڑ 67لاکھ 45ہزار حصص تک محدود رہا۔
ضرورت ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کریک ڈاؤن کی ہے، زرعی شعبہ حکمرانوں کی نظر التفات کا مستحق ہے، ایک ایسی معیشت کا ملک منتظر ہے جسے خود کفالت دوسروں کی بیساکھی کی شکل میں ہر گز نہ ملے، کشکول توڑنے کے دن آچکے ہیں، کورونا سے جان چھڑانے کا یہ زریں موقع ہے، ہمارے مسیحاؤں نے کورونا سے نمٹنے کیلیے جوش وجذبہ، ایثار اور اخلاص و محنت کا شاندار مظاہرہ کیا ہے اس کی دنیا تعریف کررہی ہے۔
کورونا سے متاثرین کی امداد کے لیے حکومت نے اعلانات تو کیے مگر سماج دشمن عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانے کے دعوے محض دعوے ہی رہ گئے، کسی مافیا کو کوئی سزا نہیں ملی، سماج میں عام آدمی کو کورونا نے اعصابی اور جسمانی اعتبار سے مضمحل کردیا ہے ، افلاس، بیروزگاری اور بے یقینی اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے عوام میں برہمی بھی عود کر آئی ہے، اس کا اظہار نہیں ہوتا مگر اندر سے اضطراب کی گرمی اظہر من الشمس ہے۔ معاشی حالات پر حکمرانوں کی نظر ہونی چاہیے، کسی کو اس خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے کہ بغیر کھائے پیئے کوئی انسان ایک ماہ یا سال بھر تک کورونا کا عذاب برداشت کرتا رہے گا اور کوئی رد عمل سامنے نہیں آئے گا۔
ماہرین اقتصادیات مارکیٹ کے عوامل کا بار بار حوالہ دیتے رہے ہیں، حکومت کو ریلیف کے اعلانات کا پٹارہ کھولنا چاہیے، لوگ انتظار ایک حد تک کریں گے پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔ ماہرین شعبہ زراعت کے ساتھ ہونے والے کھلواڑ کی بھی دہائی دیتے آرہے ہیں، ایک اطلاع یہ ہے کہ پاکستان میں 12کروڑ افراد خط غربت سے نیچے جاسکتے ہیں، وزیراعظم کہتے ہیں کہ 70 فی صد دالیں ہم امپورٹ کرتے ہیں۔
حکومت اولین فرصت میں زرعی شعبے کی کسمپرسی اور کسانوں اور ہاریوں کی حالت زار کی طرف توجہ دے، ایک ایٹمی ملک آٹا، گھی، لہسن، ادرک ، چینی، گیس اور اشیائے خورونوش کی قلت اور مہنگائی کا شور مچائے اور اس کے عوام افلاس اور بیروزگاری سے نڈھال ہوں اس سے بڑی بے انصافی اور کیا ہوسکتی ہے، ارباب اختیار کو کورونا سے جنگ لڑنے کے ساتھ ساتھ غربت اور مہنگائی اور لاعلاجی کے خلاف بھی لڑنے کے وسائل پیدا کرنے چاہئیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ارباب اختیار کو فیصلہ سازی کی استقامت درکار ہے، ابھی تک اس بات کا فیصلہ ہوجانا چاہیے تھا کہ وطن عزیز کس قسم کی غیر ملکی امداد چاہتا ہے، ظاہر ہے کہ عالمی کساد بازاری کو سینگ تو لگے نہیں ، ہر باشعور شخص جانتا ہے کہ دنیا ایک برمودا ٹرائنگل میں الجھی ہوئی ہے، کورونا نے اعصاب جھنجھوڑ دیے ہیں، لاک ڈاؤن یا شٹ ڈاؤن کی پیدا شدہ صورتحال کے اندر سے حکومت کو اپنی مثالی حکمت عملی پیش کرنی چاہیے، چین نے کورونا کا درد سہا اور اس کی دوا بھی بنالی۔
اب ووہان میں کوئی کورونا وائرس نہیں، چین کے تجربے سے سیکھنے کے لیے جنوری کی ابتدائی تاریخوں میں ہمیں کورونا کے وبال سے نمٹنے کی تیاری کرلینی چاہیے تھی مگر ہم خواب خرگوش میں پڑے رہے، اب بھی وقت ہاتھ سے نہیں گیا۔ کورونا کو ایک حادثہ سمجھ کر اس سے دائمی سبق سیکھنا ہی ایک تاریخی رویہ ہے، اسے یاد رکھنا چاہیے۔
ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے حکومتی اقدامات کے نتیجہ خیز ہونے کا قوم شدت سے انتظار کررہی ہے، دوسری جانب عالمی سطح پر محصور دکھی انسانیت کو ریلیف مہیا کرنے کے لیے جی ایٹ ممالک نے عالمی معیشت کی بحالی کے لیے پانچ کھرب ڈالر خرچ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
سعودی فرمانروا شاہ سلمان کی زیر صدارت جی ٹوئنٹی ممالک کا اجلاس ہوا جس میں کورونا وائرس سے پیدا شدہ صورتحال پر غور کیا گیا، اجلاس میں کورونا وائرس کے اثرات سے نمٹنے میں بڑی معاشی طاقتوں نے غریب ملکوں کے قرضوں سے متعلق عالمی اداروں کی اپیل پر غور کیا لیکن بنیادی مسئلہ خود عالمی معیشت کا پیداشدہ بحران ہے جس میں سب پھنسے ہوئے ہیں۔
پاکستان نے عالمی برادری اور دیگر بڑی طاقتوں سے خیر یا امداد کی جو توقع وابستہ کر رکھی ہے اس کا پورا ہونا اس لیے مشکل نظر آتا ہے کہ جن معاشی طاقتوں نے دنیا کو کورونا سے بچانا ہے وہ خود ایک مشکل ترین اقتصادی صورتحال سے دوچار ہیں، بلاشبہ امریکا کی معیشت دنیا کی طاقتور اقتصادی حقیقت ہے، وہ اس بحران سے نکل سکتی ہے، مگر امریکا میں 30 لاکھ افراد بے روزگار ہوچکے جب کہ کہا جاتا ہے کہ امریکا کورونا کا سب سے بڑا مرکز بننے کے خطرہ سے دوچار ہے، اسی طرح بھارت کی معیشت خطے کی ایک حقیقت ہے، مودی 2 ارب 26کروڑ ڈالر کا کورونا ریلیف پیکیج دینے پر تیار ہے۔
ایک طرف چین کے صدر شی چنگ پنگ نے جی ٹونٹی اجلاس میں عالمی تجارت میں رکاوٹیں دور کرنے پر زور دیا ہے دوسری جانب سعودی عرب اور روس کے درمیان تیل کی پیداوار کم کرنے پر اتفاق رائے نہ ہوسکنے کے باعث ایک ''آئل وار'' شروع ہوچکی ہے، پاکستان اس وار سے فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں ضرور ہے لیکن اسے اَن دیکھے شدید معاشی ڈیزاسٹر کا سامنا ہے، حکومت کو ادراک ہے کہ کورونا کی روک تھام کے لیے لاک ڈاؤن یا کرفیو مجبوری تو ہوسکتی ہے لیکن اسے مہم جوئی نہیں بنایا جاسکتا۔
وزیراعظم کو اس امر کا احساس ہے کہ یہ وقت ٹوٹل لاک ڈاؤن یا کرفیو کی باتیں پوائنٹ اسکورنگ کرنے کا نہیں، اس وقت قومی اتفاق رائے سے کورونا سے بچاؤ اور معیشت کی بحالی کی اشد ضرورت ہے، وفاق اور سندھ سمیت دیگر صوبائی اکائیوں کو ایک پیج پر رہتے ہوئے اقدامات کرنا ہوں گے، ایسا کوئی کنفیوژن پیدا نہ ہو جس سے قومی کاز کو نقصان پہنچ سکے۔
کوشش ہونی چاہیے کہ کورونا وائرس کی سائنٹیفک طریقوں سے موثر روک تھام اور طبی سہولتوں کے ساتھ ساتھ اکانومی کے سنگلاخ حقائق کو بھی پیش نظر رکھا جائے، کیونکہ یہ بات تو عالمی ادارہ صحت کے سربراہ بھی کہہ چکے ہیں کہ لاک ڈاؤن ہی کورونا کے اسباب کا واحد ذریعہ نہیں، ان کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ عالمی انسانیت کو بے بس یا معاشی اعتبار سے مجبور رکھنا صائب انداز فکر نہیں، یہی وجہ ہے فہمیدہ حلقوں کی یہ تشویش بلاوجہ نہیں کہ ملک کو معاشی بحران اور اقتصادی گرداب میں پھنسنے سے روکا جائے۔
بے روزگاری، اشیائے خورونوش کی رسد میں تسلسل ناگزیر ہے، اقتصادی ماہرین کثیر جہتی خدشات کے سر اٹھانے کا عندیہ دے رہے ہیں تو ان پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے، اس ضمن میں عالمی مالیاتی اداروں سے قرض کی ادائیگی کے لیے مہلت پر غور بھی جاری ہے، اقتصادی ذرائع کے مطابق ہمیں اگلے 3 ماہ کے دوران 2.3 ارب ڈالر ادا کرنے ہیں، زر مبادلہ پر دباؤ بھی آسکتا ہے۔ وزارت توانائی نے مقامی ریفائننگ کمپنیوں کی سروسز کو لازمی قرار دیتے ہوئے خام تیل کی درآمد یکم اپریل سے بند کردی ہے۔
وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت قومی رابطہ کمیٹی نے کورونا سے عوام کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے تمام صوبوں کی باہمی رضامندی سے ملک بھر میں تعلیمی ادارے 31 مئی تک بند رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، رابطہ کمیٹی کے مطابق صوبائی حکومتوں کے تعاون سے ریلیف کا نظام مربوط بنایا جائے گا، قومی رابطہ کمیٹی اگلے اجلاس میں بلوچستان اور کے پی کے حکومت کی جانب سے ٹرانسپورٹ کی بندش پر درپیش چیلنجز، ادویات، کھانے پینے کی اشیا سمیت کاروبار کھلے رکھنے کے فیصلے کا جائزہ لے گی۔
یہ خوش آئند اطلاع ہے کہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے ملک میں آٹے کی قلت کا نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ آٹے کی قلت نہیں اور خبردار کیا ہے کہ ایسی صورتحال میں ذخیرہ اندوزی کرنے والے اللہ تعالیٰ، ملک اور قوم کے مجرم ہیں، تاہم میڈیا کو آٹے کی قلت کی شکایات مختلف ذرائع سے ملی ہیں، عوام نے شکایت کی کہ آٹا آسانی سے دستیاب نہیں، چکی مالکان اور فلور ملز کے ذرائع نے گندم کی عدم رسائی کا حوالہ دیا ہے، صوبائی حکومتوں کو مسئلہ کے گمبھیر ہونے سے قبل آٹے کی قلت کی قیاس آرائیوں کا سدباب کرنا چاہیے۔
اگر یہ افواہ ہے تو اس دھویں کے پیچھے موجود تپش کا پہلے سے خاتمہ ہونا ضروری ہے۔ ذرائع کے مطابق پنجاب میں گندم کی زیر کاشت فصل کو شدید خطرات لاحق ہیں، بارشوں، ژالہ باری، ٹڈی دل اور یلورسٹ (پیلی کنگی) سے پیداوار میں کمی کا اندیشہ ہے۔
روپے کی قدر میں کمی اور ڈالر مہنگا ہونے سے پاکستان کے غیرملکی قرضوں میں 700ارب روپے کا اضافہ ہوچکا ہے۔ فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے مطابق ٹریژری بلز میں کی جانے والی غیر ملکی سرمایہ کاری میں انخلا دیکھا جارہا ہے کورونا کی وبا کی وجہ سے غیرملکی سرمایہ کار اپنا سرمایہ نکال رہے ہیں، انھوں نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ ڈالر ایکس چینج کمپنیوں کی وجہ سے مہنگا ہورہا ہے، ملک بوستان کا کہنا تھا کہ ایکس چینج کمپنیاں لاک ڈاؤن کی وجہ سے بند پڑی ہیں۔
دریں اثنا پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں کاروباری ہفتہ کے اختتام پر جمعرات کے روز شدید مندی کا تسلسل قائم نہ رہ سکا کاروباری سرگرمیوں میں اتار چڑھاؤ کی صورتحال رہی، کے ایس ای 100انڈیکس کاروبار کے اختتام پر 38 پوائنٹس اضافے کے بعد 27ہزار267 پر بند ہوئی۔ جمعرات کو مارکیٹ آغاز پر 182پوائنٹس کمی سے 27046پوائنٹس کی سطح پر آگیا تاہم پرکشش قیمتوں پر خریداری کی لہر کی وجہ سے مارکیٹ مثبت زون کی جانب بڑھ گئی ایک موقع پر انڈیکس 937پوائنٹس تک بڑھ گیا اور 28ہزار کی نفسیاتی حد بحال ہوگئی تاہم کاروبار کے اختتام تک اتار چڑھاؤ کی صورتحال رہی اور کاروبار کا اختتام 38پوائنٹس اضافہ پر ہوا، کاروباری حجم 18کروڑ 67لاکھ 45ہزار حصص تک محدود رہا۔
ضرورت ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کریک ڈاؤن کی ہے، زرعی شعبہ حکمرانوں کی نظر التفات کا مستحق ہے، ایک ایسی معیشت کا ملک منتظر ہے جسے خود کفالت دوسروں کی بیساکھی کی شکل میں ہر گز نہ ملے، کشکول توڑنے کے دن آچکے ہیں، کورونا سے جان چھڑانے کا یہ زریں موقع ہے، ہمارے مسیحاؤں نے کورونا سے نمٹنے کیلیے جوش وجذبہ، ایثار اور اخلاص و محنت کا شاندار مظاہرہ کیا ہے اس کی دنیا تعریف کررہی ہے۔
کورونا سے متاثرین کی امداد کے لیے حکومت نے اعلانات تو کیے مگر سماج دشمن عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانے کے دعوے محض دعوے ہی رہ گئے، کسی مافیا کو کوئی سزا نہیں ملی، سماج میں عام آدمی کو کورونا نے اعصابی اور جسمانی اعتبار سے مضمحل کردیا ہے ، افلاس، بیروزگاری اور بے یقینی اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے عوام میں برہمی بھی عود کر آئی ہے، اس کا اظہار نہیں ہوتا مگر اندر سے اضطراب کی گرمی اظہر من الشمس ہے۔ معاشی حالات پر حکمرانوں کی نظر ہونی چاہیے، کسی کو اس خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے کہ بغیر کھائے پیئے کوئی انسان ایک ماہ یا سال بھر تک کورونا کا عذاب برداشت کرتا رہے گا اور کوئی رد عمل سامنے نہیں آئے گا۔
ماہرین اقتصادیات مارکیٹ کے عوامل کا بار بار حوالہ دیتے رہے ہیں، حکومت کو ریلیف کے اعلانات کا پٹارہ کھولنا چاہیے، لوگ انتظار ایک حد تک کریں گے پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔ ماہرین شعبہ زراعت کے ساتھ ہونے والے کھلواڑ کی بھی دہائی دیتے آرہے ہیں، ایک اطلاع یہ ہے کہ پاکستان میں 12کروڑ افراد خط غربت سے نیچے جاسکتے ہیں، وزیراعظم کہتے ہیں کہ 70 فی صد دالیں ہم امپورٹ کرتے ہیں۔
حکومت اولین فرصت میں زرعی شعبے کی کسمپرسی اور کسانوں اور ہاریوں کی حالت زار کی طرف توجہ دے، ایک ایٹمی ملک آٹا، گھی، لہسن، ادرک ، چینی، گیس اور اشیائے خورونوش کی قلت اور مہنگائی کا شور مچائے اور اس کے عوام افلاس اور بیروزگاری سے نڈھال ہوں اس سے بڑی بے انصافی اور کیا ہوسکتی ہے، ارباب اختیار کو کورونا سے جنگ لڑنے کے ساتھ ساتھ غربت اور مہنگائی اور لاعلاجی کے خلاف بھی لڑنے کے وسائل پیدا کرنے چاہئیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ارباب اختیار کو فیصلہ سازی کی استقامت درکار ہے، ابھی تک اس بات کا فیصلہ ہوجانا چاہیے تھا کہ وطن عزیز کس قسم کی غیر ملکی امداد چاہتا ہے، ظاہر ہے کہ عالمی کساد بازاری کو سینگ تو لگے نہیں ، ہر باشعور شخص جانتا ہے کہ دنیا ایک برمودا ٹرائنگل میں الجھی ہوئی ہے، کورونا نے اعصاب جھنجھوڑ دیے ہیں، لاک ڈاؤن یا شٹ ڈاؤن کی پیدا شدہ صورتحال کے اندر سے حکومت کو اپنی مثالی حکمت عملی پیش کرنی چاہیے، چین نے کورونا کا درد سہا اور اس کی دوا بھی بنالی۔
اب ووہان میں کوئی کورونا وائرس نہیں، چین کے تجربے سے سیکھنے کے لیے جنوری کی ابتدائی تاریخوں میں ہمیں کورونا کے وبال سے نمٹنے کی تیاری کرلینی چاہیے تھی مگر ہم خواب خرگوش میں پڑے رہے، اب بھی وقت ہاتھ سے نہیں گیا۔ کورونا کو ایک حادثہ سمجھ کر اس سے دائمی سبق سیکھنا ہی ایک تاریخی رویہ ہے، اسے یاد رکھنا چاہیے۔