ٹیلی کام کمپنیوں کے دفاتر اور ایزی لوڈ کی دکانیں بند
کراچی میں 90 فیصد سے زائد بیلنس لوڈ کی دکانیں، سیلز اور فرنچائز بند ہونے سے عوام پریشان
شہر میں لاک ڈاؤن کے دوران ٹیلی کام کمپنیوں کے سیلز دفاتر، فرنچائز اور گلی محلوں میں واقع بیلنس لوڈ کرانے کی دکانیں بھی بند ہیں جس کی وجہ سے شہریوں کو ٹیلی کمیونی کیشن خدمات کے حصول اور موبائل فون کے ذریعے باہم رابطے استوار رکھنے میں دشواری کا سامنا ہے۔
لاک ڈاؤن کی وجہ سے شہری گھروں تک محدود ہیں اور ایک دوسرے سے موبائل فون پر رابطہ کررہے ہیں ، موبائل انٹرنیٹ بھی شہریوں کو معلومات کی فراہمی اور اپنے دوستوں رشتے داروں کی خیریت سے باخبر رہنے کا اہم ذریعہ ہے تاہم ٹیلی کام کمپنیوں کے دفاتر اور بیلنس کی دکانیں بند ہونے سے شہریوں کے لیے لاک ڈاؤن کی مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں۔
شہریوں کے مطابق نجی کمپنیوں کے ملازم گھروں سے کام کررہے ہیں جس میں زیادہ تر انٹرنیٹ استعمال کیا جارہا ہے، موبائل کمپنیوں کی فرنچائز اور بیلنس لوڈ کرنے کی دکانیں رقوم کی ڈیجیٹل منتقلی اور آن لائن لین دین کا بھی اہم ذریعہ ہیں تاہم دکانیں اور فرنچائز بند ہونے کی وجہ سے شہریوں کے لیے ڈیجیٹل بینکاری کی خدمات سے استفادہ بھی مشکل ہوگیا اور نہیں مجبوراً بینکوں کی شاخوں کا رخ کرنا پڑرہا ہے جہاں رش لگنے سے کرونا وائرس پھیلنے کا خطرہ ہے، شہر میں 90فیصد سے زائد بیلنس لوڈ کرنے کی دکانیں ، سیلز اور فرنچائز دفاتر بند پڑے ہیں۔
سندھ حکومت کے لاک ڈاؤن کے نوٹیفکیشن میں ٹیلی کمیونی کیشن اور انٹرنیٹ خدمات کو لازمی خدمات قرار دیتے ہوئے استثنیٰ حاصل ہے تاہم شہر میں ٹیلی کام کمپنیوں کے عملے کو آزادانہ نقل و حرکت میں دشواری کا سامنا کرنا پررہا ہے جس کی وجہ سے موبائل کمپنیوں کے لیے تکنیکی مرمت اور خدمات جاری رکھنے کے لیے ریپئر مینٹی نینس کے امور کی انجام دہی بھی دشواری کا شکار ہے۔
رابطہ کرنے پر یوفون کے ترجمان نے مشکلات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ مشکل حالات میںٹیلی کام سیکٹر انتہائی اہمیت کا حامل ہے تاہم بدقستمی سے ٹیلی کام سیکٹر کو ہی اپنی خدمات جاری رکھنے میں دشواریوں کا سامنا ہے۔
ایک جانب ریٹیلرز کی دکانیں بند ہونے سے طلب و رسد کا توازن بگڑ گیا ہے دوسری جانب بلاتعطل خدمات کو یقینی بنانے کے لیے سرگرم عمل تکنیکی عملہ اور انجینئرز سفری پابندیوں کی وجہ سے سیل سائٹس اور ٹاورز تک پہنچنے میں ناکام ہیں ان رکاوٹوں کی وجہ سے نیٹ ورک کی کارکردگی بری طرح متاثر ہورہی ہے۔
لاک ڈاؤن کی وجہ سے شہری گھروں تک محدود ہیں اور ایک دوسرے سے موبائل فون پر رابطہ کررہے ہیں ، موبائل انٹرنیٹ بھی شہریوں کو معلومات کی فراہمی اور اپنے دوستوں رشتے داروں کی خیریت سے باخبر رہنے کا اہم ذریعہ ہے تاہم ٹیلی کام کمپنیوں کے دفاتر اور بیلنس کی دکانیں بند ہونے سے شہریوں کے لیے لاک ڈاؤن کی مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں۔
شہریوں کے مطابق نجی کمپنیوں کے ملازم گھروں سے کام کررہے ہیں جس میں زیادہ تر انٹرنیٹ استعمال کیا جارہا ہے، موبائل کمپنیوں کی فرنچائز اور بیلنس لوڈ کرنے کی دکانیں رقوم کی ڈیجیٹل منتقلی اور آن لائن لین دین کا بھی اہم ذریعہ ہیں تاہم دکانیں اور فرنچائز بند ہونے کی وجہ سے شہریوں کے لیے ڈیجیٹل بینکاری کی خدمات سے استفادہ بھی مشکل ہوگیا اور نہیں مجبوراً بینکوں کی شاخوں کا رخ کرنا پڑرہا ہے جہاں رش لگنے سے کرونا وائرس پھیلنے کا خطرہ ہے، شہر میں 90فیصد سے زائد بیلنس لوڈ کرنے کی دکانیں ، سیلز اور فرنچائز دفاتر بند پڑے ہیں۔
سندھ حکومت کے لاک ڈاؤن کے نوٹیفکیشن میں ٹیلی کمیونی کیشن اور انٹرنیٹ خدمات کو لازمی خدمات قرار دیتے ہوئے استثنیٰ حاصل ہے تاہم شہر میں ٹیلی کام کمپنیوں کے عملے کو آزادانہ نقل و حرکت میں دشواری کا سامنا کرنا پررہا ہے جس کی وجہ سے موبائل کمپنیوں کے لیے تکنیکی مرمت اور خدمات جاری رکھنے کے لیے ریپئر مینٹی نینس کے امور کی انجام دہی بھی دشواری کا شکار ہے۔
رابطہ کرنے پر یوفون کے ترجمان نے مشکلات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ مشکل حالات میںٹیلی کام سیکٹر انتہائی اہمیت کا حامل ہے تاہم بدقستمی سے ٹیلی کام سیکٹر کو ہی اپنی خدمات جاری رکھنے میں دشواریوں کا سامنا ہے۔
ایک جانب ریٹیلرز کی دکانیں بند ہونے سے طلب و رسد کا توازن بگڑ گیا ہے دوسری جانب بلاتعطل خدمات کو یقینی بنانے کے لیے سرگرم عمل تکنیکی عملہ اور انجینئرز سفری پابندیوں کی وجہ سے سیل سائٹس اور ٹاورز تک پہنچنے میں ناکام ہیں ان رکاوٹوں کی وجہ سے نیٹ ورک کی کارکردگی بری طرح متاثر ہورہی ہے۔