اللہ کی نافرمانی اور عذاب
اللہ کی نافرمان قوموں کے حصے میں ہمیشہ بربادی آتی ہے
اللہ کی نافرمان قوموں کے حصے میں ہمیشہ بربادی آتی ہے اور وہ نشان عبرت بن جاتی ہیں جس طرح بنی اسرائیل نے اپنی طویل تاریخ میں اللہ تعالیٰ کی ہمیشہ نافرمانی کی، سوائے چند لوگوں کے جنھوں نے دین حق کو دل سے قبول کیا جب کہ بیسیوں انبیا علیہ السلام ان کی ہدایت کے لیے بھیجے گئے لیکن انھوں نے اللہ کے پیغام کو ہنسی مذاق میں ٹال دیا اور ان نبیوں پر زیادتی کرکے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالا، ان کے اس ظالمانہ رویوں سے متنبہ کرنے کے لیے باری تعالیٰ نے انھیں بار بار عذاب میں مبتلا کیا وہ وقتی طور پر تائب ہوجاتے اور پھر اسی راہ پر چلنے لگتے۔ یہودیوں کی مقدس کتاب صحائف انبیا میں ان کی حرکتوں کا ذکر موجود ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور دوسرے انبیا کرام کی ہدایات پر انھوں نے دھیان نہیں دھرا اور اس بات سے بھی غافل رہے کہ ان کی مذہبی کتاب جوکہ آسمان سے نازل ہوئی ہے، اس کا نام تورات ہے ایسا ہی حال یروشلم کے فرمانرواؤں کا تھا ۔یہودیوں کی کتابوں میں اللہ تعالیٰ نے دو بڑے عذابوں کا ذکر کیا ہے جس میں ان کی ہر چیز برباد کردی گئی تھی اور وہ لاکھوں کی تعداد میں قتل ہوئے تھے لیکن انھوں نے گمراہی کا راستہ اختیار کرلیا اور اپنی مذہبی کتابوں کو پڑھنے کی ضرورت ہرگز محسوس نہیں کی، جس طرح آج ہم مسلمانوں کا حال ہے، دنیا کے بے شمار علوم پڑھنے اور اس میں ترقی کرنے کے لیے کوشش کی جاتی ہے لیکن سب سے بڑی کتاب کو کھولنے کی زحمت گوارا کرنا گویا مشکل ترین کام سمجھا جاتا ہے۔ جب کہ ہمارے سامنے مثالیں موجود ہیں کہ اللہ دین و دنیا دونوں مقامات پر انسان کے کیے کا بدلہ لوٹاتا ہے۔
ایک وہ زمانہ بھی تھا جب فلسطین پر مشرک قابض تھے مصر سے جب فلسطین جا رہے تھے تب اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا تھا کہ فلسطین پر قبضے کے بعد وہ بت پرستی سے باز رہیں گے اور اللہ کی وحدانیت پر یقین لے آئیں گے اور برائیوں سے بچتے رہیں گے لیکن وہاں پہنچتے ہی اللہ سے کیے ہوئے وعدے کو فراموش کر بیٹھے اور اپنی من مانیوں پر اتر آئے۔ انھوں نے دوسری ہمسایہ قوموں کے خلاف سازشیں اور حملے شروع کردیے نتیجہ یہ ہوا کہ ان قوموں نے ان پر حملہ کردیا اور انھیں فلسطین سے نکال دیا اور ان کا مقدس صندوق جس میں احکامات عشرہ کی تختیاں اور حضرت مو سی ٰؑ کا عصا موجود تھا ضبط کرلیا اس کے ساتھ انھوں نے یہودیوں کے ہزاروں افراد کو قتل کر ڈالا اور بہت سوں کو غلام بنا لیا فلسطین کے ہی جنوب میں یہودی آباد تھے یہ بھی شرک اور بداعمالیوں پر عمل پیرا تھے۔
یہودی جو کہ فطرتاً سازشی فطرت رکھتے تھے اس لیے بار بار رسوا ہوئے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دور میں خود یہودیوں نے رومیوں کو فلسطین پر قبضہ کرنے کی دعوت بخوشی دی تھی لیکن نصف صدی گزرتے ہی وہ رومیوں کے بھی مخالف ہوگئے اور بغاوت شروع کردی۔ رومیوں کے سپہ سالار طیلوس (Tilus) نے یہودیوں کو ہلاک کرنا شروع کردیا اس حملے میں سوا لاکھ یہودی قتل ہوئے اور 27 ہزار یہودی غلام بنا لیے گئے، انھی کو رومی بادشاہ تفریح طبع کے طور پر شیروں کے آگے ڈال دیا کرتے اور جو انھیں ذرا سی دیر میں ٹکڑے ٹکڑے کرکے کھا لیا کرتے تھے ۔تاریخ میں ان واقعات کو رومی اکھاڑے کے نام سے یاد رکھا جاتا ہے۔ طیلوس نے یہودیوں کے ہیکل اور شہر کو برباد کردیا اس طرح یہودیوں کو اپنی تاریخ کے دوسرے بڑے عذاب سے گزرنا پڑا۔ سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 7 میں اس طرح اشارہ کیا گیا ہے کہ ''پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے دوسرے دشمنوں کو تمہارے اوپر مسلط کردیا تاکہ وہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں جیساکہ پہلے دشمن داخل ہوئے تھے اور جس چیز پر ہاتھ پڑے اسے تباہ کرکے رکھ دیں۔''
اللہ رب العزت نے مسلمانوں کو بھی شان و تمکنت عطا کی تھی، عظیم فتح مکہ کے موقع پر پوری دنیا پر مسلمانوں کا غلبہ تھا، اسلام کی دھوم تھی اور اہل ایمان کا چرچا تھا اللہ ان سے خوش تھا اس لیے بڑی بڑی فتوحات ان کے مقدر میں ان کے نیک اعمال اور تقویٰ کی بنا پر لکھ دی گئی تھیں جس کا ذکر سورۃ الفتح میں ملتا ہے۔ اور خطبہ حجۃالوداع کے موقع پر اللہ نے فرما دیا تھا ''اکملتُ لکم دینکم'' آج ہم نے تمہارا دین مکمل کردیا ہے۔
اور رسول پاکؐ نے فرمایا کہ عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر فوقیت نہیں ہے اور نہ کالے کو گورے پر ، اگر فوقیت ہے تو تقویٰ کی بنیاد پر، لیکن امت مسلمہ نے آپس کے اتحاد و اتفاق کو پارہ پارہ کردیا اور مغربی تہذیب کو اپناکر اللہ کے عذاب کو دعوت دے دی، آج یہ حال ہے کہ کورونا وائرس نے دنیا بھر کے لوگوں کو گھروں میں قید کر دیا ہے، مساجد بند کردی گئیں اور خانہ کعبہ کا طواف روک دیا گیا۔ قرآنی تعلیم پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ ہمارے سامنے موجود ہے۔ اللہ کی نافرمانی اور بے حیائی و بے شرمی، بدی اور گناہوں کی کثرت سے آج ہمارا حال بھی وہی ہو گیا ہے جو دوسری قوموں کا تھا۔ ہمیں اس بات پر ضرور ناز ہے کہ ہم محمد ﷺ کے امتی ہیں لیکن احساس نہیں ہے کہ ہم روز قیامت کس طرح آقا کریم ﷺ کا سامنا کریں گے ہر وہ گناہ ہم نے کیا ہے جو زمانہ جاہلیت میں کیا جاتا تھا۔ جنت، دوزخ عمل سے ملتی ہے۔
نبی اکرمﷺ کی متعدد حدیثوں میں یہ پیش گوئی ملتی ہے کہ قیامت کی نشانیوں میں ایک نشانی یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف ایک زبردست عالمی خونی جنگ مسلط ہوگی۔ بیشتر احادیث میں اس جنگ کو ''ملحمۃ الکبریٰ''کہا گیا ہے اس جنگ میں بے شمار مسلمان شہید ہوں گے حال یہ ہوگا کہ 100 میں سے 99 مسلمان شہید ہوں گے ایک مسلمان زندہ بچ سکے گا، اسی ہولناکی کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے اس کا نام ملحمۃ الکبریٰThe Great Bloody War قرار دیا ہے۔ جس کی قیادت حضرت امام مہدی خود کریں گے دوسری طرف دشمن افواج کی قیادت دجال کر رہا ہوگا، اس طرح امام مہدی اور دجال آمنے سامنے ہوں گے۔ ایک حدیث کے مطابق مسلمانوں کی افواج کا ایک تہائی حصہ میدان جنگ سے منہ موڑ لے گا جسے اللہ کبھی معاف نہیں کرے گا چوتھے روز مسلم افواج کے سپاہی اللہ سے جان کی بازی لگانے کا عہد و پیماں کریں گے اور اس کے نتیجے میں اللہ دشمن کو جڑ سے اکھاڑ دے گا اور مسلم افواج کو فتح و نصرت نصیب ہوگی۔
آپؐ نے فرمایا کہ'' تمام تر زوال کے بعد دین اسلام ہر اس جگہ پر پہنچ کر رہے گا جہاں دن اور رات طلوع ہوتے ہیں۔ '' ایک موقع پر حضرت محمد ﷺ نے فرمایا کہ'' ہر جگہ امن و امان قائم ہو جائے گا اور لوگ تلواروں کو اپنی درانتی کی طرح استعمال کریں گے۔ بھیڑیا بھیڑ کے ساتھ چرے گا اور شیر بیل کے ساتھ رہے گا اور کسی کو کسی کے ساتھ خطرہ نہ ہوگا (مسلم کتاب الایمان) یہ صورتحال اس وقت پیش آئے گی جب قیامت کی نشانیاں پوری ہو جائیں گی۔ اور سورج سوا نیزے پر آنے کے لیے تیار کھڑا ہوگا۔ دنیا بھر کے انسانوں اور مسلمانوں کی یہ بہت بڑی خوش نصیبی تھی کہ ان کی رہنمائی کے لیے رسول آخر الزماںﷺ جیسی لازوال ہستی دنیا میں تشریف لائی اور روز قیامت شفاعت کا سبب ہوگی، لیکن افسوس ہم نے قرآن کی تعلیم اور نبی پاک ﷺ کی سیرت پاک کو یکسر فراموش کردیا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور دوسرے انبیا کرام کی ہدایات پر انھوں نے دھیان نہیں دھرا اور اس بات سے بھی غافل رہے کہ ان کی مذہبی کتاب جوکہ آسمان سے نازل ہوئی ہے، اس کا نام تورات ہے ایسا ہی حال یروشلم کے فرمانرواؤں کا تھا ۔یہودیوں کی کتابوں میں اللہ تعالیٰ نے دو بڑے عذابوں کا ذکر کیا ہے جس میں ان کی ہر چیز برباد کردی گئی تھی اور وہ لاکھوں کی تعداد میں قتل ہوئے تھے لیکن انھوں نے گمراہی کا راستہ اختیار کرلیا اور اپنی مذہبی کتابوں کو پڑھنے کی ضرورت ہرگز محسوس نہیں کی، جس طرح آج ہم مسلمانوں کا حال ہے، دنیا کے بے شمار علوم پڑھنے اور اس میں ترقی کرنے کے لیے کوشش کی جاتی ہے لیکن سب سے بڑی کتاب کو کھولنے کی زحمت گوارا کرنا گویا مشکل ترین کام سمجھا جاتا ہے۔ جب کہ ہمارے سامنے مثالیں موجود ہیں کہ اللہ دین و دنیا دونوں مقامات پر انسان کے کیے کا بدلہ لوٹاتا ہے۔
ایک وہ زمانہ بھی تھا جب فلسطین پر مشرک قابض تھے مصر سے جب فلسطین جا رہے تھے تب اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا تھا کہ فلسطین پر قبضے کے بعد وہ بت پرستی سے باز رہیں گے اور اللہ کی وحدانیت پر یقین لے آئیں گے اور برائیوں سے بچتے رہیں گے لیکن وہاں پہنچتے ہی اللہ سے کیے ہوئے وعدے کو فراموش کر بیٹھے اور اپنی من مانیوں پر اتر آئے۔ انھوں نے دوسری ہمسایہ قوموں کے خلاف سازشیں اور حملے شروع کردیے نتیجہ یہ ہوا کہ ان قوموں نے ان پر حملہ کردیا اور انھیں فلسطین سے نکال دیا اور ان کا مقدس صندوق جس میں احکامات عشرہ کی تختیاں اور حضرت مو سی ٰؑ کا عصا موجود تھا ضبط کرلیا اس کے ساتھ انھوں نے یہودیوں کے ہزاروں افراد کو قتل کر ڈالا اور بہت سوں کو غلام بنا لیا فلسطین کے ہی جنوب میں یہودی آباد تھے یہ بھی شرک اور بداعمالیوں پر عمل پیرا تھے۔
یہودی جو کہ فطرتاً سازشی فطرت رکھتے تھے اس لیے بار بار رسوا ہوئے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دور میں خود یہودیوں نے رومیوں کو فلسطین پر قبضہ کرنے کی دعوت بخوشی دی تھی لیکن نصف صدی گزرتے ہی وہ رومیوں کے بھی مخالف ہوگئے اور بغاوت شروع کردی۔ رومیوں کے سپہ سالار طیلوس (Tilus) نے یہودیوں کو ہلاک کرنا شروع کردیا اس حملے میں سوا لاکھ یہودی قتل ہوئے اور 27 ہزار یہودی غلام بنا لیے گئے، انھی کو رومی بادشاہ تفریح طبع کے طور پر شیروں کے آگے ڈال دیا کرتے اور جو انھیں ذرا سی دیر میں ٹکڑے ٹکڑے کرکے کھا لیا کرتے تھے ۔تاریخ میں ان واقعات کو رومی اکھاڑے کے نام سے یاد رکھا جاتا ہے۔ طیلوس نے یہودیوں کے ہیکل اور شہر کو برباد کردیا اس طرح یہودیوں کو اپنی تاریخ کے دوسرے بڑے عذاب سے گزرنا پڑا۔ سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 7 میں اس طرح اشارہ کیا گیا ہے کہ ''پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے دوسرے دشمنوں کو تمہارے اوپر مسلط کردیا تاکہ وہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں جیساکہ پہلے دشمن داخل ہوئے تھے اور جس چیز پر ہاتھ پڑے اسے تباہ کرکے رکھ دیں۔''
اللہ رب العزت نے مسلمانوں کو بھی شان و تمکنت عطا کی تھی، عظیم فتح مکہ کے موقع پر پوری دنیا پر مسلمانوں کا غلبہ تھا، اسلام کی دھوم تھی اور اہل ایمان کا چرچا تھا اللہ ان سے خوش تھا اس لیے بڑی بڑی فتوحات ان کے مقدر میں ان کے نیک اعمال اور تقویٰ کی بنا پر لکھ دی گئی تھیں جس کا ذکر سورۃ الفتح میں ملتا ہے۔ اور خطبہ حجۃالوداع کے موقع پر اللہ نے فرما دیا تھا ''اکملتُ لکم دینکم'' آج ہم نے تمہارا دین مکمل کردیا ہے۔
اور رسول پاکؐ نے فرمایا کہ عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر فوقیت نہیں ہے اور نہ کالے کو گورے پر ، اگر فوقیت ہے تو تقویٰ کی بنیاد پر، لیکن امت مسلمہ نے آپس کے اتحاد و اتفاق کو پارہ پارہ کردیا اور مغربی تہذیب کو اپناکر اللہ کے عذاب کو دعوت دے دی، آج یہ حال ہے کہ کورونا وائرس نے دنیا بھر کے لوگوں کو گھروں میں قید کر دیا ہے، مساجد بند کردی گئیں اور خانہ کعبہ کا طواف روک دیا گیا۔ قرآنی تعلیم پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ ہمارے سامنے موجود ہے۔ اللہ کی نافرمانی اور بے حیائی و بے شرمی، بدی اور گناہوں کی کثرت سے آج ہمارا حال بھی وہی ہو گیا ہے جو دوسری قوموں کا تھا۔ ہمیں اس بات پر ضرور ناز ہے کہ ہم محمد ﷺ کے امتی ہیں لیکن احساس نہیں ہے کہ ہم روز قیامت کس طرح آقا کریم ﷺ کا سامنا کریں گے ہر وہ گناہ ہم نے کیا ہے جو زمانہ جاہلیت میں کیا جاتا تھا۔ جنت، دوزخ عمل سے ملتی ہے۔
نبی اکرمﷺ کی متعدد حدیثوں میں یہ پیش گوئی ملتی ہے کہ قیامت کی نشانیوں میں ایک نشانی یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف ایک زبردست عالمی خونی جنگ مسلط ہوگی۔ بیشتر احادیث میں اس جنگ کو ''ملحمۃ الکبریٰ''کہا گیا ہے اس جنگ میں بے شمار مسلمان شہید ہوں گے حال یہ ہوگا کہ 100 میں سے 99 مسلمان شہید ہوں گے ایک مسلمان زندہ بچ سکے گا، اسی ہولناکی کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے اس کا نام ملحمۃ الکبریٰThe Great Bloody War قرار دیا ہے۔ جس کی قیادت حضرت امام مہدی خود کریں گے دوسری طرف دشمن افواج کی قیادت دجال کر رہا ہوگا، اس طرح امام مہدی اور دجال آمنے سامنے ہوں گے۔ ایک حدیث کے مطابق مسلمانوں کی افواج کا ایک تہائی حصہ میدان جنگ سے منہ موڑ لے گا جسے اللہ کبھی معاف نہیں کرے گا چوتھے روز مسلم افواج کے سپاہی اللہ سے جان کی بازی لگانے کا عہد و پیماں کریں گے اور اس کے نتیجے میں اللہ دشمن کو جڑ سے اکھاڑ دے گا اور مسلم افواج کو فتح و نصرت نصیب ہوگی۔
آپؐ نے فرمایا کہ'' تمام تر زوال کے بعد دین اسلام ہر اس جگہ پر پہنچ کر رہے گا جہاں دن اور رات طلوع ہوتے ہیں۔ '' ایک موقع پر حضرت محمد ﷺ نے فرمایا کہ'' ہر جگہ امن و امان قائم ہو جائے گا اور لوگ تلواروں کو اپنی درانتی کی طرح استعمال کریں گے۔ بھیڑیا بھیڑ کے ساتھ چرے گا اور شیر بیل کے ساتھ رہے گا اور کسی کو کسی کے ساتھ خطرہ نہ ہوگا (مسلم کتاب الایمان) یہ صورتحال اس وقت پیش آئے گی جب قیامت کی نشانیاں پوری ہو جائیں گی۔ اور سورج سوا نیزے پر آنے کے لیے تیار کھڑا ہوگا۔ دنیا بھر کے انسانوں اور مسلمانوں کی یہ بہت بڑی خوش نصیبی تھی کہ ان کی رہنمائی کے لیے رسول آخر الزماںﷺ جیسی لازوال ہستی دنیا میں تشریف لائی اور روز قیامت شفاعت کا سبب ہوگی، لیکن افسوس ہم نے قرآن کی تعلیم اور نبی پاک ﷺ کی سیرت پاک کو یکسر فراموش کردیا۔