سامراجی مفادات اور پاکستان

زمرد نقوی

زمرد نقوی

اﷲ اﷲ کر کے آخر نیٹو سپلائی بحال ہو گئی لیکن ہمارے مخصوص انتہا پسند طبقوں کو بے حال کر گئی۔ دفاع پاکستان کونسل کو نیٹو سپلائی کی بحالی پر شدید اعتراض ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ پاکستان کوئی راتوں رات امریکی غلامی میں نہیں گیا اور نہ موجود حکومت کے دور میںغلامی میں گیا ہے۔ اس میں ایک طویل مدت لگی ہے۔ موجودہ امریکی غلامی کا بھرپور آغاز مرد مومن مرد حق جنرل ضیا الحق کے دور سے ہوتا ہے جس کی جماعت اسلامی اتحادی تھی۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ہٹانے والا اور جنرل ضیاء الحق کو لانے والا بھی امریکا ہی تھا تاکہ اپنے دشمن سوویت کا خاتمہ کر سکے جس کے لیے اس نے پاکستان کی مذہبی جماعتوںکے ذریعے امریکی جہاد شروع کرایا جس کے لیے مذہبی افرادی قوت بعض مدرسوں کے ذریعے فراہم کی گئی۔

پاکستان کی دوسری مذہبی قوتیں ایک طویل مدت تک امریکی سامراج کی اتحادی رہیں اور اس کو عین اسلام قرار دیتے ہوئے پاکستانی عوام کو سہانے خواب دکھاتی رہیں کہ اس امریکی جہاد کے ذریعے اور سوویت یونین کے خاتمے کے نتیجے میں بہت جلد دہلی' ماسکو اور واشنگٹن پر اسلام کا پرچم لہرا رہا ہو گا لیکن 32 سال کا زائد عرصہ گزرنے کے باوجود اس خواب کی تعبیر اس طرح نکلی کہ کروڑوں مسلمان مارے گئے' زخمی ہوئے' تباہ و برباد ہوئے۔ یہ پاکستان کی مذہبی جماعتوں اور قوتوں کی مہربانی ہی تھی جن کے ''تعاون'' سے امریکا نے اپنے دشمن سوویت یونین کا خاتمہ کیا جس پر سابق امریکی صدر رونالڈریگن نے ان مجاہدین کو وائٹ ہائوس میں مدعو کر کے یہ فرمایا کہ ان ''مجاہدین'' کا رتبہ امریکا کے بانیان کے ''مساوی'' ہے جن الفالظ میں ان مجاہدین کی تعریف کی گئی وہ ناقابل فراموش اور تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے کیونکہ مجاہدین کا پانی سے سستا خون ہی تھا جس کے نتیجے میں امریکا دنیا کی واحد سپر پاور بن گیا۔ جب تک سوویت یونین تھا،اسلامی ممالک امریکا کی بلیک میلنگ اور غلامی سے بچے ہوئے تھے کیونکہ جب بھی ایسی صورت رونما ہوتی تھی سوویت یونین مسلم مالک کی مدد کو آ جاتا تھا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ سے پاکستان تک یہ پورا خطہ بدترین امریکی غلامی میں جا چکاہے۔ جس سے چھٹکارے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔ مصر اور تیونس میں امریکی سرپرستی میں حکومتیں قائم ہو چکی ہیں باقی میں ہونے جا رہی ہیں۔ شام پر امریکی قبضہ سعودی عرب اور ترکی کے تعاون سے جلد ہونے والا ہے۔ اس کے بعد لبنان کی حزب اﷲ سے نمٹنا کچھ مشکل نہیں رہے گا۔ آخر میں باری ایران اور پاکستان کی ہے۔ ایک ایٹمی قوت بننے والا ہے دوسرا ایٹمی قوت ہے۔ ایران کے گرد گھیرا تنگ ہو گیا ہے۔ امریکا کا پہلا اور آخر ہدف ایران کی مذہبی انقلابی امریکا مخالف حکومت کو ہٹانا ہے کیونکہ یہ امریکا دشمن ایرانی انقلابی حکومت ہی تھی جس نے خطے میں امریکی مفادات کو اس حد تک خطرے سے دو چار کیا کہ اسے ترکی اور عرب دنیا میں مذہبی حکومتیں لانا پڑیں۔ کیونکہ لوہا ہی لوہے کو کاٹتا ہے۔ مذہب کا توڑ مذہب ہے۔ مذہبی قوتوں کا مقابلہ مذہبی ہتھیار سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ امریکا اس کھیل کا ماہر ہے، سوویت یونین کے خلاف مذہب کا ہتھیار پہلے ہی استعمال کر چکا ہے۔

مسلم دنیا میں ایران مخالف قوتوں کو یہ بات ذہن نشین کرنے کی ہے کہ جس دن ایران میں امریکا مخالف حکومت کا خاتمہ ہوا اس دن ہمیشہ کے لیے مسلم دنیا پر مہر غلامی ثبت ہو جائے گی اور یہ کامیابی امریکا کی سوویت یونین کے خاتمے سے بڑی ہو گی۔ ایران مسلم دنیا کی آخری ڈیفنس لائن ہے۔ اس کے بعد تاریکی ہی تاریکی اور مسلم دنیا کی کئی نسلوں تک غلامی ہے۔ اس پس منظر میں پاکستان کا موجودہ بحران خطے کے بحران سے جڑا ہوا ہے۔ بے نظیر کے قتل سے جس کا آغاز ہوتا ہے۔ بے نظیر کا قتل ان بھٹو دشمن قوتوں کی کامیابی کا نقطہ عروج تھا جس کے لیے وہ پچھلے چالیس سال سے سر توڑ کوششیں کر رہی تھیں لیکن وہ ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتی تھیں۔ بے نظیر کے قتل سے وہ سندھ میں خانہ جنگی کی صورت حال پیدا کرنا چاہتی تھیں لیکن آصف علی زرداری نے اس سازش کو بھانپتے ہوئے سندھی عوام کو اسٹیبلشمنٹ سے لڑنے سے روک دیا جس نے نادیدہ قوتوں کو بہت مایوس کیا کیونکہ وہ چاہتی تھیں کہ اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھٹو خاندان کی علامت زرداری فیکٹر کا بھی خاتمہ کر دیا جائے۔ جب اس میں ناکامی ہوئی تو این آر او کو بنیاد بناکر ان کے گرد گھیرا تنگ کیا گیا اور حال ہی میں پیپلزپارٹی کے وزیراعظم کو فارغ کردیا گیا۔ لوگ اس معجزے پر انگشت بدندان ہے۔ ہے ناکمال کی بات۔ سازش ابھی ختم نہیں ہوئی۔ بلوچستان میں بغاوت کے شعلے پہلے ہی بھڑک رہے ہیں کوشش ہے کہ سندھی عوام کو بھی اس صف میں لا کھڑا کیا جائے۔ پیپلزپارٹی کی حکومت کا خاتمہ کر کے۔ پہلے ہم نے مشرقی پاکستان کے جائز مطالبات نہ مان کر بنگلہ دیش بنایا، اب یہی عمل بلوچستان میں دہرایا جا رہاہے۔ اب اس میں سندھ کو بھی شامل کیا جا رہا ہے۔ بنگلہ دیش بننا امریکا کی ضرورت تھی تو بلوچستان کراچی اور گوادر کی بندرگاہ پر کنٹرول امریکا کی آج کے دور کی پھر ضرورت ہے۔ بلوچستان پر اپنا کنٹرول قائم کیے بغیر امریکا ایران کی حکومت کا خاتمہ نہیں کر سکتا۔ چنانچہ دیہی سندھ میں بے چینی بحران کو مزید گہرا کرتے ہوئے بلوچستان کا کنٹرول امریکا کو دینے میں مدد گار ثابت ہو گی۔ ہمیں ٹھنڈے دل و دماغ سے یہ سوچنا ہو گا کہ ان حالات میں پیپلزپارٹی کی حکومت کا خاتمہ کرتے ہوئے ہم کس طرح امریکی ایجنڈے کی ماضی کی طرح تکمیل کرنے جا رہے ہیں۔


مارچ کے کالم میں میں نے ذکر کیا تھا کہ نیٹو سپلائی کی بحالی کا معاملہ جولائی تک جا سکتا ہے اور ایسا ہی ہوا۔ 26 جون کوبندش کے حوالے سے7 مہینے پورے ہوئے۔ جیسے ہی آٹھویں مہینے کا آغاز ہوا بندش ٹوٹ گئی یعنی جب 7 مہینے اور 7 دن ہوئے تو نیٹو سپلائی کی بحالی کا فیصلہ ہوا اور آٹھویں دن منظوری دے دی گئی۔ یہ تھے آٹھویں مہینے کے اثرات جس کو پیش نظر رکھتے ہوئے میں نے نیٹو سپلائی کی بحالی کی پیش گوئی کی تھی۔

اب حرف آخر کچھ اپنے بارے میں:۔ زندگی شاید اتفاقات ہی کا نام ہے۔ آج سے بیس سال پہلے ایسا ہی اتفاق میری زندگی میں آیا جب میں نے پیش گوئیاں شروع کر دیں۔ آج بھی میں سوچتا ہوں کہ یہ سب کیسے ہوا؟ شاید زندگی میں خاص طرح کے حالات سے گزرنے کی وجہ سے پیش گوئی کے حوالے سے میری خفیہ صلاحیتیں بیدار ہوئیں۔ اگر میں ان مخصوص حالات سے نہ گزرتا جن سے مجھے گزرنا پڑا تو ہو سکتا ہے کہ میری یہ صلاحتیں خوابیدہ ہی رہتیں اور میری کسی اور نسل میں ظاہر ہوتیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ میرے مزاج کی افتاد ہی ایسی ہے کہ ابتدا میں علوم خفیہ، علم روحانیات، علم نجوم وغیرہ پر میرا کوئی اعتقاد نہیں تھا۔ میری افتاد طبع ہی ایسی ہے جو صرف منطقی اور سائنسی سوچ کو قبول کرتی ہے لیکن جب میں نے پیش گوئیوں کا سلسلہ شروع کیا یا مجھ سے شروع کرایا گیا (ان دیکھی قوت نے) اور ان میں سے بیش تر اﷲ کے کرم سے پوری ہوتی گئیں تو مجھ پر بھی یہ انکشاف ہوا کہ غیب مطلق بے شک اﷲ تعالیٰ کی ذات ہی ہے لیکن اس کا کچھ قلیل سا حصہ اس نے اپنے بندوں میں بھی تقسیم کر دیا ہے تاکہ اس کے بندوں کی رہنمائی ہوتی رہے۔ اس حوالے سے قارئین کے پرزور اصرار پر بیس سال میں پہلی مرتبہ اپنا رابطہ نمبر پیش خدمت ہے۔ 0346-4527997 ٹائم صبح دس سے بارہ بجے۔برائے مہربانی اسی مخصوص وقت میں مجھ سے رابطہ کریں، اس سے پہلے اور بعد میں تنگ نہ کیا جائے۔

آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے لیے جولائی کے آخر سے اہم اور مشکل وقت شروع ہو جائے گا۔
Load Next Story