نئی صدی نیا وائرس اور نئی سوچ

کورونا وائر س سے دنیا کو بچانا اب ہر ملک اور وہاں کے لوگوں کی اجتماعی ذمے داری ہے۔

zahedahina@gmail.com

کورونا وائرس چین سے نکل کر یورپ اور وہاں سے بڑھ کر اب امریکاپہنچ چکا ہے۔ اس وقت دنیا میں کورونا کے مرض میں مبتلا لوگوں کی سب سے بڑی تعداد امریکا کے شہریوںپرمشتمل ہے۔

پریشان کن بات یہ ہے کہ امریکا میں اب تک جن لوگوں کے ٹیسٹ کیے گئے ہیں، ان میں سے 53 فیصد کا نتیجہ مثبت آیا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ امریکا میں بہت بڑے پیمانے پر لوگوں کے ٹیسٹ کیے جارہے ہیں۔ تاہم مثبت نتائج کی شرح سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ وبا امریکا میں کس قدر پھیل چکی ہے اور مسلسل پھیلتی جارہی ہے۔ پاکستان میں جو ٹیسٹ کیے گئے ہیں ان میں مثبت کی شرح 10 فیصد ہے۔

لیکن یہ حقیقت سامنے رہنی چاہیے کہ ٹیسٹ کٹس اور طبی سہولتوں میں کمی کی وجہ سے لوگوں میں اس وائرس کی جانچ کافی محدود پیمانے پرکی جارہی ہے۔ یہ ہلاکت خیز وائرس بلارنگ و نسل اور قوم و مذہب کا امتیاز کیے بغیر ہر اس فرد پر حملہ آور ہورہا ہے جو اس سے رابطے میں آنے کی غلطی کر بیٹھتا ہے۔ برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن سے لے کر پرنس چارلس تک یہ وائرس اعلیٰ طبقہ کے سیکڑوں لوگوں کو اپنا نشانہ بنا رہا ہے۔

دنیا اس کوشش میں ہے کہ اس وائرس پر جلد از جلد قابو پاسکے۔ یہ مقصد صرف اس صورت میں پورا ہوسکتا ہے جب دنیا کے تمام ملک ایک دوسرے سے تعاون کریں اور ان ملکوں میں رہنے والے لوگ بھی انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنا کردار درست طور پر ادا کریں۔ امریکا اور چین کے درمیان ابتدائی تلخیوں کے بعد رابطہ قائم ہوگیا ہے اور یہ امر خوش آیند ہے کہ صدر ٹرمپ اور صدر شی ایک دوسرے سے براہ راست بات کررہے ہیں۔

امریکا چین کے تجربے سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے اور چین بھی ویکسین کی تیاری میں امریکا میں ہونے والی تحقیق سے مستقبل میں استفادہ کرسکتا ہے۔ اس وبا سے متاثرہ لوگوں کی مدد اور ویکسین کی تیاری کے لیے درکار مالی وسائل کی فراہمی کے لیے دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں بھی آگے آرہی ہیں۔ ان میں مائیکرو سافٹ بہت نمایاں ہے۔ کیونکہ اس کے مالک بل گیٹس فلاحی کاموں میں گہری دلچسپی لیتے ہیں، ان کی قائم کردہ فائونڈیشن نے فوری طور پر ویکسین کی تیاری کے لیے 100 ملین ڈالر فراہم کرنے کا اعلان کردیا ہے۔

یہ بات درست ہے کہ اس وبا سے جو معاشی تباہی آنے والی ہے اس سے دنیا کی تمام حکومتیں اور ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی سخت خوف زدہ ہیں۔ دنیا کساد بازاری کے ایک طویل دور سے گزر کر تیز تر معاشی سرگرمی کے دورمیںد اخل ہورہی تھی لیکن اس وبا نے دیکھتے ہی دیکھتے تمام معاشی ترقی کے تمام امکانات تہس نہس کردیے۔ اب ترقی یافتہ ممالک پر کھربوں ڈالر کا بوجھ پڑ چکا ہے، بہت سی کمپنیاں بالخصوص ہوا بازی، سیاحت اور اس سے متعلق تمام شعبے اور صنعتیں دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکی ہیں۔

حکومتوں کو نہ صرف اس وبا سے لوگوں کو بچانے اور بیروزگار ہونے والوں کی مدد کے لیے اربوں ڈالر کی ضرورت ہے بلکہ جو صنعتیں اور کاروبار بند ہورہے ہیں یا ہونے والے ہیں انھیں مکمل طور پر دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے مزید اربوں ڈالر خرچ کرنے پڑیں گے۔ حکومتوں کے پاس سرمایہ ضرور ہوتا ہے لیکن اس نوعیت کی ناگہانی آفت اور غیر معمولی معاشی نقصانات سے بچنے کے لیے راتوں رات ان کے پاس بھاری سرمایہ نہیں آسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ بل گیٹس جیسے لوگ اپنے شہریوں اور حکومتوں کی مالی مدد کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں۔


امریکی حکومت نے 2 کھرب ڈالر کے ہنگامی ریلیف پیکیج جب کہ کینیڈا اور دیگر یورپی حکومتوں نے بھی اربوں ڈالر کے امدادی پروگرام شروع کرنے کے اعلانات کیے ہیں۔ اگر مستقبل قریب میں اس وبا پر قابو نہ پایا جاسکا جس کے امکانات کافی ہیں۔ تو اس صورت میں حکومتیں مزید مالی بوجھ کی متحمل نہیں ہوسکیں گی۔ کھربوں ڈالر کمانے والی کمپنیاں اس موقع پر آگے بڑھ کر اس وبا کے خلاف جنگ میں ہونے والے اخراجات میں اپنا حصہ نہیں ڈالیں گی تو ان کی حکومتیں خود دیوالیہ ہوجائیں گی۔ ایسا ہونے کی صورت میں حکومتیں، کاروباری ادارے اور شہری سب مالی و معاشی تباہی سے دوچار ہوجائیں گے۔

کورونا وائر س سے دنیا کو بچانا اب ہر ملک اور وہاں کے لوگوں کی اجتماعی ذمے داری ہے۔ عالمی سطح پر معاشی بحران رونما ہوا تو پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک سے لے کر چین جیسی عالمی معاشی طاقت سب کا نقصان ہوگا۔ یہ مسئلہ کس قدر سنگین ہے اور یہ وبا لوگوں کو کیا کچھ سوچنے پر مجبور کررہی ہے۔ اس کا اندازہ مائیکر وسافٹ کاپوریشن کے شریک بانی بل گیٹس کے خیالات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ دنیا میں سب برابر ہیں۔ خواہ ہم غریب ہیں یا امیر یہ وائرس ہم میں کوئی امتیاز نہیں کرتا۔ گیٹس کہتے ہیں چونکہ ہم سب کا دکھ درد ایک جیسا ہے۔ لہٰذا اس بحران نے ہم کو ایک دوسرے کے قریب تر کردیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ وائرس ہمیں یہ سمجھنے کا موقع فراہم کرتا ہے کہ ہماری زندگی کا کیا مقصد ہے۔ دوسرے لوگوں بالخصوص وہ جو بیمار ہیں ان کی مدد کو اپنا مقصد بنانا چاہیے۔ ان کا خیال ہے کہ لاک ڈائون نے ہمیں واپس اپنے گھروں میں دھکیل دیا ہے اور بتایا ہے کہ خاندان کے ساتھ وقت گزارنے کی کیا قدرو قیمت ہے۔ گیٹس نے یہ اعتراف کیا ہے کہ کورونا وائرس ہماری اصلاح کررہا ہے اور سمجھا رہا ہے کہ ہمیں اپنی آزاد مرضی اور خود مختاری کا استعمال کس طرح کرنا چاہیے۔ ہمیں خود غرض نہیں ہونا چاہیے بلکہ دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہونا چاہیے ۔

21 ویں صدی میں دنیا کے کاروباری افق پر جدید ترین اعلیٰ ٹیکنالوجی کی حامل ملٹی نیشنل کمپنیوں کا غلبہ ہے۔ 20 ویں صدی تک دنیا کی معیشت پر حکمرانی کرنے والی کمپنیوں کا دائرہ اب تیزی سے محدودہورہا ہے۔ آج دنیا کی سب سے بڑی کمپنیاں گزشتہ 20 سے 25 سال کے اندر وجود میں آئی ہیں۔ ان کے مالکان ایسے نوجوان ہیں جن کا تعلق متوسط یا غریب طبقے سے تھا اور ماضی میں کاروبار کرنے کا انھیں کوئی تجربہ نہیں تھا۔ نئی ٹیکنالوجی کو ''نئے خیال'' کی ضرورت ہوتی ہے اور تخلیقی ذہن رکھنے والے نوجوانوں کے لیے دنیا کھلی ہے۔ بل گیٹس کا شمار بھی ایسے ہی نوجوانوں میں ہوتا ہے۔

جنھوں نے ''نئے خیال'' تخلیق کیے اور بے مثال کامیابیاں حاصل کیں۔ ان نئے ابھرنے والے کھرب پتی نوجوانوں کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کا کاروباری حجم کئی ترقی پذیر ملکوں کی مجموعی قومی دولت سے بھی زیادہ ہے اور ان کی سوچ بھی پرانے دور کے اپنے پیش روئوں سے مختلف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں آگے بڑھ کر اپنے شہریوں اور حکومتوں کی بھرپور مدد کررہے ہیں۔دنیا کو، کورونا وائرس سے بچانے کی کوششوں میں مائیکرو سافٹ کے بل گیٹس کے علاوہ دیگر ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی پیش پیش ہیں۔ ان میں مشہور چینی کمپنی علی بابا کے جیک ما، ایمیزون کے جیف بیزوس اور ایپل کے ٹم کک کے علاوہ مختلف ملکوں کی دیگر درجنوں کمپنیاں اور ان کے مالکان بھی اس مہم میں شامل ہیں۔

وقت گزرنے کے ساتھ ان کی تعداد میں تیزی سے اضافہ متوقع ہے جس سے یہ امیدپیدا ہوگئی ہے کہ حکومتوں کو سرمائے کی قلت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ لہٰذا اس وبا پر نہ صرف قابو پالیا جائے گا بلکہ دنیا میں بے روزگار ہونے والے کروڑوں لوگوں اور دیوالیہ ہونے کے خطرے سے دوچار چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کی بحالی بھی ممکن ہوسکے گی۔

جہاں تک ترقی پذیر ملکوں کے نجی کاروباری اداروں کا تعلق ہے تو وہ خود اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ وہ جو کچھ بھی کردیں اسے غنیمت جانیے۔ تاہم، امید کی جانی چاہیے کہ پاکستان کا کاروباری طبقہ بھی تمام تر مسائل کے باوجود اپنا کردار ضرور ادا کرے گا۔ یہ نئی صدی کا نیا وائرس ہے جس کا مقابلہ اس نئی سوچ کے ساتھ کیا جاسکتا ہے کہ ہم خود غرضی ترک کریں اور مل جل کر ہر آفت کا مقابلہ کریں۔
Load Next Story