کورونا وائرس سے زیادہ خطرناک منافع خور اور ذخیرہ اندوز ہیں
سب کو سمجھنا ہوگا کہ اصل خطرہ ’’کورونا‘‘ سے نہیں ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں سے ہے۔
انسانی تاریخ میں ''کورونا وائرس'' سے زیادہ بھیانک وبا دیکھنے میں نہیں آئی۔ سپر پاور قرار دیئے جانے والے ممالک بھی اپنی تمام تر ٹیکنالوجی،مالی وسائل اور انسانی ذہانت کے ہوتے ہوئے لاچار و بے بس ہیں۔
وائرس لگنے سے مرجانے سے زیادہ بڑا خوف اس کے حیران کن اور تیز رفتار پھیلاوء سے ہے اور یہی خوف پوری دنیا کو لاک ڈاون کر چکا ہے۔197 ممالک میں بسنے والے 7 ارب 80 کروڑ انسان اس جرثومے کے خوف کا شکار ہو کر صدیوں سالوں سے چلے آرہے اپنے سماجی برتاو ،معاشی طریقہ کار اور خوراک کو تبدیل کر رہے ہیں ۔یہ تو طے ہے کہ کورونا وائرس کا بحران ختم ہونے اور اس کی ویکسین تخلیق ہوجانے کے بعد دنیا اب پہلے جیسی نہیں رہے گی۔
بعد از کورونا والی دنیا بہت مختلف ہوگی ،سماجی میل جول یکسر تبدیل ہوجائے گا، لوگ صفائی اور خوراک کے معاملے میں زیادہ ''ہائی جینک'' ہوں گے،ہاتھ ملانے اور گلے ملنے کی عادتیں ختم تو نہیں البتہ نہایت محدود ہوجائیں گی جبکہ دفاتر کی بجائے گھر پر رہتے ہوئے کام کا رواج بڑھے گا۔ دنیا تباہ کن ہتھیاروںکی تیاری اور خرید و فروخت پر کھربوں ڈالرکے اخراجات کو کم کر کے طبی تحقیق اور ہسپتالوں کے وسیع تر نظام پر زیادہ خرچ کرے گی جبکہ سیاحت کا انداز بھی تبدیل ہوجائے گا ۔
دنیا میں حلال فوڈ کا بزنس کئی گنا بڑھنے کا تخمینہ لگایا جا رہا ہے کیونکہ غیر مسلم قومیں بھی اب حرام جانوروں کے گوشت سے پرہیز کرنے لگی ہیں۔ لاک ڈاون کا شکار ہونے کے بعد انسانوں کو معلوم ہوا ہے کہ ''انسان ایک سپر سوشل کریچر ہے'' جبکہ یہ دنیا تمام تر لسانی،سماجی،مذہبی، سیاسی، دفاعی اور مالیاتی اختلافات کے باوجود ایکدوسرے سے جڑی ہوئی ہے اور سب کو یہ بھی معلوم ہو گیا ہے کہ خلاوں کو مسخر کرنے، سمندر کی پاتال کو کنگھالنے،ہائیڈروجن اور نائٹروجن بم بنانے ،روشنی سے تیز انٹر نیٹ تخلیق کرنے ،آوازسے تیز رفتار ہوائی جہاز بنانے سے کوئی ملک سپر پاور نہیں بن جاتا۔
پاکستان بھی کورونا کا شکار ہے اور ابھی تک وفاقی و پنجاب حکومت کی جانب سے کیئے جانے والے اقدامات ناکافی اور غیر تسلی بخش دکھائی دیتے ہیں ۔پوری دنیا لاک ڈاون کے ذریعے وائر س کے پھیلاو کو روک رہی ہے لیکن وزیر اعظم عمران خان لاک ڈاون کی مخالفت کر رہے ہیں جبکہ وہ جن 25 فیصد دیہاڑی دار افراد کی وجہ سے مخالفت کر رہے ہیں ان کے بارے میں یہ نہیں بتا رہے کہ اس وقت جبکہ تمام کاروبار،دفاتر بند ہیں تو یہ بندے دیہاڑی کہاں سے کریں گے اور آیا ان 25 فیصد کو وائرس سے کیسے محفوظ رکھا جائے گا اور وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں یہ بھی نہیں بتایا کہ ان 25 فیصد سے باقی کے 75 فیصد کو کیسے محفوظ رکھنا ہے۔وزیر اعظم نے کورونا ریلیف ٹائیگر فورس تو تشکیل دے دی لیکن اماوس کی بیل پر انگور نہیں لگا کرتے۔
وائرس بحران کے دوران وفاقی حکومت کی کارکردگی اور فیصلوں کی وجہ سے ''پنڈی'' اور''اسلام آباد'' کے درمیان کشیدگی اور بڑھتی خلیج کی باتیں بھی سنائی دے رہی ہیں جبکہ وفاق اور صوبے بھی ایک پیج پر نہیں ہیں۔ ملک میں پہلے بھی منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی زوروں پر تھی لیکن اب تو بام عروج پر جا پہنچی ہے ۔
یہ درست ہے کہ متمول خاندانوں نے کئی کئی ماہ کا راشن اور اشیائے ضروریہ اپنے گھروں میں ذخیرہ کی ہیں جبکہ متوسط طبقہ بھی ہیجان خیزی کی بنیاد پر اضافی خریداری کر رہا ہے جس کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ تھوک منڈیوں کے بیورپاریوں نے تو جو مہنگائی کی سو کی لیکن گلی محلہ کے دکاندار بھی از خود ہی قیمتوں میں اضافہ کیئے ہوئے ہیں ،آٹے کی مثال ہی لے لیں ،کورونا وائرس سے پہلے معمول کی قیمت پر وافر آٹا دستیاب تھا لیکن جیسے ہی کورونا وائرس آیاتو آٹا کی قلت پیدا ہو گئی اور ماضی کی طرح اصل وجوہات کھوجے بغیر سارا ملبہ ایک مرتبہ پھر فلورملز پر ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
موجودہ آٹے کی قلت کے چند بڑے اسباب ہیں(1 )لاک ڈاون کے سبب ہر شخص کی کوشش ہے کہ گھر میں وافر راشن رکھا جائے جو شخص مہینے میں دو مرتبہ تھیلا خریدتا تھا وہ اب ایک ہی مرتبہ تین یا چار تھیلے خرید رہا ہے یہ سمجھے بغیر کہ آٹا کی ایک شیلف لائف ہوتی ہے اس کے بعد وہ خراب ہوجاتا ہے۔راہ چلتے ہوئے ہم سب کو کئی موٹر سائیکل یا رکشہ سوار دکھائی دیتے ہیں جنہوں نے کئی تھیلے آٹا رکھا ہوا ہوتا ہے،(2 )آٹا ڈیلرز کی بڑی تعداد چھوٹے دوکانداروں کو سرکاری نرخ سے زائد قیمت پر آٹا فروخت کر رہی ہے اور دانستہ طور پر ان کی ڈیمانڈ سے کم آٹا دیا جا رہا ہے (3 )گلی محلوں کی سطح پر دوکاندار تھیلا کی بجائے چند کلو روز کا آٹا خریدنے والے غریب گاہکوں کو مہنگے داموں آٹا بیچ رہے ہیں (4) لاک ڈاون کے سبب مخیر حضرات کی جانب سے بڑے پیمانے پر آٹا خرید کر مستحقین میں تقسیم کرنے سے بھی آٹا کی طلب میں اضافہ ہوا ہے (5 ) اوپن مارکیٹ کیلئے جتنے آٹے کی ضرورت ہوتی ہے اس کیلئے درکار گندم کا 65 فیصد محکمہ خوارک فراہم کرتا ہے جبکہ باقی کی 35 فیصد گندم مل مالکان اوپن مارکیٹ سے خرید کر استعمال کرتے ہیں لیکن اس وقت اوپن مارکیٹ میں گندم کی قیمت 1800 روپے من سے تجاوز کر چکی ہے جس کے سبب ملیں صرف سرکاری گندم کو مقامی آٹا سپلائی کے لئے استعمال کر رہی ہیں جس وجہ سے پیداوار کم ہوئی ہے جبکہ نجی گندم سے ''سپر آٹا'' تیار کر کے خیبر پختونخواہ بھیجا جا رہا ہے (6 ) فلورملز نے سندھ کی گندم جلد آنے کے امکان پر اپنے پاس موجود نجی گندم کو مکمل استعمال کر لیا تھا لیکن پچھلے کئی دنوں سے سندھ فوڈ کی پابندی کے سبب گندم پنجاب نہ آنے سے آٹا پیداوار متاثر ہوئی ہے۔(7 ) فیصل آباد اور دیگر کئی شہروں میں آٹے کی مارکیٹ سپلائی مانیٹر کرنے کیلئے ڈپٹی کمشنرز نے اپنا سٹاف مقرر کیا ہواہے لیکن لاہور میں ضلعی انتظامیہ نے ساری ذمہ داری محکمہ خوارک پر عائد کر رکھی ہے۔
اب ڈپٹی کمشنرز نے مارکیٹ سپلائی کے بجائے ملز پر پٹواری تعینات کر دیئے ہیں لیکن یہ بہتری کی بجائے مزید خرابی کا سبب بنیں گے ۔ ماضی میں لاہور کی یونین کونسلز کے سیکرٹریز کو آٹے کے ٹرکوں میں بٹھا کر مارکیٹ سپلائی کو مانیٹر کیا جاتا تھا جو ایک ایک تھیلے کی سپلائی کا شا م کو حساب کر کے حکومت کو آگاہ کرتے تھے۔پاکستان فلورملز ایسوسی ایشن کے مرکزی چیئرمین عاصم رضا نے ملک بھر کے فلور مل مالکان کے نام اپنے ویڈیو پیغام میں انہیں کہا ہے کہ یہ ایک ہنگامی صورتحال ہے لہذا قومی اور مذہبی ذمہ داری نبھاتے ہوئے آٹے کی قلت نہ ہونے دی جائے۔سبزیوں اور پھلوں کی دستیابی اور قیمتیں مستحکم ہیں بلکہ بعض سبزیوں کی قیمتوں میں کمی آئی ہے تاہم دالوں، گھی اور چینی کی دستیابی اور قیمتیں غیر مستحکم دکھائی دے رہی ہیں۔ پرائس کنٹرول کمیٹیوں اور پرائس مجسٹریٹس کی کارکردگی کا اصل امتحان اس وقت ہے۔ محکموں اور افسروں کو نیک نیتی، سنجیدگی اور ہمت سے کام لینا ہوگا۔
پنجاب کے وزیر اعلی سردار عثمان بزدار ،چیف سیکرٹری میجر(ر) اعظم سلیمان ،وزیر خوراک سمیع اللہ چوہدری، وزیر زراعت ملک نعمان لنگڑیال اور وزیر صنعت میاں اسلم اقبال بھرپور کوشش تو کر رہے ہیں لیکن دیگر کابینہ ارکان جن کی ڈیوٹیاں اضلاع میں لگائی گئی ہیں ان میں سے چند ایک کو چھوڑ کر باقی سب انگلی کٹا کر شہیدوں میں شامل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں ۔سب کو سمجھنا ہوگا کہ اصل خطرہ ''کورونا'' سے نہیں ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں سے ہے۔
وائرس لگنے سے مرجانے سے زیادہ بڑا خوف اس کے حیران کن اور تیز رفتار پھیلاوء سے ہے اور یہی خوف پوری دنیا کو لاک ڈاون کر چکا ہے۔197 ممالک میں بسنے والے 7 ارب 80 کروڑ انسان اس جرثومے کے خوف کا شکار ہو کر صدیوں سالوں سے چلے آرہے اپنے سماجی برتاو ،معاشی طریقہ کار اور خوراک کو تبدیل کر رہے ہیں ۔یہ تو طے ہے کہ کورونا وائرس کا بحران ختم ہونے اور اس کی ویکسین تخلیق ہوجانے کے بعد دنیا اب پہلے جیسی نہیں رہے گی۔
بعد از کورونا والی دنیا بہت مختلف ہوگی ،سماجی میل جول یکسر تبدیل ہوجائے گا، لوگ صفائی اور خوراک کے معاملے میں زیادہ ''ہائی جینک'' ہوں گے،ہاتھ ملانے اور گلے ملنے کی عادتیں ختم تو نہیں البتہ نہایت محدود ہوجائیں گی جبکہ دفاتر کی بجائے گھر پر رہتے ہوئے کام کا رواج بڑھے گا۔ دنیا تباہ کن ہتھیاروںکی تیاری اور خرید و فروخت پر کھربوں ڈالرکے اخراجات کو کم کر کے طبی تحقیق اور ہسپتالوں کے وسیع تر نظام پر زیادہ خرچ کرے گی جبکہ سیاحت کا انداز بھی تبدیل ہوجائے گا ۔
دنیا میں حلال فوڈ کا بزنس کئی گنا بڑھنے کا تخمینہ لگایا جا رہا ہے کیونکہ غیر مسلم قومیں بھی اب حرام جانوروں کے گوشت سے پرہیز کرنے لگی ہیں۔ لاک ڈاون کا شکار ہونے کے بعد انسانوں کو معلوم ہوا ہے کہ ''انسان ایک سپر سوشل کریچر ہے'' جبکہ یہ دنیا تمام تر لسانی،سماجی،مذہبی، سیاسی، دفاعی اور مالیاتی اختلافات کے باوجود ایکدوسرے سے جڑی ہوئی ہے اور سب کو یہ بھی معلوم ہو گیا ہے کہ خلاوں کو مسخر کرنے، سمندر کی پاتال کو کنگھالنے،ہائیڈروجن اور نائٹروجن بم بنانے ،روشنی سے تیز انٹر نیٹ تخلیق کرنے ،آوازسے تیز رفتار ہوائی جہاز بنانے سے کوئی ملک سپر پاور نہیں بن جاتا۔
پاکستان بھی کورونا کا شکار ہے اور ابھی تک وفاقی و پنجاب حکومت کی جانب سے کیئے جانے والے اقدامات ناکافی اور غیر تسلی بخش دکھائی دیتے ہیں ۔پوری دنیا لاک ڈاون کے ذریعے وائر س کے پھیلاو کو روک رہی ہے لیکن وزیر اعظم عمران خان لاک ڈاون کی مخالفت کر رہے ہیں جبکہ وہ جن 25 فیصد دیہاڑی دار افراد کی وجہ سے مخالفت کر رہے ہیں ان کے بارے میں یہ نہیں بتا رہے کہ اس وقت جبکہ تمام کاروبار،دفاتر بند ہیں تو یہ بندے دیہاڑی کہاں سے کریں گے اور آیا ان 25 فیصد کو وائرس سے کیسے محفوظ رکھا جائے گا اور وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں یہ بھی نہیں بتایا کہ ان 25 فیصد سے باقی کے 75 فیصد کو کیسے محفوظ رکھنا ہے۔وزیر اعظم نے کورونا ریلیف ٹائیگر فورس تو تشکیل دے دی لیکن اماوس کی بیل پر انگور نہیں لگا کرتے۔
وائرس بحران کے دوران وفاقی حکومت کی کارکردگی اور فیصلوں کی وجہ سے ''پنڈی'' اور''اسلام آباد'' کے درمیان کشیدگی اور بڑھتی خلیج کی باتیں بھی سنائی دے رہی ہیں جبکہ وفاق اور صوبے بھی ایک پیج پر نہیں ہیں۔ ملک میں پہلے بھی منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی زوروں پر تھی لیکن اب تو بام عروج پر جا پہنچی ہے ۔
یہ درست ہے کہ متمول خاندانوں نے کئی کئی ماہ کا راشن اور اشیائے ضروریہ اپنے گھروں میں ذخیرہ کی ہیں جبکہ متوسط طبقہ بھی ہیجان خیزی کی بنیاد پر اضافی خریداری کر رہا ہے جس کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ تھوک منڈیوں کے بیورپاریوں نے تو جو مہنگائی کی سو کی لیکن گلی محلہ کے دکاندار بھی از خود ہی قیمتوں میں اضافہ کیئے ہوئے ہیں ،آٹے کی مثال ہی لے لیں ،کورونا وائرس سے پہلے معمول کی قیمت پر وافر آٹا دستیاب تھا لیکن جیسے ہی کورونا وائرس آیاتو آٹا کی قلت پیدا ہو گئی اور ماضی کی طرح اصل وجوہات کھوجے بغیر سارا ملبہ ایک مرتبہ پھر فلورملز پر ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
موجودہ آٹے کی قلت کے چند بڑے اسباب ہیں(1 )لاک ڈاون کے سبب ہر شخص کی کوشش ہے کہ گھر میں وافر راشن رکھا جائے جو شخص مہینے میں دو مرتبہ تھیلا خریدتا تھا وہ اب ایک ہی مرتبہ تین یا چار تھیلے خرید رہا ہے یہ سمجھے بغیر کہ آٹا کی ایک شیلف لائف ہوتی ہے اس کے بعد وہ خراب ہوجاتا ہے۔راہ چلتے ہوئے ہم سب کو کئی موٹر سائیکل یا رکشہ سوار دکھائی دیتے ہیں جنہوں نے کئی تھیلے آٹا رکھا ہوا ہوتا ہے،(2 )آٹا ڈیلرز کی بڑی تعداد چھوٹے دوکانداروں کو سرکاری نرخ سے زائد قیمت پر آٹا فروخت کر رہی ہے اور دانستہ طور پر ان کی ڈیمانڈ سے کم آٹا دیا جا رہا ہے (3 )گلی محلوں کی سطح پر دوکاندار تھیلا کی بجائے چند کلو روز کا آٹا خریدنے والے غریب گاہکوں کو مہنگے داموں آٹا بیچ رہے ہیں (4) لاک ڈاون کے سبب مخیر حضرات کی جانب سے بڑے پیمانے پر آٹا خرید کر مستحقین میں تقسیم کرنے سے بھی آٹا کی طلب میں اضافہ ہوا ہے (5 ) اوپن مارکیٹ کیلئے جتنے آٹے کی ضرورت ہوتی ہے اس کیلئے درکار گندم کا 65 فیصد محکمہ خوارک فراہم کرتا ہے جبکہ باقی کی 35 فیصد گندم مل مالکان اوپن مارکیٹ سے خرید کر استعمال کرتے ہیں لیکن اس وقت اوپن مارکیٹ میں گندم کی قیمت 1800 روپے من سے تجاوز کر چکی ہے جس کے سبب ملیں صرف سرکاری گندم کو مقامی آٹا سپلائی کے لئے استعمال کر رہی ہیں جس وجہ سے پیداوار کم ہوئی ہے جبکہ نجی گندم سے ''سپر آٹا'' تیار کر کے خیبر پختونخواہ بھیجا جا رہا ہے (6 ) فلورملز نے سندھ کی گندم جلد آنے کے امکان پر اپنے پاس موجود نجی گندم کو مکمل استعمال کر لیا تھا لیکن پچھلے کئی دنوں سے سندھ فوڈ کی پابندی کے سبب گندم پنجاب نہ آنے سے آٹا پیداوار متاثر ہوئی ہے۔(7 ) فیصل آباد اور دیگر کئی شہروں میں آٹے کی مارکیٹ سپلائی مانیٹر کرنے کیلئے ڈپٹی کمشنرز نے اپنا سٹاف مقرر کیا ہواہے لیکن لاہور میں ضلعی انتظامیہ نے ساری ذمہ داری محکمہ خوارک پر عائد کر رکھی ہے۔
اب ڈپٹی کمشنرز نے مارکیٹ سپلائی کے بجائے ملز پر پٹواری تعینات کر دیئے ہیں لیکن یہ بہتری کی بجائے مزید خرابی کا سبب بنیں گے ۔ ماضی میں لاہور کی یونین کونسلز کے سیکرٹریز کو آٹے کے ٹرکوں میں بٹھا کر مارکیٹ سپلائی کو مانیٹر کیا جاتا تھا جو ایک ایک تھیلے کی سپلائی کا شا م کو حساب کر کے حکومت کو آگاہ کرتے تھے۔پاکستان فلورملز ایسوسی ایشن کے مرکزی چیئرمین عاصم رضا نے ملک بھر کے فلور مل مالکان کے نام اپنے ویڈیو پیغام میں انہیں کہا ہے کہ یہ ایک ہنگامی صورتحال ہے لہذا قومی اور مذہبی ذمہ داری نبھاتے ہوئے آٹے کی قلت نہ ہونے دی جائے۔سبزیوں اور پھلوں کی دستیابی اور قیمتیں مستحکم ہیں بلکہ بعض سبزیوں کی قیمتوں میں کمی آئی ہے تاہم دالوں، گھی اور چینی کی دستیابی اور قیمتیں غیر مستحکم دکھائی دے رہی ہیں۔ پرائس کنٹرول کمیٹیوں اور پرائس مجسٹریٹس کی کارکردگی کا اصل امتحان اس وقت ہے۔ محکموں اور افسروں کو نیک نیتی، سنجیدگی اور ہمت سے کام لینا ہوگا۔
پنجاب کے وزیر اعلی سردار عثمان بزدار ،چیف سیکرٹری میجر(ر) اعظم سلیمان ،وزیر خوراک سمیع اللہ چوہدری، وزیر زراعت ملک نعمان لنگڑیال اور وزیر صنعت میاں اسلم اقبال بھرپور کوشش تو کر رہے ہیں لیکن دیگر کابینہ ارکان جن کی ڈیوٹیاں اضلاع میں لگائی گئی ہیں ان میں سے چند ایک کو چھوڑ کر باقی سب انگلی کٹا کر شہیدوں میں شامل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں ۔سب کو سمجھنا ہوگا کہ اصل خطرہ ''کورونا'' سے نہیں ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں سے ہے۔