جام حکومت کو وباء کے پھیلاؤ کاذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا

وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے ملک کے ان بڑے بڑے صنعتکاروں، بزنس مینوں اور مخیر حضرات کے رویئے پربرہمی کا اظہارکیا ہے۔

وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے ملک کے ان بڑے بڑے صنعتکاروں، بزنس مینوں اور مخیر حضرات کے رویئے پربرہمی کا اظہارکیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

کرونا وائرس نے جہاں پوری دُنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے وہاں پاکستان خصوصاً بلوچستان کی سیاست میں بھی میانہ روی آگئی ہے اور تمام سیاسی و قوم پرست جماعتیں اس وباء سے متحد ہو کر لڑنے کو فوقیت دے رہی ہیں۔

وفاقی یا صوبائی حکومتوں سے اختلافات اپنی جگہ لیکن اس قدرتی آفت سے مقابلے کیلئے تمام سیاسی جماعتیں لائن اپ ہوگئی ہیں اور اس آفت سے نمٹنے کیلئے حکومتوں کا ساتھ دے رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ دنوں اسلام آباد میں اس حوالے سے پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے بلائی گئی پہلی ویڈیو لنک اے پی سی میں ملک کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے شرکت کی اور اپنی تجاویز بھی پیش کیں بلوچستان سے قوم پرست جماعتوں نیشنل پارٹی اور بی این پی کی قیادت نے بھی شرکت کی اور بلوچستان کے حوالے سے اپنی تجاویز اے پی سی کے سامنے رکھیں اس موقع پر نیشنل پارٹی کے قائد میر حاصل بزنجو اور بی این پی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے بلوچستان کی حکومت پر بھی شدید تنقید کی۔

سیاسی مبصرین نے بھی اس اے پی سی کے انعقاد اور اس میں دی گئی تجاویز کو خوش آئند قرار دیا ہے تاہم ان مبصرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کے تفتان سرحد سے ملک بھر میں پھیلانے کے جام حکومت پر جو الزامات عائد کئے جا رہے ہیں ان میں کوئی صداقت نہیں۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان اپنے قوم سے پہلے خطاب میں وزیراعلیٰ جام کمال خان کے اقدامات کو سراہتے ہیں اور بعد ازاں یو ٹرن لیتے ہوئے اپنے قریبی ساتھیوں کو بچانے کیلئے تمام ملبہ بلوچستان حکومت پر ڈال دیتے ہیںاور حقائق سے نظریں چرا رہے ہیں۔

حالانکہ جب ایران میں وائرس کے پھیلاؤ کی اطلاعات موصول ہوئیں تو جام حکومت نے فوری طور پر تفتان بارڈر کو سیل کرنے کے احکامات جاری کئے اور ایرانی حکومت سے بذریعہ وفاقی حکومت زائرین کے ٹیسٹ اور قرنطینہ کی درخواست کی لیکن اس کے باوجود ایران نے ہمارے زائرین کو اپنے پاس رکھنے اور ٹیسٹ کرانے سے انکار کرتے ہوئے تفتان روانہ کردیا۔

صورتحال کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے صوبائی حکومت نے اپنے وسائل کے مطابق انتظامات کا آغاز کیا حالانکہ اس موقع پر صوبائی حکومت کو وفاق اور این ڈی ایم اے کی جانب سے کوئی خاطر خواہ معاونت نہیں ملی اس کے باوجود صوبائی حکومت نے تفتان میں پانچ ہزار زائرین کو سہولیات دینے کے ساتھ ساتھ انکی رہنمائی کی اور ان زائرین کو لے جا کر انکے صوبوں کے حکام کے حوالے کیا۔

ان مبصرین کے مطابق وفاقی حکومت حقائق سے نظریں چرا کر تمام ملبہ جام حکومت پر ڈال رہی ہے یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت اس بات پر کس طرح پردہ ڈالے گی کہ دیگر ممالک اور سعودیہ سے ملک میں بائی ایئر آنے والے افراد کے معاملے کو کیسے دیکھتی ہے جن کے کوئی ٹیسٹ کئے بغیر ملک میں داخل کیا گیا، ان میں سے ساڑھے بارہ ہزار لوگ بلوچستان منتقل ہوئے کیا وفاقی حکومت تمام ملبہ جام حکومت اور تفتان بارڈر سے آنے والے زائرین پر ڈال کربری الذمہ ہوسکتی ہے؟


یہ وقت سیاست چمکانے کا نہیں بلکہ اپنی نسل کو بچانے کا ہے ان سیاسی مبصرین کے مطابق جام کمال کی حکومت بلوچستان میں آج بھی اس خطرناک وباء سے کم وسائل ہونے کے باوجود جس حکمت کے ساتھ نبرد آزما ہے وہ قابل تعریف ہے۔ ان سیاسی مبصرین کے مطابق اے پی سی میں بی این پی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے جو تجاویز دیں وہ انتہائی معقول ہیں اگر صوبائی حکومت ان تجاویز پر فوری طور پر عملدرآمد شروع کرے تو جلد ہی اس خطرناک وباء پر کنٹرول کرنے کے حوالے سے دور رس نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔

سیاسی مبصرین کے مطابق بلوچستان کی سیاسی و قوم پرست جماعتوں نے اس نازک موقع پر جس سمجھداری اور ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے وہ بھی قابل تحسین ہے۔ بلوچستان حکومت نے کرونا وائرس سے نمٹنے کیلئے جہاں دیگر اقدامات کئے ہیں وہاں اُس نے فوری طور پر1500 کنٹینرز پر مشتمل ہسپتال اور ریلیف اینڈ ایمرجنسی سینٹر بنانے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ ان کنٹینرز میں آپریشن تھیٹر، آئسولیشن رومز، رہائشی سہولیات اور غسل خانے موجود ہونگے۔ کنٹینرز ہسپتال کیلئے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف بھی بھرتی کیا جائے گا۔ ان کنٹینرز ہسپتالوں کو مستقبل میں بھی مختلف وبائی امراض اور قدرتی آفات کی صورت میں استعمال میں لایا جائے گا اور متاثرہ علاقوں کی طرف فوری طور پر منتقل کیا جاسکے گا۔

اس کے علاوہ بلوچستان میں ہیلتھ اینڈ ایمرجنسی ویلج کے قیام پر بھی کام جاری ہے ۔ حکومت نے صوبے میں خوراک کی قلت کے تدارک کیلئے پی ڈی ایم اے کو فوری طور پر ایک ارب روپے سے زائد کی رقم ریلیز کرتے ہوئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی بھی ہدایت جاری کی ہے۔ جبکہ صوبے کے تمام کمشنرز کو ایک ایک کروڑ روپے ریلیز کئے گئے ہیں کہ وہ اپنے اپنے ڈویژن میں اس بحرانی کیفیت سے نمٹنے کیلئے اقدامات کریں ۔ صوبائی حکومت نے صوبے بھر میں آٹھ لاکھ افراد کی نشاندھی کی ہے جو کہ روزانہ اُجرت پر کام کرتے ہیں اور انہیں روزانہ کی اُجرت کے تناسب سے رقم فراہم کی جائے گی، جس کیلئے2 ارب40 کروڑ روپے جاری کئے گئے ہیں۔

اسی طرح گھروں میں محصور غریب لوگوں کو ایک ارب روپے کی لاگت سے راشن بھی فراہم کرنے کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے ہسپتالوں کو جدید آلات اور مشینری سے بھی لیس کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے اور مرحلہ وار اس پر ابتدائی کام بھی شروع کردیا گیا ہے جبکہ حکومت ڈاکٹرز، پیرا میڈیکس اور نرسنگ اسٹاف کے علاوہ پولیس و سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں کی حوصلہ افزائی کیلئے بھی بعض قدامات پر سنجیدگی سے غور کررہی ہے جو کہ اس جنگ میں اپنی جانوں کی پرواہ کئے بغیر فرنٹ لائن پر لڑرہے ہیں۔

حکومت اپنے ان تمام اقدامات پر اپوزیشن سمیت تمام پارلیمانی جماعتوں کو بھی اعتماد میں لینے اور ملکر اس جنگ کو لڑنے کیلئے صف بندی کررہی ہے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے ملک کے ان بڑے بڑے صنعتکاروں، بزنس مینوں اور مخیر حضرات کے رویئے پر برہمی کا اظہار کیا ہے جو ملک سمیت بلوچستان میں بھی بڑے بڑے پراجیکٹس پرکام کررہے ہیں لیکن اس نازک وقت میں آگے آکر بلوچستان حکومت اور یہاں کے عوام کیلئے کسی قسم کی کوئی مدد اور تعاون نہیں کر رہے۔

 
Load Next Story