غریب خاندانوں کو امداد کا طریقۂ کار غیرمؤثر
سندھ میں لاک ڈاؤن کے سبب سب سے زیادہ متاثر روزانہ اجرت پرکام کرنے والے، متوسط اور غریب طبقے ہیں۔
لاہور:
سندھ میں کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے لاک ڈاؤن پر عمل درآمد کا سلسلہ جاری ہے۔وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے صوبے بھر میں عوام کو گھروں تک محدود کرنے کے لیے صبح 8بجے سے شام 5بجے تک کریانہ،گوشت،سبزی و پھل،میڈیکل اسٹورز اور پیٹرول پپمپس کو کھولنے کی اجازت دی ہے۔
گذشتہ کئی دنوں سے کراچی سمیت صوبے بھر میں تمام کاروباری وتجارتی سرگرمیاں بند ہیں جبکہ شام 5بجے سے صبح 8بجے تک تمام اشیاء خور و نوش،میڈیکل اسٹورز اور فیول پمپس کو بھی بند رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔صرف دودھ کی دکانوں کو رات 8بجے تک کھولنے کی اجازت دی گئی ہے،واضح رہے کہ پہلے دودھ فروشوں کو بھی شام 5بجے تک کاروبار کرنے کی اجازت دی گئی تھی تاہم دودھ کوضائع ہونے سے بچانے کے لیے ان احکامات میں ترمیم کی گئی۔
سندھ میں گذشتہ جمعہ کئی مساجد میں نماز''جمعہ'' کے اجتماعات منعقد کرنے پر امام مسجد اور دیگر کے خلاف مقدمات درج کیے گئے اور گرفتاریاں بھی ہوئیں،حکومت سندھ کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ نے مساجد میں عوام کے لیے باجماعت نماز کی ادائیگی پر پاپندی کا فیصلہ علمائے کرام کی مشاورت سے کیا ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے علمائے کرام کے ساتھ ایک اجلاس میں محکمہ پولیس کو نماز جمعہ کے لئے تیار کردہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے پر مساجد کے پیش اماموں اور دیگر کے خلاف درج تمام ایف آئی آرز واپس لینے کی ہدایت کی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے علمائے کرام سے درخواست کی کہ وہ اپنی جمعہ کی جماعت کو پانچ افراد تک محدود رکھیں گے، علماء نے اس حوالے سے حکومت سے تعاون پر آمادگی ظاہر کی ہے۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ میں ہر ایک سے درخواست کر رہا ہوں کہ وہ سماجی دوری برقرار رکھیں اور اجتماعات سے اجتناب کریں۔ اس کا مقصد اپنے لوگوں کو اس بیماری سے بچانا ہے اور یہ علمائے کرام کے تعاون سے ہی ممکن ہوگا۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ اگر انھوں نے لاک ڈاؤن نافذ نہ کیا ہوتا اورغیر معمولی اقدامات نہ کرتے تو وائرس سے صوبے میں بھاری نقصان ہوتا۔ انہوں نے کہاکہ ہم نے اس کے پھیلاؤ کو کم کردیا ہے۔
سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ سندھ میں کورونا وائرس کے خاتمے کے لیے وزیراعلی سندھ اور ان کی ٹیم کے اقدامات قابل ستائش ہیں تاہم عوام کو اس معاملے میں مکمل تعاون کرنا ہوگا تاکہ سندھ سمیت پورے ملک سے اس وباء کا خاتمہ ہوسکے،اس لیے کہا جا رہا ہے''گھر میں رہیں۔۔۔۔محفوظ پاکستان کے لیے۔۔۔۔۔۔
سندھ میں لاک ڈاؤن کے سبب سب سے زیادہ متاثر روزانہ اجرت پرکام کرنے والے، متوسط اور غریب طبقے ہیں، جن کے گھروں کا چولہا روز کماکر روز اخراجات کرکے جلتا ہے۔ حکومت سندھ نے لاک ڈاون پر عمل درآمد توشروع کردیا لیکن اب تک وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے سرکاری سطح پرعوام کو راشن پہنچانے کے لیے کوئی عملی اقدام دیکھنے میں نہیں آئے،روزانہ کی بنیاد پر اجلاس ہونے اور میکنزم کا اعلان کرنے کے باوجود غریب خاندان امداد سے محروم ہیں،چند فلاحی اداروں،سیاسی،مذہبی جماعتوں اور مخیر حضرات کی جانب سے امداد کاسلسلہ جاری ہے،لیکن یہ تمام امدادی کام ناکافی ہے،غریب افراد کے گھروں میں چولہے بجھ رہے ہیں اور ان کے پیٹ کی آگ بڑھ رہی ہے،جو سنگین صورتحال ہے۔
لوگ راشن کے لیے فلاحی اداروں اور حکومتی دفاترکے چکر لگا رہے ہیں اور میڈیا کے ذریعے مدد کی اپیل کررہے ہیں لیکن ان کی شنوائی نہیں ہو رہی، دوسری جانب کراچی سمیت صوبے بھر میں منافع خوروں نے آٹے کی منصوعی قلت پیدا کردی ہے،10کلوآٹے کا تھیلہ 650روپے کا فروخت ہو رہا ہے جبکہ دیگر کھانے پینے کی اشیاء بھی مہنگی ہوگئی ہیں،منافع خوروں کے خلاف تاحال حکومتی سطح پر موثر کریک ڈاؤن نہیں کیا گیا ہے،حکومت سندھ نے صوبے میں کھانے پینے کی اشیاء کی قلت دور کرنے کے لیے گڈٹرا نسپورٹ کو نقل وحمل کی اجازت دے دی ہے۔
دوسری جانب پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ایک اجلاس میں کہا ہے کہ وہ مستحق افراد کی امداد کے حوالے سے کوئی کوتاہی برداشت نہیں کریں گے۔ انہوں نے سندھ حکومت کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ وہ ایک ایک مستحق کے گھر راشن پہنچائے، وزیراعلیٰ سندھ نے یو آر ایل (ویب ایڈریس) کے ساتھ سندھ ریلیف انیشیٹو ایپلی کیشن قائم کی ہے۔ان کی حکومت نے فلاحی تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کرنے کا ارادہ کیا ہے اور انہیں مذکورہ بالا ویب ایڈریس کے تحت رجسٹرڈ کیا جائے گا تاکہ ان کے ساتھ مل کر یومیہ اُجرت والوں کو راشن ان کی دہلیز پر پہچایا جاسکے۔
https://play.google.com/store/ apps/details?id =inc.codelabs .krtvolunteer
وزیراعلیٰ نے کہا کہ یومیہ اجرت والوں کو ایک اپلی کیشن (ایپ) کے ذریعے رجسٹر کروانا ہوگا اور اس کے بعد حکومت مختلف علاقوں میں فلاحی تنظیموں کے ساتھ مل کر راشن تقسیم کرے گی۔ ایک خاندان کو 5500 روپے کا ایک راشن بیگ فراہم کیا جائے گا۔ وزیراعلیٰ کی ہدایت پر وزیر توانائی امتیاز شیخ، وزیر بلدیات ناصر شاہ اور مشیر قانون مرتضی وہاب عوام کے دروازے پر راشن کی منصفانہ تقسیم کے لئے فلاحی تنظیم کے ساتھ رابطہ کریں گے۔
سندھ کی اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی کے رہنماؤں فردوس شمیم نقوی اور حلیم عادل شیخ نے ایک پریس کانفرنس میں سندھ حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ صوبے میں کئی دن سے لاک ڈاؤن ہے عوام کو راشن نہیں مل رہا، اس وجہ سے سندھ میں خانہ جنگی کی صورتحال ہوسکتی ہے،سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومت سندھ ایپ بنانے کے بجائے یونین کونسل سطح پر غریبوں میں راشن کی تقسیم کا عمل شروع کرے تاکہ ان خاندانوں کی مشکلات کا ازالہ ہوسکے۔
کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے وزیر تعلیم سندھ سعید غنی صحت یاب ہوگئے۔ سعید غنی سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنی صحت یابی کی خبر دیتے ہوئے کہا کہ الحمد للہ میرے کورونا وائرس کے ہونے والے ٹیسٹ کی رپورٹ نیگیٹو آئی ہے اور ڈاکٹرز کے مطابق میں بالکل صحت یاب ہوں۔ وزیر تعلیم سندھ نے کہا کہ انشااللہ میری کوشش ہوگی کہ آئندہ بھی اپنی ذمہ داریاں بہتر طور پر انجام دے سکوں۔
کورونا وائرس پر بھی پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت اور اپوزیشن جماعتوں میں سیاسی محاذ آرائی جاری ہے،پیپلزپارٹی کے تحت کورونا وائرس پر ویڈیو لنک آل پارٹیز کانفرنس میں سیاسی قیادت نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان تشکیل دینے،قومی ٹاسک فورس کے قیام سمیت بلدیاتی اداروں تک ہر سطح پراس وباء کا مقابلہ کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں،اپوزیشن جماعتوں نے تمام تر اختلافات کو علیحدہ رکھ کر حکومت کو اپنے ہر ممکن تعاون کی پیشکش کبھی کی ہے۔
سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ سندھ سمیت ملک بھر میں کورونا وائرس کے خاتمے کے لیے وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ صوبائی حکومتوں سیاسی قیادت اور تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے ایک قومی پالیسی بنائے تاکہ پاکستان کو کورونافری بنایا جاسکے۔
سندھ میں کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے لاک ڈاؤن پر عمل درآمد کا سلسلہ جاری ہے۔وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے صوبے بھر میں عوام کو گھروں تک محدود کرنے کے لیے صبح 8بجے سے شام 5بجے تک کریانہ،گوشت،سبزی و پھل،میڈیکل اسٹورز اور پیٹرول پپمپس کو کھولنے کی اجازت دی ہے۔
گذشتہ کئی دنوں سے کراچی سمیت صوبے بھر میں تمام کاروباری وتجارتی سرگرمیاں بند ہیں جبکہ شام 5بجے سے صبح 8بجے تک تمام اشیاء خور و نوش،میڈیکل اسٹورز اور فیول پمپس کو بھی بند رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔صرف دودھ کی دکانوں کو رات 8بجے تک کھولنے کی اجازت دی گئی ہے،واضح رہے کہ پہلے دودھ فروشوں کو بھی شام 5بجے تک کاروبار کرنے کی اجازت دی گئی تھی تاہم دودھ کوضائع ہونے سے بچانے کے لیے ان احکامات میں ترمیم کی گئی۔
سندھ میں گذشتہ جمعہ کئی مساجد میں نماز''جمعہ'' کے اجتماعات منعقد کرنے پر امام مسجد اور دیگر کے خلاف مقدمات درج کیے گئے اور گرفتاریاں بھی ہوئیں،حکومت سندھ کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ نے مساجد میں عوام کے لیے باجماعت نماز کی ادائیگی پر پاپندی کا فیصلہ علمائے کرام کی مشاورت سے کیا ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے علمائے کرام کے ساتھ ایک اجلاس میں محکمہ پولیس کو نماز جمعہ کے لئے تیار کردہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے پر مساجد کے پیش اماموں اور دیگر کے خلاف درج تمام ایف آئی آرز واپس لینے کی ہدایت کی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے علمائے کرام سے درخواست کی کہ وہ اپنی جمعہ کی جماعت کو پانچ افراد تک محدود رکھیں گے، علماء نے اس حوالے سے حکومت سے تعاون پر آمادگی ظاہر کی ہے۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ میں ہر ایک سے درخواست کر رہا ہوں کہ وہ سماجی دوری برقرار رکھیں اور اجتماعات سے اجتناب کریں۔ اس کا مقصد اپنے لوگوں کو اس بیماری سے بچانا ہے اور یہ علمائے کرام کے تعاون سے ہی ممکن ہوگا۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ اگر انھوں نے لاک ڈاؤن نافذ نہ کیا ہوتا اورغیر معمولی اقدامات نہ کرتے تو وائرس سے صوبے میں بھاری نقصان ہوتا۔ انہوں نے کہاکہ ہم نے اس کے پھیلاؤ کو کم کردیا ہے۔
سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ سندھ میں کورونا وائرس کے خاتمے کے لیے وزیراعلی سندھ اور ان کی ٹیم کے اقدامات قابل ستائش ہیں تاہم عوام کو اس معاملے میں مکمل تعاون کرنا ہوگا تاکہ سندھ سمیت پورے ملک سے اس وباء کا خاتمہ ہوسکے،اس لیے کہا جا رہا ہے''گھر میں رہیں۔۔۔۔محفوظ پاکستان کے لیے۔۔۔۔۔۔
سندھ میں لاک ڈاؤن کے سبب سب سے زیادہ متاثر روزانہ اجرت پرکام کرنے والے، متوسط اور غریب طبقے ہیں، جن کے گھروں کا چولہا روز کماکر روز اخراجات کرکے جلتا ہے۔ حکومت سندھ نے لاک ڈاون پر عمل درآمد توشروع کردیا لیکن اب تک وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے سرکاری سطح پرعوام کو راشن پہنچانے کے لیے کوئی عملی اقدام دیکھنے میں نہیں آئے،روزانہ کی بنیاد پر اجلاس ہونے اور میکنزم کا اعلان کرنے کے باوجود غریب خاندان امداد سے محروم ہیں،چند فلاحی اداروں،سیاسی،مذہبی جماعتوں اور مخیر حضرات کی جانب سے امداد کاسلسلہ جاری ہے،لیکن یہ تمام امدادی کام ناکافی ہے،غریب افراد کے گھروں میں چولہے بجھ رہے ہیں اور ان کے پیٹ کی آگ بڑھ رہی ہے،جو سنگین صورتحال ہے۔
لوگ راشن کے لیے فلاحی اداروں اور حکومتی دفاترکے چکر لگا رہے ہیں اور میڈیا کے ذریعے مدد کی اپیل کررہے ہیں لیکن ان کی شنوائی نہیں ہو رہی، دوسری جانب کراچی سمیت صوبے بھر میں منافع خوروں نے آٹے کی منصوعی قلت پیدا کردی ہے،10کلوآٹے کا تھیلہ 650روپے کا فروخت ہو رہا ہے جبکہ دیگر کھانے پینے کی اشیاء بھی مہنگی ہوگئی ہیں،منافع خوروں کے خلاف تاحال حکومتی سطح پر موثر کریک ڈاؤن نہیں کیا گیا ہے،حکومت سندھ نے صوبے میں کھانے پینے کی اشیاء کی قلت دور کرنے کے لیے گڈٹرا نسپورٹ کو نقل وحمل کی اجازت دے دی ہے۔
دوسری جانب پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ایک اجلاس میں کہا ہے کہ وہ مستحق افراد کی امداد کے حوالے سے کوئی کوتاہی برداشت نہیں کریں گے۔ انہوں نے سندھ حکومت کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ وہ ایک ایک مستحق کے گھر راشن پہنچائے، وزیراعلیٰ سندھ نے یو آر ایل (ویب ایڈریس) کے ساتھ سندھ ریلیف انیشیٹو ایپلی کیشن قائم کی ہے۔ان کی حکومت نے فلاحی تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کرنے کا ارادہ کیا ہے اور انہیں مذکورہ بالا ویب ایڈریس کے تحت رجسٹرڈ کیا جائے گا تاکہ ان کے ساتھ مل کر یومیہ اُجرت والوں کو راشن ان کی دہلیز پر پہچایا جاسکے۔
https://play.google.com/store/ apps/details?id =inc.codelabs .krtvolunteer
وزیراعلیٰ نے کہا کہ یومیہ اجرت والوں کو ایک اپلی کیشن (ایپ) کے ذریعے رجسٹر کروانا ہوگا اور اس کے بعد حکومت مختلف علاقوں میں فلاحی تنظیموں کے ساتھ مل کر راشن تقسیم کرے گی۔ ایک خاندان کو 5500 روپے کا ایک راشن بیگ فراہم کیا جائے گا۔ وزیراعلیٰ کی ہدایت پر وزیر توانائی امتیاز شیخ، وزیر بلدیات ناصر شاہ اور مشیر قانون مرتضی وہاب عوام کے دروازے پر راشن کی منصفانہ تقسیم کے لئے فلاحی تنظیم کے ساتھ رابطہ کریں گے۔
سندھ کی اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی کے رہنماؤں فردوس شمیم نقوی اور حلیم عادل شیخ نے ایک پریس کانفرنس میں سندھ حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ صوبے میں کئی دن سے لاک ڈاؤن ہے عوام کو راشن نہیں مل رہا، اس وجہ سے سندھ میں خانہ جنگی کی صورتحال ہوسکتی ہے،سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومت سندھ ایپ بنانے کے بجائے یونین کونسل سطح پر غریبوں میں راشن کی تقسیم کا عمل شروع کرے تاکہ ان خاندانوں کی مشکلات کا ازالہ ہوسکے۔
کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے وزیر تعلیم سندھ سعید غنی صحت یاب ہوگئے۔ سعید غنی سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنی صحت یابی کی خبر دیتے ہوئے کہا کہ الحمد للہ میرے کورونا وائرس کے ہونے والے ٹیسٹ کی رپورٹ نیگیٹو آئی ہے اور ڈاکٹرز کے مطابق میں بالکل صحت یاب ہوں۔ وزیر تعلیم سندھ نے کہا کہ انشااللہ میری کوشش ہوگی کہ آئندہ بھی اپنی ذمہ داریاں بہتر طور پر انجام دے سکوں۔
کورونا وائرس پر بھی پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت اور اپوزیشن جماعتوں میں سیاسی محاذ آرائی جاری ہے،پیپلزپارٹی کے تحت کورونا وائرس پر ویڈیو لنک آل پارٹیز کانفرنس میں سیاسی قیادت نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان تشکیل دینے،قومی ٹاسک فورس کے قیام سمیت بلدیاتی اداروں تک ہر سطح پراس وباء کا مقابلہ کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں،اپوزیشن جماعتوں نے تمام تر اختلافات کو علیحدہ رکھ کر حکومت کو اپنے ہر ممکن تعاون کی پیشکش کبھی کی ہے۔
سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ سندھ سمیت ملک بھر میں کورونا وائرس کے خاتمے کے لیے وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ صوبائی حکومتوں سیاسی قیادت اور تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے ایک قومی پالیسی بنائے تاکہ پاکستان کو کورونافری بنایا جاسکے۔