’دہشت گردی ‘کے خلاف جنگ … آخری حصہ

بین الاقوامی سیاست میں کسی مقصد کے حصول کے لیے عوامی رائے کو پہلے استحکام بخشا جاتاہے جس کے لیے...

بین الاقوامی سیاست میں کسی مقصد کے حصول کے لیے عوامی رائے کو پہلے استحکام بخشا جاتاہے جس کے لیے مختلف خیالات کی Mediation کی جاتی ہے، کیونکہ جس طرح مادی صورتحال خیالات اور آئیڈیاز کو متعین کرتی ہے اسی طرح مختلف آئیڈیاز افراد کی مادی سرگرمیوں کو متعین کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، مثال کے طور پر طالبانائزشن پہلے ایک آئیڈیا ہی تھا پھر اس کو مادی شکل میں ڈھالنے کے لیے کچھ مخصوص افراد یا مذہبی گرو ہوںکو طالبان کا لیبل دیا گیا اور اس کے بعد اس لیبل کو استعمال کرتے ہوئے ایسے واقعات دنیا کے سامنے لائے گئے جن کی عملی شکل صرف تباہی، جنگ اور دہشت کی نمائندگی کر رہی تھی، اس طرح سے بین الاقوامی سیاسی کھلاڑیوں نے خصوصاََ مغربی عوام کے اذہان میں طالبان کے آئیڈیا کی عمل شکل پختہ کی اور جس کے نتیجے میں اس' طالبان' کے آئیڈیا نے کئی ریاستوں ، ان کی افواج اور ان کے عوام میںایک طرف تو عدم تحفظ کا احساس پیدا کیا تو دوسری طرف ان کی عملی سرگرمیوں کو متعین کیا ۔

اس آئیڈیا کے تحت کی جانے والی جنگی سرگرمی نے حقیقی طالبان کو جنم دیا ہے۔اب سامراج نے مادی صورتحال کو اپنے آئیڈیا کے ذریعے اس سطح پر استحکام بخش دیا ہے جہاں ''امن ''کے حصول کے لیے جنگ کرنے میں وہ حق بجانب دکھائی دیتا ہے، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دنیا کو اتنا خطرہ طالبان سے ہے جتنا کہ میڈیئشن کے ذریعے عوامی حلقوں میں تاثر پختہ کردیا گیا؟ اگر ہم انسانی زندگیوں کے زیاں کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو حقیقی خطرات کی کئی اور صورتیں ہمارے سامنے آتی ہیں جن سے بر سرِپیکار ہونا کہیں زیادہ ضروری ہے بہ نسبت 'دہشت گردی' کے خلاف جنگ کے، مثلاََ دہشت گردی کی جنگ کا آغاز جس بنیاد پر کیا گیا وہ دو ہزار ایک میں ہونے والا نائن الیون کا واقعہ تھا۔ جس میں تین ہزار تین سو افراد مارے گئے، جبکہ اس سے کئی گناہ زیادہ افراد عراق جنگ، افغانستان اور پاکستان میں ڈرون حملوں اورنیٹو فورسز کی کاروائیوں کے ذریعے مار دئیے گئے۔ یہ معمولی سے اعدادو شمار ان لوگوں کواپنے اذہان میں رکھ کر جائزہ لینے کی ضرورت ہے جو طالبان سے مذاکرات کی مخالفت کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ امریکی و اقوامِ متحدہ کی انسانیت کے لیے امن کی خواہش اور انسانی زندگیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے نام نہاد جذبے کا اصل بدصورت چہرہ دیکھنا ہو تو ان قدرتی آفات پر نظر ڈالنی چاہیے جن کے نتیجے میں دوہزار چار میں ایشیاء میں سونامی میں دولاکھ کے قریب انسانی جانوں کا نقصان ہوا، جبکہ 2005 میں Hurricane Katrina کے نتیجے میں امریکا میں دس ہزار آٹھ سو تیتیس افراد جاں بحق ہوئے اور لاکھوں افراد بے گھری کا شکار ہوئے۔ پاکستان اور افغانستان میں ہزاروں لوگ سیلاب کی وجہ سے ہر سال جاں بحق ہوجاتے ہیں ، مگر ان کی جانوںکے تحفظ کے لیے کوئی عملی اقدام نہیں اُٹھائے جاتے۔ دوسری طرف جنگوں کے نتیجے میں مو سمی تبدیلیاں واضح طور پر انسانوں پر فطرت کی طرف سے وارنٹِ تشدد ہیں، مگر ان سے نمٹنے کے لیے امریکہ سمیت ہمارے حکمرانوں کی طرف سے کوئی خاطر خواہ عملی قدم نہیں اُٹھایا جارہا۔


2013 میں امریکا کی قریباََ چھتیس ریاستیں پانی کی قلت کا شدید شکار رہی ہیں۔ امریکہ جو دنیا بھر کے ممالک میں انسانی جانوں کے تحفظ کے لیے فکر مند ، ریاست در ریاست فوجی قافلوں اور قاتلوںسمیت سرگرداں ہے اپنے لوگوں کی جان ومالکا تحفظ یقینی بنانے میں بری طرح ناکام ہورہا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنے عوام کی زندگیوں سے زیادہ اہم دنیا بھر کے مٹھی بھر سرمایہ داروں کے مفادات کا تحفظ مقدم ہے۔ مغربی سماجی سائنسدان امریکہ سے سراپا سوال ہیں کہ امریکا دنیا کی واحد عظیم طاقت ہونے کی حیثیت سے انسانیت کے تحفظ اور امن کے نام پر کی جانے والی بین الاقوامی سیاست میں بھر پور طریقے سے اثر انداز ہونے کی اہلیت رکھنے کے باوجود کیوں فوجی اور جنگی ذرائع پر مسلسل اخراجات کیے جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے لاکھوں افراد موت کا نشانہ بن رہے ہیں، تو دوسری طرف ان جنگی کارروائیوں کی وجہ سے پوری دنیا میں تقریباََ 8.4 ملین افراد ہجرت پر مجبور ہوچکے ہیں جن میں سے دو ملین مہاجرین کو ایران اور پاکستان کی ریاستوں نے پناہ دے رکھی ہے۔

پاکستان کے حکمرانوں کو اس حوالے سے بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ اس جنگ کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت پر کن کن زاویوں سے بوجھ ڈالا گیا ہے اور پاکستان کو مقروض کیا گیا ہے، جبکہ مغربی ترقی یافتہ ریاستیں بشمول امریکہ ، کینیڈا اور برطانیہ اپنے امیگریشن کے قوانین میں تیزی سے تبدیلیاں لا کر بین الاقوامی مہاجرین ، جو انہی کی جنگی کارروائیوں کے نتیجے میں در بدر ہو چکے ہیں،کا اپنے ممالک میں داخلے کی ہر راہ کو مسدود کر چکے ہیں تا کہ ان کی معیشت پر کسی قسم کا بوجھ نہ پڑے۔ دوسری طرف انسانیت کی بقاء کے ضامن اور امن کے داعی بش نے ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے لیے کیا جانے والا بین الاقوامی معاہدہ بھی یہ کہہ کر توڑ دیا کہ یہ ہماری مارکیٹ اکانومی کے لیے نقصان دہ ہے، جبکہ ماحولیاتی آلودگی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کی زد پر ترقی یافتہ ممالک ہوں گی کیونکہ وہ ماحولیاتی اور موسمی تبدیلیوں کے نتیجے میں آنے والی آفات سے نمٹنے کی صلاحیت اور وسائل اس سطح پر نہیں رکھتے جس سطح پر امریکا یا مغربی ترقی یافتہ ریاستیں ہیں۔

ان حقائق سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ تاریخی طور پر امریکا کسی بھی اور ریاست سے زیادہ ، ماحولیاتی آلودگی اور جنگوںکے نتیجے میں ہونے والی اموات ، غربت اور بے گھر افراد کی ہجرتوںمیں اضافے کا ذمے دارہے۔ پاکستانی حکمران یا عوام جو زوروشور سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو جاری رکھنے کی حمایت کر رہے ہیں ان کو اس تناظر میں امریکا کا کردار اور اس جنگ کے نتائج کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی جنگ کا اختتام عموماََ مذاکرات کی صورت ہی ہوتا ہے یہ بنا کسی نقصان کے کر لیے جائیں یا ملکی وسائل اور اداروں کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا جائے یہ کسی بھی ریاست کے حکمرانوں کی سیاسی بصیرت اور اپنے عوام کی فلاح کے جذبے کی سچائی کی سطح پر منحصر ہوتا ہے۔

پاکستانی عوام کو 2001 سے 2013 تک اتنا نقصان طالبان نے نہیں دیا جتنا ہر سال آنے والے سیلاب، جنگ کے نتیجے میں ہونے والی معیشت کی تباہی، بے روزگاری ، غربت اور دہشت گردی کے آئیڈیا کو مادی شکل میں تبدیل کرکے مزید پیدا کیے گئے مجرموں نے دیا ہے۔اس تناظر میں جائزہ لیا جائے توہماری حکومت ، امریکہ اور اس کی اتحادی ریاستوں کے ''امن'' کے قیام کی اس خواہش کا اصل محرک انسانیت کا تحفظ نہیں ،بلکہ عوام کے اصل مسائل کو التواء میں رکھنا ہے۔سماجی و سیاسی سائنسدان امریکہ اور اس کی اتحادی ریاستوں سے سوال کرتے ہیں کہ کیا وہ اس بات کی وضاحت کرسکتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی اس جنگ کے تناظر میں عوامی تحفظ کا یہ کونسا طریقہ ہے کہ جس کے نتیجے میں پوری دنیا عدم تحفظ کا شکار ہوچکی ہے۔اس حوالے سے ہمارے سیاسی ماہرین اور حکومتی نمائندوں کو غور کرنے کی اس لیے خصوصی ضرورت ہے کہ اس جنگ کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت، ثقا فت، روایات ، آزاد ریاست کی شناخت ،ہماری عوام اور سیکیورٹی فورسز کے ادارے براہ راست بری طرح تباہی کا شکار ہورہے ہیں، کیونکہ تمام کی تمام توانائیاں امریکہ کی خوشنودی کے لیے کی جانے والی اس جنگ پر لگا دی گئی ہیںاور عوامی تحفظ کے حصول کی بلاضرورت امریکی خواہش کے نتیجے میں کیے جانے والے اقدامات کو اہمیت دیتے ہوئے، عوامی مسائل اور انسانی زندگی کی بقاء کے لیے لازمی بنیادی ضرورتوں کو بری طرح سے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
Load Next Story