منتخب نمائندے اورشرمندگی
بھٹو دور میں سب پارٹیوں نے مل کر ملک کو 1973 کا پارلیمانی نظام دیا تھا
کراچی کے سب سے پس ماندہ قرار دیے جانے والے علاقے سے منتخب اور وفاقی وزیر جب عرصہ دراز کے بعد دورے پر آئے تو ان کے حلقہ انتخاب کے لوگ انھیں دیکھ کر سڑکوں پر نکل آئے اور انھوں نے انھیں اور ان کے ساتھ موجود حلقے کے رکن سندھ اسمبلی کا گھیراؤ کرلیا اور احتجاج شروع کردیا اور علاقے کو نظرانداز کرنے اور وقت نہ دینے پر دونوں پر تنقید کی۔علاقے میں ان کے خلاف لگے بینر اور دیواریں دونوں منتخب نمائندوں کا منہ چڑاتی رہیں جن پر تحریر تھا کہ تجھے ووٹ دے کر ہم شرمندہ ہیں۔
علاقے میں کی گئی وال چاکنگ اپنے پوش علاقے میں رہ کر پس ماندہ علاقے سے منتخب کرائے گئے منتخب نمایندوں کی صحت پر کوئی اثر نہیں ڈالے گی اور انھیں منتخب کرنے والوں کو ان کی بقیہ مدت کا انتظار کرنا پڑے گا کیونکہ جن لوگوں نے انھیں منتخب کیا تھا وہ اب خود شرمندہ ہوں تو ہوتے رہیں کیونکہ اب کچھ نہیں ہونا اور انھیں دیے گئے غلط انتخاب کی سزا خود ہی بھگتنا ہوگی۔
راقم نے صحافت کی 51 ویں زندگی میں اپنی طالب علمی کے شروع دور میں پہلا بلدیاتی انتخاب غالباً 1964 میں دیکھا تھا جب ایوب خان کے بی ڈی دور میں متحدہ پاکستان میں 80 ہزار بی ڈی ممبروں کو منتخب کیا گیا تھا جنھوں نے بعد میں صدر پاکستان کا انتخاب کرنا تھا جس میں برسر اقتدار جنرل ایوب خان کے مقابلے کے لیے اپوزیشن نے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو اپنا امیدوار بنایا تھا اور محترمہ میرے آبائی شہر شکارپور میں جلسے سے خطاب کے لیے آئی تھیں مگر صدارتی انتخاب میں انھیں سرکاری طور پر ہروا دیا گیا تھا جس کے نتائج کو عوام نے اب تک تسلیم نہیں کیا۔ اس وقت صدارتی انتخاب بی ڈی ارکان کے ذریعے ہوتا تھا جب کہ ملک کی آبادی کم اور بنگلہ دیش مشرقی پاکستان اور آبادی میں مغربی پاکستان سے بڑا تھا۔
ایوب خان اور محترمہ فاطمہ جناح کا مقابلہ ملک کا آخری صدارتی انتخاب تھا جس کے بعد 1965 کی جنگ ہوئی اور دو سال بعد صدر ایوب کے خاص وزیر ذوالفقار علی بھٹو مستعفی ہوکر ان کے مقابل اپنی پیپلزپارٹی بناکر آگئے تھے اور اپوزیشن نے ملک میں احتجاج شروع کرا دیا تھا جن میں اصغر خان نمایاں تھے جس کے بعد صدر ایوب خان نے اقتدار جنرل یحییٰ کے سپرد کردیا تھا اور ملک میں پھر مارشل لا لگ گیا تھا جو طویل نہیں تھا۔
صدر جنرل یحییٰ خان طویل عرصہ اقتدار میں رہنا چاہتے تھے اس لیے انھوں نے ملک میں قومی و پانچ صوبائی اسمبلیوں کے جو انتخابات کرائے انھیں کافی حد تک منصفانہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ جنرل یحییٰ خان کی اپنی کوئی سیاسی پارٹی نہیں تھی مگر 1970 کے پارلیمانی انتخابات میں جنرل یحییٰ کی توقعات کے برعکس نتائج برآمد ہوئے۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ، سندھ و پنجاب میں پیپلزپارٹی اور بلوچستان اور سرحد میں نیپ اور جے یو آئی نے اکثریت حاصل کی جس وجہ سے جنرل یحییٰ خان کی ان منتخب اسمبلیوں کے ذریعے صدر منتخب ہونے کی اپنی خواہش معدوم ہوگئی تھی۔
نیپ اور جے یو آئی قومی اسمبلی میں واضح اکثریت لینے والی عوامی لیگ کو ملک کے اقتدار کا حقدار سمجھتی تھیں جو درست بھی تھی مگر اس صورت میں جنرل یحییٰ کی صدر اور بھٹو کی وزیر اعظم بننے کی خواہش پوری نہیں ہوسکتی تھی۔ جنرل یحییٰ خان نے ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا جو اگر منعقد ہو جاتا تو اقتدار عوامی لیگ کو مل جاتا اور مجیب الرحمن وزیر اعظم بن جاتے جنھیں روکنے کے لیے مغربی پاکستان میں سازشیں ہوئیں جن سے بھارت کو مشرقی پاکستان میں مداخلت کا موقعہ ملا جو شیخ مجیب کے اقتدار کا حامی تھا۔ جنگ 1971 نے جنرل یحییٰ خان کے خواب پورے نہ ہونے دیے مگر بھٹو کو اپنے خواب کی تعبیر نظر آگئی تھی۔
ملک دولخت کرا دیا گیا اور یحییٰ خان مارشل لا سمیت اقتدار بھٹو کو دینے پر مجبور ضرور ہوئے مگر ملک ٹوٹ جانے کی شرمندگی کسی بڑی پارٹی نے محسوس تک نہیں کی کیونکہ دونوں بڑی پارٹیوں کو اپنے اپنے وزیر اعظم مل گئے تھے اور شرمندگی اسی طرح عوام کو ہوئی تھی جس طرح پوش علاقے کے رہنے والے دولت مند کو پس ماندہ علاقے سے منتخب کرانے والے عوام کو اب ہو رہی ہے۔
بھٹو دور میں سب پارٹیوں نے مل کر ملک کو 1973 کا پارلیمانی نظام دیا تھا اور بااختیار صدر کو وزیر اعظم کا محتاج بنا دیا گیا تھا اور وزیر اعظم کو مکمل اختیارات مل گئے تھے جنھوں نے اپنے اختیارات کا کھل کر اس طرح استعمال کیا کہ قبل از وقت کرائے گئے انتخابات میں ایوب خان جیسی حکومتی کامیابی حاصل کرلی جو اپوزیشن نے تسلیم نہیں کی اور احتجاج شروع کیا تو وزیر اعظم نے پوری اپوزیشن جیل میں بند کردی مگر احتجاج نہ رکا۔ سقوط ڈھاکہ سے حکمرانوں نے سبق حاصل نہیں کیا اور ملک کو طویل ترین مارشل لا بھگتنا پڑا تھا۔
طویل مارشل لا کے ذمے داروں نے پھر بھی شرمندگی محسوس نہیں کی جس کے خاتمے کے بعد سے اب تک ملک میں آٹھ بار پارلیمانی انتخابات ہوچکے ہیں جن میں آج تک ہارنے والوں نے انھیں کبھی کسی ایک بھی الیکشن کو منصفانہ تسلیم نہیں کیا جو ہمیشہ متنازعہ قرار پائے اور ان انتخابات کی شفافیت صرف جیتنے والوں نے ہی تسلیم کی بلکہ حکومت میں آنے والے تو ایسے متنازعہ انتخابات پر ایمان تک لے آئے مگر ماضی میں وہ حکومت سے دور اور ہارے انھیں بھی وہ ایسے ہی غیر متنازعہ لگے تھے جیسے آج کے حکمرانوں کو 2018 کے انتخابات شفاف نظر آتے ہیں کیونکہ ان کے نتیجے میں وہ پہلی بار اقتدار میں آئے ہیں جب کہ ماضی میں اقتدار میں رہنے والے انھیں انتہائی متنازعہ اور انجینئرڈ قرار دیتے آ رہے ہیں۔
عام انتخابات میں عوام کی دلچسپی مسلسل کم ہو رہی ہے اور 2018 کے عام انتخابات کے غیر متوقع نتائج سے تو وہ بھی مایوس ہوئے جن کا تعلق کسی سیاسی پارٹی سے نہیں تھا انھوں نے نتائج پر حیرانگی کے ساتھ شرمندگی کو زیادہ محسوس کیا مگر ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں وہ کر بھی کیا سکتے ہیں۔
صدر، وزیر اعظم، وزرائے اعلیٰ اور پارٹی قائدین کو بعد میں کوئی پسندیدہ نہ رہے تو وہ وزیر، مشیر اور معاونین بدل سکتے ہیں یا کسی کی کارکردگی خراب ہونے پر سزا بھی دے سکتے ہیں مگر عوام ہی ایسے رہ گئے ہیں کہ ان پر مسلط یا منتخب کردہ عوامی نمایندہ انھیں بھول جائے۔ کبھی حلقے میں آئے نہ ملے اور نہ عوام کے کام آئے عوام اسے تبدیل نہیں کرسکتے اور انھیں نئے الیکشن کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ عوام کو شرمندہ کرنے والوں کو سزا تو نہیں آیندہ ووٹ نہ دے کر اپنے غصے کا اظہار تو کرسکتے ہیں مگر ایسا بھی ہوتا آیا ہے کہ عوام جسے مسترد کریں وہ پھر بھی مسلط کردیا جاتا ہے جس پر لوگوں کا حق رائے دہی پر اعتماد ہی متاثر ہوتا ہے۔
علاقے میں کی گئی وال چاکنگ اپنے پوش علاقے میں رہ کر پس ماندہ علاقے سے منتخب کرائے گئے منتخب نمایندوں کی صحت پر کوئی اثر نہیں ڈالے گی اور انھیں منتخب کرنے والوں کو ان کی بقیہ مدت کا انتظار کرنا پڑے گا کیونکہ جن لوگوں نے انھیں منتخب کیا تھا وہ اب خود شرمندہ ہوں تو ہوتے رہیں کیونکہ اب کچھ نہیں ہونا اور انھیں دیے گئے غلط انتخاب کی سزا خود ہی بھگتنا ہوگی۔
راقم نے صحافت کی 51 ویں زندگی میں اپنی طالب علمی کے شروع دور میں پہلا بلدیاتی انتخاب غالباً 1964 میں دیکھا تھا جب ایوب خان کے بی ڈی دور میں متحدہ پاکستان میں 80 ہزار بی ڈی ممبروں کو منتخب کیا گیا تھا جنھوں نے بعد میں صدر پاکستان کا انتخاب کرنا تھا جس میں برسر اقتدار جنرل ایوب خان کے مقابلے کے لیے اپوزیشن نے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو اپنا امیدوار بنایا تھا اور محترمہ میرے آبائی شہر شکارپور میں جلسے سے خطاب کے لیے آئی تھیں مگر صدارتی انتخاب میں انھیں سرکاری طور پر ہروا دیا گیا تھا جس کے نتائج کو عوام نے اب تک تسلیم نہیں کیا۔ اس وقت صدارتی انتخاب بی ڈی ارکان کے ذریعے ہوتا تھا جب کہ ملک کی آبادی کم اور بنگلہ دیش مشرقی پاکستان اور آبادی میں مغربی پاکستان سے بڑا تھا۔
ایوب خان اور محترمہ فاطمہ جناح کا مقابلہ ملک کا آخری صدارتی انتخاب تھا جس کے بعد 1965 کی جنگ ہوئی اور دو سال بعد صدر ایوب کے خاص وزیر ذوالفقار علی بھٹو مستعفی ہوکر ان کے مقابل اپنی پیپلزپارٹی بناکر آگئے تھے اور اپوزیشن نے ملک میں احتجاج شروع کرا دیا تھا جن میں اصغر خان نمایاں تھے جس کے بعد صدر ایوب خان نے اقتدار جنرل یحییٰ کے سپرد کردیا تھا اور ملک میں پھر مارشل لا لگ گیا تھا جو طویل نہیں تھا۔
صدر جنرل یحییٰ خان طویل عرصہ اقتدار میں رہنا چاہتے تھے اس لیے انھوں نے ملک میں قومی و پانچ صوبائی اسمبلیوں کے جو انتخابات کرائے انھیں کافی حد تک منصفانہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ جنرل یحییٰ خان کی اپنی کوئی سیاسی پارٹی نہیں تھی مگر 1970 کے پارلیمانی انتخابات میں جنرل یحییٰ کی توقعات کے برعکس نتائج برآمد ہوئے۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ، سندھ و پنجاب میں پیپلزپارٹی اور بلوچستان اور سرحد میں نیپ اور جے یو آئی نے اکثریت حاصل کی جس وجہ سے جنرل یحییٰ خان کی ان منتخب اسمبلیوں کے ذریعے صدر منتخب ہونے کی اپنی خواہش معدوم ہوگئی تھی۔
نیپ اور جے یو آئی قومی اسمبلی میں واضح اکثریت لینے والی عوامی لیگ کو ملک کے اقتدار کا حقدار سمجھتی تھیں جو درست بھی تھی مگر اس صورت میں جنرل یحییٰ کی صدر اور بھٹو کی وزیر اعظم بننے کی خواہش پوری نہیں ہوسکتی تھی۔ جنرل یحییٰ خان نے ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا جو اگر منعقد ہو جاتا تو اقتدار عوامی لیگ کو مل جاتا اور مجیب الرحمن وزیر اعظم بن جاتے جنھیں روکنے کے لیے مغربی پاکستان میں سازشیں ہوئیں جن سے بھارت کو مشرقی پاکستان میں مداخلت کا موقعہ ملا جو شیخ مجیب کے اقتدار کا حامی تھا۔ جنگ 1971 نے جنرل یحییٰ خان کے خواب پورے نہ ہونے دیے مگر بھٹو کو اپنے خواب کی تعبیر نظر آگئی تھی۔
ملک دولخت کرا دیا گیا اور یحییٰ خان مارشل لا سمیت اقتدار بھٹو کو دینے پر مجبور ضرور ہوئے مگر ملک ٹوٹ جانے کی شرمندگی کسی بڑی پارٹی نے محسوس تک نہیں کی کیونکہ دونوں بڑی پارٹیوں کو اپنے اپنے وزیر اعظم مل گئے تھے اور شرمندگی اسی طرح عوام کو ہوئی تھی جس طرح پوش علاقے کے رہنے والے دولت مند کو پس ماندہ علاقے سے منتخب کرانے والے عوام کو اب ہو رہی ہے۔
بھٹو دور میں سب پارٹیوں نے مل کر ملک کو 1973 کا پارلیمانی نظام دیا تھا اور بااختیار صدر کو وزیر اعظم کا محتاج بنا دیا گیا تھا اور وزیر اعظم کو مکمل اختیارات مل گئے تھے جنھوں نے اپنے اختیارات کا کھل کر اس طرح استعمال کیا کہ قبل از وقت کرائے گئے انتخابات میں ایوب خان جیسی حکومتی کامیابی حاصل کرلی جو اپوزیشن نے تسلیم نہیں کی اور احتجاج شروع کیا تو وزیر اعظم نے پوری اپوزیشن جیل میں بند کردی مگر احتجاج نہ رکا۔ سقوط ڈھاکہ سے حکمرانوں نے سبق حاصل نہیں کیا اور ملک کو طویل ترین مارشل لا بھگتنا پڑا تھا۔
طویل مارشل لا کے ذمے داروں نے پھر بھی شرمندگی محسوس نہیں کی جس کے خاتمے کے بعد سے اب تک ملک میں آٹھ بار پارلیمانی انتخابات ہوچکے ہیں جن میں آج تک ہارنے والوں نے انھیں کبھی کسی ایک بھی الیکشن کو منصفانہ تسلیم نہیں کیا جو ہمیشہ متنازعہ قرار پائے اور ان انتخابات کی شفافیت صرف جیتنے والوں نے ہی تسلیم کی بلکہ حکومت میں آنے والے تو ایسے متنازعہ انتخابات پر ایمان تک لے آئے مگر ماضی میں وہ حکومت سے دور اور ہارے انھیں بھی وہ ایسے ہی غیر متنازعہ لگے تھے جیسے آج کے حکمرانوں کو 2018 کے انتخابات شفاف نظر آتے ہیں کیونکہ ان کے نتیجے میں وہ پہلی بار اقتدار میں آئے ہیں جب کہ ماضی میں اقتدار میں رہنے والے انھیں انتہائی متنازعہ اور انجینئرڈ قرار دیتے آ رہے ہیں۔
عام انتخابات میں عوام کی دلچسپی مسلسل کم ہو رہی ہے اور 2018 کے عام انتخابات کے غیر متوقع نتائج سے تو وہ بھی مایوس ہوئے جن کا تعلق کسی سیاسی پارٹی سے نہیں تھا انھوں نے نتائج پر حیرانگی کے ساتھ شرمندگی کو زیادہ محسوس کیا مگر ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں وہ کر بھی کیا سکتے ہیں۔
صدر، وزیر اعظم، وزرائے اعلیٰ اور پارٹی قائدین کو بعد میں کوئی پسندیدہ نہ رہے تو وہ وزیر، مشیر اور معاونین بدل سکتے ہیں یا کسی کی کارکردگی خراب ہونے پر سزا بھی دے سکتے ہیں مگر عوام ہی ایسے رہ گئے ہیں کہ ان پر مسلط یا منتخب کردہ عوامی نمایندہ انھیں بھول جائے۔ کبھی حلقے میں آئے نہ ملے اور نہ عوام کے کام آئے عوام اسے تبدیل نہیں کرسکتے اور انھیں نئے الیکشن کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ عوام کو شرمندہ کرنے والوں کو سزا تو نہیں آیندہ ووٹ نہ دے کر اپنے غصے کا اظہار تو کرسکتے ہیں مگر ایسا بھی ہوتا آیا ہے کہ عوام جسے مسترد کریں وہ پھر بھی مسلط کردیا جاتا ہے جس پر لوگوں کا حق رائے دہی پر اعتماد ہی متاثر ہوتا ہے۔