ہمسائے ہیں کوئی ہرجائی نہیں
دیوارملی ہوئی ہے مگر دل کیوں نہیں ملتے؟
برق رفتار اطلاعات کے اس دور میں ایک انسان کا خود سے ہزاروں میل کی مسافت پر بیٹھے دوسرے شخص سے تیز تر رابطہ ہونا کوئی نئی بات نہیں رہی۔
اسی رابطوں کے توسط سے آپ کا حلقہ احباب خاصا پھیلتا چلا گیا ہوگا اور بہت سے لوگوں سے آپ اپنے ناتے کو اس سے بھی بڑھ کر دوستی جیسے رشتے سے بھی تعبیر کرتے ہوں گے، لیکن اتنے سارے دوستوں کی موجودگی میں ایسے کتنے لوگ ہیں جن کے اپنے پڑوسی سے تعلقات مثالی ہوں یا ایسے کتنے لوگ ہیں، جو دراصل اپنے پڑوسی کے بارے میں مکمل طور پر جانتے یا معلومات رکھتے ہوں۔ ایک سروے کے مطابق 61 فی صد لوگ اپنے پڑوسیوں کے بارے میں جاننے کے خواہش مند رہتے ہیں، لیکن وقت کی کمی یا اپنی مصروفیات اور جھجک کے باعث ان سے اچھے تعلقات قایم نہیں کر پاتے۔ پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات صرف جذباتی سطح پر ہی نہیں، بلکہ زندگی کے ہر ممکن موقع پر کام آتے ہیں۔
ماضی میں ایسا بھی دور گزرا ہے، جب لوگ اپنی مصروفیات اور دیگر سرگرمیوں کے باوجود اپنے پڑوسیوں سے تعلقات کو قایم رکھنا اور انہیں نبھانا اچھی طرح جانتے تھے اور ہمارا مذہب بھی اس حوالے سے خاصی تاکید کرتا ہے۔ اُن وقتوں میں یہ رشتے کسی خونی رشتے سے کم نہ تھے، اگر کبھی گھر تبدیل بھی کر لیا جاتا، تب بھی پرانے پڑوسیوں سے باہمی تعلقات جوں کے توں استوار رہتے، لیکن آ ج کے نفسا نفسی کے دور میں ہمیں اپنے موجودہ پڑوسیوں کے بارے میں صحیح سے نہیں معلوم ہوگا۔ شاید بہت سوں کے ہمیں ناموں کا علم اور شکل سے واقفیت بھی نہ ہو۔
گئے وقتوں میں مشترکہ خاندانی نظام کی بدولت ہمارے روایات و اقدار خاصی مستحکم تھیں اور ہر طرح کے رشتوں ناتوں کا خلوص دل سے اچھی طرح پاس رکھا جاتا تھا، لیکن اب صورت حال مختلف ہو چکی ہے۔ لوگوں کی ترجیحات بھی بدل گئی ہیں۔ آج دیوار سے دیوار ملی ہونے کے باوجود دلوں میں قربتیں نہیں آپاتیں۔ زندگی کی بھاگا دوڑی اور بڑھتے ہوئے مسائل کے علاوہ ذہنی و معاشرتی انتشار نے اس چیز کو جنم دیا ہے۔ اس کے باوجود بھی معاشرے میں آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں کو صرف دنیا دکھاوے کو نہیں، بلکہ خندہ پیشانی سے اپنے پڑوسیوں کے حقوق کو نبھانے کی پوری کوشش کرتے ہیں، مگر ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے۔ معاشرتی سطح پر اس کی بڑی وجہ وقت کی کمی، مصروفیات اور منہگائی ہی کو سمجھا جاتا ہے۔
ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ انسان تنہا نہیں رہ سکتا۔ ایک گھر اگر اکائی ہے تو اسے لازماً اپنے برابر والوں کے ساتھ کسی نہ کسی سطح پر منسلک رہنا چاہیے۔ یہ مذہبی، معاشرتی اور نفسیاتی ضروت کے علاوہ عین منطقی بھی ہے، کیوں کہ سماج ایک دوسرے کے تعاون سے ہی چلتا اور آگے بڑھتا ہے، بہ حیثیت ایک خاتون اگر ہم اپنی قرب وجوار کی خواتین سے اچھے تعلقات جوڑے رکھیں گی تو یقیناً یہ امر ہر طرح سے سود مند ثابت ہوگا، کیوں کہ یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی مشکل کی گھڑی میں صرف ہمسائے ہی سب سے پہلے کام آتے ہیں۔ فی زمانہ لوگوں کے گھر بدلنے کا رجحان خاصا زیادہ ہے۔ لہٰذا جب ہم کسی نئی جگہ پر جا کر بستے ہیں یا کوئی ہمارے برابر والے گھر میں نیا مکین آتا ہے تو ہمارے درمیان جھجک رہتی ہے جس کی وجہ سے بات چیت ہی نہیں ہو پاتی۔ ہمیں کوئی موضوع ہی نہیں سوجھتا کہ ہم کس طرح بات شروع کریں۔ حالاں کہ ہم بہت زبردست طریقے سے اپنے نئے پڑوسیوں کو جا کر خوش آمدید کہہ سکتے ہیں۔ ان کے بارے میں جان سکتے ہیں اور اپنا تعارف کرا سکتے ہیں کہ ہم آپ کے پڑوس میں ہی رہتے ہیں وغیرہ وغیرہ، اس طرح ہم پہلے دن ہی عمدہ تعلقات کی بنیاد رکھ دیتے ہیں۔ دوسری صورت میں ہم سوچتے ہی رہتے ہیں اور پھر ہمارے اچھے تعلقات کی چاہ دھری کی دھری ہی رہ جاتی ہے۔
اسی طرح اگر آپ نے حال ہی میں نیا گھر لیا ہے تو وہاں کا ماحول آپ کے لیے اجنبیت کا حامل ہو گا اور اس وقت آپ کا نیا پڑوسی ہی آپ کا اس اجنبیت سے نکال سکتا ہے۔ اس مرحلے پر آپ کے خود جا کر تعارف کرانے میں بھی کوئی مضایقہ نہیں ہے۔ اسی طرح سرِراہ جب کبھی بھی کوئی پڑوسی دکھائی دے، آپ لازمی اس سے رک کر علیک سلیک کر کے اس کی خیر خیریت لیں۔ وقت کی تیز رفتاری میں یہ امر آپ کو اچھے پڑوسی بنانے میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔
اپنے پڑوسی کی کسی بھی چیز جو اسے بہت زیادہ عزیز ہو اس کی تعریف کریں۔ چاہے وہ اس کا گھر، بچے یا پھر اس کے کپڑے ہی کیوں نہ ہوں، کیوں کہ تعریف وہ اوزار ہے، جو کسی کا بھی دل جیت سکتی ہے، لیکن یہ یاد رہے کہ اس تعریف میں خوشامد کا پہلو شامل نہ ہو۔ دوستی یا ایک دوسرے کو جاننے کاتعلق اسی نقطے سے ہوتا ہے کہ آپ دونوں میں مشترکہ چیز کیا ہے اسی لیے نہ صرف اس کی تعریف کریں، بلکہ اس حوالے سے اس اچھے مشورے بھی دیں، جس سے اپنی ذات میں آپ کی بڑھتی ہوئی دل چسپی اسے آپ سے دوستی کرنے پر مجبور کرے گی۔
اکثرو بیش تر لوگ اچھے تعلقات قائم رکھنے کا سب سے اہم نکتہ نظر انداز کر دیتے ہیں اور وہ نکتہ ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرانے کا ہے، آپ کی ایک ہلکی سی مُسکان دوسروں سے تعلقات کے آغاز میں خاصی مدد دے سکتی ہے، لہٰذا جس سمے بھی ہمسائے ملیں تو ایک تبسم کے ذریعے اس کی تواضع کریں۔
گھر میں اگر بچے ہوں تو پھر آپ کے اپنے پڑوسی کے ساتھ اور بھی زیادہ مضبوط اور خوش گوار ہو سکتے ہیں، آج کل گھر کے قریب کسی بھی پارک میں جہاں مائیں اپنے بچوں کے ساتھ موجود ہوں وہاں ایک دوسرے کو جاننے کا آپ کو بہترین موقع ملتا ہے۔ اس کے علاوہ آپ نئے ہوں یا آپ کے ساتھ والے گھر میں نئے پڑوسی آئے ہوں، ان کے ہاں کوئی خصوصی پکوان بھجوا کر بھی اپنی طرف سے پہل کی جا سکتی ہے۔ یاد رکھیں منہگائی، مصروفیات اور وقت کی کمی یہ سب زندگی کا حصہ ہے، لیکن آپ کا اعلا اخلاق نہ صرف دوسروں کی نظر میں بلند مقام عطا کرے گا، بلکہ آپ خود بھی اطمینان قلب اور زندگی میں سکون محسوس کریں گے۔
اسی رابطوں کے توسط سے آپ کا حلقہ احباب خاصا پھیلتا چلا گیا ہوگا اور بہت سے لوگوں سے آپ اپنے ناتے کو اس سے بھی بڑھ کر دوستی جیسے رشتے سے بھی تعبیر کرتے ہوں گے، لیکن اتنے سارے دوستوں کی موجودگی میں ایسے کتنے لوگ ہیں جن کے اپنے پڑوسی سے تعلقات مثالی ہوں یا ایسے کتنے لوگ ہیں، جو دراصل اپنے پڑوسی کے بارے میں مکمل طور پر جانتے یا معلومات رکھتے ہوں۔ ایک سروے کے مطابق 61 فی صد لوگ اپنے پڑوسیوں کے بارے میں جاننے کے خواہش مند رہتے ہیں، لیکن وقت کی کمی یا اپنی مصروفیات اور جھجک کے باعث ان سے اچھے تعلقات قایم نہیں کر پاتے۔ پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات صرف جذباتی سطح پر ہی نہیں، بلکہ زندگی کے ہر ممکن موقع پر کام آتے ہیں۔
ماضی میں ایسا بھی دور گزرا ہے، جب لوگ اپنی مصروفیات اور دیگر سرگرمیوں کے باوجود اپنے پڑوسیوں سے تعلقات کو قایم رکھنا اور انہیں نبھانا اچھی طرح جانتے تھے اور ہمارا مذہب بھی اس حوالے سے خاصی تاکید کرتا ہے۔ اُن وقتوں میں یہ رشتے کسی خونی رشتے سے کم نہ تھے، اگر کبھی گھر تبدیل بھی کر لیا جاتا، تب بھی پرانے پڑوسیوں سے باہمی تعلقات جوں کے توں استوار رہتے، لیکن آ ج کے نفسا نفسی کے دور میں ہمیں اپنے موجودہ پڑوسیوں کے بارے میں صحیح سے نہیں معلوم ہوگا۔ شاید بہت سوں کے ہمیں ناموں کا علم اور شکل سے واقفیت بھی نہ ہو۔
گئے وقتوں میں مشترکہ خاندانی نظام کی بدولت ہمارے روایات و اقدار خاصی مستحکم تھیں اور ہر طرح کے رشتوں ناتوں کا خلوص دل سے اچھی طرح پاس رکھا جاتا تھا، لیکن اب صورت حال مختلف ہو چکی ہے۔ لوگوں کی ترجیحات بھی بدل گئی ہیں۔ آج دیوار سے دیوار ملی ہونے کے باوجود دلوں میں قربتیں نہیں آپاتیں۔ زندگی کی بھاگا دوڑی اور بڑھتے ہوئے مسائل کے علاوہ ذہنی و معاشرتی انتشار نے اس چیز کو جنم دیا ہے۔ اس کے باوجود بھی معاشرے میں آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں کو صرف دنیا دکھاوے کو نہیں، بلکہ خندہ پیشانی سے اپنے پڑوسیوں کے حقوق کو نبھانے کی پوری کوشش کرتے ہیں، مگر ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے۔ معاشرتی سطح پر اس کی بڑی وجہ وقت کی کمی، مصروفیات اور منہگائی ہی کو سمجھا جاتا ہے۔
ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ انسان تنہا نہیں رہ سکتا۔ ایک گھر اگر اکائی ہے تو اسے لازماً اپنے برابر والوں کے ساتھ کسی نہ کسی سطح پر منسلک رہنا چاہیے۔ یہ مذہبی، معاشرتی اور نفسیاتی ضروت کے علاوہ عین منطقی بھی ہے، کیوں کہ سماج ایک دوسرے کے تعاون سے ہی چلتا اور آگے بڑھتا ہے، بہ حیثیت ایک خاتون اگر ہم اپنی قرب وجوار کی خواتین سے اچھے تعلقات جوڑے رکھیں گی تو یقیناً یہ امر ہر طرح سے سود مند ثابت ہوگا، کیوں کہ یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی مشکل کی گھڑی میں صرف ہمسائے ہی سب سے پہلے کام آتے ہیں۔ فی زمانہ لوگوں کے گھر بدلنے کا رجحان خاصا زیادہ ہے۔ لہٰذا جب ہم کسی نئی جگہ پر جا کر بستے ہیں یا کوئی ہمارے برابر والے گھر میں نیا مکین آتا ہے تو ہمارے درمیان جھجک رہتی ہے جس کی وجہ سے بات چیت ہی نہیں ہو پاتی۔ ہمیں کوئی موضوع ہی نہیں سوجھتا کہ ہم کس طرح بات شروع کریں۔ حالاں کہ ہم بہت زبردست طریقے سے اپنے نئے پڑوسیوں کو جا کر خوش آمدید کہہ سکتے ہیں۔ ان کے بارے میں جان سکتے ہیں اور اپنا تعارف کرا سکتے ہیں کہ ہم آپ کے پڑوس میں ہی رہتے ہیں وغیرہ وغیرہ، اس طرح ہم پہلے دن ہی عمدہ تعلقات کی بنیاد رکھ دیتے ہیں۔ دوسری صورت میں ہم سوچتے ہی رہتے ہیں اور پھر ہمارے اچھے تعلقات کی چاہ دھری کی دھری ہی رہ جاتی ہے۔
اسی طرح اگر آپ نے حال ہی میں نیا گھر لیا ہے تو وہاں کا ماحول آپ کے لیے اجنبیت کا حامل ہو گا اور اس وقت آپ کا نیا پڑوسی ہی آپ کا اس اجنبیت سے نکال سکتا ہے۔ اس مرحلے پر آپ کے خود جا کر تعارف کرانے میں بھی کوئی مضایقہ نہیں ہے۔ اسی طرح سرِراہ جب کبھی بھی کوئی پڑوسی دکھائی دے، آپ لازمی اس سے رک کر علیک سلیک کر کے اس کی خیر خیریت لیں۔ وقت کی تیز رفتاری میں یہ امر آپ کو اچھے پڑوسی بنانے میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔
اپنے پڑوسی کی کسی بھی چیز جو اسے بہت زیادہ عزیز ہو اس کی تعریف کریں۔ چاہے وہ اس کا گھر، بچے یا پھر اس کے کپڑے ہی کیوں نہ ہوں، کیوں کہ تعریف وہ اوزار ہے، جو کسی کا بھی دل جیت سکتی ہے، لیکن یہ یاد رہے کہ اس تعریف میں خوشامد کا پہلو شامل نہ ہو۔ دوستی یا ایک دوسرے کو جاننے کاتعلق اسی نقطے سے ہوتا ہے کہ آپ دونوں میں مشترکہ چیز کیا ہے اسی لیے نہ صرف اس کی تعریف کریں، بلکہ اس حوالے سے اس اچھے مشورے بھی دیں، جس سے اپنی ذات میں آپ کی بڑھتی ہوئی دل چسپی اسے آپ سے دوستی کرنے پر مجبور کرے گی۔
اکثرو بیش تر لوگ اچھے تعلقات قائم رکھنے کا سب سے اہم نکتہ نظر انداز کر دیتے ہیں اور وہ نکتہ ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرانے کا ہے، آپ کی ایک ہلکی سی مُسکان دوسروں سے تعلقات کے آغاز میں خاصی مدد دے سکتی ہے، لہٰذا جس سمے بھی ہمسائے ملیں تو ایک تبسم کے ذریعے اس کی تواضع کریں۔
گھر میں اگر بچے ہوں تو پھر آپ کے اپنے پڑوسی کے ساتھ اور بھی زیادہ مضبوط اور خوش گوار ہو سکتے ہیں، آج کل گھر کے قریب کسی بھی پارک میں جہاں مائیں اپنے بچوں کے ساتھ موجود ہوں وہاں ایک دوسرے کو جاننے کا آپ کو بہترین موقع ملتا ہے۔ اس کے علاوہ آپ نئے ہوں یا آپ کے ساتھ والے گھر میں نئے پڑوسی آئے ہوں، ان کے ہاں کوئی خصوصی پکوان بھجوا کر بھی اپنی طرف سے پہل کی جا سکتی ہے۔ یاد رکھیں منہگائی، مصروفیات اور وقت کی کمی یہ سب زندگی کا حصہ ہے، لیکن آپ کا اعلا اخلاق نہ صرف دوسروں کی نظر میں بلند مقام عطا کرے گا، بلکہ آپ خود بھی اطمینان قلب اور زندگی میں سکون محسوس کریں گے۔