چین کی لازوال دوستی
کورونا کے حوالے سے نہ صرف ادویات اور متعلقہ اشیا کی کھیپیں آ رہی ہیں۔
کورونا وائرس کے حوالے سے پوری دنیا میں صورتحال بہت نازک ہوگئی ہے، روزانہ ہزاروں کورونا کے مریض جان سے جا رہے ہیں ہر طرف ایک خوف و دہشت کی فضا قائم ہے۔ دنیا کے ہزاروں معالج اپنی ساری مہارت لگا رہے ہیں لیکن اس موذی مرض کا علاج دریافت نہیں ہو پا رہا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر طرف ایک مایوسی اور دہشت کی کیفیت موجود ہے۔
ہر شخص خوفزدہ ہے کہ کہیں وہ اس عذاب میں نہ گھر جائے اس قاتل مرض کی روک تھام کے لیے جو کچھ ہو رہا ہے وہ یہ ہے کہ احتیاط کی جائے اور احتیاط کا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔ حالانکہ احتیاط کے طور پر عبادت گاہیں تک بند کردی گئی ہیں ۔ امریکا دنیا کا ترقی یافتہ ملک ہے اقتصادی حوالے سے ہی نہیں سائنس اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے بھی امریکا کا شمار ترقی یافتہ ملکوں میں ہوتا ہے لیکن صورتحال اس قدر دہشت ناک ہے کہ انسان دہل کر رہ جاتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں وبائی امراض آتے اور جاتے رہے ہیں۔ لیکن کورونا وائرس ایک ایسا مرض ہے جس کا ماضی میں ایسا دہشت ناک کردار نہیں رہا۔ حیرت اس بات پر ہے کہ دنیا کے طبی ماہرین لاکھ کوششوں کے باوجود اس مرض کے خاتمے کی بات کو تو جانے دیں اس مرض سے ہونے والے نقصان تک کو کم نہ کرسکے۔ اس حوالے سے سب سے مایوس کن صورتحال یہ ہے کہ طبی ماہرین اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اس کا علاج دریافت نہ کرسکے نہ یہ معلوم ہوسکا کہ اس مرض کے نقصانات اور وسعت پر قابو پانا ممکن ہے؟
لوگ اس بیماری میں کیڑے مکوڑوں کی طرح مارے جا رہے ہیں جو کچھ ہو رہا ہے وہ صرف یہ ہے کہ اس بلا سے نجات پانے کے لیے سخت احتیاط برتی جائے۔ احتیاط یقینا بعض وقت بیماریوں میں کمی کا باعث ہی نہیں بنتی بلکہ بیماریوں کے خاتمے کا سبب بھی بنتی ہے۔ دنیا بھر میں عبادت گاہوں کو تالے لگ گئے ہیں، مسجد نبوی بھی بند کردی گئی ہے اور طواف خانہ کعبہ بھی روک دیا گیا ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس سال حج کے ہونے میں یقین نہیں رہا کیونکہ اس بیماری میں انسانوں کا ہجوم سے بڑا نقصان ہوتا ہے اور حج میں 20 لاکھ حاجیوں کی شرکت لازمی ہوتی ہے اس قدر بڑے ہجوم میں انسانی جانوں کے ضیاع کا اندازہ نہیں لگا یا جاسکتا۔
امریکا کا شمار دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں ہوتا ہے لیکن اس بدقسمتی کو کیا کہیں کہ میڈیا میں یہ اندازے لگائے جا رہے ہیں کہ امریکا کورونا کے مرکزی سینٹر میں تو بدلنے نہیں جا رہا ہے۔ مغربی ملکوں میں پسماندہ ملکوں کے مقابلے میں صفائی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے لیکن اس صفائی کو کورونا میں کوئی اہمیت حاصل نہیں بس انسان کو ایک دوسرے سے دور رہنا پڑتا ہے۔
ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ انسانوں کے درمیان کم ازکم چھ فٹ کا فاصلہ ضروری ہے جیلوں میں ان کی گنجائش سے پانچ چھ گنا زیادہ قیدی رہتے ہیں یوں جیل کورونا کا موزوں ترین حصہ ہے اسی خوف سے معمولی جرائم میں ملوث ہزاروں قیدیوں کو چھوڑا جا رہا ہے جس سے کورونا کی خطرناکی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے اس کے علاوہ ملنے جلنے میں سخت احتیاط کی جا رہی ہے حتیٰ کہ ہاتھ ملانے سے پرہیز کیا جا رہا ہے جس سے اس مرض کی سفاکی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ٹرانسپورٹ روکنے سے آٹا مہنگا ہو گیا ہے اب کوئی پابندی نہیں ہوگی کھانے پینے کی فیکٹریاں اور انرجی سیکٹر مستقل کام کرتا رہے گا۔ یہ بات عمران خان نے اپوزیشن کے اس پروپیگنڈہ کے جواب میں کہی کہ حکومت نے آٹے کی مہنگائی کرکے غریب عوام کے منہ سے روٹی کا نوالہ چھین لیا ہے۔ گڈز ٹرانسپورٹ چلانے کی اجازت دے دی گئی ہے یہ سارے جھمیلے کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں اپوزیشن جس ایشو کو سر پر اٹھا لیتی ہے حکومت فوری اسے حل کرکے اپوزیشن کا منہ بند کردیتی ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ سارے معاملات حکومت کے کنٹرول میں ہیں اور اب حکومت نے اچھی طرح سے حالات کو کنٹرول کرلیا ہے۔
لیکن کورونا کا مسئلہ کم ہونے کے بجائے بڑھ رہا ہے۔ کئی ملکوں کے سربراہ بھی اس کی لپیٹ میں آگئے ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن ان میں سے ایک ہیں۔ اس وبا سے سب سے زیادہ متاثرین میں اٹلی بھی شامل ہے ویسے تو اٹلی میں بہت بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا ہے لیکن اٹلی اب تک اس جانی نقصان پر قابو نہیں پاسکا۔ مغربی ملک جو عموماً ان حوالوں سے بہت کیئرفل رہتے ہیں کورونا نے انھیں اس طرح پچھاڑ دیا ہے کہ امریکا جیسے ملک میں کورونا نے مضبوط ڈیرے ڈال دیے ہیں اور امریکا کو بھاری جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ،اسے تاریخ کا بدترین حادثہ کہا جاسکتا ہے۔
دنیا میں اس قسم کی بیماریاں ہمیشہ آتی رہتی ہیں انسان نے ترقی کی معراج حاصل کرلی ہے آج کی دنیا سائنسی ٹیکنالوجی کی دنیا ہے ،خاص طور پر شعبہ طب کی ترقی ناقابل یقین ہے اس پس منظر میں کورونا کی لائی ہوئی تاریخی تباہی سے لڑنا کیوں ممکن نہیں ہو سکا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹروں کی ایک ٹیم بنا دی جائے جو کورونا کی ہسٹری کا مطالعہ کرے اور خاص طور پر یہ دیکھے کہ یہ وبا کیسے حالات میں پھوٹتی ہے۔ کیا اس وبا کے پھیلنے میں موسم کا کوئی دخل ہوتا ہے۔ کورونا کی پوری تاریخ کے مطالعے سے یہ سمجھنے میں آسانی ہوگی کہ کورونا کی تاریخ کیا ہے اس کی تباہ کاریوں کی وجہ کیا ہے ماضی میں اس بیماری نے کیا انسانوں کو اتنا نقصان پہنچایا جتنا وہ آج پہنچا رہی ہے۔
دنیا کو شدید نقصان پہنچانے والی بیماریوں میں کورونا سرفہرست آ رہی ہے۔ پاکستان ایک پسماندہ ملک ہے ایسے ملک میں کورونا کی تباہ کاریاں ملک کا بھٹہ بٹھا سکتی ہیں۔ وہ تو پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ چین کی شکل میں اسے ایک ایسا مخلص دوست ملا ہے جو آڑے وقتوں میں پاکستان کو سہارا دینے آجاتا ہے۔ کورونا کے حوالے سے نہ صرف ادویات اور متعلقہ اشیا کی کھیپیں آ رہی ہیں بلکہ ڈاکٹروں کی ٹیمیں بھی کورونا کے مریضوں کے علاج کے لیے آ رہی ہیں چین ایک ایسا دوست ہے جو کم ملکوں کو نصیب ہوتا ہے۔
ہر شخص خوفزدہ ہے کہ کہیں وہ اس عذاب میں نہ گھر جائے اس قاتل مرض کی روک تھام کے لیے جو کچھ ہو رہا ہے وہ یہ ہے کہ احتیاط کی جائے اور احتیاط کا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔ حالانکہ احتیاط کے طور پر عبادت گاہیں تک بند کردی گئی ہیں ۔ امریکا دنیا کا ترقی یافتہ ملک ہے اقتصادی حوالے سے ہی نہیں سائنس اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے بھی امریکا کا شمار ترقی یافتہ ملکوں میں ہوتا ہے لیکن صورتحال اس قدر دہشت ناک ہے کہ انسان دہل کر رہ جاتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں وبائی امراض آتے اور جاتے رہے ہیں۔ لیکن کورونا وائرس ایک ایسا مرض ہے جس کا ماضی میں ایسا دہشت ناک کردار نہیں رہا۔ حیرت اس بات پر ہے کہ دنیا کے طبی ماہرین لاکھ کوششوں کے باوجود اس مرض کے خاتمے کی بات کو تو جانے دیں اس مرض سے ہونے والے نقصان تک کو کم نہ کرسکے۔ اس حوالے سے سب سے مایوس کن صورتحال یہ ہے کہ طبی ماہرین اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اس کا علاج دریافت نہ کرسکے نہ یہ معلوم ہوسکا کہ اس مرض کے نقصانات اور وسعت پر قابو پانا ممکن ہے؟
لوگ اس بیماری میں کیڑے مکوڑوں کی طرح مارے جا رہے ہیں جو کچھ ہو رہا ہے وہ صرف یہ ہے کہ اس بلا سے نجات پانے کے لیے سخت احتیاط برتی جائے۔ احتیاط یقینا بعض وقت بیماریوں میں کمی کا باعث ہی نہیں بنتی بلکہ بیماریوں کے خاتمے کا سبب بھی بنتی ہے۔ دنیا بھر میں عبادت گاہوں کو تالے لگ گئے ہیں، مسجد نبوی بھی بند کردی گئی ہے اور طواف خانہ کعبہ بھی روک دیا گیا ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس سال حج کے ہونے میں یقین نہیں رہا کیونکہ اس بیماری میں انسانوں کا ہجوم سے بڑا نقصان ہوتا ہے اور حج میں 20 لاکھ حاجیوں کی شرکت لازمی ہوتی ہے اس قدر بڑے ہجوم میں انسانی جانوں کے ضیاع کا اندازہ نہیں لگا یا جاسکتا۔
امریکا کا شمار دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں ہوتا ہے لیکن اس بدقسمتی کو کیا کہیں کہ میڈیا میں یہ اندازے لگائے جا رہے ہیں کہ امریکا کورونا کے مرکزی سینٹر میں تو بدلنے نہیں جا رہا ہے۔ مغربی ملکوں میں پسماندہ ملکوں کے مقابلے میں صفائی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے لیکن اس صفائی کو کورونا میں کوئی اہمیت حاصل نہیں بس انسان کو ایک دوسرے سے دور رہنا پڑتا ہے۔
ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ انسانوں کے درمیان کم ازکم چھ فٹ کا فاصلہ ضروری ہے جیلوں میں ان کی گنجائش سے پانچ چھ گنا زیادہ قیدی رہتے ہیں یوں جیل کورونا کا موزوں ترین حصہ ہے اسی خوف سے معمولی جرائم میں ملوث ہزاروں قیدیوں کو چھوڑا جا رہا ہے جس سے کورونا کی خطرناکی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے اس کے علاوہ ملنے جلنے میں سخت احتیاط کی جا رہی ہے حتیٰ کہ ہاتھ ملانے سے پرہیز کیا جا رہا ہے جس سے اس مرض کی سفاکی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ٹرانسپورٹ روکنے سے آٹا مہنگا ہو گیا ہے اب کوئی پابندی نہیں ہوگی کھانے پینے کی فیکٹریاں اور انرجی سیکٹر مستقل کام کرتا رہے گا۔ یہ بات عمران خان نے اپوزیشن کے اس پروپیگنڈہ کے جواب میں کہی کہ حکومت نے آٹے کی مہنگائی کرکے غریب عوام کے منہ سے روٹی کا نوالہ چھین لیا ہے۔ گڈز ٹرانسپورٹ چلانے کی اجازت دے دی گئی ہے یہ سارے جھمیلے کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں اپوزیشن جس ایشو کو سر پر اٹھا لیتی ہے حکومت فوری اسے حل کرکے اپوزیشن کا منہ بند کردیتی ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ سارے معاملات حکومت کے کنٹرول میں ہیں اور اب حکومت نے اچھی طرح سے حالات کو کنٹرول کرلیا ہے۔
لیکن کورونا کا مسئلہ کم ہونے کے بجائے بڑھ رہا ہے۔ کئی ملکوں کے سربراہ بھی اس کی لپیٹ میں آگئے ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن ان میں سے ایک ہیں۔ اس وبا سے سب سے زیادہ متاثرین میں اٹلی بھی شامل ہے ویسے تو اٹلی میں بہت بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا ہے لیکن اٹلی اب تک اس جانی نقصان پر قابو نہیں پاسکا۔ مغربی ملک جو عموماً ان حوالوں سے بہت کیئرفل رہتے ہیں کورونا نے انھیں اس طرح پچھاڑ دیا ہے کہ امریکا جیسے ملک میں کورونا نے مضبوط ڈیرے ڈال دیے ہیں اور امریکا کو بھاری جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ،اسے تاریخ کا بدترین حادثہ کہا جاسکتا ہے۔
دنیا میں اس قسم کی بیماریاں ہمیشہ آتی رہتی ہیں انسان نے ترقی کی معراج حاصل کرلی ہے آج کی دنیا سائنسی ٹیکنالوجی کی دنیا ہے ،خاص طور پر شعبہ طب کی ترقی ناقابل یقین ہے اس پس منظر میں کورونا کی لائی ہوئی تاریخی تباہی سے لڑنا کیوں ممکن نہیں ہو سکا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹروں کی ایک ٹیم بنا دی جائے جو کورونا کی ہسٹری کا مطالعہ کرے اور خاص طور پر یہ دیکھے کہ یہ وبا کیسے حالات میں پھوٹتی ہے۔ کیا اس وبا کے پھیلنے میں موسم کا کوئی دخل ہوتا ہے۔ کورونا کی پوری تاریخ کے مطالعے سے یہ سمجھنے میں آسانی ہوگی کہ کورونا کی تاریخ کیا ہے اس کی تباہ کاریوں کی وجہ کیا ہے ماضی میں اس بیماری نے کیا انسانوں کو اتنا نقصان پہنچایا جتنا وہ آج پہنچا رہی ہے۔
دنیا کو شدید نقصان پہنچانے والی بیماریوں میں کورونا سرفہرست آ رہی ہے۔ پاکستان ایک پسماندہ ملک ہے ایسے ملک میں کورونا کی تباہ کاریاں ملک کا بھٹہ بٹھا سکتی ہیں۔ وہ تو پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ چین کی شکل میں اسے ایک ایسا مخلص دوست ملا ہے جو آڑے وقتوں میں پاکستان کو سہارا دینے آجاتا ہے۔ کورونا کے حوالے سے نہ صرف ادویات اور متعلقہ اشیا کی کھیپیں آ رہی ہیں بلکہ ڈاکٹروں کی ٹیمیں بھی کورونا کے مریضوں کے علاج کے لیے آ رہی ہیں چین ایک ایسا دوست ہے جو کم ملکوں کو نصیب ہوتا ہے۔