کورونا کے متاثرین کی مدد کیجیے
قرآن وسنت سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے حالات میں اہل اسلام کی مدد اورنصرت کی جائے اور ان کے ساتھ ہر طرح کاتعاون کیا جائے۔
رسولِ کریمؐ نے فرمایا: ''جو شخص میرے کسی اُمّتی کی کوئی حاجت اس ارادے سے پوری کرے کہ وہ اُمّتی خُوش ہوجائے، تو اس آدمی نے مجھے خُوش کردیا اور جس نے مجھے خُوش کیا اس نے اﷲ تعالی کو خُوش کیا اور جس نے اﷲ جل شانہ کو خُوش کیا تو اﷲ پاک اُسے جنّت میں داخل فرمائیں گے۔''
اس وقت پوری دنیا کورونا جیسی آفت کا سامنا کررہی ہے۔ پاکستان بھی اس وبا سے متاثر ہے۔ اﷲ کی طرف سے آزمائشیں آتی رہتی ہیں ایسے وقت میں اﷲ کی طرف رجوع، صبر و استقلال اور ہمت و عزیمت کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ ابتلاء، آزمائش، مصیبت اور پریشانی کے وقت ایک مسلمان کا اسلامی، انسانی، اخلاقی اور معاشرتی فرض یہ بنتا ہے کہ وہ دوسرے مسلمان کی ہر ممکن مدد اور نصرت کرے، اظہار ہم دردی اور اظہار یک جہتی کا مظاہرہ کرے۔
اُن سے بھرپور تعاون کے لیے میسّر اور مؤثر حکمت عملی اپنائے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایسے کڑے حالات میں شریعت یہ تعلیم دیتی ہے کہ اﷲ کی طرف رجوع کریں، انفرادی اور اجتماعی طور پر کبیرہ گناہوں سے توبہ و استغفار کریں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے بڑے الم ناک اور دردناک سانحات اکثر ہمارے گناہوں کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ ''تمہیں جو مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ تمہارے اپنے گناہوں کا بدلہ ہیں اور اﷲ بہت سارے گناہ کی باتوں سے درگزر بھی فرماتا ہے۔''
(سورۃ الشوری)
قرآن کریم میں سابقہ امّتوں کی تباہی اور ان پر آنے والی سزاؤں کی وجہ بھی ان کے گناہوں کو بتایا گیا ہے۔ چناں چہ قرآن کریم میں ہے، مفہوم: ''پھر ہم نے ہر ایک کو اس کے گناہ کی وجہ سے سزا دی، ان میں سے بعض پر ہم نے پتھروں کی بارش برسائی اور ان میں سے بعض کو زوردار سخت آواز نے دبوچ لیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے (پانی میں) غرق کیا، اﷲ تعالیٰ ایسا نہیں کہ ان پر ظلم کرے بل کہ یہی لوگ اپنی جانوں پر ظلم (یعنی گناہ) کرتے تھے۔''
آپس میں بھائی بھائی بن کر زندگی گزاریں اور ظاہر ہے کہ مصیبت کے وقت ایک بھائی ہی اپنے دوسرے بھائی کی مدد کرتا ہے۔ تمام مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند ہونا چاہیے۔ جیسے جسم کے کسی ایک حصے میں تکلیف ہو تو سارا بدن اسے محسوس کرتا ہے اور بے چین رہتا ہے اسی طرح مسلمانوں کو بھی آپس میں ایسے ہی رہنا چاہیے۔ حضرت نعمان بن بشیرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: '' باہمی محبّت اور رحم و شفقت میں تمام مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں، جب انسان کے کسی عضو میں تکلیف ہوتی ہے تو اس کی وجہ سے جسم کے تمام اعضاء بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔''
اس موقع پر پہلا کام تو یہ کرنا چاہیے کہ دعا کریں۔ دعا مومن کا ہتھیار ہے۔ حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ''دعا ان حوادثات اور مصائب سے بھی چھٹکارا دلاتی ہے جو حوادثات اور مصائب نازل ہوچکے ہیں اور ان سے بھی جو ابھی نازل نہیں ہوئے، لہذا اﷲ کے بندو! دعا کا اہتمام کیا کرو۔'' پھر وہ دعا جو اپنے مسلمان بھائی کی غیر موجودی میں کی جائے وہ تو جلد قبول ہوتی ہے۔ حضرت عبداﷲ بن عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: '' بے شک جلد قبول ہونے والی دعا وہ ہے جو غائب کی غائب کے لیے ہو۔ یعنی کسی کی غیر موجودی میں اس کے حق میں دعا کی جائے۔'' (سنن ابی داؤد)
اس کے بعد دوسرا حق یہ ہے کہ کورونا وائرس کے متاثرین اور ان کے اہل خانہ کی ضروریات کو پورا کیا جائے۔ ہم میں سے ہر ایک کو اﷲ تعالی کے دیے ہوئے مال سے اپنی حیثیت کے مطابق متاثرین کی مدد کرنا چاہیے اور کسی ضرورت مند مسلمان کی مدد کرنا بہت بڑے اجر و ثواب کا کام ہے۔
حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ''مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر زیادتی کرتا ہے، نہ اس کو اوروں کے سپرد کرتا ہے جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی ضرورت پوری کرنے میں لگتا ہے اﷲ پاک اس کی ضرورتیں پوری فرماتے ہیں اور جو کوئی کسی مسلمان کی مصیبت دُور کرتا ہے اﷲ پاک اس سے قیامت کے دن کی مصیبتیں دُور فرمائیں گے اور جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے اﷲ پاک قیامت کے روز اُس کی پردہ پوشی فرمائیں گے۔'' (صحیح بخاری)
حضرت عبداﷲ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ''جو بندہ اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرتا ہے یہ اس شخص سے بہتر ہے جو دس سال اعتکاف میں گزارے اور ایک دن کا ایسا اعتکاف جو اﷲ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہو، وہ انسان کو جہنّم سے تین خندق دُور کر دیتا ہے جب کہ ایک خندق میں مشرق و مغرب جتنا فاصلہ ہے۔'' (المعجم الاوسط للطبرانی)
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ''جو شخص میرے کسی اُمّتی کی کوئی حاجت اس ارادے سے پوری کرے کہ وہ اُمّتی خوش ہوجائے، تو اس آدمی نے مجھے خوش کردیا اور جس نے مجھے خوش کیا اس نے اﷲ تعالی کو خوش کیا اور جس نے اﷲ جل شانہ کو خوش کیا تو اﷲ پاک اُسے جنت میں داخل فرمائیں گے۔''
ہمیں قرآن و سنت سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے حالات میں اہل اسلام کی مدد اور نصرت کی جائے اور ان کے ساتھ ہر طرح کا تعاون کیا جائے۔
اس وقت پوری دنیا کورونا جیسی آفت کا سامنا کررہی ہے۔ پاکستان بھی اس وبا سے متاثر ہے۔ اﷲ کی طرف سے آزمائشیں آتی رہتی ہیں ایسے وقت میں اﷲ کی طرف رجوع، صبر و استقلال اور ہمت و عزیمت کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ ابتلاء، آزمائش، مصیبت اور پریشانی کے وقت ایک مسلمان کا اسلامی، انسانی، اخلاقی اور معاشرتی فرض یہ بنتا ہے کہ وہ دوسرے مسلمان کی ہر ممکن مدد اور نصرت کرے، اظہار ہم دردی اور اظہار یک جہتی کا مظاہرہ کرے۔
اُن سے بھرپور تعاون کے لیے میسّر اور مؤثر حکمت عملی اپنائے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایسے کڑے حالات میں شریعت یہ تعلیم دیتی ہے کہ اﷲ کی طرف رجوع کریں، انفرادی اور اجتماعی طور پر کبیرہ گناہوں سے توبہ و استغفار کریں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے بڑے الم ناک اور دردناک سانحات اکثر ہمارے گناہوں کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ ''تمہیں جو مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ تمہارے اپنے گناہوں کا بدلہ ہیں اور اﷲ بہت سارے گناہ کی باتوں سے درگزر بھی فرماتا ہے۔''
(سورۃ الشوری)
قرآن کریم میں سابقہ امّتوں کی تباہی اور ان پر آنے والی سزاؤں کی وجہ بھی ان کے گناہوں کو بتایا گیا ہے۔ چناں چہ قرآن کریم میں ہے، مفہوم: ''پھر ہم نے ہر ایک کو اس کے گناہ کی وجہ سے سزا دی، ان میں سے بعض پر ہم نے پتھروں کی بارش برسائی اور ان میں سے بعض کو زوردار سخت آواز نے دبوچ لیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے (پانی میں) غرق کیا، اﷲ تعالیٰ ایسا نہیں کہ ان پر ظلم کرے بل کہ یہی لوگ اپنی جانوں پر ظلم (یعنی گناہ) کرتے تھے۔''
آپس میں بھائی بھائی بن کر زندگی گزاریں اور ظاہر ہے کہ مصیبت کے وقت ایک بھائی ہی اپنے دوسرے بھائی کی مدد کرتا ہے۔ تمام مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند ہونا چاہیے۔ جیسے جسم کے کسی ایک حصے میں تکلیف ہو تو سارا بدن اسے محسوس کرتا ہے اور بے چین رہتا ہے اسی طرح مسلمانوں کو بھی آپس میں ایسے ہی رہنا چاہیے۔ حضرت نعمان بن بشیرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: '' باہمی محبّت اور رحم و شفقت میں تمام مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں، جب انسان کے کسی عضو میں تکلیف ہوتی ہے تو اس کی وجہ سے جسم کے تمام اعضاء بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔''
اس موقع پر پہلا کام تو یہ کرنا چاہیے کہ دعا کریں۔ دعا مومن کا ہتھیار ہے۔ حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ''دعا ان حوادثات اور مصائب سے بھی چھٹکارا دلاتی ہے جو حوادثات اور مصائب نازل ہوچکے ہیں اور ان سے بھی جو ابھی نازل نہیں ہوئے، لہذا اﷲ کے بندو! دعا کا اہتمام کیا کرو۔'' پھر وہ دعا جو اپنے مسلمان بھائی کی غیر موجودی میں کی جائے وہ تو جلد قبول ہوتی ہے۔ حضرت عبداﷲ بن عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: '' بے شک جلد قبول ہونے والی دعا وہ ہے جو غائب کی غائب کے لیے ہو۔ یعنی کسی کی غیر موجودی میں اس کے حق میں دعا کی جائے۔'' (سنن ابی داؤد)
اس کے بعد دوسرا حق یہ ہے کہ کورونا وائرس کے متاثرین اور ان کے اہل خانہ کی ضروریات کو پورا کیا جائے۔ ہم میں سے ہر ایک کو اﷲ تعالی کے دیے ہوئے مال سے اپنی حیثیت کے مطابق متاثرین کی مدد کرنا چاہیے اور کسی ضرورت مند مسلمان کی مدد کرنا بہت بڑے اجر و ثواب کا کام ہے۔
حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ''مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر زیادتی کرتا ہے، نہ اس کو اوروں کے سپرد کرتا ہے جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی ضرورت پوری کرنے میں لگتا ہے اﷲ پاک اس کی ضرورتیں پوری فرماتے ہیں اور جو کوئی کسی مسلمان کی مصیبت دُور کرتا ہے اﷲ پاک اس سے قیامت کے دن کی مصیبتیں دُور فرمائیں گے اور جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے اﷲ پاک قیامت کے روز اُس کی پردہ پوشی فرمائیں گے۔'' (صحیح بخاری)
حضرت عبداﷲ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ''جو بندہ اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرتا ہے یہ اس شخص سے بہتر ہے جو دس سال اعتکاف میں گزارے اور ایک دن کا ایسا اعتکاف جو اﷲ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہو، وہ انسان کو جہنّم سے تین خندق دُور کر دیتا ہے جب کہ ایک خندق میں مشرق و مغرب جتنا فاصلہ ہے۔'' (المعجم الاوسط للطبرانی)
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ''جو شخص میرے کسی اُمّتی کی کوئی حاجت اس ارادے سے پوری کرے کہ وہ اُمّتی خوش ہوجائے، تو اس آدمی نے مجھے خوش کردیا اور جس نے مجھے خوش کیا اس نے اﷲ تعالی کو خوش کیا اور جس نے اﷲ جل شانہ کو خوش کیا تو اﷲ پاک اُسے جنت میں داخل فرمائیں گے۔''
ہمیں قرآن و سنت سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے حالات میں اہل اسلام کی مدد اور نصرت کی جائے اور ان کے ساتھ ہر طرح کا تعاون کیا جائے۔