کورونا کے خلاف جنگ

دنیا بھر میں کیا ہورہا ہے؟ نقصانات، کام یابیاں اور وائرس کی یلغار کے مختلف پہلو

دنیا بھر میں کیا ہورہا ہے؟ نقصانات، کام یابیاں اور وائرس کی یلغار کے مختلف پہلو

اللہ تعالٰی نے آخرکار چینیوں کی آہ وزاری سن ہی لی۔ بدھ 18 مارچ کا دن تمام چینیوں کے لیے خونی وائرس کورونا کے خلاف فتح کی نوید لے کر آیا۔

چینی قومی صحت کمیشن کے مطابق اس دن وائرس کے دیکھ بھال کے مراکز(Epic Centres)کورونا وائرس کا ایک بھی کیس چوبیس گھنٹے میں رپورٹ نہیں ہوا جوکہ نہایت اطمینان بخش تھا اور اس کے بعد سے نئے کورونا وائرس کے شکار مریضوں میں قطعی اضافہ نہیں ہوا جو کہ چینیوں کے لیے بہت بڑی کام یابی ہے۔

چین میں 50 ہزار ایل ای ڈی وڈیو اسکرینوں روشن ہوگئیں اور جن پر کورونا کے خلاف لڑنے والے ڈاکٹر، نرسز اور تمام پیرا میڈیکل اسٹاف کو اپنی جانوں کی پروا کیے بغیر اپنے چینی بھائیوں کو موذی مرض سے دور رکھنے اور اس سے نجات دلانے پر، ان تمام کو قومی ہیروز کے طور پر بیان کیا جارہا اور سراہا جارہا ہے اور ان کی تصاویر و وڈیوز کو متواتر چلایا جارہا ہے۔ چین نے تاریخ رقم کردی ہے کہ زندہ قوموں پر مشکلات آتی رہتی ہیں اور وہ کیسے سرخ رو ہوتی ہیں۔

چینی قوم نے جس طرح متحد ہوکر عالمی وبائی کے خلاف عزم، ہمت اور حوصلے سے مقابلہ کیا وہ نہایت قابل تعریف اور قابل تقلید مثال بن چکی ہے۔ چین میں کورونا وائرس پر احتیاطی تدابیر، عوام کے تعاون اور 58 دن کے مکمل لاک ڈاؤن کے سبب بہت حد تک قا بو پالیا گیا اور 'کوبے' صوبے کو جزوی طور پر آمدورفت کے لیے کھولا جاچکا ہے جس کا شہر ''ووہان'' کورونا کا ابتدائی مرکز بنا تھا اور اسی چینی صوبے میں ہلاکتوں کی تعداد 90 فی صدر ہی ہے۔ لیکن دوسری جانب اب کورونا کے مہلک ترین وائرس نے یورپ کو اپنا گھر بنالیا ہے اور صرف اٹلی جو کہ شدید متاثرہ ملک ہے وہاں ہلاکتوں کی تعداد چینیوں کی ہلاکت 3255 سے کہیں بڑھ چکی ہے جو نہایت تشویش ناک صورت حال ہے۔

سار ا یورپ سر تھام کے بیٹھا ہے۔ اٹلی میں مرنے والوں کی تعداد 5000 سے بڑھ چکی ہے جب کہ دنیا میں اس وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد ڈھائی لاکھ سے بڑھ چکی اور اب یہ وبائی مرض گلوبل ڈیزازٹر بن چکا ہے۔ 18 مارچ کے دن سے ایران میں ہر دس منٹ میں ایک شہری ہلاک ہورہا ہے جب کہ ایک گھنٹے میں 50 سے زیادہ نئے مریض سامنے آرہے ہیں۔1 2 مارچ کا دن کورونا کے حملوں کے حوالے سے انتہائی سفاک دن تھا جب 800 اٹالین اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے اور سب سے زیادہ مریض ریکارڈ ہوئے۔ امریکا میں بھی کورونا کے مریضوں میں مسلسل تیزی سے اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

اٹلی کے ساتھ ہی کورونا یورپ کے دوسرے ملکوں اسپین، فرانس، جرمنی، ہالینڈ، سوئیڈن، سوئیزرلینڈوغیرہ میں پھیل چکا ہے اور امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سے لے کر روس اور افریقی ممالک تک پہنچ چکا ہے اور بدقسمتی سے پاکستان میں بھی 26 فروری سے مرض کی تشخیص کے بعد وائرس نے پھیلنا شروع کردیا اور تعداد 700 سے تجاوز کرچکی ہے۔ یہ وائرس پورے ملک بشمول آزاد وجموں کشمیر تک رسائی پاچکا ہے۔ پڑوسی ملک ایران میں بھی معاملہ نہایت حساس ہوچکا ہے۔ تمام مشرق وسطٰی بشمول سعودی عرب، مشرق بعید اس عالمی مصیبت کا سامنا کررہے ہیں۔ خصوصی طور پر ایرانیوں کے لیے اس وبا نے سب سے بڑے چیلینج کے طور پر سر اٹھایا ہے۔

انسانوں کو بچانے کے لیے خانہ کعبہ، دنیا کے کئی ممالک میں تمام مزار و مساجد کو بند کیا جاچکا ہے۔ صدی کی سب سے خطرناک وبائی بیماری کورونا نے رنگ ونسل، مذاہب، قومیت اور جغرافیائی تبدیلیوں کا امتیاز کی ے بغیر انسانیت پر حملہ کردیا ہے جو دنیا بھر کے جوان ، بوڑھوں بچوں کو اپنا شکار بنارہا ہے آج ساری نسلِ انسانی کو اپنی بقاء کا خطرہ جس نے دنیا کی معیشت پر بھی کاری ضرب لگائی ہے جس کے برے اثرات آئندہ کئی عشروں تک برقرار رہ سکتے ہیں۔

سائنس دانوں کی تحقیق کے مطابق ہر طرح کی وبائی بیماری جانوروں کے ذریعے ہی انسانوں میں آتی ہے اور پھر یہ ایک انسان سے دوسرے انسان کے ذریعے منتقل ہوتی رہتی ہے۔ کورونا وائرس کی بالکل نئی شکل نہیں ہے یہ پہلے سارس، مرص اور ایبولا جیسے وائرسوں سے مشابہت رکھتا ہے جس کی یہ نئی صورت ہے جو کہ حال ہی میں انسانوں پر حملہ آور ہوچکے ہیں لیکن اس میں حیرت انگیز طور پر برق رفتاری سے سراہیت کرنے کی بے پناہ طاقت ہے۔ یہ انسانوں کے میل جول، ملاپ، ہاتھ ملانے اور متاثرہ مریضوں کے استعمال کی اشیاء کو چھولینے سے فوری پھیل جاتا ہے جس کے لیے سماجی تعلقات کی زنجیر کو توڑنا لازمی ہے اور دنیا بھر میں متاثرہ ممالک نے اپنی سرحدوں کو بند کردیا ہے اور لاک ڈاؤن ہوچکے ہیں تاکہ بیماری کے پھیلاؤ کو خاص وقت تک محدود کیا جاسکے۔

اب تک دنیا پر گیارہ بڑی وبائی بیماریاں اپنے حملے کرچکی ہیں اور اندازہ ہے کہ تاریخی لحاظ سے ہر صدی میں اس طرح کی ایک بڑی وبائی بیماری سارے عالم پر نازل ہوتی ہے اور انسانوں کو اپنی جکڑ میں لے لیتی ہے۔ اٹلی یورپ اور امریکا پر کورونا کے وارد ہونے کے ساتھ ہی اس وبا نے عالمی وبا کی صورت اختیار کرلی ہے جس میں لاکھوں لوگ مریض بن چکے ہیں۔



11 مارچ 2020 ء کو عالمی ادارہ صحت (WHO) نے باقاعدہ طور پر اسے گلوبل وبا (Pandemic) کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے اعلان کیا اور اس کے گلوبلی خطرات سے آگاہ کیا۔ ساری دنیا میں وائرس کے 308463 مریضوں کی تصویق ہوچکی ہے جن میں سے 13069کی موت ہوئی اور 95828 متاثرہ مریض صحت یاب ہوچکے ہیں صرف یورپ میں اس وبائی مرض سے 2,88104 سے زائد مریض سامنے آچکے ہیں۔ 8000 ہزار کے لگ بگ یورپیائی لوگ وبائی مرض کا لقمہ بن چکے ہیں۔ وبائی کورونا پھیلتی ہی جارہی ہے اور کورونا وائرس کا مرض دنیا کے 190 کے قریب ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے اور سارے عالم میں سرایت کرتا جارہا ہے۔ وبائیمرض "Epidemic" اور عالمی وبا جیسی بیماری"Pandemic" کو تین مختلف درجوں میں بانٹا گیا ہے، این ڈیمک ایپی ڈیمک اور پین ڈیمک۔

این ڈیمک (Endemic) : انفیکش کی ایسی بیماری ہے جو سال کے بارہ مہینے ایک علاقے میں پائی جاتی ہے، یہ ہروقت اور سال بہ سال موجود رہتی ہے جیسے کی چکن پوکس او ر خسرہ۔

ایپی ڈیمک (Epidemic) اس بیماری ایپی ڈیمک میں انفیکش زدہ مریضوں میں تیزی سے اضافہ تو ہوتا ہے لیکن پھر کمی آجاتی ہے۔ برطانیہ میں ہر سال فلو کی وبا رہتی ہے جس میں موسم خزاں اور سرما میں مریض بہت بڑھ چکے ہوتے ہیں۔ یہ اپنی انتہا کو پہنچ کر گرنا شروع ہوتی ہے جب مریضوں کی تعداد میں کمی آنا شروع ہوجاتی ہے۔

پین ڈیمک (Pendemic) : پین ڈیمک ایسی عالمی وبا کا نام ہے یہ ایک ہی وقت میں ساری دنیا میں پھیل رہی ہو۔ اس طرح کی وبا کا کا سامنا 2003 ء میں دنیا نے ''سوائن فلو'' کی صورت میں کیا تھا جس کا نقطہ آغاز میکسیکو سے ہوا اور پھر یہ عالمی سطح پر پھیلی۔ عالمی وبا کی اصطلاح ایسی بیماری کی ہے جس میں متعدی موزی مرض مختلف ملکوں میں کثیر تعداد میں لوگوں کو بیمار کردے اور ان کے ذریعے پھیلتا جائے۔ اب تک کی آخری عالمی وبا ''سوائن فلو'' نے دو لاکھ انسانوں کی جان لے لی تھی۔

یہ امراض دنیا بھر میں صفائی ستھرائی کی ناقص صورت حال سے فروغ پاتے ہیں اور یہ انفیکشن سفر کے دوران مریض مسافروں کو دوردراز مقامات تک پہنچانے کا سبب بنتے ہیں اور وہاں اس اس بیماری کے اثرات برقرار رہتے ہیں جو کہ گلوبل وبا 'پینڈیمک' کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ ڈائریکٹر عالمی ادارۂ صحت ڈاکٹر ٹیڈروس نے کورونا کے مشکو ک مریضوں سے کہا ہے کہ ٹیسٹ، ٹیسٹ اور مزید ٹیسٹ! ٹیسٹ مثبت آنے پر مریض کی ساری فیملی کے بھی ٹیسٹ کیے جائیں اور انہیں الگ کیا جائے اور قرنطینہ(Quarantine) میں ڈالا جائے۔

دنیا سمٹ کر گلوبل ویلیج بنی ہے تو اب ہمیں اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑے گا اور اس کی قیمت چکانا ہوگی۔ قاتل عالمی وبا نے دنیا کے اس گاؤں میں مشرق سے مغرب، شمال و جنوب تک ہل چل اور بے چینی پید ا کردی ہے۔ کورونا پر اس کی حیات کے سائیکل کو دیکھنے کے لیے تجربات سے اندازہ ہوا ہے کہ کس طرح کے حالات میں یہ اپنی زندگی کو پورا کرتا ہے، کھلی ہوا اور سطح پر اس کی زندگی کی میعاد مختلف ہوتی ہے۔ کھلی ہوا میں کورونا محض دو سے تین گھنٹے رہ سکتا ہے جب کہ تانبے پر چار گھنٹے، گتے یا ڈبوں میں 24 گھنٹے، اور پلاسٹک اور اسٹیل پر دو سے تین دنوں تک اپنی زندگی کو قائم رکھ سکتا ہے۔


ایسی ہی ٹیسٹ 2003 ء میں وبائی مرض ''سارس وائرس'' کے حملے کے بعد اس پر کیے گئے تھا تاکہ وبائی وائرس کی مختلف حالتوں میں زندہ رہنے کی صلاحیت کو پرکھا جاسکے۔ جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے ذرایع سے معلوم ہوا ہے جو کہ مائیکروبائیلوجی پروفیسر جولی فشر نے آشکار کیا، ان تجربات کے نتائج نہایت اہمیت رکھتے ہیں جن سے صفائی وغیرہ کے بارے میں بتائی جانے والی احتیاطی تدابیر کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے۔ اسی لیے عالمی ادارۂ صحت نے ہاتھوں کو بار بار وقفوں سے اچھی طرح دھونے پر زور دیا ہے۔

نئی عالمی وبا ناول کورونا وائرس کووڈ۔19 کے لیے دنیا بالکل تیار نہ تھی حالاںکہ مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس متعدد بار وبائی امراض سے انسانوں کو لاحق سنگین خطرات سے آگاہی دیتے رہے ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں ''ڈیلی ٹیلگراف'' کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ کورونا کی وبائی بیماری اگر افریقہ میں پھیل جاتی ہے تو انسانی جانوں کو زیادہ نقصان ہوگا جہاں بہت پس ماندگی ہے اور صحت کی سہولیات کا فقدان اور ناقص ترین صورت حال ہے جس کے سبب خدشات ہیں کہ ایک کروڑ افریقی لقمۂ اجل ہوسکتے ہیں، جب کہ عالمی سطح پر بھی وہ کہتے ہیں کہ دنیا میں 30 ملین لوگ اس بیماری سے متاثر ہوکر موت کے منہ میں جاسکتے ہیں۔

2015 ء میں ہی بل گیٹس نے امریکی میڈیا آرگنائزیشن (LLC) کے آن لائن تبادلہ خیال (TED) کی ایک پری زینٹیشن میں پیش ہوئے تھے جوکہ 1990 ء سے اس طرح کے شوز پیش کررہی ہے، اس آن لائن ٹاک شو جس کا سلوگن ہے" "Idea Worth Spreading ہے۔ اس کے لیکچر میں بل گیٹس نے بالکل واضح طور پر دنیا کو کورونا سے ملتے جلتے وائرس کے بارے میں جان کاری دیتے ہوئے کہا تھا کہ ''آئندہ 10 سالوں میں دنیا کو سب سے بڑا خطرہ کسی میزائل یا ایٹمی ہتھیار سے نہیں بلکہ انسانوں کی صحت پر عالمی وبا کے حملوں سے ہوگا جس کے لیے ہم نے کوئی تیاری نہیں کی ہے!'' افریقہ کے 54 میں سے 23 ممالک میں اب کورونا وائرس کی تشخیص ہوچکی ہے اور محض سارے ملکوں ایک دو مریضوں کی تعداد سے زیادہ نہیں ہے جو ابھی اطمینان کی بات ہے جس کے بارے میں بل نے خبردار کردیا ہے کہ انتہائی ڈرامائی طاقت کے اثر کا حامل کورونا وائرس افریقہ میں پھیلا تو وہاں صحت کے سارے نظام مغلوب ہوسکتے ہیں۔

بل گیٹس نے ان خیالات کا اظہار سیٹل (امریکا) میں امریکی ایسوسی ایشن برائے ایڈوانسمنٹ آف سائنسز(AAAS) کی ایک پری زینٹیشن میں کیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ افریقہ پر وائرس کا حملہ چین پر وبائی حملے کے مقابلے میں زیادہ نقصان پہنچاسکتا ہے۔ افریقہ میں یہ ڈرامائی رخ اختیار کرسکتا ہے کیوںکہ یہ بہت تیزرفتاری سے پھیل رہا ہے۔ افریقہ میں ایبولا وبا سے بھی ہلاکتیں صحت کی سہولیات کی عدم فراہمی سے ہوئیں تھیں۔ یہ اس طرح صحت کے کارکنوں میں گھبراہٹ اور پریشانی پیدا کرنے والے عوامل بھی اس کا اہم سبب ہوسکتے ہیں۔

جان ہاکپنز یونیوروسٹی کے مطابق گذشتہ دہائی میں چین اور افریقہ کے مابین لوگوں کے بہاؤ میں فضائی راستوں کے ذریعے 600 فی صدی سے زائد اضافہ ہوا ہے۔ 2012 ء تک براعظم افریقہ میں 200,000 لاکھ سے زائد چینی مزدور تعمیراتی منصوبوں پر کام کررہے ہیں جن میں تاجر و دکان دار شامل نہیں۔ ''بل اور ملینڈا گیٹس فاؤنڈیشن'' نے ترقی پذیر دنیا کے بچوں میں حفاظتی ٹیکوں کے لیے مالی معاونت دی ہے۔ گذشتہ ماہ فاؤنڈیشن کی طرف چین اور افریقہ میں وبا پر قابو پانے کی جاری لڑائی میں 100 ملین ڈالرز امداد دینے کا وعدہ کیا ہے۔ افریقہ کی 109 ملین کی آبادی وبائی مرض کے حملے کے خطرات سے دوچار ہوچکی ہے۔ افریقہ کے ساتھ ہی کورونا وائرس جنوبی امریکا کے ممالک برازیل اور ارجنٹائن میں پہنچ چکا ہے جب کہ یوراگوائے میں کورونا وائر سے ایک ہلاکت کی اطلاع ہے۔

چین میں خصوصاً کورونا کے گڑھ ''ہوبے'' صوبے میں وبائی مرض کے آنے کے بعد اب تیزی سے کمی آئی ہے۔ دارلحکومت ''ووہان'' کی ایک کروڑ سے زائد اور صوبے کی چار کروڑ سے زائد آبادی 23 جنوری سے سخت ترین حالات کا سامنا کررہی تھی جہاں پورا صوبہ چین اور بیرونی دنیا سے کٹا ہوا تھا۔ ملک بھر میں81 ہزار سے زائد افراد کا کورونا ٹیسٹ مثبت آیا تھا ان میں 75 ہزار کے قریب زیرعلاج ہیں۔ 10مارچ کو صدر جن پنگ نے ووہان کا دورہ کیا تھا اور بیماری پر قابو پانے کے عزم کا اظہار کیا۔ یہاں 68 ہزار سے زائد چینی مکمل صحت یاب ہوکر اپنے گھروں کو لوٹ چکے ہیں اور باقی تیزی روبہ صحت ہیں۔17 مارچ کی صبح سویرے ووہان سے پہلی پیرا میڈیکل ٹیم واپس اپنے گھروں کو لوٹ رہی تھی جنہوں نے مرکزی شہر میں انسانیت کو مہلک وبا سے بچایا اور وائرس کو شکست فاش دی۔



انہوں نے 40 روز تک شہر میں قیام کیا۔41 میڈیکل ٹیم کے طبی عملے نے ووہان اور صوبے کے 14 عارضی اور سات مخصوص وبائی اسپتالوں میں اپنی شان دار خدمات انجام دیں اور ہمت اور حوصلے و یک جہتی سے کورونا جیسے دشمن کو ہرایا۔ البتہ چین میں ابھی بیرونی دنیا سے آنے والوں سے خطرہ ہے اور ان میں تشویش پائی جاتی ہے، چین میں روزانہ کی بنیاد پر اوسطاً 20 ہزار سیّاح بیرونی ممالک سے آتے ہیں۔ 18 مارچ 2020 ء سے چین نے اپنی سرحدوں کو جزوی طور پر کھول دیا ہے۔ دارلحکومت ''بیجنگ'' اور دیگر علاقوں سے باہر سے آنے والے ملکوں کے لوگوں کے لیے 14 دن قرنطینہ میں قیام اشد ضروری ہے۔ ان قرنطینہ سینٹر کو مختلف ہوٹلوں میں بنایاگیا ہے۔ چین کی قومی صحت کے کمیشن کے مطابق دو ہفتوں میں ان بدیسی لوگوں میں 34 کورونا کے مریض سامنے آئے ہیں اور اب یہ تعداد 189 ہوچکی ہے جو بہت زیادہ ہے۔

حالیہ وبائی حملے کے نتیجے میں دنیا کی بڑی اسٹاک ایکس چینجز کو مندی کا سامنا ہے اور اکثر بیٹھ چکی ہیں۔ سیّاحت و ائیر لائن کمپنیوں سب سے زیادہ متاثرہ ہوئی ہیں۔ اس گلوبل وبا کے حملے کے سبب بڑی ایئرلائن کمپنیاں بینک دیوالیہ ہونے کے خطرہ سے دوچار ہیں۔ امریکی سیاحت کی صنعت کو 24 ارب ڈالرز سے زائد کے نقصان کا سامنا ہے۔ ٹائم اسکوائر، نیویارک جہاں سیاحوں کا ہر وقت جم غفیر رہتا تھا وہ ویران ہوچکا ہے، راتوں کا جاگنے والا نیویارک شہر اب دن مین سناٹے کا منظر پیش کررہا ہے۔ ہر سال پانچ کروڑ سے زائد سیّاح امریکا کا رخ کرتے ہیں۔ معیشت کو سہارا دینے کے لیے وہائٹ ہاؤس نے 850 ارب ڈالرز کے پیکیج کی منظوری بھی دے دی ہے۔ امریکا میں کسادبازاری کا خطرہ بھی سر اٹھانے لگا ہے اور شرح ِسود صفر کردی گئی ہے۔

عالمی معیشت کو بھی وبائی کورونا وبا کے حملے سے 2.7 کھرب (ٹریلین) ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے۔ دنیا میں وبا کے خطرے پیش نظر 102سے زائد ملکوں میں تمام اسکول کالج و یونیورسٹیوں کو بند کردیا گیا ہے۔ اسپین کے معروف اسٹورز"ZAM" نیٹ ورک کے دنیا بھر میں قائم تمام 3785 اسٹوروں کو بند کرنے کا اعلان کیا جاچکا ہے۔ برطانوی پاؤنڈ کی ویلیو 30 سالوں میں سب سے کم سطح پر آئی ہے جس کی قدر ڈالر کے مقابلے میں 1.8 فی صد گری ہے۔ دنیا بھر کی شوبزنس مارکیٹ بھی جمود کا شکار ہوچکی ہے۔ عالمی سطح پر دنیا کی معیشت کو تین ٹریلین (تین کھرب) ڈالرز کا نقصان ہوسکتا ہے۔

کورونا کی بیماری میں سب سے بڑی رکاوٹ مطلوبہ ویکسین کی عدم دست یابی ہے جس پر کام ساری دنیا میں ہورہا ہے اور چین، اسرائیل، امریکا، روس و جرمنی نے ایسی ویکسین بنانے کے دعوے کیے ہیں لیکن ان کے ابھی عام مارکیٹ میں آنے میں سال لگ سکتا ہے۔ امریکا، روس اور جرمنی میں ویکسین کی آزمائش شروع ہوچکی ہے جو جنگ عظیم کے بعد انسانوں کے لیے سب سے بڑا چیلینج بن کر سامنے آیا ہے۔ اسپین کی بائیولوجی کی تحقیق کار کارکن خاتون نے طبی تحقیقی کاموں کے ملک میں دی جانے والی گرانڈ پر سخت تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ فٹ بال کلب اپنے کھلاڑیوں کو ایک لاکھ یورو ماہانہ دیتے ہیں جب کہ بائیلوجیکل ریسرچ کے لیے محض 1800 یوروز؟ انہوں نے مزید کہا کہ اب آپ کو اس پر سنجیدگی سے علاج کے لیے سوچنا ہوگا، کیا کرسٹینو رولانڈو یا میسی آپ کو تحفظ دے سکتے ہیں؟ جرمنی کے سائنس داں کورونا ویکسین کے قریب تر پہنچ چکے ہیں۔

جرمنی کی دواسازکمپنی کے سائنس دانوں نے امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے ایک ارب ڈالرز کی پیشکش ٹھکرادی ہے۔ اب امریکا اور جرمنی کے مابین اس معاملے پر تناؤ پیدا ہوگیا ہے۔ جرمنی کے اخبار ''ویلٹ ام زونٹاگ''نے دعویٰ کیا ہے کہ ویکسین کی تیاری کے دوران ہی جرمنی سے رابطہ کیا گیا تھا اور ویکسین کے حقوق کی بات کی تھی اس پر جرمنی کے سائنس دانوں نے کہا ہے کہ ''جرمنی برائے فروخت نہیں ہے!'' جرمن صحت کے وزیر نے سرکاری ٹی وی پر بیان میں کہا ہے کہ جرمنی بکنے والا نہیں ہے یہ ویکسین انسانیت کی خدمت کے لیے تیاری کی جارہی ہے جس کے مالکانہ حقوق کسی ایک شخص یا ملک کو نہیں دیے جاسکتے، اس وبا پر متحد ہ ہوکر لڑنا ہے۔ چینیوں نے کورونا مریضوں کے علاج کی آزمائش میں جاپانیوں کی ایک فلو کی دوائی کو موثر پایا گیا ہے جب کہ ڈبلیوایچ او نے کورونا کے مریضوں کو ''آئبوپروفن'' کی جگہ پیراسٹامول دینے کا مشورہ دیا ہے۔ یہ سطور لکھے جانے کے وقت تک یورپ کے 170 ملین سے زائد افراد اب لاک ڈاؤن ہوچکے ہیں جہاں ہلاکتیں چین سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہیں۔ صر ف اٹلی میں ہلاکتوں کی تعداد 4825 سے تجاوز کرچکی ہے اور صف ماتم پچھی ہے اور متاثرہ مریضوں کی تعداد 53578 سے اوپر جاپہنچی ہے۔

اسپین میں 25374 مریض رجسٹر ڈ ہوچکے ہیں اور مرنے والوں کی تعداد 1378 سے زائد ہے۔ امریکا میں متاثرین کورونا 24142 ہیںاور ہلاکتیں 288 ہوگئی ہیں، جب کہ برطانیہ میں 5018 متاثرین میں سے 233 افراد زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ اگرچہ کورونا سے ہلاکت کی شرح 12 فی صد ہے لیکن خدشات ہیں کہ اگر بیماری کا پھیلاؤ یونہی ہوتا رہا تو پھر مرنے والوں کی شرح میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے۔ چین اور یورپ میں لاک ڈاؤن نے حیران کُن طور پر ماحولیات پر اچھے اثرات مرتب کیے جو کہ عام دیکھے جارہے ہیں۔ چین میں فروری سے آج تک آلودگی میں کافی حد تک کمی آگئی ہے۔ اس طرح اٹلی میں فضا نہایت سوگوار ہے، اس کے برخلاف ماحولیاتی لحاظ سے صاف ہے اور وینس کی نہروں کا پانی بالکل صاف ہوچکا ہے جس کی اہم وجہ انسانی سرگرمیوں میں جمود ہے، کوئی شپ یا بوٹس وغیرہ نہیں چل رہی ہیں اور پانی کے صاف ہونے سے نہروں میں مچھلیاں دیکھی جارہی ہیں، اس کے ساتھ بطخوں اور ڈولفن کی بھی واپسی ہورہی ہے۔

پاکستان میں افسوس ناک صورت حال ہے یہاں اس قدرتی آفت وبائی کورونا کو اب تک سنجیدہ معاملہ نہیں لے گیا جو ہماری سرزمین پر وارد ہوچکا ہے اور جس نے اب تیزی سے بڑھنا شروع کردیا ہے اور کورونا کے مریضوں کی تعداد ایک ماہ کے اندر ہی 8 سو سے تجاوز کررگئی ہے اور عالمی سطح پر 27 ویں نمبر پر آگیا ہے تو اس سے دنیا کے زیادہ متاثرہ ممالک کی طرح آگے پھیلنے کا عندیہ مل رہا ہے۔ پاکستان میں نیشنل ڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹی (NDMA) والوں نے خاطر خواہ انتظامات شروع کردیے ہیں اور چین سے امدادی سامان بھی آگیا اور آئندہ آتا رہے گا جس میں چین کی حکومت اور ارب پتی جیک ما ہماری مدد کررہے ہیں۔ اس کا اعلان 21 مارچ کی ایک پریس کانفرنس میں اتھارٹی کے چیئرمین لیفٹینٹ جرنل محمد افضل نے کیا جن کے ساتھ وزیراعظم کے مشیر صحت ڈاکٹر ظفر مرزا بھی موجود تھے۔ چیئرمین این ڈی ایم اے کے مطابق آئندہ دو ہفتے میں 40 لاکھ کورونا مریضوں کے علاج کے انتظامات کیے جارہے ہیں۔

کراچی میں فوج کی مدد سے ایکسپو سینٹر میں ہنگامی 1100 بستروں کا اسپتال بھی قائم کردیا گیا ہے اور دوسرے مقامات پر بھی قرنطینہ مراکز بنائے جارہے ہیں۔ کراچی کے بعد ملک کے دوسرے شہروں میں بھی لاک ڈاؤن ہوچکا ہے کہ جس کے سوا اب کوئی آپشن نہیں ہے اور یہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے تاکہ کورونا وبائی مرض کو شکست دی جاسکے۔ آج اس کی اشد ضرورت ہے کہ ہمارے یہاں بھی کورونا وائرس کی یلغار کو سنجیدگی سے لیا جائے، اب ہمیں دنیا کے ساتھ اکٹھا ہوکر رنگ ونسل، مذاہب، طبقے سے بے نیاز ہوکر اتحاد کا مظاہر ہ کرنا ہے جس نے ہمیں سماجی سطح پر پہلے ہی برابر کردیا ہے کیوںکہ کورونا کی بیماری نے جوان، بوڑھوں، غریبوں سے لے کر انتہائی امیر لوگوں اور حکومتوں کے اعلٰی عہدے داروں تک رسائی حاصل کرلی ہے۔

سائنس دانوں نے آگاہ کردیا ہے کہ یہ بڑا تاریخی موقع ہے جب ہم انسانوں کو بڑی خوف ناک صورت حال کا سامنا ہے، ہم اپنے سماجی تعلقات کی زنجیروں کو توڑیں، چند ماہ یا شاید سال بھر کے لیے ! یا پھر دوسرا انتخاب یہی ہے کہ ہزاروں ہزار انسانوں کی موت کا سودا کرلیں!
Load Next Story