اتفاق رائے اور عمل
بندے کا یہ کام اور مقام نہیں کہ اپنے رب کا امتحان لے، بلکہ یہ رب کا مقام اور کام ہے کہ بندے کا امتحان لے
کم از کم اب تو اتفاق رائے پیدا ہوجانا چاہیے تھا۔ ہم اور ہماری قوم کیا کبھی اس اتفاق رائے کی نعمت سے غیبی اشاروں کے بغیر بھی مستفید ہونے کا شرف حاصل کرسکے گی؟ سیدھی سی بات ہے کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا کے خلاف اب تک موجود واحد دفاع گھلنے ملنے سے اور اجتماعات سے پرہیز ہے۔ اس میں مذہبی اجتماعات بھی شامل ہیں اور ہماری سرکاری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہم سیدھے سادے مسئلے کو پیچیدہ بنادینے میں بڑی مہارت کے حامل ہیں۔
اب اس مسئلے کو ہی دیکھ لیجیے، پہلے تمام مسالک کے علماء سے ایک پریس کانفرنس کروا کر نماز کے اجتماعات پر پابندی کا ہدایت نامہ جاری کروایا گیا اور پھر اگلے ہی دن سے آئمہ مساجد کے گھروں پر چھاپے مارنا شروع کردیئے گئے اور مسجدوں کی تالہ بندی کے واقعات بھی پیش آنے لگے۔ جید علمائے کرام جو مشترکہ اعلان کرچکے تھے، انہوں نے بھی ان واقعات پر افسوس کا اظہارشروع کردیا اور اس سب سے سیدھا سادہ سا مسئلہ خواہ مخواہ عدم اتفاق رائے کا شکار ہوکر گمبھیر اور پیچیدہ ہوتا جارہا ہے۔
سوشل میڈیا پر بھی اس سلسلے میں مختلف آراء سامنے آرہی ہیں۔ لوگ ڈپارٹمنٹل اسٹورز پر خریداری کرتے لوگوں کے ہجوم کی تصاویر پوسٹ کرکے پوچھ رہے ہیں کہ یہاں پابندی کا اطلاق نہیں ہوتا؟ پرائیویٹ ادارے خاص طور پر مختلف بینکس وغیرہ اپنے ملازمین پر گویا بڑا احسان کرکے انہیں ٹرانسپورٹ کی سہولیات دے کر دفاتر میں بلا رہے ہیں لیکن حال یہ ہے کہ بیشتر گاڑیوں میں، چاہے چھوٹی ہوں یا بڑی، لوگ قریب قریب بیٹھ کر آنا جانا کررہے ہیں۔ تو پابندی کہاں رہی پھر؟ جبکہ حکومتی نوٹیفکیشن کے تحت تو پرائیویٹ کمپنیز ملازمین کو تنخواہ کے ساتھ کم از کم تیس دن کی چھٹیاں دینے کی پابند ہیں۔ ایسا کہیں بھی ہوتا نظر نہیں آرہا، یعنی یہاں بھی عدم اتفاق موجود ہے۔
پھر ماہرین فرما رہے ہیں کہ پاکستان میں ستائیس مارچ سے کورونا وائرس کا پانچ سے چودہ دن کی انکیوبیشن کا دورانیہ ان لوگوں میں پورا ہوجائے گا جن کے ٹیسٹ نہیں ہوئے یا جن میں اب تک علامات کا ظہور نہیں ہوا۔ یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ ستائیس مارچ سے ملک بھر میں اس وبا کی مریضوں کی تعداد میں تیزی آسکتی ہے۔ تو لوگوں کو مزید محتاط ہونے اورخصوصاً اجتماعات سے گریز کرنے کی ضرورت مزید بڑھ جائے گی۔
نماز اور مساجد میں باجماعت ادائیگی کےلیے اعلامیے کے مطابق تین سے پانچ افراد تک کی جماعت کی اجازت ہے اور لوگ اپنے گھر میں رہتے ہوئے بھی اپنے اہل خانہ کے ساتھ جماعت کا اہتمام کرسکتے ہیں جن کا طریقہ اور تفصیلات مختلف مسالک کے اعتبار سے سوشل میڈیا میں بتائی جارہی اور مذہبی ٹی وی پروگراموں میں بیان کی جارہی ہیں۔ تو پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ خواہ مخواہ کا مسئلہ اور سازشی نظریات کا (جیسے یہ وائرس اور وبا ایک قدرتی آفت کے بجائے اسلامی اجتماعی عبادات کے خلاف کوئی سازش ہے) بیانیہ کیوں بنایا جارہا ہے؟ ایسا بالکل نہیں، بلکہ یہ ساری سفارشات اطباء اور علم الابدان کے ماہرین جنہیں ڈاکٹرز اور حکماء کہا جاتا ہے، کی ہدایات کی روشنی میں طے کی گئی ہیں۔
فی الحال یہ ایک بہترین ہدایت ہے اور یہ مشہور اسلامی اصول تو سب کو پتا ہی ہوگا کہ جان بچانے کےلیے حرام بھی حلال ہوجاتا ہے، تو پھر یہاں تو کسی حرام کو حلال نہیں کیا جارہا بلکہ باجماعت نماز کی ہیئت اور ادائیگی کے انداز میں ذرا سی تبدیلی ہی کی جارہی ہے جس سے اکثریت کا طبی مفاد وابستہ ہے؛ اور موجودہ صورتحال میں ساری دنیا میں الگ تھلگ کرنے کا یہ طریقہ زیر عمل ہے تو ہم میں کیوں نہیں؟
اور جو لوگ یہ جذباتی دلیلیں دے رہے ہیں کہ اجتماعی عمل کرنے سے بیماری اگر پکڑ لے تو میرا گریبان پکڑ لینا۔ اس نوعیت کے جذباتی بیانات سوشل میڈیا پر بہت گردش میں ہیں اور مذکورہ بالا اقدامات یعنی باجماعت نماز کی مساجد میں پابندی کی کھلی اور دبی دبی سی مخالفت کی جارہی ہے، وہ یہ بھول رہے ہیں کہ وباؤں میں اسلامی احکامات کیا ہیں۔ پھر ایک ابت بات یہ بھی ہے کہ بنی اسرائیل کی روایات میں سے ایک روایت کا مفہوم کچھ یوں بھی ہے کہ ایک مرتبہ کسی منطقی اور تشکیک پسند نے حضرت عیسی علیہ السلام سے پوچھا کہ آپ جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے تو ذرا اس پہاڑ سے کود کر دکھائیے۔ اللہ تعالی چاہے گا تو آپ کو بچالے گا۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے کیسا حکیمانہ جواب دیا جو عقل سلیم رکھنے والوں کی رہنمائی اور تسکین کےلیے کافی و شافی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ بندے کا یہ کام اور مقام نہیں کہ اپنے رب کا امتحان لے، بلکہ یہ رب کا مقام اور کام ہے کہ بندے کا امتحان لے۔ تو ہم کیوں خواہ مخواہ اپنے ایمانوں اور یقینوں کو غیر ضروری امتحانات میں ڈالنے کی کوشش کریں جبکہ متبادل راہ موجود ہو۔
تو اجتماعی دانش کے تحت کیے گئے ان فیصلوں کی پابندی کرنے کے عمل کو مشکوک نہ بنائیے۔ اپنے ایمان و یقین کو غیر ضروری امتحانات میں نہ ڈالیے۔ دنیا بھر کے ممالک کے ساتھ ساتھ سارے عرب ممالک، دیگر اسلامی ممالک جس اصول یا قرنطینہ اور ہجوم سے بچاؤ پر عمل کررہے ہیں، اسے سنجیدگی سے لیجیے اور اس پر نہ صرف خود خوش دلی سے عمل کیجیے بلکہ دوسروں کو بھی جہاں تک ممکن ہو سمجھانے کی اپنی سی کوشش ضرور کیجیے۔
یہ وبا کوئی پہلی عالمگیر وبا نہیں۔ دنیا میں پہلے بھی طاعون، چیچک اور ہیضے کی عالمگیر وبائیں آتی رہی ہیں۔ انسانیت نے ان سب سے نپٹا ہے اور ان پر قابو پایا ہے؛ اور نہ ہی یہ کوئی ایسا مرض ہے کہ جسے ہوگیا اس کا مرنا یقینی ہے، بلکہ اس کا علاج اور احتیاطی تدابیر موجود ہیں، لوگ صحت یاب بھی ہورہے ہیں۔ لیکن اس وبا کی خطرناکی اس کا تیزی سے پھیلنا ہے اور لوگوں کو تیزی سے متاثر کرنا ہے جس پر قابو پانے اور روک لگانے کےلیے ہجوم و اجتماع سے گریز بہت ضروری ہے۔ جو لوگ یہ سب فیصلے کررہے ہیں وہ بھی مسلمان ہیں، انہیں بھی باجماعت نماز کی اہمیت کا اندازہ ہے۔ پھر جب ہر مسلک کے جید اور سربرآوردہ علمائے کرام کی رائے بھی موافق ہے اور جامعہ الازہر جیسی قدیم اور بڑی اسلامی درس گاہ سے بھی موافقت میں فتوی موجود ہو تو پھر ایسے حکم کو ماننا کسی طرح بھی دین کے خلاف نہیں ہوسکتا۔
اگر سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا گیا تو ہوسکتا ہے کہ حکومت کو کرفیو کا اختیار استعمال کرنا پڑجائے؛ اور پھر مشکلات مزید بڑھنے کا اندیشہ ہے۔
اب اس مسئلے کو ہی دیکھ لیجیے، پہلے تمام مسالک کے علماء سے ایک پریس کانفرنس کروا کر نماز کے اجتماعات پر پابندی کا ہدایت نامہ جاری کروایا گیا اور پھر اگلے ہی دن سے آئمہ مساجد کے گھروں پر چھاپے مارنا شروع کردیئے گئے اور مسجدوں کی تالہ بندی کے واقعات بھی پیش آنے لگے۔ جید علمائے کرام جو مشترکہ اعلان کرچکے تھے، انہوں نے بھی ان واقعات پر افسوس کا اظہارشروع کردیا اور اس سب سے سیدھا سادہ سا مسئلہ خواہ مخواہ عدم اتفاق رائے کا شکار ہوکر گمبھیر اور پیچیدہ ہوتا جارہا ہے۔
سوشل میڈیا پر بھی اس سلسلے میں مختلف آراء سامنے آرہی ہیں۔ لوگ ڈپارٹمنٹل اسٹورز پر خریداری کرتے لوگوں کے ہجوم کی تصاویر پوسٹ کرکے پوچھ رہے ہیں کہ یہاں پابندی کا اطلاق نہیں ہوتا؟ پرائیویٹ ادارے خاص طور پر مختلف بینکس وغیرہ اپنے ملازمین پر گویا بڑا احسان کرکے انہیں ٹرانسپورٹ کی سہولیات دے کر دفاتر میں بلا رہے ہیں لیکن حال یہ ہے کہ بیشتر گاڑیوں میں، چاہے چھوٹی ہوں یا بڑی، لوگ قریب قریب بیٹھ کر آنا جانا کررہے ہیں۔ تو پابندی کہاں رہی پھر؟ جبکہ حکومتی نوٹیفکیشن کے تحت تو پرائیویٹ کمپنیز ملازمین کو تنخواہ کے ساتھ کم از کم تیس دن کی چھٹیاں دینے کی پابند ہیں۔ ایسا کہیں بھی ہوتا نظر نہیں آرہا، یعنی یہاں بھی عدم اتفاق موجود ہے۔
پھر ماہرین فرما رہے ہیں کہ پاکستان میں ستائیس مارچ سے کورونا وائرس کا پانچ سے چودہ دن کی انکیوبیشن کا دورانیہ ان لوگوں میں پورا ہوجائے گا جن کے ٹیسٹ نہیں ہوئے یا جن میں اب تک علامات کا ظہور نہیں ہوا۔ یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ ستائیس مارچ سے ملک بھر میں اس وبا کی مریضوں کی تعداد میں تیزی آسکتی ہے۔ تو لوگوں کو مزید محتاط ہونے اورخصوصاً اجتماعات سے گریز کرنے کی ضرورت مزید بڑھ جائے گی۔
نماز اور مساجد میں باجماعت ادائیگی کےلیے اعلامیے کے مطابق تین سے پانچ افراد تک کی جماعت کی اجازت ہے اور لوگ اپنے گھر میں رہتے ہوئے بھی اپنے اہل خانہ کے ساتھ جماعت کا اہتمام کرسکتے ہیں جن کا طریقہ اور تفصیلات مختلف مسالک کے اعتبار سے سوشل میڈیا میں بتائی جارہی اور مذہبی ٹی وی پروگراموں میں بیان کی جارہی ہیں۔ تو پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ خواہ مخواہ کا مسئلہ اور سازشی نظریات کا (جیسے یہ وائرس اور وبا ایک قدرتی آفت کے بجائے اسلامی اجتماعی عبادات کے خلاف کوئی سازش ہے) بیانیہ کیوں بنایا جارہا ہے؟ ایسا بالکل نہیں، بلکہ یہ ساری سفارشات اطباء اور علم الابدان کے ماہرین جنہیں ڈاکٹرز اور حکماء کہا جاتا ہے، کی ہدایات کی روشنی میں طے کی گئی ہیں۔
فی الحال یہ ایک بہترین ہدایت ہے اور یہ مشہور اسلامی اصول تو سب کو پتا ہی ہوگا کہ جان بچانے کےلیے حرام بھی حلال ہوجاتا ہے، تو پھر یہاں تو کسی حرام کو حلال نہیں کیا جارہا بلکہ باجماعت نماز کی ہیئت اور ادائیگی کے انداز میں ذرا سی تبدیلی ہی کی جارہی ہے جس سے اکثریت کا طبی مفاد وابستہ ہے؛ اور موجودہ صورتحال میں ساری دنیا میں الگ تھلگ کرنے کا یہ طریقہ زیر عمل ہے تو ہم میں کیوں نہیں؟
اور جو لوگ یہ جذباتی دلیلیں دے رہے ہیں کہ اجتماعی عمل کرنے سے بیماری اگر پکڑ لے تو میرا گریبان پکڑ لینا۔ اس نوعیت کے جذباتی بیانات سوشل میڈیا پر بہت گردش میں ہیں اور مذکورہ بالا اقدامات یعنی باجماعت نماز کی مساجد میں پابندی کی کھلی اور دبی دبی سی مخالفت کی جارہی ہے، وہ یہ بھول رہے ہیں کہ وباؤں میں اسلامی احکامات کیا ہیں۔ پھر ایک ابت بات یہ بھی ہے کہ بنی اسرائیل کی روایات میں سے ایک روایت کا مفہوم کچھ یوں بھی ہے کہ ایک مرتبہ کسی منطقی اور تشکیک پسند نے حضرت عیسی علیہ السلام سے پوچھا کہ آپ جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے تو ذرا اس پہاڑ سے کود کر دکھائیے۔ اللہ تعالی چاہے گا تو آپ کو بچالے گا۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے کیسا حکیمانہ جواب دیا جو عقل سلیم رکھنے والوں کی رہنمائی اور تسکین کےلیے کافی و شافی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ بندے کا یہ کام اور مقام نہیں کہ اپنے رب کا امتحان لے، بلکہ یہ رب کا مقام اور کام ہے کہ بندے کا امتحان لے۔ تو ہم کیوں خواہ مخواہ اپنے ایمانوں اور یقینوں کو غیر ضروری امتحانات میں ڈالنے کی کوشش کریں جبکہ متبادل راہ موجود ہو۔
تو اجتماعی دانش کے تحت کیے گئے ان فیصلوں کی پابندی کرنے کے عمل کو مشکوک نہ بنائیے۔ اپنے ایمان و یقین کو غیر ضروری امتحانات میں نہ ڈالیے۔ دنیا بھر کے ممالک کے ساتھ ساتھ سارے عرب ممالک، دیگر اسلامی ممالک جس اصول یا قرنطینہ اور ہجوم سے بچاؤ پر عمل کررہے ہیں، اسے سنجیدگی سے لیجیے اور اس پر نہ صرف خود خوش دلی سے عمل کیجیے بلکہ دوسروں کو بھی جہاں تک ممکن ہو سمجھانے کی اپنی سی کوشش ضرور کیجیے۔
یہ وبا کوئی پہلی عالمگیر وبا نہیں۔ دنیا میں پہلے بھی طاعون، چیچک اور ہیضے کی عالمگیر وبائیں آتی رہی ہیں۔ انسانیت نے ان سب سے نپٹا ہے اور ان پر قابو پایا ہے؛ اور نہ ہی یہ کوئی ایسا مرض ہے کہ جسے ہوگیا اس کا مرنا یقینی ہے، بلکہ اس کا علاج اور احتیاطی تدابیر موجود ہیں، لوگ صحت یاب بھی ہورہے ہیں۔ لیکن اس وبا کی خطرناکی اس کا تیزی سے پھیلنا ہے اور لوگوں کو تیزی سے متاثر کرنا ہے جس پر قابو پانے اور روک لگانے کےلیے ہجوم و اجتماع سے گریز بہت ضروری ہے۔ جو لوگ یہ سب فیصلے کررہے ہیں وہ بھی مسلمان ہیں، انہیں بھی باجماعت نماز کی اہمیت کا اندازہ ہے۔ پھر جب ہر مسلک کے جید اور سربرآوردہ علمائے کرام کی رائے بھی موافق ہے اور جامعہ الازہر جیسی قدیم اور بڑی اسلامی درس گاہ سے بھی موافقت میں فتوی موجود ہو تو پھر ایسے حکم کو ماننا کسی طرح بھی دین کے خلاف نہیں ہوسکتا۔
اگر سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا گیا تو ہوسکتا ہے کہ حکومت کو کرفیو کا اختیار استعمال کرنا پڑجائے؛ اور پھر مشکلات مزید بڑھنے کا اندیشہ ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔