دشمن اپنے ہی جال میں پھنس گیا
بھارتی حکومت کو چاہیے کہ وہ سکھوں کے آزاد وطن کے قیام کے لیے جو وعدہ کیا گیا تھا اسے پورا کرے۔
RAWALPINDI:
اس وقت جب کہ پوری دنیا کورونا کی مصیبت میں گرفتار ہے بھارت پاکستان دشمنی سے باز نہیں آ رہا ہے۔ ویسے تو وہ پاکستان کو بدنام کرنے اور کشمیریوں کو دہشتگرد ثابت کرنے کے لیے بھارت میں اپنے ہی دہشتگردوں سے اپنے ہی اہم مقامات پر کئی حملے کرا کے اسے پاکستان کی ایما پر کشمیریوں کی کارروائی قرار دیتا رہا ہے مگر اس دفعہ اس نے ایک بڑی دہشت گردانہ کارروائی دنیا میں زیادہ سنسنی پھیلانے کے لیے بھارت سے باہر کابل میں کرائی ہے جہاں کی ان کی زرخرید حکومت اور ادارے اس کے اشاروں پر کچھ بھی کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔
''را'' کا وہاں کی خفیہ تنظیم این ڈی ایس سے گہرا گٹھ جوڑ قائم ہے۔ ''را'' این ڈی ایس کے ساتھ مل کر پہلے بھی پاکستان کے اندر دہشت گردانہ کارروائیاں کراتی رہی ہے۔ اس دفعہ ان دونوں نے مل کر داعش کے ایک اجرتی دھڑے کے ذریعے کابل کے ایک گرودوارے میں حملہ کرایا ہے۔ یہ دہشتگردی کا واقعہ گزشتہ جمعہ کے دن بارہ بجے کابل شہر کے وسط میں واقع شور بازار کے ایک چار سو سال پرانے گرودوارے میں کرایا گیا۔ اس وقت گرودوارے میں سکھ اپنی عبادت میں مصروف تھے جن میں مردوں عورتوں کے علاوہ بچے بھی شامل تھے۔
دہشتگردوں نے یہاں سیکیورٹی کا کوئی انتظام نہ ہونے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آسانی سے گرودوارے میں داخل ہوکر فائرنگ شروع کردی اور بڑی بے دردی سے 27 سکھوں کو ہلاک کردیا۔ حملے کے بعد داعش کے ایک گروہ جن کا نام عماق گروپ بتایا گیا ہے اس حملے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حملہ بھارت کے کشمیریوں کے ساتھ کیے جانے والے ظلم کی پاداش میں کیا گیا ہے، حالانکہ داعش نے کشمیریوں کی آزادی میں کبھی کوئی دلچسپی نہیں دکھائی ہے وہ پاکستان کے طالبان کے ساتھ نرم رویے کی وجہ سے پاکستان کے خلاف ہیں۔
داعش کے اعلان کے بعد کشمیریوں نے انٹرنیٹ پر اس دہشت گردانہ حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور لکھا کہ اس حملے میں بے گناہ سکھوں کے قتل عام میں کوئی کشمیری شہری ملوث نہیں ہے اور نہ ہی کشمیر کے مظلوم حریت پسند عوام اس قسم کے دہشت گردانہ حملوں کی حمایت کرتے ہیں انھوں نے مزید لکھا کہ کشمیری عوام سکھ کمیونٹی کو اپنا ہمدرد اور خیر خواہ سمجھتے ہیں کیونکہ انھوں نے پلوامہ حملے کے بعد کشمیری مسلمانوں کا بھرپور ساتھ دیا اور کشمیری مسلمانوں کو پیش آنیوالی ہر مشکل گھڑی میں سکھ رضاکاروں نے بھرپور مدد کی ہے جب کشمیری مسلمانوں کو اپنی جائیدادوں سے مودی سرکار جبری طور پر بے دخل کر رہی تھی تو اس وقت بھی سکھوں نے کشمیریوں کی مدد کی چنانچہ کوئی کشمیری اپنے محسنوں کے ساتھ زیادتی اور ان کی عبادت گاہوں پر حملے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔
یہ دہشت گردانہ کارروائی دراصل کشمیری مسلمانوں کو بدنام کرنے اور سکھ کمیونٹی سے ان کے تعلقات کو خراب کرنے کی ''را'' کی بزدلانہ کارروائی ہے۔ کابل حملے پر کشمیریوں کے کمنٹس اس لیے شیئر کیے گئے ہیں کہ وہ اب خود بھی بھارت کے دہشت گردانہ ہتھکنڈوں کو خوب سمجھنے لگے ہیں۔ اس سے پہلے پاکستان کو دنیا کو باور کرانا پڑتا تھا کہ بھارت ایسے دہشت گردانہ حملے خود کرا کے کشمیر کے مسئلے سے عالمی توجہ ہٹانا چاہتا ہے۔ جب اس حملے کی خبر بھارتی میڈیا کو پہنچی کہ دہشتگردوں میں ایک ہندوستانی بھی شامل ہے تو اس نے فوراً اسے کشمیری قرار دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ حملہ کشمیریوں کی ہی کارروائی ہے مگر جلد ہی مغربی میڈیا نے یہ سچ واضح کردیا کہ جس نوجوان کو کشمیری کہا جا رہا ہے وہ دراصل کیرالہ کا رہنے والا ہے۔ اس کا نام ابو خالد الپندی ہے۔
سکھ بھارت کی سازش کو سمجھ چکے ہیں چنانچہ وہ گرودوارے پر بھارتی دہشتگردی کی سخت مذمت کر رہے ہیں۔ دراصل یہ حملہ ''را'' نے جس گروپ سے کروایا وہ داعش کا ایک غیر معروف دھڑا ہے۔ ''را'' نے اسے یہ ٹاسک دیتے ہوئے لگتا ہے یہ انکوائری نہیں کی کہ حملے میں حصہ لینے والے اس کے ارکان کہاں سے تعلق رکھتے ہیں اور اب بھارت اس حملے کے ذریعے پاکستان کو بدنام کرنے کے بجائے اس کا دہشت گردانہ چہرہ خود بے نقاب ہو گیا ہے۔
بھارت کو دراصل سکھوں کے خلاف اس حملے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ اس وقت سکھ کھل کر پاکستان، کشمیریوں اور بھارتی مسلمانوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ جب سے حکومت پاکستان نے بھارت اور دنیا بھر کے سکھوں کے لیے کرتار پور راہداری کھول دی ہے سکھوں کے رویے میں بہت تبدیلی دیکھی جا رہی ہے۔
سکھ پاکستان کے اس اقدام سے اتنے خوش ہیں کہ وہ بھارت میں کھلے عام پاکستان کی تعریفیں کرتے رہتے ہیں اور کشمیریوں و بھارتی مسلمانوں کی ہر معاملے میں بھرپور مدد کرتے رہتے ہیں۔ وہ دہلی کے شاہین باغ میں بھارتی شہریت کے متنازعہ قانون کے خلاف دھرنا دینے والی خواتین کے لیے لنگر فراہم کرنے کے علاوہ ان کی آر ایس ایس کے غنڈوں سے حفاظت کے لیے رضاکارانہ طور پر پہرہ دیتے رہتے ہیں۔ دہلی میں ہونے والے قتل عام میں بھی انھوں نے کئی مسلمان خاندانوں کو اپنے ہاں پناہ دے کر بچایا تھا۔
مودی حکومت سکھوں کے پاکستان اور کشمیریوں کے حق میں بڑھتی ہوئی حمایت سے سخت خوفزدہ ہے۔ وہ سکھوں کو اس سے ہٹانے کے لیے بھرپور کوشش کر رہی ہے مگر اس میں ناکامی کے بعد ہی اس نے کابل میں سکھوں کے گرودوارے پر حملہ کروایا ہے تاہم وہ اس میں خود پھنس گئی ہے اور اس کا دہشت گردانہ کردار دنیا کے سامنے آشکار ہو گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب سے بھارت میں بی جے پی کی حکومت برسر اقتدار آئی ہے اس کے پالتو غنڈوں نے پورے بھارت میں دہشتگردی پھیلا دی ہے۔
کچھ دن قبل اقوام متحدہ میں متعین پاکستانی وفد نے آر ایس ایس، بجرنگ دل اور دوسری ہندو دہشتگرد تنظیموں پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ بھارت کے مطالبے پر پہلے ہی کئی پاکستانی فلاحی اور دینی تنظیموں پر پابندی عائد کرچکی ہے جب کہ ان کا کسی قسم کی دہشتگردی سے کوئی تعلق نہیں تھا چنانچہ اب اقوام متحدہ کو پاکستانی مطالبے پر حقیقی بھارتی دہشتگرد تنظیموں پر فوراً پابندی لگانی چاہیے ان کی دہشت گردی کی تصدیق تو ابھی حال میں دہلی میں ہوئے مسلمانوں کے قتل عام سے ہوچکی ہے۔
آج سکھوں کو جن مصائب کا سامنا ہے اور انھیں بھارت میں دوسرے درجے کا شہری سمجھے جانے کا تعلق ہے تو وہ دراصل تقسیم برصغیر کے وقت ان کے اس وقت کے قائدین کے غلط فیصلوں کا نتیجہ ہے۔ کاش کہ سکھ قائدین قائد اعظم محمد علی جناح کا کہنا مان لیتے تو آج سکھ بے وطن ہونے کے بجائے اپنے آزاد خودمختار ملک خالصتان کے مالک ہوتے۔
بھارتی حکومت اس ریفرنڈم کو رکوانے کے لیے سر توڑ کوششیں کر رہی ہے مگر سکھوں کے اس ریفرنڈم میں جوش و خروش کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ بھارت اسے روکنے میں قطعی ناکام رہے گا۔ بھارتی حکومت کو چاہیے کہ وہ سکھوں کے آزاد وطن کے قیام کے لیے جو وعدہ کیا گیا تھا اسے پورا کرے اور ان پر ظلم و ستم بھی بند کرے ورنہ سکھ فوجی اگر اس ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو پھر بھارت کو تباہی سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔
اس وقت جب کہ پوری دنیا کورونا کی مصیبت میں گرفتار ہے بھارت پاکستان دشمنی سے باز نہیں آ رہا ہے۔ ویسے تو وہ پاکستان کو بدنام کرنے اور کشمیریوں کو دہشتگرد ثابت کرنے کے لیے بھارت میں اپنے ہی دہشتگردوں سے اپنے ہی اہم مقامات پر کئی حملے کرا کے اسے پاکستان کی ایما پر کشمیریوں کی کارروائی قرار دیتا رہا ہے مگر اس دفعہ اس نے ایک بڑی دہشت گردانہ کارروائی دنیا میں زیادہ سنسنی پھیلانے کے لیے بھارت سے باہر کابل میں کرائی ہے جہاں کی ان کی زرخرید حکومت اور ادارے اس کے اشاروں پر کچھ بھی کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔
''را'' کا وہاں کی خفیہ تنظیم این ڈی ایس سے گہرا گٹھ جوڑ قائم ہے۔ ''را'' این ڈی ایس کے ساتھ مل کر پہلے بھی پاکستان کے اندر دہشت گردانہ کارروائیاں کراتی رہی ہے۔ اس دفعہ ان دونوں نے مل کر داعش کے ایک اجرتی دھڑے کے ذریعے کابل کے ایک گرودوارے میں حملہ کرایا ہے۔ یہ دہشتگردی کا واقعہ گزشتہ جمعہ کے دن بارہ بجے کابل شہر کے وسط میں واقع شور بازار کے ایک چار سو سال پرانے گرودوارے میں کرایا گیا۔ اس وقت گرودوارے میں سکھ اپنی عبادت میں مصروف تھے جن میں مردوں عورتوں کے علاوہ بچے بھی شامل تھے۔
دہشتگردوں نے یہاں سیکیورٹی کا کوئی انتظام نہ ہونے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آسانی سے گرودوارے میں داخل ہوکر فائرنگ شروع کردی اور بڑی بے دردی سے 27 سکھوں کو ہلاک کردیا۔ حملے کے بعد داعش کے ایک گروہ جن کا نام عماق گروپ بتایا گیا ہے اس حملے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حملہ بھارت کے کشمیریوں کے ساتھ کیے جانے والے ظلم کی پاداش میں کیا گیا ہے، حالانکہ داعش نے کشمیریوں کی آزادی میں کبھی کوئی دلچسپی نہیں دکھائی ہے وہ پاکستان کے طالبان کے ساتھ نرم رویے کی وجہ سے پاکستان کے خلاف ہیں۔
داعش کے اعلان کے بعد کشمیریوں نے انٹرنیٹ پر اس دہشت گردانہ حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور لکھا کہ اس حملے میں بے گناہ سکھوں کے قتل عام میں کوئی کشمیری شہری ملوث نہیں ہے اور نہ ہی کشمیر کے مظلوم حریت پسند عوام اس قسم کے دہشت گردانہ حملوں کی حمایت کرتے ہیں انھوں نے مزید لکھا کہ کشمیری عوام سکھ کمیونٹی کو اپنا ہمدرد اور خیر خواہ سمجھتے ہیں کیونکہ انھوں نے پلوامہ حملے کے بعد کشمیری مسلمانوں کا بھرپور ساتھ دیا اور کشمیری مسلمانوں کو پیش آنیوالی ہر مشکل گھڑی میں سکھ رضاکاروں نے بھرپور مدد کی ہے جب کشمیری مسلمانوں کو اپنی جائیدادوں سے مودی سرکار جبری طور پر بے دخل کر رہی تھی تو اس وقت بھی سکھوں نے کشمیریوں کی مدد کی چنانچہ کوئی کشمیری اپنے محسنوں کے ساتھ زیادتی اور ان کی عبادت گاہوں پر حملے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔
یہ دہشت گردانہ کارروائی دراصل کشمیری مسلمانوں کو بدنام کرنے اور سکھ کمیونٹی سے ان کے تعلقات کو خراب کرنے کی ''را'' کی بزدلانہ کارروائی ہے۔ کابل حملے پر کشمیریوں کے کمنٹس اس لیے شیئر کیے گئے ہیں کہ وہ اب خود بھی بھارت کے دہشت گردانہ ہتھکنڈوں کو خوب سمجھنے لگے ہیں۔ اس سے پہلے پاکستان کو دنیا کو باور کرانا پڑتا تھا کہ بھارت ایسے دہشت گردانہ حملے خود کرا کے کشمیر کے مسئلے سے عالمی توجہ ہٹانا چاہتا ہے۔ جب اس حملے کی خبر بھارتی میڈیا کو پہنچی کہ دہشتگردوں میں ایک ہندوستانی بھی شامل ہے تو اس نے فوراً اسے کشمیری قرار دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ حملہ کشمیریوں کی ہی کارروائی ہے مگر جلد ہی مغربی میڈیا نے یہ سچ واضح کردیا کہ جس نوجوان کو کشمیری کہا جا رہا ہے وہ دراصل کیرالہ کا رہنے والا ہے۔ اس کا نام ابو خالد الپندی ہے۔
سکھ بھارت کی سازش کو سمجھ چکے ہیں چنانچہ وہ گرودوارے پر بھارتی دہشتگردی کی سخت مذمت کر رہے ہیں۔ دراصل یہ حملہ ''را'' نے جس گروپ سے کروایا وہ داعش کا ایک غیر معروف دھڑا ہے۔ ''را'' نے اسے یہ ٹاسک دیتے ہوئے لگتا ہے یہ انکوائری نہیں کی کہ حملے میں حصہ لینے والے اس کے ارکان کہاں سے تعلق رکھتے ہیں اور اب بھارت اس حملے کے ذریعے پاکستان کو بدنام کرنے کے بجائے اس کا دہشت گردانہ چہرہ خود بے نقاب ہو گیا ہے۔
بھارت کو دراصل سکھوں کے خلاف اس حملے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ اس وقت سکھ کھل کر پاکستان، کشمیریوں اور بھارتی مسلمانوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ جب سے حکومت پاکستان نے بھارت اور دنیا بھر کے سکھوں کے لیے کرتار پور راہداری کھول دی ہے سکھوں کے رویے میں بہت تبدیلی دیکھی جا رہی ہے۔
سکھ پاکستان کے اس اقدام سے اتنے خوش ہیں کہ وہ بھارت میں کھلے عام پاکستان کی تعریفیں کرتے رہتے ہیں اور کشمیریوں و بھارتی مسلمانوں کی ہر معاملے میں بھرپور مدد کرتے رہتے ہیں۔ وہ دہلی کے شاہین باغ میں بھارتی شہریت کے متنازعہ قانون کے خلاف دھرنا دینے والی خواتین کے لیے لنگر فراہم کرنے کے علاوہ ان کی آر ایس ایس کے غنڈوں سے حفاظت کے لیے رضاکارانہ طور پر پہرہ دیتے رہتے ہیں۔ دہلی میں ہونے والے قتل عام میں بھی انھوں نے کئی مسلمان خاندانوں کو اپنے ہاں پناہ دے کر بچایا تھا۔
مودی حکومت سکھوں کے پاکستان اور کشمیریوں کے حق میں بڑھتی ہوئی حمایت سے سخت خوفزدہ ہے۔ وہ سکھوں کو اس سے ہٹانے کے لیے بھرپور کوشش کر رہی ہے مگر اس میں ناکامی کے بعد ہی اس نے کابل میں سکھوں کے گرودوارے پر حملہ کروایا ہے تاہم وہ اس میں خود پھنس گئی ہے اور اس کا دہشت گردانہ کردار دنیا کے سامنے آشکار ہو گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب سے بھارت میں بی جے پی کی حکومت برسر اقتدار آئی ہے اس کے پالتو غنڈوں نے پورے بھارت میں دہشتگردی پھیلا دی ہے۔
کچھ دن قبل اقوام متحدہ میں متعین پاکستانی وفد نے آر ایس ایس، بجرنگ دل اور دوسری ہندو دہشتگرد تنظیموں پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ بھارت کے مطالبے پر پہلے ہی کئی پاکستانی فلاحی اور دینی تنظیموں پر پابندی عائد کرچکی ہے جب کہ ان کا کسی قسم کی دہشتگردی سے کوئی تعلق نہیں تھا چنانچہ اب اقوام متحدہ کو پاکستانی مطالبے پر حقیقی بھارتی دہشتگرد تنظیموں پر فوراً پابندی لگانی چاہیے ان کی دہشت گردی کی تصدیق تو ابھی حال میں دہلی میں ہوئے مسلمانوں کے قتل عام سے ہوچکی ہے۔
آج سکھوں کو جن مصائب کا سامنا ہے اور انھیں بھارت میں دوسرے درجے کا شہری سمجھے جانے کا تعلق ہے تو وہ دراصل تقسیم برصغیر کے وقت ان کے اس وقت کے قائدین کے غلط فیصلوں کا نتیجہ ہے۔ کاش کہ سکھ قائدین قائد اعظم محمد علی جناح کا کہنا مان لیتے تو آج سکھ بے وطن ہونے کے بجائے اپنے آزاد خودمختار ملک خالصتان کے مالک ہوتے۔
بھارتی حکومت اس ریفرنڈم کو رکوانے کے لیے سر توڑ کوششیں کر رہی ہے مگر سکھوں کے اس ریفرنڈم میں جوش و خروش کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ بھارت اسے روکنے میں قطعی ناکام رہے گا۔ بھارتی حکومت کو چاہیے کہ وہ سکھوں کے آزاد وطن کے قیام کے لیے جو وعدہ کیا گیا تھا اسے پورا کرے اور ان پر ظلم و ستم بھی بند کرے ورنہ سکھ فوجی اگر اس ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو پھر بھارت کو تباہی سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔