کورونا سے انتظامی ٹکراؤ کا خدشہ ہے

کسی بھی ملک میں انتظامی اُمور ہی وہ عمل ہوتا ہے جو کسی بھی وبا یا آفت کو کم سے کم نقصان تک محدود رکھتا ہے۔

کورونا کی وبا نے جس طرح دنیا کے سیاسی ، معاشی اور انتظامی نظام کی دھوبی پچھاڑ کی ہے اس سے مستقبل میں مزید کئی بحرانوں کا اندیشہ پیدا ہوگیا ہے۔

اس بحران نے دنیا بھر کے انسانوں کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ گذشتہ 2 صدیوں سے عمومی اور ایٹمی و کیمیائی ہتھیاروں کی جس دوڑ میں تمام ممالک ایک دوسرے سے بازی لیجانے کے چکر میں اپنی اپنی بجٹ کا تقریباً نصف یا پھر اُس سے بھی زیادہ حصہ خرچ کرتے رہے وہ محض ایک دوسرے کو ڈرانے ، دھمکانے یا پھر ایک دوسرے پر تسلط قائم کرنے جیسی غیر اخلاقی و غیر انسانی حرکت کے علاوہ کچھ بھی نہ تھا ۔

بحری بیڑوں اور توپوں کے بل پر دنیا بھر کو غلام بنانے والا برطانیہ ہو یا ایٹم بم اور F-16 کی طاقت سے سپر پاور بننے والا امریکا ، ٹینکوں اور آبدوزوں پر سوار جرمنی ہو ، ٹینکوں پر ناز کرتا روس ہو یا پھر تھنڈر ٹیکنالوجی پر اتراتا چین ہی کیوں نہ ہو ، وہ اپنے ان تمام تر عزائم میں ناکام ہی ثابت ہوئے ہیں اور کسی نہ کسی فیڈرل کاسترو ، نیلسن منڈیلا ، ہوگو شاویز ، مہاتما گاندھی اور محمد علی جناح نے اُن کو چیلنج کرکے باوجود نہتے ہونے کے اُن طاقتوں پر فتح پائی ۔جس سے ثابت ہوگیا کہ حقیقی ''طاقت کا سرچشمہ عوام '' ہی ہے۔

جس ملک کے عوام متحد اور مستعد ہیں وہی حقیقی کامیابیوں کی منازل طے کرتے ہیں ۔ دو صدیوں کی اس روئیداد سے ثابت ہوتا ہے کہ طاقت سے کسی کو بھی غلام بناکر نہیں رکھا جاسکتا اور وقت آگیا ہے کہ کرۂ ارض پر انسانی برابری کو عملی روپ دیا جائے ۔ دنیا میں تمام انسانوں کو یکساں بنیادی سہولیات کی فراہمی پر بڑھ چڑھ کر کام کیا جائے ۔ تمام ممالک اپنے اپنے عوام کو حفظان ِ صحت کے اُصولوں کی بنیاد پر صاف ہوا ، شفاف پانی ، صحت مند غذا ، معیاری تعلیم کے ساتھ ساتھ صحت عامہ کی جدید سے جدید تر سہولیات کی مفت فراہمی کے انتظام میں مسابقتی ماحول کو پروان چڑھائیں کیونکہ موجودہ کورونا وائرس یہ پختہ دلیل مہیا کرتا ہے کہ تمام لوگوں کو صحت کی جدید سے جدید تر سہولیات میسر ہونی چاہئیں ۔

بصورت ِ دیگر ناول کورونا وائرس کی یہ ایک خفیہ آفت جس طرح سامنے آرہی ہے اور جس میں تمام ابتر حالات کی اطلاعات پر جو قابل اعتماد اندازے لگائے جارہے ہیں ، اُن کے مطابق دنیا بھر میں کروڑوں لوگ مرسکتے ہیں اور یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ ایسے میں ہمیشہ غریب و نادار طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے ۔ جیسا کہ تاریخ میں صحت کے حوالے سے دیگر آفتوں میں ہوچکا ہے ۔

''بلیک ڈیتھ'' میں یورپ کی آبادی کا تیسرا حصہ مر گیا،'' اسپینش فلو '' اور ''طاعون'' میں بھی لاکھوں لوگ جاں بحق ہوگئے تھے ۔ اس لیے موجودہ کورونا وائرس سے جہاں کروڑوں انسانی زندگیاں ضایع ہونے کا ڈر ہے وہیں ہمیں دیگر خطرات کا بھی سامنہ کرنا پڑیگا جو بھلے روز مرہ کی زندگی کو ایسے متاثر نہ کریں جیسے آج کل ہورہا ہے لیکن وہ آنے والے دنوں میں دنیا پر اپنے اثرات ضرور مرتب کریں گے ۔ اُن میں سب سے زیادہ خطرہ انتظامی ٹکراؤ کا ہے ۔

عالمی معیشت کو بحران کے باعث سرمایہ دارانہ و زرعی سماج، جمہوری و آمریتی نظام کے درمیان، یا کثیر القومی ممالک میں داخلی سطح پر قوموں کے مابین یا پھر یونٹس (صوبوں یا ریاستوں) کے مابین یا یونٹ و فیڈریشن کے درمیان سیاسی تنازعات و انتظامی ٹکراؤ کا خدشہ ہے ۔ جب کہ بین الاقوامی سطح پر بھی معاشی جنگ کے بڑھنے کے امکانات ہیں جو دنیا کے وسائل پر قبضے میں مزید تیزی کی صورت میں نمودار ہوں گے ۔

اگر ابھی سے ان خدشات کے مد نظر تدارکی انتظامات نہیں کیے گئے تو ملکوں کے معاشی مفادات ایک مرتبہ پھر دنیا میں جغرافیائی و انتظامی بھونچال کا باعث بن جائیں گے ۔ حالانکہ ان خطرات سے متعلق فیصلہ کن اقدامات کرنے کے لیے درکار وقت میسر نہیں لیکن کورونا وائرس جسیے عظیم المیے کے دوران زیادہ سے زیادہ انسانی جانیں بچانے کے لیے کیے جانے والے اقدامات میں نیک نیتی اور مساوی رویوں سے فریقین کے مابین انسانیت کے احساس کو بیدار کرنے سے کسی حد تک اس مشکل سے بچا جاسکتا ہے ۔

جس میں بقول امریکی فلسفی پروفیسر نوم چومسکی امریکا کو اہم کردار ادا کرنا ہوگا ۔ جس کے لیے وہ امریکی نوجوانوں کو اُمید کی کرن سمجھتے ہیں ۔ وہ اپنی ایک حالیہ تحریر میں ایٹمی جنگ اور گلوبل وارمنگ کے خطرات کے ساتھ ساتھ' آپے شاہی ' کے خطرات کے پیچھے امریکی پالیسیوں خصوصاً' فاسل فیول' کے استعمال کو قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ '' کورونا وائرس جیسے عظیم المیے کے وقت ، ممکن ہے کہ اس آفت کو اس زاویے سے دیکھنے اور اُس کی جڑوں کو تلاش کرنے پر زور دینا، تھوڑی بے تکی بات محسوس ہو مگر اُس کی جڑیں مارکیٹ کی بڑی ناکامیوں اور سماجی نیز معاشی نظام کی گہری ناانصافیوں میں ہیں ۔ جسے نیولبرل دور کی سفاک سرمایہ داری نے بحران سے آفت میں تبدیل کیا ہے۔

یہ معاملات توجہ طلب ہیں ۔ خصوصاً دنیا کی تاریخ کے سب سے زیادہ طاقتور ملک (امریکا) میں ، جسے اب یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اُس کی ناانصافی کا یہ کولہو بھرپور تباہی آمیز تیزی سے یونہی گھومتا رہے گا یا اس کا کوئی اَ نت بھی ہے !''

لیکن امریکا سے ہٹ کر دیگر ممالک بالخصوص پاکستان کی سطح پر بھی اگر دیکھیں تو ان کی بات بجا محسوس ہوتی ہے ۔ چین میں کورونا وائرس پھیلنے کی اطلاعات آنے سے لے کر اب تک ملک میں پیش آنیوالے واقعات اُن کی اس بات کو تقویت دیتے ہیں ۔ ایک ماہ قبل جب سندھ کے وزیر اعلیٰ لاک ڈاؤن کی باتیں کررہے تھے ، اُس وقت پورا ملک توسرمائی یعنی Hybernationکی طرح لمبی تان کر سویا رہا اور تو اور جب 15روز قبل سندھ میں لاک ڈاؤن کیا گیا تو بھی CMسندھ کو Over Smart کے القابات سے نوازہ جاتا رہا اور تمام ایئرپورٹ ، بندرگاہیں ، بارڈر، بازاریں ، پی ایس ایل اور مذہبی و سیاسی اجتماع جاری و ساری رہے ۔ اور اب جب ملک بھر میں کورونا کیسز پھیل گئے تب مجبوراً سب کو ماننا پڑ رہا ہے لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی ہے۔

حالانکہ سندھ حکومت کے بروقت انتظامات سے صوبہ کے عوام کواطمینان محسوس ہورہا تھا جب کہ دیگر صوبوں کے عوام بھی اپنے حکمرانوں سے سندھ حکومت کی پیروی کا مطالبہ کرنے لگے لیکن اُس کے باوجود وفاقی حکومت نے نہ خود بروقت اقدامات کیے اورنہ ہی سندھ حکومت کو سپورٹ کیا ۔ انتظامی ٹکراؤ پاکستان میں تو ابھی سے نظر آنا شروع ہوگیا ہے ۔ سندھ حکومت لاک ڈاؤن کا حکم نکالتی ہے تو وفاقی حکومت اُسے مسترد کردیتی ہے ۔یہ سب سے پہلے پی ایس ایل میچز کے معاملے پر دیکھنے میں آیا ۔

وفاقی حکومت میچز جاری رکھے ہوئے تھی لیکن سندھ حکومت نے کراچی میں میچز کے دوران عوام کو عدم شرکت کے احکامات جاری کیے اور بعد ازاں آخر پی ایس ایل مؤخر کردیا گیا ۔ سندھ حکومت نے صوبہ میں ٹرانسپورٹ پر پابندی عائد کی لیکن وفاقی حکومت نے ہائی ویز کھولے رکھنے کے احکامات جاری کیے اور لاک ڈاؤن کے باوجود تاحال ہائی ویز کھلے ہوئے ہیں ۔


انتظامی فقدان یا تضاد کی صورتحال کی حد تو یہ ہے کہ وفاقی حکومت لاک ڈاؤن کے خلاف ہے اور وزیر اعظم نے قوم سے خطاب میں لاک ڈاؤن نہ کرنے کا بھی فیصلہ سنایا مگر اُس کے باوجود 14اپریل تک ملک میں لاک ڈاؤن کا اعلان بھی کرچکی ہے ۔ پھر ایئرپورٹ وفاقی Territoryہونے کے باوجود کراچی ایئرپورٹ پر کورونا مانیٹرنگ کے انتظامات سندھ حکومت نے اپنے ہاتھ میں لے لیے ۔سندھ پنجاب بارڈر پر صورتحال اُس وقت کشیدہ نظر آئی جب سندھ حکومت کی جانب سے صوبہ میں لاک ڈاؤن کی صورت میں سندھ پولیس اور رینجرز نے پنجاب سے آنیوالی گاڑیوں کو روک لیا ۔ بالآخر وزیر اعظم کو رینجرز کو رکاوٹیں ہٹانے کا کہا گیا اور یوں صوبوں یا پھر وفاق اور سندھ صوبے کے مابین یہ ٹکراؤ ٹل گیا ۔

وفاق اور سندھ کے مابین پہلے ہی بدگمانیاں رہی ہیں ۔ ایسے میں کوئی بھی انتظامی ٹکراؤ ان بدگمانیوں کو مزید ہوا دینے کا باعث بن سکتا ہے ۔ ان الگ الگ اعلانات سے انتظامی ٹکراؤ کی صورتحال واضح محسوس ہورہی ہے اوریوں بارہا وفاق و صوبائی انتظامی ٹکراؤ ہوچکا ہے جوکہ ایک گمبھیر صورتحال کی طرف اشارہ ہے ۔ جو کورونا وائرس کی صورتحال کے مزید شدید ہونے کی صورت میں مزید تشویشناک ہونے کا اندیشہ ہے ۔

2018کے انتخابات کے بعد سے وفاق اور باقی تین صوبوں میں پی ٹی آئی کی حکومت ہونے کے باعث تو کسی حد تک خاموشی نظر آئی ہے لیکن پی ٹی آئی اور پی پی پی کے مابین جماعتی و سیاسی اختلافات اس قدر شدید کردیے گئے ہیں کہ مرکز اور صوبہ سندھ میں کو آرڈی نیشن کا ایک بہت بڑا خلا نظر آنے لگا ہے اور یہ خلا اب ملکی و حکومتی انتظامی اُمور میں دراڑیں ڈالنے کا باعث بن رہا ہے ۔

ملک میں اداراتی انتظامی اختیارات پہلے ہی سے زیر ِ بحث ہیں ۔ پانی و بجلی اور گیس کے اداروں کے اختیارات پر صرف صوبائی حکومتوں کو ہی نہیں بلکہ صنعتکاروں و تاجروں کو بھی تحفظات ہیں ۔ اس وبائی صورتحال میں جب دنیا کے ممالک اپنے عوام کو بجلی و گیس بلز معاف کرنے کے اعلانات کررہے ہیں ایسے میں بھی کراچی کے عوام سے بجلی کے فی یونٹ پر پرائم ٹائم کے نام پر اضافی رقم چارج کی جارہی ہے، جب کہ وبائی صورتحال کے باعث بجلی ، گیس کے بل فی الحال مؤخر کرکے بعد میں قسطوں میں لینے کی وزیر اعلیٰ سندھ کی اپیل بھی وفاقی حکومت نے مسترد کر دی ہے ۔

آج بھی صوبہ سندھ میں وفاقی و صوبائی حکومتیں آمنے سامنے ہیں ۔ وفاق گورنر کی معرفت سندھ حکومت سے علیحدہ اجلاس و انتظامات کرتے نظر آتے ہیں۔ پھر وفاقی یا سندھ حکومت لاک ڈاؤن کو 10دن سے زیادہ وقت گذرجانے کے باوجود گھروں میں محصور لوگوں خصوصاً غریب و دہاڑی پر کام کرنے والے افراد اور دیہی علاقوں کے عوام تک راشن پہنچانے کے انتظامات تک میں ناکام رہی ہیں ۔

سندھ حکومت ابھی تک این جی اوز کی معرفت راشن گھروں تک پہنچانے کے طریقے میں الجھی ہوئی ہے اورعوام کے اعداد و شمار کا ڈیٹا کے لیے نادرا اور وفاقی اداروں کو خطوط پے خطوط لکھ رہی ہے لیکن وہاں سے کوئی خاطر خواہ جواب نہیں مل رہا تو دوسری طرف وفاقی حکومت ملک میں یوٹیلٹی اسٹورز کے ذریعے کام کرنے کے احکامات جاری کرچکی ہے۔جب کہ پی پی پی اور پی ٹی آئی نے آج تک کوئی آفیشل مشترکہ اجلاس منعقد نہیں کیا اور نہ ہی کوئی لائحہ عمل دیا ہے ۔ وہ صرف ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں اپنی توانائیاں صرف کررہے ہیں ۔

دوسری جانب نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ اب کراچی کے تاجروں اور صنعتکاروں نے لاک ڈاؤن اور وفاقی و صوبائی پالیسیوں سے بغاوت کا اعلان کردیا ہے ۔ اس صورتحال سے ملک میں داخلی طور پرلاک ڈاؤن کے باعث بھوک و افلاس کے شکار لوگوں کی جانب سے لوٹ مارکرنے کی بھی افواہیں آرہی ہیں ۔ جس کی جھلک کراچی میں بعض سیاسی افراد کے دفتر پر حملہ کرنے کی صورت میں نظر آئی ۔

کسی بھی ملک میں انتظامی اُمور ہی وہ عمل ہوتا ہے جو کسی بھی وبا یا آفت کو کم سے کم نقصان تک محدود رکھتا ہے لیکن 2005 میں ملک کے بالائی علاقوں میں آنیوالے زلزلے سے 2010اور 2011میں آنیوالے سیلاب اور بارشوں کے باعث ہونے والی تباہی اور موجودہ کورونا وائرس کی وبائی صورتحال ہماری انتظامی اُمور میں عدم دلچسپی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ پھر ہمارے ملک میں جمہوری نظام کی کمزوری کے باعث اختیارات سے تجاوز جیسا معاملہ بھی بھیانک صورت میں موجود رہا ہے جوانتظامی ٹکراؤ اور دیگر بے چینی کا باعث رہا ہے ۔

دوسری طرف ملک میں سیاسی طور پر صورتحال یہ ہے کہ کوئی بھی جماعت ماسوائے ن لیگ کے کورونا وائرس کے مسئلے پر کچھ بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔ پی ٹی آئی اور پی پی پی وفاق اور صوبوں میں حکومت کررہی ہیں ، ایم کیو ایم ، بی این پی ، ق لیگ اور جی ڈی اے حکومت کی اتحادی ہیں ۔ باقی جے یو آئی اور جماعت اسلامی سمیت تمام مذہبی تنظیمیں خاموش ہیں ۔ اب صورتحال مزید خراب ہوتی جارہی ہے۔

چین سے آنیوالی Kitsکے بعد ملک میں اس وقت 90لاکھ لوگوں کے ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت موجود ہے لیکن انتظامی اُمور درست نہ ہونے کی وجہ سے اب تک صرف کچھ ہزار ہی ممکن ہو سکے ہیں ۔ دنیا بھر کے اپیڈی میولاجسٹ اس بات پر متفق ہیں کہ جہاں ٹیسٹ نہ ہوں اس جگہ کورونا وائرس سے مرنے والے ایک مریض کا مطلب 800پوشیدہ کیسزموجود ہیں، جب کہ کورونا وائرس نے وفاقی و صوبائی حکومتوں کی اہلیت اور اختیارات کو ننگا کر دیا ہے ۔ ایٹمی طاقت کہلانے والے ملک میں ڈاکٹر و پیرا میڈیکل عملے کو کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے مکمل لباس (PPEs) تک دستیاب نہیں ہیں جس کے باعث بڑے پیمانے پر ڈاکٹر و صحت کا عملہ متاثر ہورہا ہے ۔

شاید اسی لیے ہی تجزیہ کارکہتے ہیں کہ ہمارے ملک کی انتظامی اہلیت کا تو کیا ہی کہنا ہے ۔جہاں ملک میں اس وقت بھی ملکی دارالحکومت کی سب سے بڑی اسپتال پمز میں ڈاکٹرز شاپر پہن کر ڈیوٹی دے رہے ہیں ۔ وہاں چین سے آنیوالے لباس(PPEs) حکومتی شخصیات اور میڈیا ہاؤسز کے لوگوں میں بانٹے جارہے ہیں ۔ جب کہ سندھ میں این جی اوز کمیٹیاں جب کہ وفاق کی جانب سے ٹائیگر فورس تشکیل دینے کا اعلان کیا گیا ہے ۔ جسے بھی Mis- managementسے تشبیہ دی جارہی ہے ۔ حالانکہ اب حکومتوں کی ترجیحات یکسر تبدیل ہوگئی ہیں ۔ اب گاڑیوں ، جہازوں ، اسلحہ اور مشینری کی باتیں نہیں ہورہیں ، اب یہ طے کیا جارہا ہے کہ اسپتال کتنے قائم کرنے ہیں اور وینٹی لیٹر کتنے بنانے ہیں اور کتنے درآمد کرنے ہیں ۔

ماسک کیسے پورے کریں، گھروں میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو ضروریات زندگی کیسے فراہم کی جائیں ؟ قرنطینہ مراکز کی بڑھتی ہوئی طلب سے کیسے نمٹا جائے ؟ دیکھا جائے تو قرنطینہ بنانے کے لیے لاہور ، کراچی کے ایکسپو سینٹر جیسے کمرشل مراکز سے حیدرآباد کے بعض پرائیوٹ اسپتال قومی تحویل میں لے کر وہاں سہولیات مہیا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جوکہ آخری اطلاعات تک مکمل نہیں ہوسکی ہیں۔اس کے باوجود کہ پاکستان میں ایک کروڑ 85لاکھ افراد کے بے روزگار ہونے کا خدشہ ہے جس کے لیے حکومت 15 دن میں بھی کوئی پالیسی واضح نہیں کرسکی ہے ۔

حالانکہ کورونا کے اس مشکل وقت میں چین کی جانب سے مدد کے ساتھ ساتھ عالمی بینک کی جانب سے 238 ملین ڈالرز اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی جانب سے 300ملین ڈالرز کی امداد بھی ملی ہے ۔ اس کے باوجود عوام کی زندگی آسان بنانے کے انتظامات کرنے کے بجائے الٹا عوام سے چندے کی اپیل کی گئی ہے ۔ کیونکہ اس وقت لوگوں کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت بھی وینٹی لیٹر پر ہے -
Load Next Story