آ بیل مجھے مار…
پورے ملک میں کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کی کل تعداد2458 ہے۔
جس وقت میں یہ کالم لکھ رہی ہوں ، اس وقت جو اعداد و شمار ٹیلی وژن پر بتائے جا رہے ہیں ، ان کے مطابق اب تک پورے ملک میں کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کی کل تعداد2458 ہے۔ کل اموات جو اس وقت تک ہو چکی ہیں ، وہ 36 ہیں اور اس میں مبتلا 126 افراد صحت یاب ہو چکے ہیں۔
سندھ اور پنجاب کی حکومتوں کی طرف سے اعلان کردہ لاک ڈاؤن ہے اور ملک کے باقی حصوں میں ملا جلا رجحان ہے۔ جن لوگوں میں شعور اور فہم ہے، وسائل ہیں اور کورونا میں مبتلا ہونے کا خوف، انھوں نے خود دساختہ لاک ڈاؤن کر رکھا ہے۔ جنھیں اپنی اور دوسروں کی جانوں کی پروا نہیں ، وہ جیالے نہ صرف خود کو بلکہ اپنے گھر والوں اورقریبی لوگوں کو بھی خطرے میں ڈال رہے ہیں ۔
مرکزی حکومت کے فوری فیصلے کے مطابق تمام ترتعلیمی ادارے اور مارکیٹیں بند کر کے اس مسئلے پر قابو پانے کی کامیاب کوشش کی گئی اور اس کے نتیجے میں ہمارے ہاں کورونا کے پھیلاؤ کی شرح دنیا کے کئی ترقی یافتہ ترن ممالک کی نسبت بھی بہتر رہی۔ جس خطرے کی چاپیں محسوس کرتے ہی حکومت نے اہم فیصلے کیے اور ان فیصلوں کی روشنی میں لوگوں میں شعور بیدار ہوا کہ احتیاط میں ہی ان کا تحفظ ہے، اب ان فیصلوں میں کمزوری کا نقیب نقب لگاتا ہوا محسوس ہونے لگا ہے۔
جمعے کی شام کو کیے گئے خطاب میں وزیر اعظم عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ ملک میں غریبوں کے مسائل کے حل کے لیے تعمیراتی سرگرمیاں شروع کرنے کافیصلہ کیا گیا ہے تا کہ دیہاڑی داروں کا ایک بڑا طبقہ جو کہ ان حالات سے بری طرح متاثر اور غربت کی چکی میں پس رہا ہے، اس کے مسائل حل ہو سکیں ۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ حکومت کے لیے ان لوگوں کے حالات کی بہت اہمیت ہے اور وہ نہیں چاہتے کہ ہمسایہ ملک کی طرح جلد بازی میں لاک ڈاؤن کا غیر دانشمندانہ فیصلہ کر کے حالات کو اسی نہج پر لے جایا گیا کہ اب لوگ غربت اور بے روزگاری کے باعث بغاوت پر اتر آئے ہیں ۔ اس کا مظاہرہ جمعے کو کراچی میں بھی دیکھنے میں آیا جب لوگوں نے طویل لاک ڈاؤن کے خلاف مظاہرہ کرتے ہوئے پولیس والوں پر حملہ کر دیا۔
اس نوعیت کے واقعات کہیں بھی بعید از قیاس نہیں، خواہ یہ دنیا کے کسی ترقی یافتہ ملک میں بھی ہو۔ تعمیرات کو صنعت کا درجہ دے دیا گیا ہے اور اس سے منسلک لوگوں کو اور اس کے انوسٹرز کو بھی غیر معمولی ترغیبات دی گئی ہیں ، ٹیکس میں چھوٹ اور تعمیراتی کاموں میں انوسٹ منٹ کرنے والوں سے ان کی انوسٹ منٹ کی بابت باز پرس نہ ہو گی۔ ایسا شاید اس لیے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے کہ ملک میں معاشی سرگرمیوںکو بحال کیا جا سکے تا کہ ہم بھی دیگر ملکوں کی طرح بینک کرپٹ نہ ہو جائیں ۔ جب کہا گیا کہ تعمیرات کو صنعت کا درجہ دے دیا جائے گا اور چودہ اپریل سے تعمیراتی سرگرمیاں شروع کرنے کی اجازت اور اس میں کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔
مجھے یقین ہے کہ جب یہ اعلان کیا گیا ہے تو اس کے ساتھ منسلک سارے کاروبار کھل جانے کے بارے میں بھی حکومت کو علم ہو گا۔ تعمیرات کا مطلب یہ نہیں کہ مستری اور مزدور کام کریں گے اور ان کے گھروں میں چولہے جلنے لگیں گے بلکہ اس اجازت کے ملتے ہی تعمیرات کے شعبے سے منسلک ہر قسم کے کاروبار کی دکانیں اور مراکز کھل جائیں گے۔ بجلی کا سامان، لکڑی کے کام والے اور لکڑی کے کام کی دکانیں، سینٹری کے سامان کی دکانیں اور پلمبر، پینٹ کے سامان کی دکانیں اور پینٹر، ریت، بجری، اینٹیں، ماربل، ٹائل اور سیمنٹ کی دکانیں ، سریے کی فیکٹریاں اور چھتوں پر سریے کا کام کرنے والے، شٹرنگ کے کام والے، لوہے کے کام والے، جس میں کھڑکیاں ، دروازے اور گیٹ شامل ہیں۔ اس نوعیت کے کام کے شروع ہوتے ہی رکشے، ٹیکسی، پک اپ اور چھوٹے بڑے ٹرک اور ٹرالر بھی کھلے عام چلنا شروع ہو جائیں گے۔
جب یہ تمام رعائتیں عمارتی کام کرنیوالے لوگوں کو دی جا رہی ہیں تو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ صرف تعمیراتی کام کرنیوالے ہی دیہاڑی دار نہیں ہیں ۔ ہمارے ہاں ہر قسم کی دکانوں پر کام کرنیوالے بھی دیہاڑی دار ہیں، وہ دکانیں کپڑوں کی ہوں ، جوتوں کی، کتابوں کی، کمپیوٹر کی، موبائل فون کی، میک اپ کے سامان کی یا کسی بھی نوعیت کی۔ ان سب دکانوں پر کام کرنیوالے ورکر بھی وہی ہیں جنھیں ہر روز کام کرنے کے عوض گھنٹوںکے حساب سے تنخواہ ملتی ہے اور وہ اضافی رقوم کے لیے اوور ٹائم لگاتے ہیں۔ ان میں وہ دیہاڑی دار بھی ہیں جو اسکولوں کالجوں کے باہر ریڑھیاں اور خوانچے لگاتے اور ہر روز کی کمائی سے اپنے گھروں کے چولہے جلاتے ہیں۔ اگر مستری اور مزدور کام پر جانے لگیں گے تو ان باقی سب کا کیا قصور ہے؟؟
اس کے بعد اگر آپ مزید رعایت دینے کا سوچیں تو پھر وہ لوگ ہیں جن کا کام روزانہ کی بنیاد پر ہوتا ہے اورانھیں اتنے ہی کام کا عوضانہ ملتا ہے جتنا کام وہ کرتے ہیں ۔ اس میں ہوٹلوں ، کینٹین اور ریسٹورنٹس کے ویٹر اور بیرے، دھوبی، نائی، پارلرز پر کام کرنیوالے، موچی، چوکیدار، کارمکینک اور اس نوعیت کے کارکن، یہ بھی وہ لوگ ہیں جو ہر روز کے کام کے برابر عوضانہ حاصل کرتے ہیں ۔ بہت سی کمپنیاں ایسی بھی ہیں جنھوں نے اپنے کارکنوں سے کہہ دیا ہے کہ اگر ان کا کام نہیں چل رہا تو وہ اپنے کارکنوں کو تنخواہ نہیںدے سکیں گے۔ حالانکہ یہ بیان کسی کی طرف سے بھی سو فیصد سچ بھی نہیں ہو گا مگر حکم حاکم مرگ مفاجات۔
ضرورت تو اس امر کی تھی کہ اس وقت ملک میں ہر شخص اس بات کا احساس کرتا کہ یہ مسئلہ صرف حکومت کا نہیں بلکہ ہم سب کا مسئلہ ہے۔ ملک کے سب صاحب حیثیت لوگ باآسانی اپنے علاوہ کسی ایک کنبے کا باآسانی بوجھ اٹھا سکتے ہیں ۔ ایسے مشکل حالات میں مل بانٹ کر کھانا اور اپنے رزق میں دوسروں کو شامل کرنا ہمیشہ سے زیادہ اہم ہے ۔ آپ تعمیراتی صنعت کو کھولنے کی اجازت دے کر سمجھتے ہیں کہ آپ کورونا کے تیزی سے پھیلاؤ کو دعوت نہیں دے رہے؟ کیا آپ لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگوں کو آزادانہ اپنے گھروں سے نکال کر سڑکوں اور زیر تعمیر عمارتوں میں بے احتیاطی کو دعوت نہیں دے رہے؟
جس ملک میں قرنطینہ میں موجود لوگ بھی جمعہ بازار لگا لیں ، کبڈی کے میچ ہو رہے ہوں ، آپس میں جڑ جڑ کر بیٹھ کر گپ شپ ہو رہی ہو، اس ملک میں آپ ہمارے مزدور طبقے کی طرف سے کسی عقلمندی کی توقع کرتے ہیں؟ آپ کو لگتا ہے کہ کورونا کا کوئی ایک بھی مریض جسے خود بھی علم نہ ہو کہ اسے کورونا ہے، وہ ایک چلتا پھرتا بم نہیں ہو گا؟
سننے میں یہ ایک اچھا فیصلہ محسوس ہوتا ہے مگر مجھے ڈر ہے کہ یہ فیصلہ بھی کچھ عرصے کے لیے موخر کیا جا سکتا ہے ، اگلے آٹھ دن میں ایسے وقت میں سرگرمیاں شروع کر دینا کہ جب خطرہ ہر طرف منڈلا رہا ہے، اسے دو ایک ہفتے اسے آگے بڑھا کر، اس وقت کے حالات کے تناظر میں فیصلہ کیا جائے ۔ چودہ اپریل سے اس فیصلے پر عمل درآمد ہوتے ہی ''کورونا کا کٹا '' کھل کر ہر طرف بھاگنے لگے گا۔ ایک دفعہ یہ منہ زورہو کر کھل گیا تو وہ غریب جو اس وقت بھوک سے نڈھال ہیں، وہ اس حکومت کو تنقید کا نشانہ بنائیں گے جس نے اس غلط فیصلے پر مہر ثبت کی۔ اللہ ہم سب کو عقل، ہدایت اور صحت دے اور اپنی امان میں رکھے ۔ آمین!
سندھ اور پنجاب کی حکومتوں کی طرف سے اعلان کردہ لاک ڈاؤن ہے اور ملک کے باقی حصوں میں ملا جلا رجحان ہے۔ جن لوگوں میں شعور اور فہم ہے، وسائل ہیں اور کورونا میں مبتلا ہونے کا خوف، انھوں نے خود دساختہ لاک ڈاؤن کر رکھا ہے۔ جنھیں اپنی اور دوسروں کی جانوں کی پروا نہیں ، وہ جیالے نہ صرف خود کو بلکہ اپنے گھر والوں اورقریبی لوگوں کو بھی خطرے میں ڈال رہے ہیں ۔
مرکزی حکومت کے فوری فیصلے کے مطابق تمام ترتعلیمی ادارے اور مارکیٹیں بند کر کے اس مسئلے پر قابو پانے کی کامیاب کوشش کی گئی اور اس کے نتیجے میں ہمارے ہاں کورونا کے پھیلاؤ کی شرح دنیا کے کئی ترقی یافتہ ترن ممالک کی نسبت بھی بہتر رہی۔ جس خطرے کی چاپیں محسوس کرتے ہی حکومت نے اہم فیصلے کیے اور ان فیصلوں کی روشنی میں لوگوں میں شعور بیدار ہوا کہ احتیاط میں ہی ان کا تحفظ ہے، اب ان فیصلوں میں کمزوری کا نقیب نقب لگاتا ہوا محسوس ہونے لگا ہے۔
جمعے کی شام کو کیے گئے خطاب میں وزیر اعظم عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ ملک میں غریبوں کے مسائل کے حل کے لیے تعمیراتی سرگرمیاں شروع کرنے کافیصلہ کیا گیا ہے تا کہ دیہاڑی داروں کا ایک بڑا طبقہ جو کہ ان حالات سے بری طرح متاثر اور غربت کی چکی میں پس رہا ہے، اس کے مسائل حل ہو سکیں ۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ حکومت کے لیے ان لوگوں کے حالات کی بہت اہمیت ہے اور وہ نہیں چاہتے کہ ہمسایہ ملک کی طرح جلد بازی میں لاک ڈاؤن کا غیر دانشمندانہ فیصلہ کر کے حالات کو اسی نہج پر لے جایا گیا کہ اب لوگ غربت اور بے روزگاری کے باعث بغاوت پر اتر آئے ہیں ۔ اس کا مظاہرہ جمعے کو کراچی میں بھی دیکھنے میں آیا جب لوگوں نے طویل لاک ڈاؤن کے خلاف مظاہرہ کرتے ہوئے پولیس والوں پر حملہ کر دیا۔
اس نوعیت کے واقعات کہیں بھی بعید از قیاس نہیں، خواہ یہ دنیا کے کسی ترقی یافتہ ملک میں بھی ہو۔ تعمیرات کو صنعت کا درجہ دے دیا گیا ہے اور اس سے منسلک لوگوں کو اور اس کے انوسٹرز کو بھی غیر معمولی ترغیبات دی گئی ہیں ، ٹیکس میں چھوٹ اور تعمیراتی کاموں میں انوسٹ منٹ کرنے والوں سے ان کی انوسٹ منٹ کی بابت باز پرس نہ ہو گی۔ ایسا شاید اس لیے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے کہ ملک میں معاشی سرگرمیوںکو بحال کیا جا سکے تا کہ ہم بھی دیگر ملکوں کی طرح بینک کرپٹ نہ ہو جائیں ۔ جب کہا گیا کہ تعمیرات کو صنعت کا درجہ دے دیا جائے گا اور چودہ اپریل سے تعمیراتی سرگرمیاں شروع کرنے کی اجازت اور اس میں کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔
مجھے یقین ہے کہ جب یہ اعلان کیا گیا ہے تو اس کے ساتھ منسلک سارے کاروبار کھل جانے کے بارے میں بھی حکومت کو علم ہو گا۔ تعمیرات کا مطلب یہ نہیں کہ مستری اور مزدور کام کریں گے اور ان کے گھروں میں چولہے جلنے لگیں گے بلکہ اس اجازت کے ملتے ہی تعمیرات کے شعبے سے منسلک ہر قسم کے کاروبار کی دکانیں اور مراکز کھل جائیں گے۔ بجلی کا سامان، لکڑی کے کام والے اور لکڑی کے کام کی دکانیں، سینٹری کے سامان کی دکانیں اور پلمبر، پینٹ کے سامان کی دکانیں اور پینٹر، ریت، بجری، اینٹیں، ماربل، ٹائل اور سیمنٹ کی دکانیں ، سریے کی فیکٹریاں اور چھتوں پر سریے کا کام کرنے والے، شٹرنگ کے کام والے، لوہے کے کام والے، جس میں کھڑکیاں ، دروازے اور گیٹ شامل ہیں۔ اس نوعیت کے کام کے شروع ہوتے ہی رکشے، ٹیکسی، پک اپ اور چھوٹے بڑے ٹرک اور ٹرالر بھی کھلے عام چلنا شروع ہو جائیں گے۔
جب یہ تمام رعائتیں عمارتی کام کرنیوالے لوگوں کو دی جا رہی ہیں تو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ صرف تعمیراتی کام کرنیوالے ہی دیہاڑی دار نہیں ہیں ۔ ہمارے ہاں ہر قسم کی دکانوں پر کام کرنیوالے بھی دیہاڑی دار ہیں، وہ دکانیں کپڑوں کی ہوں ، جوتوں کی، کتابوں کی، کمپیوٹر کی، موبائل فون کی، میک اپ کے سامان کی یا کسی بھی نوعیت کی۔ ان سب دکانوں پر کام کرنیوالے ورکر بھی وہی ہیں جنھیں ہر روز کام کرنے کے عوض گھنٹوںکے حساب سے تنخواہ ملتی ہے اور وہ اضافی رقوم کے لیے اوور ٹائم لگاتے ہیں۔ ان میں وہ دیہاڑی دار بھی ہیں جو اسکولوں کالجوں کے باہر ریڑھیاں اور خوانچے لگاتے اور ہر روز کی کمائی سے اپنے گھروں کے چولہے جلاتے ہیں۔ اگر مستری اور مزدور کام پر جانے لگیں گے تو ان باقی سب کا کیا قصور ہے؟؟
اس کے بعد اگر آپ مزید رعایت دینے کا سوچیں تو پھر وہ لوگ ہیں جن کا کام روزانہ کی بنیاد پر ہوتا ہے اورانھیں اتنے ہی کام کا عوضانہ ملتا ہے جتنا کام وہ کرتے ہیں ۔ اس میں ہوٹلوں ، کینٹین اور ریسٹورنٹس کے ویٹر اور بیرے، دھوبی، نائی، پارلرز پر کام کرنیوالے، موچی، چوکیدار، کارمکینک اور اس نوعیت کے کارکن، یہ بھی وہ لوگ ہیں جو ہر روز کے کام کے برابر عوضانہ حاصل کرتے ہیں ۔ بہت سی کمپنیاں ایسی بھی ہیں جنھوں نے اپنے کارکنوں سے کہہ دیا ہے کہ اگر ان کا کام نہیں چل رہا تو وہ اپنے کارکنوں کو تنخواہ نہیںدے سکیں گے۔ حالانکہ یہ بیان کسی کی طرف سے بھی سو فیصد سچ بھی نہیں ہو گا مگر حکم حاکم مرگ مفاجات۔
ضرورت تو اس امر کی تھی کہ اس وقت ملک میں ہر شخص اس بات کا احساس کرتا کہ یہ مسئلہ صرف حکومت کا نہیں بلکہ ہم سب کا مسئلہ ہے۔ ملک کے سب صاحب حیثیت لوگ باآسانی اپنے علاوہ کسی ایک کنبے کا باآسانی بوجھ اٹھا سکتے ہیں ۔ ایسے مشکل حالات میں مل بانٹ کر کھانا اور اپنے رزق میں دوسروں کو شامل کرنا ہمیشہ سے زیادہ اہم ہے ۔ آپ تعمیراتی صنعت کو کھولنے کی اجازت دے کر سمجھتے ہیں کہ آپ کورونا کے تیزی سے پھیلاؤ کو دعوت نہیں دے رہے؟ کیا آپ لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگوں کو آزادانہ اپنے گھروں سے نکال کر سڑکوں اور زیر تعمیر عمارتوں میں بے احتیاطی کو دعوت نہیں دے رہے؟
جس ملک میں قرنطینہ میں موجود لوگ بھی جمعہ بازار لگا لیں ، کبڈی کے میچ ہو رہے ہوں ، آپس میں جڑ جڑ کر بیٹھ کر گپ شپ ہو رہی ہو، اس ملک میں آپ ہمارے مزدور طبقے کی طرف سے کسی عقلمندی کی توقع کرتے ہیں؟ آپ کو لگتا ہے کہ کورونا کا کوئی ایک بھی مریض جسے خود بھی علم نہ ہو کہ اسے کورونا ہے، وہ ایک چلتا پھرتا بم نہیں ہو گا؟
سننے میں یہ ایک اچھا فیصلہ محسوس ہوتا ہے مگر مجھے ڈر ہے کہ یہ فیصلہ بھی کچھ عرصے کے لیے موخر کیا جا سکتا ہے ، اگلے آٹھ دن میں ایسے وقت میں سرگرمیاں شروع کر دینا کہ جب خطرہ ہر طرف منڈلا رہا ہے، اسے دو ایک ہفتے اسے آگے بڑھا کر، اس وقت کے حالات کے تناظر میں فیصلہ کیا جائے ۔ چودہ اپریل سے اس فیصلے پر عمل درآمد ہوتے ہی ''کورونا کا کٹا '' کھل کر ہر طرف بھاگنے لگے گا۔ ایک دفعہ یہ منہ زورہو کر کھل گیا تو وہ غریب جو اس وقت بھوک سے نڈھال ہیں، وہ اس حکومت کو تنقید کا نشانہ بنائیں گے جس نے اس غلط فیصلے پر مہر ثبت کی۔ اللہ ہم سب کو عقل، ہدایت اور صحت دے اور اپنی امان میں رکھے ۔ آمین!