کورونا کے علاج کیلئے متبادل ذرائع سے بھی استفادہ کرنا چاہیے
ہزاروں حکماء اور ہومیوپیتھس کا رضاکارانہ طور پر خدمات پیش کرنے کا اعلان
کورونا وائرس کے علاج کے حوالے سے دنیا بھر میں سائنسدان مختلف تحقیقات کر رہے ہیں مگر تاحال اس کی کوئی ویکسین یا دوا نہیں بنائی جاسکی تاہم پہلے سے موجود طریقہ علاج اور ادویات کے ذریعے ہی مریضوں کا علاج کیا جا رہا ہے۔ بیماریوں کے علاج کے حوالے سے دنیا بھر میں متبادل طریقہ کار بھی موجود ہیں جن میں طب اور ہومیوپیتھی قابل ذکر اور تاریخی اعتبار سے مستند ہیں۔
متبادل طریقہ علاج کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے ''ایکسپریس فورم'' میں ''کورونا وائرس کے علاج'' کے حوالے سے ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیاجس میں طبی ماہرین اور وائرولوجسٹ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
ڈاکٹر نوید شہزاد
(اسسٹنٹ پروفیسر سکول آف بائیولوجیکل سائنسز پنجاب یونیورسٹی)
وائرس جرثومہ کی ایک قسم ہے اور اس کا سائز بیکٹیریا سے بھی چھوٹا ہوتا ہے۔ وائرس کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ بیسویں صدی میں پہلا وائرس دریافت ہوا تھا ۔ اس کے بعد بہت سارے ایسے وائرس دریافت ہوئے جو انسانوں پر اثر انداز ہوتے رہے۔ کورونا وائرس کی بات کریں تو یہ بائیولوجسٹ کیلئے یہ نیا وائرس نہیں ہے۔ کورونا وائرس کی ایک پوری فیملی ہے جو سنگل سٹینڈرڈ RNA پر مشتمل ہے۔ اس سے پہلے بھی 5 اقسام کے کورونا وائرس دریافت ہوچکے ہیںجن میں سے ''سارس'' اور ''مرس'' نمایاں ہیں۔ اگر کوئی وباء یکدم پھیل جائے تو اسے سائنس میں ''آؤٹ بریک'' کہتے ہیں۔
ماضی میں بھی کورونا وائرس کی آؤٹ بریک ہوئی،ایک 2003ء میں چین میں ''سارس'' کی وجہ سے اوردوسری 2012ء میں ''مرس'' کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں پھیلی تھی۔اب جائزہ لیتے ہیں کہ موجودہ کورونا وائرس وہی ہے یا ان سے مختلف ہے۔ چین میں جب حالیہ کورونا وائرس کا پہلا کیس رپورٹ ہوا تو اس وقت اسے ''نوول کورونا وائرس 2019 '' کا نام دیا گیا۔ پھر اس پر مزید ریسرچ ہوئی اور عالمی ادارہ صحت کی ذیلی کمیٹی جو وائرس کو نام دیتی ہے اس نے اسے ''سارس کورونا وائرس 2'' کا نام دیا۔ ریسرچ سے معلوم ہوا کہ یہ ہے تو کورونا وائرس مگر یہ اس وائرس کی سابقہ اقسام سے بہت حد تک مختلف ہے۔
اس کا جینوم مختلف ہے۔ا س کے بعد یہ تحقیق شروع ہوگئی کہ یہ وائرس آیا کہاں سے۔ یہ چین کے شہر ووہان سے سامنے آیا۔ جن لوگوں میں پہلے اس وائرس کی تشخیص ہوئی، یہ وہ لوگ تھے جن کا رابطہ سمندری غذا والی مارکیٹ سے تھا۔ بعدازاں یہ معلوم ہوا کہ یہ وائرس نہ صرف جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہورہا ہے بلکہ انسانوں سے انسانوں میں بھی منتقل ہورہا ہے جوکہ خطرناک ہے۔ جب اس وائرس کا سیکوئنس دریافت کیا گیا تو معلوم ہوا کہ اس وائرس کا سیکوئنس سابقہ وائرس سے ملتا جلتا ہے مگر چمگادڑ میں موجود وائرس سے 80 فیصد ملتا ہے۔
چونکہ 80 فیصد ملتا تھا اس لیے سائنسدانوں نے مزید تحقیق کی کہ ایسا ممکن ہے کہ یہ وائرس پہلے کسی اور میں ہو، جو چمگادڑ میں منتقل ہوا اور پھر انسانوں میں آیا۔ مزید تحقیق پر معلوم ہوا کہ پینگولین اور انسانوں میں موجود وائرس میں99 فیصد مماثلت پائی جاتی ہے۔ پھر مفروضہ بنایا گیا کہ یہ وائرس پہلے چمگادڑ میں تھا، وہاں سے پینگولین میں منتقل ہوا اور پھر انسانوںمیں آیا۔ اس کے بعد اس پر تحقیق شروع ہوگئی کہ یہ وائرس چین سے دنیا میں کیسے پھیلا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ جب چین میں پہلا کیس سامنے آیا تو اس وقت ان کا ''نیا سال'' تھا جس پر بے شمار ممالک سے لوگ چین آئے اور پھر اپنے ملک واپس چلے گئے۔
یہ کہا جا رہا ہے کہ ہمارے ملک میں ایران سے یہ وائرس آیا۔ اب معاملہ یہ نہیں ہے کہ یہ وائرس کہاں سے آیا بلکہ لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اب ہوگا کیا۔ہمارا معاشرہ اس حوالے سے دو طبقات میں تقسیم ہے۔ ایک طبقہ کہتا ہے کہ کوئی مسئلہ نہیں، یہ بیماری عام ہے اور پہلے بھی ہوتی رہی ہے۔ دوسرا طبقہ کہتا ہے کہ یہ بہت خطرناک بیماری ہے اور اس سے تمام انسان مر جائیں گے لہٰذا گھروں میں بیٹھیں۔ کورونا وائرس کو سمجھنے کیلئے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس سے پہلے آنے والے کورونا وائرس کس طرح سے اثر انداز ہوئے کیونکہ 3ماہ کی عمر کے اس وائرس کے طرز عمل کا اندازہ لگانا فوری ممکن نہیں،اس کی مکمل تحقیق میں وقت لگے گا اور دنیا میں اس حوالے سے ریسرچ جاری ہے۔ وباء دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایسی وباء جو ایک ملک میں پھیلے اسے epidemic کہتے ہیں اور جو پوری دنیا میں پھیل جائے اسے pendemic کہتے ہیں۔ یہ واضح ہونا چاہیے کہ pendemic وبائیں، وبائی امراض سے مختلف ہوتی ہیں۔
جیسا کہ ''فلو'' میں موسم کا عمل دخل ہوتا ہے مگر pendemic میں نہیں ہوتا۔ بعض لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ گرمیوں میں کورونا وائرس مر جائے گا اور مسئلہ حل ہوجائے گا۔ ابھی تک ایسی کوئی سائنسی تحقیق نہیں آئی کہ کورونا وائرس گرمیوں میں مر جائے گا۔اس میں ایک اچھی بات یہ ہے کہ اگر اس وائرس کی ساخت دیکھی جائے تو اس پر تیل کا ایک غلاف ہے۔ تیل کی خاصیت یہ ہے کہ وہ گرمی میں پگھلنے لگتا ہے اور سردی میںسرد کی مانند سخت ہوجاتا ہے لہٰذا جب گرمی میں ربڑ کی وجہ سے یہ غلاف نرم ہوجاتا ہے تو وائرس کی زندگی کم ہوجاتی ہے۔ اس کے باجود ابھی اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ یہ گرمیوں میں ختم ہوجائے گا۔ عالمی جنگ اول کے دوران ''ہسپانوی فلو'' آیا، اس وقت گرمی تھی مگر یہ فلو پھیل۔ اس لیے 100فیصد یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ گرمیوں میں یہ وائرس چلا جائے گا لیکن یہ بات ضروری ہے کہ یہ وائرس اتنی جلدی ختم نہیں ہوگا۔
چین میں کورونا وائرس کے جو مریض صحت یاب ہوئے، ان میں دوبارہ اس کی تشخیص ہوگئی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ گرمیوں میں اس کا پھیلاؤ کم ہوجائے لیکن جب سرد موسم دوبارہ آئے تو یہ وائرس بھی دوبارہ آجائے۔ کورونا وائرس کے منظر عام پر آنے کے بعد دنیا بھر کے سائنسدانوں نے اس پر تحقیق شروع کردی۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس طرح کے وائرس کی ریسرچ کے لیے BSL-3 سطح کی لیبارٹری ضروری ہے۔ پاکستان میں ان کی تعداد انتہائی کم ہے مگر اس کے باوجود کام ہو رہا ہے، دنیا کے دیگر ممالک میں بھی پاکستانی سائنسدان ریسرچ کر رہے ہیں جو ہمارے لیے باعث فخر ہے۔ پاکستان نے وائرس کا جینوم سیکوئنس کر لیا ہے اور یہ تحقیق pubmed ویب سائٹ پر موجود ہے جو پاکستان کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ کورونا وائرس کی جلد تشخیص کیلئے تیزی سے کام ہورہا ہے، پنجاب یونیورسٹی بھی اس پر کام کر رہی ہے، حال ہی میں وائس چانسلر نے کورونا وائرس کی تشخیصی لیب کا افتتاح بھی کیا ہے، ہم اس کی تشخیص کو مزید آسان بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس مرض کی دنیا بھر میں کوئی دوا یا ویکسین نہیں ہے۔ نئی دوا یا ویکسین کیلئے کم از کم 10 سے 15 برس لگتے ہیں لیکن اگر ہنگامی حالات میں سارے پروسیجرز کو جلدی فالو کیا جائے تو پھر بھی 2 برس درکار ہوں گے لہٰذا دنیا میں پہلے سے موجود ادویات کو ہی اس وائرس کے حوالے سے ٹیسٹ کیا جارہا ہے، 4 ادویات ایسی ہیں جن کے نتائج اچھے آئے ہیں مگر FDA نے ابھی ان کی منظوری نہیں دی، پاکستان میں بھی مختلف ادویات پر ریسرچ جاری ہے۔ اس مرض کے حل کا جائزہ لیں تو پہلا حل یہ ہے کہ اس کی ویکسین تیار ہوجائے، جس میں وقت لگے گا۔ دوسرا حل قوت مدافعت کو بہتر کرنا ہے۔
فرض کریں کہ اگر دنیا میں100 لوگ ہیںتو ہم ان میں سے 70، 80 افراد کی قوت مدافعت بہتر کردیں۔ ا س کے دو طریقے ہیں، ایک یہ کہ کوئی ویکسین دے دیں یا دوسرا یہ کہ جب وائرس انسان پر حملہ آور ہوتا ہے تو اس سے لڑنے کیلئے جسم میں اینٹی باڈیز بنتی ہیں۔ کورونا وائرس کے کیس میں ابھی یہ بھی معلوم نہیں ہوا کہ اس میں کونسی اینٹی باڈیز بنتی ہیں، کتنی بنتی ہیں اور دیر تک موثر رہتی ہیں، جسے ایک بار انفیکشن ہوجائے کیا دوبارہ بھی ہوسکتا ہے؟ اس حوالے سے بھی بے شمار سوالات حل طلب ہیں۔ ایک حل تو یہ ہے کہ اس کی جلد از جلد ویکسین تیار ہوجائے اور دوسرا یہ کہ قدرتی طور پر قوت مدافعت پیدا ہوجائے۔
دنیا نے اس مرض سے نمٹنے کیلئے مختلف حکمت عملی اختیار کی۔ ایک ماڈل چین کا ہے اور ایک اٹلی کا۔ چین نے اس مرض کے سامنے آتے ہیں ہنگامی اقدامات کیے، لاک ڈاؤن کیا اور سماجی دوری اختیار کی۔ اٹلی میں لوگ ہماری طرح سوشل ہیں۔ انہوں نے اس مرض کو معمولی لیا اور پھر وہاں کے حالات دنیا کے سامنے ہیں۔ برطانیہ نے سائنسی طریقہ کار ''ہرڈ امیونیٹی'' پر کام کیا۔ اس کا خیال تھا کہ لوگوں کو مرض ہونے دیں اور پھر خود ہی ان میں قوت مدافعت پیدا ہوجائے گی مگر یہ طریقہ غلط ثابت ہوا اور پھر انہیں بھی لاک ڈاؤن و دیگر معاملات کی طرف ہی آنا پڑا لہٰذا ہمیں بھی اچھے اور کامیاب ماڈل کو ہی اپنانا چاہیے تاکہ اس وائرس سے موثر طریقے سے نمٹا جاسکے۔ اس مرض کا تیسرا حل احتیاط ہے جو سب سے اہم ہے کہ اس مرض کے پھیلاؤ کو روکا جائے۔ یہ عام وائرس نہیں ہے ، دنیا نے پہلی مرتبہ ایسا وائرس دیکھا ہے لہٰذا عالمی ادارہ صحت اور حکومت کی جانب سے کی جانے والی ہدایات پر عمل کیا جائے،افواہوں کے بجائے سائنس اور تاریخ سے مدد لی جائے۔ سماجی دوری، سینی ٹائزیشن، ماسک و دیگر احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں۔
ڈاکٹر محمد زبیر قریشی
(سینئر رکن سوسائٹی آف ہومیو پیتھس پاکستان )
ہومیوپیتھی 200 سال سے مستند طریقہ علاج ہے۔ ہومیوپیتھی کے بانی سیموئل ہانیمن نے 1799ء میں جرمنی میں پھیلنے والے ''سکارلٹ فیور'' کے دوران ہومیوپیتھک علاج کیا۔انہوں نے مریضوں کی مشترک علامات کا جائزہ لیا اور اسے genus epidemicus کا نام دیا۔ اس کے بعد انہوں نے bryonia alba کے نام سے ہومپوتھیک دوا تجویز کی۔ انہوں نے رضاکارانہ طور پر خود جاکر مریضوں کا علاج کیا اور اس کے اچھے نتائج سامنے آئے۔ اس کے بعد 1920ء میں ''ہسپانوی فلو'' کے دوران بھی ہومیوپیتھک طریقہ علاج استعمال کیا گیا جس کے اچھے نتائج سامنے آئے لہٰذا ان حوالہ جات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وبائی امراض کے حوالے سے ہومیوپیتھی کی تاریخ اچھی ہے۔
پاکستان میں اس وقت ڈیڑھ لاکھ رجسٹرڈ ہومیوپیتھس ہیں لہٰذا انہیں سرکاری سطح پر کورونا وائرس کے علاج کیلئے آن بورڈ لیا جائے اور خدانخواستہ اگر صورتحال خطرناک ہوتی ہے تو بڑی تعداد میں موجود ہومیوپیتھس اچھی سروسز دے سکتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت اور FDA سے منظور شدہ ہومیوپیتھک ادویات سینی ٹائزیشن، قوت مدافعت کی بہتری اور کورونا وائرس کی سنگین حالت ARDS میں وینٹی لیٹر نہ ہونے کی صورت میں پھیپھڑوں کو آکسیجن کی فراہمی کیلئے کارآمد ہیں، حکومت کو چاہیے کہ اس وائرس سے نمٹنے کیلئے ہومپوپیتھی سے بھی فائدہ اٹھائے۔اس وائرس کے حوالے سے سماجی دوری، ہاتھ نہ ملانا و دیگر احتیاطی تدابیر اختیار کرنا اہم ہیں۔
یہ وائرس ہاتھ ملانے سے یا کسی ایسی جگہ پر ہاتھ لگانے جہاں وائرس موجود ہو، جسم کو لگ جاتا ہے اور اگر یہ ہاتھ منہ یا آنکھ ودیگر حصے پر لگالیں تو یہ وائرس جسم میں چلا جاتا ہے۔ ہاتھوں کی صفائی کیلئے سینی ٹائزر استعمال کیا جا رہا ہے جس کی ملک میں کمی ہوگئی ہے اورقیمت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ہومیوپیتھک دوا کی تیاری میں ایک پودہ "Calendula" استعمال کیا جاتا ہے جسے عالمی ادارہ صحت بھی تجویز کرتا ہے۔
اس کے mother tincture میں 65 فیصد الکوحل ہوتی ہے۔ FDA کے مطابق کسی بھی سینی ٹائزر میں 60 سے 80 فیصد الکوحل ہو، وہ بہترین ہے۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اس میں اینٹی بیکٹیریل اور اینٹی وائرل اجزا موجود ہیں جو ریسرچ سے ثابت ہیں لہٰذا ہومیوپیتھک دوا Calendula Officinalis کو بطور سینی ٹائزر استعمال کیا جاسکتا ہے، اس کے 10 سے 15 قطرے ہاتھ پر مل لیں۔ قوت مدافعت کی بہتری کیلئے Moringa Officinalis بہترین دوا ہے۔ اس کے 20 سے 25 قطرے صبح، دوپہر، شام لیے جائیں تو یہ بہترین ہے۔ Moringa کو عام زبان میں سوہانجنا کہتے ہیں جو ہمارے ہاں کافی مقدار میں پایا جاتا ہے۔ اس پودے کی دنیا 10 بلین ڈالر کی تجارت ہورہی ہے، ہم ابھی تک اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکے اور نہ ہی اس کی افادیت جانتے ہیں۔ یہ قوت مدافعت کو مضبوط بنانے کیلئے بہترین ہے۔
کلونجی کا بہت زیادہ ذکر آرہا ہے تو اس حوالے سے ہومیوپیتھی میں Nigella Sativaموجود ہے جو کہ واقعی قوت مدافعت کو بڑھانے کیلئے کارگرہے۔ہومیوپیتھی میں ایک اور چیز Echinacea angustifolia ہے۔ یہ یورپی جڑی بوٹی ہے اور یورپ میں انفلوایزا سے بچنے کیلئے سردیوں میں کاکٹیل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ قوت مدافعت کو بڑھانے اور وائرس کے خاتمے میں موثر ہے۔ کورونا وائرس میں بڑی علامات بخار، خشک کھانسی، جسم میں درد اور آگے چل کر ARDS اور پھر مختلف اعضاء کا ناکارہ ہونا شامل ہیں۔ ان تمام علامات میں ہومیوپیتھک کی مستند ادویات موجود ہیں جو مریضوں کو استعمال کروائی جاسکتی ہیں۔ ہمارا طریقہ علاج اور ادویات دس گنا سستی ہیں، ہمیں کورونا وائرس سے نمٹنے کیلئے کوئی فنڈز درکار نہیں، ہماری سوسائٹی کے 5 ہزار ڈاکٹرز رضاکارانہ طور پر کام کرنے کیلئے خود کو پیش کرتے ہیں۔
حکیم راحت نسیم سوہدروی
(سینئر نائب صدر پاکستان ایسوسی ایشن فار ایسٹرن میڈیسن و ممبر نیشنل کونسل فار طب، حکومت پاکستان )
وبائی امراض کرہ ارض پر نئی چیز نہیں ہیں۔ صدیوں سے کئی ملک وبائی امراض کی وجہ سے تباہ کاریوں کا شکار ہوچکے ہیں۔ کورونا وائرس بھی وبائی مرض ہے۔ صدیوں سے یہ مرض چلا آرہا ہے۔ طب کی کتابوں میں وبائی امراض کے ضمن میں اس کا ذکر موجود ہے۔ اس کی علامات اور علاج کا بھی ذکر موجود ہے مگر سائنسی تحقیقات کے نتیجے میں دسمبر 2019ء میں چین کے علاقے ووہان میں اس مرض کے پھیلنے پر اس وائرس کی شناخت ہوئی۔جس کے بعد یہ مرض وہاں پھیلا اور اب عالمی سطح پر پھیل چکا ہے اور ابھی مزید پھیل رہا ہے۔عالمی ادارہ صحت نے اسے وبائی مرض تسلیم کیا ہے اور مقامی سطح پر اس کی منتقلی ریکارڈ کی گئی ہے۔
طب یونانی/ مشرقی جوکہ ہمارا روایتی طریقہ علاج ہے، حکومت اسے تسلیم کرتی ہے اور یہ سرکاری طور پر منظور شدہ ہے۔ عالمی ادارہ صحت بھی اس کو تسلیم کرتا ہے اور یہ ہمارے خطے کا مقبول و مروج طریقہ علاج بھی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ایشیائی ممالک اس وقت تک امراض پر قابو نہیں پا سکتے جب تک وہ اپنے روایتی طریقہ علاج کو استعمال نہیں کریں گے۔ طبی کالجز کے نصاب تعلیم میں متعدی (وبائی امراض)ایک مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے۔ اس میں وبائی نزلہ زکام بطور مرض موجود ہے۔ البتہ وائرس کی شناخت کورونا کے نام سے اب ہوئی ہے ۔ فضا کا متعفن ہونا اس کا باعث ہوتا ہے۔ جب مختلف علاقوں کی زمین گلی سڑی اشیاء سے فاسد بخارات ہوا میں شامل ہوجاتے ہیں تو اس سے ایسے امراض پیدا ہوتے ہیں۔ ہر علاقے میں اس کی علامات مختلف ہوسکتی ہیں۔ جیسا کہ کورونا وائرس میں دیکھا جاسکتا ہے۔ جن کی قوت مدافعت کمزور ہوتی ہے، وہ جلد متاثر ہوتے ہیں اور ہر عمر کا فرد اس کا شکار ہوسکتا ہے۔
مرض کا حملہ اس قدر خطرناک نہیں ہے جس قدر اس کا خوف بنا دیا گیا ہے۔ نفسیاتی لحاظ سے مرض کا خوف اچھے بھلے انسان کو بھی بیمار بنا دیتا ہے۔ اس کی علامات میں نزلہ زکام، کھانسی، بخار، چھنکیں، تھکن،اسہال، گلے کا درد اور پیٹ درد ہوسکتا ہیں۔ تکلیف بڑھنے پر سانس میں مشکل پیش ہوتی ہے۔ کورونا وائرس ایک سے دوسرے کو منتقل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے، ہوا سے منتقل نہیں ہوتا اور اس کی علامات پانچ سے 14 دن میں ظاہر ہوتی ہیں۔امراض دو طرح کے ہوتے ہیں، وبائی اور غیر وبائی۔ امراض کا شکار افراد کے لحاظ سے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو سالانہ، ہیپاٹائٹس سے ڈیڑھ کروڑ جبکہ ذیابیطس سے ایک کروڑ پاکستانی شکار ہوتے ہیں جبکہ امراض قلب سے روزانہ مرنے والوں کی تعداد تقریباََ 300 ہے۔ دنیا بھر میں فلو سے سالانہ پونے چار لاکھ افراد ہلاک ہوتے ہیں۔ کورونا سے پاکستان میں 2500 سے زائد مریض ہیں جبکہ 40 اموات ہوئی ہیں اور 125 سے زائد صحت یاب ہوئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ہم خوف کی فضا کیوں پیدا کر کے افراد ملت کی قوت مدافعت کمزور کر رہے ہیں۔ یہ مرض کمزور قوت مدافعت پر حملہ آور ہوتا ہے۔ وبائی امراض فطرت کا نظام ہیں۔ فطرت خود ہی ان کا مداوا کرتی ہے۔ جیسے اب بارش ہوئی ہے اور ایک دو بارشیں اور ہوئیں تو متعفن فضا صاف ہوجائے گی۔ موسم بدل رہالہٰذا امید ہے کہ اپریل میں ا س وباء کے اثرات فطرتی نظام کے تحت کم ہو جانا شروع ہوجائیں گے۔ نوجوانوں اور بوڑھوں کے امراض میں فرق ہوتا ہے۔
ہماری 22 کروڑ آبادی میں سے 50 فیصد نوجوان ہیں جن کی عمر 25 سال تک ہے۔ ان کی قوت مدافعت مضبوط ہے۔ طب یونانی میں صدیوں سے نباتات سے اس مرض کا شافی علاج ہو رہا ہے۔ استاد محترم شہید حکیم محمد سعید اپنے مریضوں کوبہدانہ،عناب، سپستاں اور خاکسی کا جوشاندہ دیتے تھے جس کے بڑے اچھے نتائج سامنے آتے ہیں جو آج میرے مطب میں معمول مطب ہے۔ حکیم محمد اجمل خان نے بھی 1922ء میں وبائی نزلہ زکام میں بہدانہ، عناب، سپستاں کا استعمال کرایا جس کے مثبت نتائج نوٹ کیے گئے اور آج بھی اطباء اس کا استعمال کراتے ہیں جبکہ بناتات سے تیار جوشاندہ بھی بہت موثر ہے۔
طب کا فلسفہ علاج یہ ہے کہ ہر مریض کو اس کی مرض اور مزاج کے مطابق نسخہ دیا جاتا ہے۔ طب یونانی کی رو سے اس مرض سے محفوظ رہنے کیلئے تدابیر کے طور پر باہر کے کھانے سے پرہیز کریں۔ گھر کے تمام افراد غیر ضروری مجالس اور سفر سے احتیاط کریں۔ باہر سے آنے پر اچھی طرح صابن سے ہاتھ اور منہ دھوئیں۔ زیادہ مناسب ہے کہ وضو کرلیں۔
صبح شام غرارے کرنے کی عادت بنالیں۔ شہد اور کلونجی کو روزمرہ غذائی استعمال میں لائیں۔ اگر کسی کو مرض کی تشخیص ہوجائے تو اسے صاف ہوادار کمرے میں رکھیں۔ سانس کی شکایت کی صورت میں آکسیجن فراہم کریں۔ مریض کو بات چیت کرنے اور تھکنے سے بچائیں اور مستند معالج، حکیم یا ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ چین نے وائرس جس طرح کنٹرول کیا، اس حوالے سے ایک مکمل پیپر جاری کیا ہے،اس نے اپنے روایتی طریقہ علاج سے بھرپور فائدہ اٹھایا، ہمیں بھی اس سے استفادہ کرنا چاہیے۔ نباتات سے شفا کو پیش نظر رکھا جائے تو یقینی ہے کہ اس کا علاج نباتات سے ہی ملے گا۔ اطباء اپنی خدمات رضاکارانہ طور پر پیش کرتے ہیں۔
متبادل طریقہ علاج کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے ''ایکسپریس فورم'' میں ''کورونا وائرس کے علاج'' کے حوالے سے ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیاجس میں طبی ماہرین اور وائرولوجسٹ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
ڈاکٹر نوید شہزاد
(اسسٹنٹ پروفیسر سکول آف بائیولوجیکل سائنسز پنجاب یونیورسٹی)
وائرس جرثومہ کی ایک قسم ہے اور اس کا سائز بیکٹیریا سے بھی چھوٹا ہوتا ہے۔ وائرس کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ بیسویں صدی میں پہلا وائرس دریافت ہوا تھا ۔ اس کے بعد بہت سارے ایسے وائرس دریافت ہوئے جو انسانوں پر اثر انداز ہوتے رہے۔ کورونا وائرس کی بات کریں تو یہ بائیولوجسٹ کیلئے یہ نیا وائرس نہیں ہے۔ کورونا وائرس کی ایک پوری فیملی ہے جو سنگل سٹینڈرڈ RNA پر مشتمل ہے۔ اس سے پہلے بھی 5 اقسام کے کورونا وائرس دریافت ہوچکے ہیںجن میں سے ''سارس'' اور ''مرس'' نمایاں ہیں۔ اگر کوئی وباء یکدم پھیل جائے تو اسے سائنس میں ''آؤٹ بریک'' کہتے ہیں۔
ماضی میں بھی کورونا وائرس کی آؤٹ بریک ہوئی،ایک 2003ء میں چین میں ''سارس'' کی وجہ سے اوردوسری 2012ء میں ''مرس'' کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں پھیلی تھی۔اب جائزہ لیتے ہیں کہ موجودہ کورونا وائرس وہی ہے یا ان سے مختلف ہے۔ چین میں جب حالیہ کورونا وائرس کا پہلا کیس رپورٹ ہوا تو اس وقت اسے ''نوول کورونا وائرس 2019 '' کا نام دیا گیا۔ پھر اس پر مزید ریسرچ ہوئی اور عالمی ادارہ صحت کی ذیلی کمیٹی جو وائرس کو نام دیتی ہے اس نے اسے ''سارس کورونا وائرس 2'' کا نام دیا۔ ریسرچ سے معلوم ہوا کہ یہ ہے تو کورونا وائرس مگر یہ اس وائرس کی سابقہ اقسام سے بہت حد تک مختلف ہے۔
اس کا جینوم مختلف ہے۔ا س کے بعد یہ تحقیق شروع ہوگئی کہ یہ وائرس آیا کہاں سے۔ یہ چین کے شہر ووہان سے سامنے آیا۔ جن لوگوں میں پہلے اس وائرس کی تشخیص ہوئی، یہ وہ لوگ تھے جن کا رابطہ سمندری غذا والی مارکیٹ سے تھا۔ بعدازاں یہ معلوم ہوا کہ یہ وائرس نہ صرف جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہورہا ہے بلکہ انسانوں سے انسانوں میں بھی منتقل ہورہا ہے جوکہ خطرناک ہے۔ جب اس وائرس کا سیکوئنس دریافت کیا گیا تو معلوم ہوا کہ اس وائرس کا سیکوئنس سابقہ وائرس سے ملتا جلتا ہے مگر چمگادڑ میں موجود وائرس سے 80 فیصد ملتا ہے۔
چونکہ 80 فیصد ملتا تھا اس لیے سائنسدانوں نے مزید تحقیق کی کہ ایسا ممکن ہے کہ یہ وائرس پہلے کسی اور میں ہو، جو چمگادڑ میں منتقل ہوا اور پھر انسانوں میں آیا۔ مزید تحقیق پر معلوم ہوا کہ پینگولین اور انسانوں میں موجود وائرس میں99 فیصد مماثلت پائی جاتی ہے۔ پھر مفروضہ بنایا گیا کہ یہ وائرس پہلے چمگادڑ میں تھا، وہاں سے پینگولین میں منتقل ہوا اور پھر انسانوںمیں آیا۔ اس کے بعد اس پر تحقیق شروع ہوگئی کہ یہ وائرس چین سے دنیا میں کیسے پھیلا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ جب چین میں پہلا کیس سامنے آیا تو اس وقت ان کا ''نیا سال'' تھا جس پر بے شمار ممالک سے لوگ چین آئے اور پھر اپنے ملک واپس چلے گئے۔
یہ کہا جا رہا ہے کہ ہمارے ملک میں ایران سے یہ وائرس آیا۔ اب معاملہ یہ نہیں ہے کہ یہ وائرس کہاں سے آیا بلکہ لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اب ہوگا کیا۔ہمارا معاشرہ اس حوالے سے دو طبقات میں تقسیم ہے۔ ایک طبقہ کہتا ہے کہ کوئی مسئلہ نہیں، یہ بیماری عام ہے اور پہلے بھی ہوتی رہی ہے۔ دوسرا طبقہ کہتا ہے کہ یہ بہت خطرناک بیماری ہے اور اس سے تمام انسان مر جائیں گے لہٰذا گھروں میں بیٹھیں۔ کورونا وائرس کو سمجھنے کیلئے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس سے پہلے آنے والے کورونا وائرس کس طرح سے اثر انداز ہوئے کیونکہ 3ماہ کی عمر کے اس وائرس کے طرز عمل کا اندازہ لگانا فوری ممکن نہیں،اس کی مکمل تحقیق میں وقت لگے گا اور دنیا میں اس حوالے سے ریسرچ جاری ہے۔ وباء دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایسی وباء جو ایک ملک میں پھیلے اسے epidemic کہتے ہیں اور جو پوری دنیا میں پھیل جائے اسے pendemic کہتے ہیں۔ یہ واضح ہونا چاہیے کہ pendemic وبائیں، وبائی امراض سے مختلف ہوتی ہیں۔
جیسا کہ ''فلو'' میں موسم کا عمل دخل ہوتا ہے مگر pendemic میں نہیں ہوتا۔ بعض لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ گرمیوں میں کورونا وائرس مر جائے گا اور مسئلہ حل ہوجائے گا۔ ابھی تک ایسی کوئی سائنسی تحقیق نہیں آئی کہ کورونا وائرس گرمیوں میں مر جائے گا۔اس میں ایک اچھی بات یہ ہے کہ اگر اس وائرس کی ساخت دیکھی جائے تو اس پر تیل کا ایک غلاف ہے۔ تیل کی خاصیت یہ ہے کہ وہ گرمی میں پگھلنے لگتا ہے اور سردی میںسرد کی مانند سخت ہوجاتا ہے لہٰذا جب گرمی میں ربڑ کی وجہ سے یہ غلاف نرم ہوجاتا ہے تو وائرس کی زندگی کم ہوجاتی ہے۔ اس کے باجود ابھی اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ یہ گرمیوں میں ختم ہوجائے گا۔ عالمی جنگ اول کے دوران ''ہسپانوی فلو'' آیا، اس وقت گرمی تھی مگر یہ فلو پھیل۔ اس لیے 100فیصد یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ گرمیوں میں یہ وائرس چلا جائے گا لیکن یہ بات ضروری ہے کہ یہ وائرس اتنی جلدی ختم نہیں ہوگا۔
چین میں کورونا وائرس کے جو مریض صحت یاب ہوئے، ان میں دوبارہ اس کی تشخیص ہوگئی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ گرمیوں میں اس کا پھیلاؤ کم ہوجائے لیکن جب سرد موسم دوبارہ آئے تو یہ وائرس بھی دوبارہ آجائے۔ کورونا وائرس کے منظر عام پر آنے کے بعد دنیا بھر کے سائنسدانوں نے اس پر تحقیق شروع کردی۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس طرح کے وائرس کی ریسرچ کے لیے BSL-3 سطح کی لیبارٹری ضروری ہے۔ پاکستان میں ان کی تعداد انتہائی کم ہے مگر اس کے باوجود کام ہو رہا ہے، دنیا کے دیگر ممالک میں بھی پاکستانی سائنسدان ریسرچ کر رہے ہیں جو ہمارے لیے باعث فخر ہے۔ پاکستان نے وائرس کا جینوم سیکوئنس کر لیا ہے اور یہ تحقیق pubmed ویب سائٹ پر موجود ہے جو پاکستان کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ کورونا وائرس کی جلد تشخیص کیلئے تیزی سے کام ہورہا ہے، پنجاب یونیورسٹی بھی اس پر کام کر رہی ہے، حال ہی میں وائس چانسلر نے کورونا وائرس کی تشخیصی لیب کا افتتاح بھی کیا ہے، ہم اس کی تشخیص کو مزید آسان بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس مرض کی دنیا بھر میں کوئی دوا یا ویکسین نہیں ہے۔ نئی دوا یا ویکسین کیلئے کم از کم 10 سے 15 برس لگتے ہیں لیکن اگر ہنگامی حالات میں سارے پروسیجرز کو جلدی فالو کیا جائے تو پھر بھی 2 برس درکار ہوں گے لہٰذا دنیا میں پہلے سے موجود ادویات کو ہی اس وائرس کے حوالے سے ٹیسٹ کیا جارہا ہے، 4 ادویات ایسی ہیں جن کے نتائج اچھے آئے ہیں مگر FDA نے ابھی ان کی منظوری نہیں دی، پاکستان میں بھی مختلف ادویات پر ریسرچ جاری ہے۔ اس مرض کے حل کا جائزہ لیں تو پہلا حل یہ ہے کہ اس کی ویکسین تیار ہوجائے، جس میں وقت لگے گا۔ دوسرا حل قوت مدافعت کو بہتر کرنا ہے۔
فرض کریں کہ اگر دنیا میں100 لوگ ہیںتو ہم ان میں سے 70، 80 افراد کی قوت مدافعت بہتر کردیں۔ ا س کے دو طریقے ہیں، ایک یہ کہ کوئی ویکسین دے دیں یا دوسرا یہ کہ جب وائرس انسان پر حملہ آور ہوتا ہے تو اس سے لڑنے کیلئے جسم میں اینٹی باڈیز بنتی ہیں۔ کورونا وائرس کے کیس میں ابھی یہ بھی معلوم نہیں ہوا کہ اس میں کونسی اینٹی باڈیز بنتی ہیں، کتنی بنتی ہیں اور دیر تک موثر رہتی ہیں، جسے ایک بار انفیکشن ہوجائے کیا دوبارہ بھی ہوسکتا ہے؟ اس حوالے سے بھی بے شمار سوالات حل طلب ہیں۔ ایک حل تو یہ ہے کہ اس کی جلد از جلد ویکسین تیار ہوجائے اور دوسرا یہ کہ قدرتی طور پر قوت مدافعت پیدا ہوجائے۔
دنیا نے اس مرض سے نمٹنے کیلئے مختلف حکمت عملی اختیار کی۔ ایک ماڈل چین کا ہے اور ایک اٹلی کا۔ چین نے اس مرض کے سامنے آتے ہیں ہنگامی اقدامات کیے، لاک ڈاؤن کیا اور سماجی دوری اختیار کی۔ اٹلی میں لوگ ہماری طرح سوشل ہیں۔ انہوں نے اس مرض کو معمولی لیا اور پھر وہاں کے حالات دنیا کے سامنے ہیں۔ برطانیہ نے سائنسی طریقہ کار ''ہرڈ امیونیٹی'' پر کام کیا۔ اس کا خیال تھا کہ لوگوں کو مرض ہونے دیں اور پھر خود ہی ان میں قوت مدافعت پیدا ہوجائے گی مگر یہ طریقہ غلط ثابت ہوا اور پھر انہیں بھی لاک ڈاؤن و دیگر معاملات کی طرف ہی آنا پڑا لہٰذا ہمیں بھی اچھے اور کامیاب ماڈل کو ہی اپنانا چاہیے تاکہ اس وائرس سے موثر طریقے سے نمٹا جاسکے۔ اس مرض کا تیسرا حل احتیاط ہے جو سب سے اہم ہے کہ اس مرض کے پھیلاؤ کو روکا جائے۔ یہ عام وائرس نہیں ہے ، دنیا نے پہلی مرتبہ ایسا وائرس دیکھا ہے لہٰذا عالمی ادارہ صحت اور حکومت کی جانب سے کی جانے والی ہدایات پر عمل کیا جائے،افواہوں کے بجائے سائنس اور تاریخ سے مدد لی جائے۔ سماجی دوری، سینی ٹائزیشن، ماسک و دیگر احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں۔
ڈاکٹر محمد زبیر قریشی
(سینئر رکن سوسائٹی آف ہومیو پیتھس پاکستان )
ہومیوپیتھی 200 سال سے مستند طریقہ علاج ہے۔ ہومیوپیتھی کے بانی سیموئل ہانیمن نے 1799ء میں جرمنی میں پھیلنے والے ''سکارلٹ فیور'' کے دوران ہومیوپیتھک علاج کیا۔انہوں نے مریضوں کی مشترک علامات کا جائزہ لیا اور اسے genus epidemicus کا نام دیا۔ اس کے بعد انہوں نے bryonia alba کے نام سے ہومپوتھیک دوا تجویز کی۔ انہوں نے رضاکارانہ طور پر خود جاکر مریضوں کا علاج کیا اور اس کے اچھے نتائج سامنے آئے۔ اس کے بعد 1920ء میں ''ہسپانوی فلو'' کے دوران بھی ہومیوپیتھک طریقہ علاج استعمال کیا گیا جس کے اچھے نتائج سامنے آئے لہٰذا ان حوالہ جات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وبائی امراض کے حوالے سے ہومیوپیتھی کی تاریخ اچھی ہے۔
پاکستان میں اس وقت ڈیڑھ لاکھ رجسٹرڈ ہومیوپیتھس ہیں لہٰذا انہیں سرکاری سطح پر کورونا وائرس کے علاج کیلئے آن بورڈ لیا جائے اور خدانخواستہ اگر صورتحال خطرناک ہوتی ہے تو بڑی تعداد میں موجود ہومیوپیتھس اچھی سروسز دے سکتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت اور FDA سے منظور شدہ ہومیوپیتھک ادویات سینی ٹائزیشن، قوت مدافعت کی بہتری اور کورونا وائرس کی سنگین حالت ARDS میں وینٹی لیٹر نہ ہونے کی صورت میں پھیپھڑوں کو آکسیجن کی فراہمی کیلئے کارآمد ہیں، حکومت کو چاہیے کہ اس وائرس سے نمٹنے کیلئے ہومپوپیتھی سے بھی فائدہ اٹھائے۔اس وائرس کے حوالے سے سماجی دوری، ہاتھ نہ ملانا و دیگر احتیاطی تدابیر اختیار کرنا اہم ہیں۔
یہ وائرس ہاتھ ملانے سے یا کسی ایسی جگہ پر ہاتھ لگانے جہاں وائرس موجود ہو، جسم کو لگ جاتا ہے اور اگر یہ ہاتھ منہ یا آنکھ ودیگر حصے پر لگالیں تو یہ وائرس جسم میں چلا جاتا ہے۔ ہاتھوں کی صفائی کیلئے سینی ٹائزر استعمال کیا جا رہا ہے جس کی ملک میں کمی ہوگئی ہے اورقیمت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ہومیوپیتھک دوا کی تیاری میں ایک پودہ "Calendula" استعمال کیا جاتا ہے جسے عالمی ادارہ صحت بھی تجویز کرتا ہے۔
اس کے mother tincture میں 65 فیصد الکوحل ہوتی ہے۔ FDA کے مطابق کسی بھی سینی ٹائزر میں 60 سے 80 فیصد الکوحل ہو، وہ بہترین ہے۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اس میں اینٹی بیکٹیریل اور اینٹی وائرل اجزا موجود ہیں جو ریسرچ سے ثابت ہیں لہٰذا ہومیوپیتھک دوا Calendula Officinalis کو بطور سینی ٹائزر استعمال کیا جاسکتا ہے، اس کے 10 سے 15 قطرے ہاتھ پر مل لیں۔ قوت مدافعت کی بہتری کیلئے Moringa Officinalis بہترین دوا ہے۔ اس کے 20 سے 25 قطرے صبح، دوپہر، شام لیے جائیں تو یہ بہترین ہے۔ Moringa کو عام زبان میں سوہانجنا کہتے ہیں جو ہمارے ہاں کافی مقدار میں پایا جاتا ہے۔ اس پودے کی دنیا 10 بلین ڈالر کی تجارت ہورہی ہے، ہم ابھی تک اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکے اور نہ ہی اس کی افادیت جانتے ہیں۔ یہ قوت مدافعت کو مضبوط بنانے کیلئے بہترین ہے۔
کلونجی کا بہت زیادہ ذکر آرہا ہے تو اس حوالے سے ہومیوپیتھی میں Nigella Sativaموجود ہے جو کہ واقعی قوت مدافعت کو بڑھانے کیلئے کارگرہے۔ہومیوپیتھی میں ایک اور چیز Echinacea angustifolia ہے۔ یہ یورپی جڑی بوٹی ہے اور یورپ میں انفلوایزا سے بچنے کیلئے سردیوں میں کاکٹیل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ قوت مدافعت کو بڑھانے اور وائرس کے خاتمے میں موثر ہے۔ کورونا وائرس میں بڑی علامات بخار، خشک کھانسی، جسم میں درد اور آگے چل کر ARDS اور پھر مختلف اعضاء کا ناکارہ ہونا شامل ہیں۔ ان تمام علامات میں ہومیوپیتھک کی مستند ادویات موجود ہیں جو مریضوں کو استعمال کروائی جاسکتی ہیں۔ ہمارا طریقہ علاج اور ادویات دس گنا سستی ہیں، ہمیں کورونا وائرس سے نمٹنے کیلئے کوئی فنڈز درکار نہیں، ہماری سوسائٹی کے 5 ہزار ڈاکٹرز رضاکارانہ طور پر کام کرنے کیلئے خود کو پیش کرتے ہیں۔
حکیم راحت نسیم سوہدروی
(سینئر نائب صدر پاکستان ایسوسی ایشن فار ایسٹرن میڈیسن و ممبر نیشنل کونسل فار طب، حکومت پاکستان )
وبائی امراض کرہ ارض پر نئی چیز نہیں ہیں۔ صدیوں سے کئی ملک وبائی امراض کی وجہ سے تباہ کاریوں کا شکار ہوچکے ہیں۔ کورونا وائرس بھی وبائی مرض ہے۔ صدیوں سے یہ مرض چلا آرہا ہے۔ طب کی کتابوں میں وبائی امراض کے ضمن میں اس کا ذکر موجود ہے۔ اس کی علامات اور علاج کا بھی ذکر موجود ہے مگر سائنسی تحقیقات کے نتیجے میں دسمبر 2019ء میں چین کے علاقے ووہان میں اس مرض کے پھیلنے پر اس وائرس کی شناخت ہوئی۔جس کے بعد یہ مرض وہاں پھیلا اور اب عالمی سطح پر پھیل چکا ہے اور ابھی مزید پھیل رہا ہے۔عالمی ادارہ صحت نے اسے وبائی مرض تسلیم کیا ہے اور مقامی سطح پر اس کی منتقلی ریکارڈ کی گئی ہے۔
طب یونانی/ مشرقی جوکہ ہمارا روایتی طریقہ علاج ہے، حکومت اسے تسلیم کرتی ہے اور یہ سرکاری طور پر منظور شدہ ہے۔ عالمی ادارہ صحت بھی اس کو تسلیم کرتا ہے اور یہ ہمارے خطے کا مقبول و مروج طریقہ علاج بھی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ایشیائی ممالک اس وقت تک امراض پر قابو نہیں پا سکتے جب تک وہ اپنے روایتی طریقہ علاج کو استعمال نہیں کریں گے۔ طبی کالجز کے نصاب تعلیم میں متعدی (وبائی امراض)ایک مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے۔ اس میں وبائی نزلہ زکام بطور مرض موجود ہے۔ البتہ وائرس کی شناخت کورونا کے نام سے اب ہوئی ہے ۔ فضا کا متعفن ہونا اس کا باعث ہوتا ہے۔ جب مختلف علاقوں کی زمین گلی سڑی اشیاء سے فاسد بخارات ہوا میں شامل ہوجاتے ہیں تو اس سے ایسے امراض پیدا ہوتے ہیں۔ ہر علاقے میں اس کی علامات مختلف ہوسکتی ہیں۔ جیسا کہ کورونا وائرس میں دیکھا جاسکتا ہے۔ جن کی قوت مدافعت کمزور ہوتی ہے، وہ جلد متاثر ہوتے ہیں اور ہر عمر کا فرد اس کا شکار ہوسکتا ہے۔
مرض کا حملہ اس قدر خطرناک نہیں ہے جس قدر اس کا خوف بنا دیا گیا ہے۔ نفسیاتی لحاظ سے مرض کا خوف اچھے بھلے انسان کو بھی بیمار بنا دیتا ہے۔ اس کی علامات میں نزلہ زکام، کھانسی، بخار، چھنکیں، تھکن،اسہال، گلے کا درد اور پیٹ درد ہوسکتا ہیں۔ تکلیف بڑھنے پر سانس میں مشکل پیش ہوتی ہے۔ کورونا وائرس ایک سے دوسرے کو منتقل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے، ہوا سے منتقل نہیں ہوتا اور اس کی علامات پانچ سے 14 دن میں ظاہر ہوتی ہیں۔امراض دو طرح کے ہوتے ہیں، وبائی اور غیر وبائی۔ امراض کا شکار افراد کے لحاظ سے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو سالانہ، ہیپاٹائٹس سے ڈیڑھ کروڑ جبکہ ذیابیطس سے ایک کروڑ پاکستانی شکار ہوتے ہیں جبکہ امراض قلب سے روزانہ مرنے والوں کی تعداد تقریباََ 300 ہے۔ دنیا بھر میں فلو سے سالانہ پونے چار لاکھ افراد ہلاک ہوتے ہیں۔ کورونا سے پاکستان میں 2500 سے زائد مریض ہیں جبکہ 40 اموات ہوئی ہیں اور 125 سے زائد صحت یاب ہوئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ہم خوف کی فضا کیوں پیدا کر کے افراد ملت کی قوت مدافعت کمزور کر رہے ہیں۔ یہ مرض کمزور قوت مدافعت پر حملہ آور ہوتا ہے۔ وبائی امراض فطرت کا نظام ہیں۔ فطرت خود ہی ان کا مداوا کرتی ہے۔ جیسے اب بارش ہوئی ہے اور ایک دو بارشیں اور ہوئیں تو متعفن فضا صاف ہوجائے گی۔ موسم بدل رہالہٰذا امید ہے کہ اپریل میں ا س وباء کے اثرات فطرتی نظام کے تحت کم ہو جانا شروع ہوجائیں گے۔ نوجوانوں اور بوڑھوں کے امراض میں فرق ہوتا ہے۔
ہماری 22 کروڑ آبادی میں سے 50 فیصد نوجوان ہیں جن کی عمر 25 سال تک ہے۔ ان کی قوت مدافعت مضبوط ہے۔ طب یونانی میں صدیوں سے نباتات سے اس مرض کا شافی علاج ہو رہا ہے۔ استاد محترم شہید حکیم محمد سعید اپنے مریضوں کوبہدانہ،عناب، سپستاں اور خاکسی کا جوشاندہ دیتے تھے جس کے بڑے اچھے نتائج سامنے آتے ہیں جو آج میرے مطب میں معمول مطب ہے۔ حکیم محمد اجمل خان نے بھی 1922ء میں وبائی نزلہ زکام میں بہدانہ، عناب، سپستاں کا استعمال کرایا جس کے مثبت نتائج نوٹ کیے گئے اور آج بھی اطباء اس کا استعمال کراتے ہیں جبکہ بناتات سے تیار جوشاندہ بھی بہت موثر ہے۔
طب کا فلسفہ علاج یہ ہے کہ ہر مریض کو اس کی مرض اور مزاج کے مطابق نسخہ دیا جاتا ہے۔ طب یونانی کی رو سے اس مرض سے محفوظ رہنے کیلئے تدابیر کے طور پر باہر کے کھانے سے پرہیز کریں۔ گھر کے تمام افراد غیر ضروری مجالس اور سفر سے احتیاط کریں۔ باہر سے آنے پر اچھی طرح صابن سے ہاتھ اور منہ دھوئیں۔ زیادہ مناسب ہے کہ وضو کرلیں۔
صبح شام غرارے کرنے کی عادت بنالیں۔ شہد اور کلونجی کو روزمرہ غذائی استعمال میں لائیں۔ اگر کسی کو مرض کی تشخیص ہوجائے تو اسے صاف ہوادار کمرے میں رکھیں۔ سانس کی شکایت کی صورت میں آکسیجن فراہم کریں۔ مریض کو بات چیت کرنے اور تھکنے سے بچائیں اور مستند معالج، حکیم یا ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ چین نے وائرس جس طرح کنٹرول کیا، اس حوالے سے ایک مکمل پیپر جاری کیا ہے،اس نے اپنے روایتی طریقہ علاج سے بھرپور فائدہ اٹھایا، ہمیں بھی اس سے استفادہ کرنا چاہیے۔ نباتات سے شفا کو پیش نظر رکھا جائے تو یقینی ہے کہ اس کا علاج نباتات سے ہی ملے گا۔ اطباء اپنی خدمات رضاکارانہ طور پر پیش کرتے ہیں۔