4اپریل کا پیغام انقلاب یا موت

اب ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم پیپلزپارٹی کو مورد الزام ٹھہرائیں کہ انھوں نے اپنے لیڈر کے لیے کچھ نہ کیا۔

ali.dhillon@ymail.com

4اپریل کو سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی برسی خاموشی سے گزرگئی، کورونا وباء کے باعث کوئی تقریب تو نہ ہوسکی مگر کسی ''نظریاتی'' جیالے کی جانب سے کوئی خاص بیان بھی نہیں داغا گیا، شاید اس لیے بھی ایسا نہیں کیا گیا کہ پیپلزپارٹی پہلے ہی خاصے مشکل حالات سے گزر رہی ہے اوپر سے بھٹو صاحب کی ہمدردی میں بیان دے دیا جاتا تو ''غداری'' کا لقب بھی مل جانا تھا، اس لیے ہر دفعہ کی طرح اس بار بھی احتیاط سے ہی کام لیا گیا، اور ویسے بھی بیان زیادہ سے زیادہ کیا آجانا تھا کہ بھٹو صاحب ایک بہترین لیڈر تھے جنھیں چند قوتوں نے مل کر قتل کیا یا بھٹو کیس کا ''ری ٹرائل'' کرایا جائے۔

اب ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم پیپلزپارٹی کو مورد الزام ٹھہرائیں کہ انھوں نے اپنے لیڈر کے لیے کچھ نہ کیا۔ محترمہ کے 2ادوار کو تو ایک طرف رکھیں، ظاہر ہے اُن کے والد کو جس طرح سے پھانسی پر لٹکایا گیا تمام حالات و واقعات اور زیادتیاں اُن کے سامنے تھیں اس لیے انھوں نے اپنے تئیں ضرور کوشش کی ہوگی کہ ذمے داران کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے لیکن قسمت نے شاید موقع ہی نہ دیا۔ ہاں عوامی دبائو پر اُس وقت کے صدر زرداری اور وزیراعظم گیلانی نے ہاتھ پائوں ضرور مارے مگر بے سود۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ 2011 میں کراچی میں پاکستان پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں ذوالفقار علی بھٹو کیس ری اوپن کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔

کابینہ نے2011ء میں بھٹو کی برسی سے پہلے 28مارچ2011 کو ریفرنس کی منظوری دی جس کے بعد 2اپریل 2011کو ریفرنس رجسٹرار سپریم کورٹ کے حوالے کیا۔ عدالت ِ عظمیٰ نے لارجر بینچ تشکیل دینے کا اعلان کرتے ہوئے 2مئی 2011 سے روزانہ سماعت کرنے کاحکم جاری کردیا۔ مئی 2012 کے بعد آج اپریل 2020ء تک بھٹو کیس کی سماعت شروع نہیں ہوسکی۔ کسی کو بھی شاید اس کیس کے حوالے سے یاد نہیں، یا شاید پیپلزپارٹی کی اپنی کرپشن کے مقدمات سے جان نہیں چھوٹ رہی اس لیے وہ اس کیس کو مکمل نظر انداز کیے ہوئے ہیں ۔

لیکن بطور ایک سابقہ ''جیالہ'' پیپلزپارٹی سے اُمید بھی نہیں رکھ رہا کہ وہ بھٹو صاحب کو کسی بڑے پلیٹ فارم سے یہ فیصلہ دلوانے میں کامیاب ہوگی کہ بھٹو بے قصور تھے۔ مجھ جیسے ہزاروں لوگ اس لیے بھی ایسا سوچتے ہیں کہ جو حکومت برسر اقتدار رہتے ہوئے بھٹو کا کیس ری اوپن نہیں کرا سکی اور بی بی کے قاتلوں کا سراغ نہ لگا سکی، وہ اپوزیشن میں بیٹھ کر کیا گل کھلائے گی! خیر جلے بجھے ارمانوں اور بوجھل دل کے ساتھ یہی کہہ سکتا ہوں کہ یہی حالات رہے تو شاید پیپلزپارٹی مزید سکڑ جائے مگر لوگوں کے دلوں میں بھٹو زندہ رہے گا کیوں کہ انھوں نے سمجھوتہ نہیں کیا بلکہ موت کو گلے لگا لیا۔ بھٹو کی موت کے بعد سے مسلسل یہ نعرہ گونج رہا ہے ''کل بھی بھٹو زندہ تھا آج بھی بھٹو زندہ ہے''۔


سوال یہ ہے کہ بھٹو کے سارے دشمن مرگئے بھٹو آج بھی کیوں زندہ ہے؟ بھٹو کی موت نے پاکستان کو مضبوط نہیں کمزور کیا۔ جنرل ضیاء نے کہا کہ وہ بھٹو کے بارے میں عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کرکے قانون کی بالادستی قائم کریں گے لیکن جسٹس نسیم حسن شاہ نے اپنی کتاب میں یہ اعتراف کیا کہ بھٹو کے ساتھ نا انصافی ہوئی تھی۔یعنی بھٹو کی پھانسی نے پاکستان کی روح پر ایسے زخم لگائے ہیں جو کئی دہائیاں گزر جانے کے باوجود مندمل نہیں ہوئے اور جب بھی کسی سیاستدان کے ساتھ نا انصافی ہوتی ہے تو اس کے حامی سقراط کو یاد کرتے ہیں یا بھٹو کو یاد کرتے ہیں۔ نوازشریف کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ایک زمانے میں وہ کہتے تھے کہ میں بھٹو کی بیٹی کا نام سننا پسند نہیں کرتا کیونکہ بھٹو نے پاکستان توڑا۔ جب انھیں عدالت نے نااہل قرار دیا تو ان کی جماعت مسلم لیگ (ن)نے نواز شریف کا بھٹو سے تقابل شروع کردیا۔

بہرکیف وہ جب تک زندہ رہے بڑے بڑے سیاسی رہنما 'بونے' نظر آئے، شاید اسی وجہ سے پارٹی کے اندر اور باہر اس کے خلاف سازشوں میں شریک رہے، لیکن وہ سازشوں کو بھانپ لیتے تھے۔ اس کا میں چشم دید گواہ بھی ہوں کیوں کہ اُن دنوں میں طلبہ یونینز میں خاصا سرگرم رہتا تھا اور میری بھٹو صاحب سے دو بار ملاقات بھی ہوئی تھی۔ ایک ملاقات اُس وقت ہوئی جب لاہور میں اسلامی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا جب کہ دوسری ملاقات جب انھوں نے 1977ء میں لاہور میں جلسہ کیا تھا۔ یقین مانیں اُن سے گفتگو کر کے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے وہ سیاست کے بادشا ہ ہیں۔

بھٹو کی اپنے دور اقتدار میں ملکی سیاستدانوں کے ساتھ مخالفت تو تھی ہی مگر انھوں نے ایٹمی پروگرام کا آغاز کرکے عالمی اسٹیبلشمنٹ کو بھی اپنے مخالف کر دیا تھا۔ انھوںنے اپنی مخالف سیاسی جماعتوں کو کافی حد تک رام کر لیا تھااور بڑی مشکل سے ٹیبل پر وہ بیٹھ بھی گئے تھے۔ مذاکرات کرنے والوں میں اُس وقت کے زیرک سیاستدان، مفتی محمود، پروفیسر غفور، نوابزادہ نصراللہ خان جیسے سیاستدان شامل تھے جب کہ اُن کے مقابلے میں ذوالفقار بھٹو، کوثر نیازی، حفیظ پیرزادہ تھے۔ بھٹو صاحب اُن کو ایک معاہدے پر لے آئے تھے۔

لیکن ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ ذوالفقار علی بھٹو چاہتے تو ڈیل کر سکتے تھے۔ لیکن انھوں نے بہت سوچ سمجھ کر موت کو گلے لگایا۔اگر وہ ڈیل کر لیتے تو بچ جاتے لیکن تاریخ کے ہاتھوں مارے جاتے۔ باپ اور بیٹی نے بہادری سے موت کو گلے لگا کر اپنی غلطیوں کا کفارہ ادا کیا اور ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے۔ یہ دونوں تو آج بھی زندہ ہیں، کیوںکہ غلامی کے بجائے اصولوں پر ڈٹے رہنے کا نام ہی انقلاب ہوتا ہے!
Load Next Story